جمہوریت اور سیاسی اتحاد
جمہوریت کی جو تین شرطیں بتائی گئی ہیں، ان میں پہلی شرط ’’عوام کی...
ملک میں جیسے جیسے انتخابات کا موسم قریب آرہا ہے۔ ویسے ویسے سیاسی وڈیرہ شاہی حصولِ اقتدار کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کرتی نظر آرہی ہے۔ ان ہتھکنڈوں میں ایک معروف ہتھکنڈہ سیاسی اتحاد اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا ہے۔ ان چال بازیوں کا استعمال اگرچہ سیاسی اخلاقیات کا حصّہ ہے، لیکن یہ ہتھکنڈے اتنے بھدّے انداز میں استعمال ہوتے ہیں کہ اہلِ خِرد ہی نہیں بلکہ اب ایک عام آدمی بھی ان سیاسی ریشہ دوانیوں کی پشت پر موجود عوامل کو سمجھ رہا ہے۔ اس حوالے سے بات کو آگے بڑھانے سے پہلے دو عوامل کی نشان دہی ضروری ہے۔ ایک ملک میں بڑھتی ہوئی عوامی بے چینی کو قبل از وقت انتخابات کے لیے حکومت کو مجبور کرنے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش۔
عوام مہنگائی، بے روزگاری، بجلی، گیس کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے سخت بے چینی کا شکار ہیں، ہماری اقتدار کے لیے بے چینی معزز اپوزیشن اس حقیقت سے پوری طرح واقف ہے کہ یہ مسائل اِتنے گمبھیر ہیں کہ نہ حکومت انھیں چٹکی بجاتے حل کرسکتی ہے، نہ ہی اپوزیشن کے پاس کوئی ایسا جادوئی چراغ ہے کہ وہ اسے رگڑ کر ان مسائل کو حل کرے۔ یہ مسائل ایک طویل منصوبہ بندی کے بغیر حل نہیں ہوسکتے۔ موجودہ حکومت اس حوالے سے جس غفلت یا نااہلی کا مظاہرہ کرتی رہی ہے، ایسی ہی غفلت اور نااہلی کا مظاہرہ ہماری وہ محترم اپوزیشن بھی کرتی رہی ہے جو ماضی میں ایک سے زیادہ بار اقتدار میں رہی ہے اور اب محض باری کے جلد حصول کے لیے عوام کی بے چینی کو استعمال کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ پنجاب میں عوامی بے چینی کے سیاسی استعمال کا نظارہ ہم کرتے رہے ہیں، لیکن اب یوں محسوس ہورہا ہے کہ درونِ خانہ کچھ مک مکا ہوگیا ہے کیوں کہ اب اپوزیشن کے رہنمائوں کے لہجوں میں نرمی آرہی ہے۔
اس حوالے سے دوسرا اہم حربہ جمہوریت کی پاسداری ہے۔ ملک کے ہر سیاست دان اور مذہبی رہنما کی زبان پر جمہوریت ناچتی نظر آتی ہے۔ عوام کو شدّت سے یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے کہ ہمارے ملک اور عوام کا مستقبل جمہوریت اور صرف جمہوریت سے وابستہ ہے۔ اگر خدانخواستہ جمہوریت کو نصیبِ دشمناں کچھ ہوگیا تو ملک اور عوام دونوں کا بیڑہ غرق ہوجائے گا۔ اس سُر میں آج کل عدلیہ بھی تال ملا رہی ہے اور جمہوریت کے تحفظ کو اپنی ذمے داری بتارہی ہے۔
اب ذرا جمہوریت کے معنی و مطلب پر ایک نظر ڈالتے ہیں تاکہ ہمارے 18 کروڑ بھولے بادشاہوں کی سمجھ میں یہ بات آسکے کہ جمہوریت ہوتی کیا ہے؟ سرمایہ دارانہ نظام کے فروغ کے ساتھ جن دو باتوں کا خوب پروپیگنڈا کیا گیا، ان میں ایک جمہوریت، دوسرے قانون اور انصاف کی برتری ہے۔ یہاں ہم صرف جمہوریت اور جمہوریت کے زیرِ سایہ ہونے والے سیاسی اتحادوں کا جائزہ لیں گے تاکہ عوام ان فراڈوں کو سمجھ سکیں۔ جمہوریت کی تعریف خود سرمایہ دارانہ نظام کے مفکروں نے یہ کی ہے۔ ''عوام کی حکومت، عوام کے لیے، عوام کے ذریعے'' اس جمہوری تعریف کا حوالہ بار بار اس لیے دینا پڑتا ہے کہ عوام ہماری رائج الوقت جمہوری فراڈ کو سمجھ سکیں۔ مغرب کے سیاسی علماء نے سرمایہ دارانہ جمہوریت کی جو تعریف کی ہے، خود مغرب کی ترقی یافتہ جمہوریت اس پر پوری نہیں اترتی، چہ جائیکہ ہماری لولی لنگڑی وڈیرہ شاہی جمہوریت ان شرائط پر پوری اترسکے۔
جمہوریت کی جو تین شرطیں بتائی گئی ہیں، ان میں پہلی شرط ''عوام کی حکومت'' ہے۔ پچھلے 65 سال کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو صاف پتا چلتا ہے کہ اس طویل عرصے میں جو بھی حکومت آئی، وہ صرف اور صرف ڈاکوئوں کی حکومت رہی، عوام کی حکومت رہی نہ عوام کے لیے، البتہ ان جمہوریتوں کو یہ اعزاز ضرور حاصل رہا کہ یہ عوام کے ذریعے مسلط کی جاتی رہیں۔
انتخابات کے موقعوں پر جو سیاسی اتحاد بنتے ہیں، ان کا بنیادی مقصد یہ ہونا چاہیے کہ ان اتحادوں میں شامل پارٹیاں اگر برسرِ اقتدار آئیں تو وہ عوام کو درپیش سنگین مسائل کس طرح حل کریں گی۔ سیاسی اور جمہوری اخلاقیات کا تقاضا یہی ہوتا ہے کہ ہر سیاسی اتحاد کا بنیادی مقصد عوامی مسائل کا حل ہو۔ لیکن اس ستم ظریفی کو کیا کہیں کہ ہمارے سیاسی اتحادوں کی پوری تاریخ عوامی مفادات کے بجائے سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں کے مفادات سے بھری پڑی ہے۔ ماضی کے پی این اے، نوستاروں کا اتحاد، آئی جے آئی کا اتحاد ہو یا ماضی قریب کا اتحاد بنامِ میثاقِ جمہوریت ہو یا موجودہ اتحادی سیٹ اپ۔ ان سارے اتحادوں کی تہہ میں عوامی مفادات کا دور دور تک کوئی پتا نہیں چلتا۔ یہ سارے اتحاد اہلِ سیاست کے مکروہ مفادات کے کولہو کے گرد گھومتے نظر آتے ہیں۔
جمہوریت کے حوالے سے ہم نے کچھ حقایق پیش کیے ہیں جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ ہمارے ملک میں جمہوریت کے نام پر خاندانی حکمرانیوں کا ایک ایسا بدترین نظام نافذ ہے جس کے ڈانڈے بادشاہتوں کے صدیوں سال پرانے جابرانہ نظام سے ملتے ہیں، زیادہ سے زیادہ ہم موجودہ جمہوریت کو بادشاہتوں کا ماڈرن ایڈیشن کہہ سکتے ہیں۔ جب یہ طے ہوجاتا ہے کہ موجودہ جمہوریت خاندانی بادشاہتوں ہی کا ایک نیا ایڈیشن ہے تو پھر اس جمہوریت میں ہونے والے انتخابات اور انتخابی اتحاد کے بارے میں کوئی ابہام باقی نہیں رہ جاتا۔
پچھلے دنوں مسلم لیگ ہم خیال اور مسلم لیگ (ن) میں اتحاد کی باتیں زور و شور سے ہوتی رہیں۔ مسلم لیگ ہم خیال ان ہی بزرگوں کا ٹولہ ہے جو مسلم لیگ (ق) سے ٹوٹ کر نکلا تھا اور مسلم لیگ (ق) مسلم لیگ کا وہ حصّہ ہے جو نواز شریف کی معافی اور جلاوطنی کے بعد مسلم لیگ سے الگ ہو کر پرویز مشرف کی حکومت میں شامل ہوا تھا اور خوب مزے لوٹے تھے۔ اب تازہ اطلاعات کے مطابق آنے والے انتخابات میں حصّہ لینے کے لیے مسلم لیگ کے تمام دھڑوں کو اکٹھا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور یہ کوشش نئے پیر پگارا کی سرپرستی میں کی جارہی ہے۔ نواز شریف سندھ اور بلوچستان کے قوم پرستوں سے اتحاد کے لیے سندھ اور بلوچستان کے پھیرے لگارہے ہیں اور ہمارے سونامی خان منصورہ جا کر جماعتِ اسلامی سے اتحاد کا ڈول ڈال رہے ہیں۔ اس کوشش کو عوام ''پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا'' کہہ رہے ہیں۔
ایم ایم اے کے مولوی صاحبان بھی ایم ایم اے کو زندہ کرنے کے لیے بے تاب نظر آرہے ہیں لیکن مولانا فضل الرحمن کی مفاہمتی سیاست اور جماعت کی ''اصولی سیاست'' اس کے آڑے آرہی ہے۔ اس سارے بھان متی کے کنبے میں عوامی مفادات کا کہیں دور دور تک کوئی پتا ہے؟ یہ وہ سوال ہے جو عوام اس خاندانی جمہوریت کے ناخدائوں سے کررہے ہیں؟ گھوم پھر کر معاملہ اس مسئلے پر آکر رک جاتا ہے کہ ایسے مقدس اتحاد میں شامل ہونے والے جمہوریت کے علمبرداروں کو حکومت بننے کی صورت میں کتنی وزارتیں، کتنی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی سیٹیں الاٹ کی جائیں گی۔ یہ وہ اصل مسئلہ ہے جس پر درپردہ نہیں بلکہ کھلے عام انتہائی بے شرمی کے ساتھ بارگیننگ کی جارہی ہے اور بے چارے عوام اس جمہوریت کو حیرت سے دیکھ رہے ہیں اور ان اتحادوں پر حیرت کا اظہار کررہے ہیں۔
عوام مہنگائی، بے روزگاری، بجلی، گیس کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے سخت بے چینی کا شکار ہیں، ہماری اقتدار کے لیے بے چینی معزز اپوزیشن اس حقیقت سے پوری طرح واقف ہے کہ یہ مسائل اِتنے گمبھیر ہیں کہ نہ حکومت انھیں چٹکی بجاتے حل کرسکتی ہے، نہ ہی اپوزیشن کے پاس کوئی ایسا جادوئی چراغ ہے کہ وہ اسے رگڑ کر ان مسائل کو حل کرے۔ یہ مسائل ایک طویل منصوبہ بندی کے بغیر حل نہیں ہوسکتے۔ موجودہ حکومت اس حوالے سے جس غفلت یا نااہلی کا مظاہرہ کرتی رہی ہے، ایسی ہی غفلت اور نااہلی کا مظاہرہ ہماری وہ محترم اپوزیشن بھی کرتی رہی ہے جو ماضی میں ایک سے زیادہ بار اقتدار میں رہی ہے اور اب محض باری کے جلد حصول کے لیے عوام کی بے چینی کو استعمال کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ پنجاب میں عوامی بے چینی کے سیاسی استعمال کا نظارہ ہم کرتے رہے ہیں، لیکن اب یوں محسوس ہورہا ہے کہ درونِ خانہ کچھ مک مکا ہوگیا ہے کیوں کہ اب اپوزیشن کے رہنمائوں کے لہجوں میں نرمی آرہی ہے۔
اس حوالے سے دوسرا اہم حربہ جمہوریت کی پاسداری ہے۔ ملک کے ہر سیاست دان اور مذہبی رہنما کی زبان پر جمہوریت ناچتی نظر آتی ہے۔ عوام کو شدّت سے یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے کہ ہمارے ملک اور عوام کا مستقبل جمہوریت اور صرف جمہوریت سے وابستہ ہے۔ اگر خدانخواستہ جمہوریت کو نصیبِ دشمناں کچھ ہوگیا تو ملک اور عوام دونوں کا بیڑہ غرق ہوجائے گا۔ اس سُر میں آج کل عدلیہ بھی تال ملا رہی ہے اور جمہوریت کے تحفظ کو اپنی ذمے داری بتارہی ہے۔
اب ذرا جمہوریت کے معنی و مطلب پر ایک نظر ڈالتے ہیں تاکہ ہمارے 18 کروڑ بھولے بادشاہوں کی سمجھ میں یہ بات آسکے کہ جمہوریت ہوتی کیا ہے؟ سرمایہ دارانہ نظام کے فروغ کے ساتھ جن دو باتوں کا خوب پروپیگنڈا کیا گیا، ان میں ایک جمہوریت، دوسرے قانون اور انصاف کی برتری ہے۔ یہاں ہم صرف جمہوریت اور جمہوریت کے زیرِ سایہ ہونے والے سیاسی اتحادوں کا جائزہ لیں گے تاکہ عوام ان فراڈوں کو سمجھ سکیں۔ جمہوریت کی تعریف خود سرمایہ دارانہ نظام کے مفکروں نے یہ کی ہے۔ ''عوام کی حکومت، عوام کے لیے، عوام کے ذریعے'' اس جمہوری تعریف کا حوالہ بار بار اس لیے دینا پڑتا ہے کہ عوام ہماری رائج الوقت جمہوری فراڈ کو سمجھ سکیں۔ مغرب کے سیاسی علماء نے سرمایہ دارانہ جمہوریت کی جو تعریف کی ہے، خود مغرب کی ترقی یافتہ جمہوریت اس پر پوری نہیں اترتی، چہ جائیکہ ہماری لولی لنگڑی وڈیرہ شاہی جمہوریت ان شرائط پر پوری اترسکے۔
جمہوریت کی جو تین شرطیں بتائی گئی ہیں، ان میں پہلی شرط ''عوام کی حکومت'' ہے۔ پچھلے 65 سال کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو صاف پتا چلتا ہے کہ اس طویل عرصے میں جو بھی حکومت آئی، وہ صرف اور صرف ڈاکوئوں کی حکومت رہی، عوام کی حکومت رہی نہ عوام کے لیے، البتہ ان جمہوریتوں کو یہ اعزاز ضرور حاصل رہا کہ یہ عوام کے ذریعے مسلط کی جاتی رہیں۔
انتخابات کے موقعوں پر جو سیاسی اتحاد بنتے ہیں، ان کا بنیادی مقصد یہ ہونا چاہیے کہ ان اتحادوں میں شامل پارٹیاں اگر برسرِ اقتدار آئیں تو وہ عوام کو درپیش سنگین مسائل کس طرح حل کریں گی۔ سیاسی اور جمہوری اخلاقیات کا تقاضا یہی ہوتا ہے کہ ہر سیاسی اتحاد کا بنیادی مقصد عوامی مسائل کا حل ہو۔ لیکن اس ستم ظریفی کو کیا کہیں کہ ہمارے سیاسی اتحادوں کی پوری تاریخ عوامی مفادات کے بجائے سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں کے مفادات سے بھری پڑی ہے۔ ماضی کے پی این اے، نوستاروں کا اتحاد، آئی جے آئی کا اتحاد ہو یا ماضی قریب کا اتحاد بنامِ میثاقِ جمہوریت ہو یا موجودہ اتحادی سیٹ اپ۔ ان سارے اتحادوں کی تہہ میں عوامی مفادات کا دور دور تک کوئی پتا نہیں چلتا۔ یہ سارے اتحاد اہلِ سیاست کے مکروہ مفادات کے کولہو کے گرد گھومتے نظر آتے ہیں۔
جمہوریت کے حوالے سے ہم نے کچھ حقایق پیش کیے ہیں جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ ہمارے ملک میں جمہوریت کے نام پر خاندانی حکمرانیوں کا ایک ایسا بدترین نظام نافذ ہے جس کے ڈانڈے بادشاہتوں کے صدیوں سال پرانے جابرانہ نظام سے ملتے ہیں، زیادہ سے زیادہ ہم موجودہ جمہوریت کو بادشاہتوں کا ماڈرن ایڈیشن کہہ سکتے ہیں۔ جب یہ طے ہوجاتا ہے کہ موجودہ جمہوریت خاندانی بادشاہتوں ہی کا ایک نیا ایڈیشن ہے تو پھر اس جمہوریت میں ہونے والے انتخابات اور انتخابی اتحاد کے بارے میں کوئی ابہام باقی نہیں رہ جاتا۔
پچھلے دنوں مسلم لیگ ہم خیال اور مسلم لیگ (ن) میں اتحاد کی باتیں زور و شور سے ہوتی رہیں۔ مسلم لیگ ہم خیال ان ہی بزرگوں کا ٹولہ ہے جو مسلم لیگ (ق) سے ٹوٹ کر نکلا تھا اور مسلم لیگ (ق) مسلم لیگ کا وہ حصّہ ہے جو نواز شریف کی معافی اور جلاوطنی کے بعد مسلم لیگ سے الگ ہو کر پرویز مشرف کی حکومت میں شامل ہوا تھا اور خوب مزے لوٹے تھے۔ اب تازہ اطلاعات کے مطابق آنے والے انتخابات میں حصّہ لینے کے لیے مسلم لیگ کے تمام دھڑوں کو اکٹھا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور یہ کوشش نئے پیر پگارا کی سرپرستی میں کی جارہی ہے۔ نواز شریف سندھ اور بلوچستان کے قوم پرستوں سے اتحاد کے لیے سندھ اور بلوچستان کے پھیرے لگارہے ہیں اور ہمارے سونامی خان منصورہ جا کر جماعتِ اسلامی سے اتحاد کا ڈول ڈال رہے ہیں۔ اس کوشش کو عوام ''پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا'' کہہ رہے ہیں۔
ایم ایم اے کے مولوی صاحبان بھی ایم ایم اے کو زندہ کرنے کے لیے بے تاب نظر آرہے ہیں لیکن مولانا فضل الرحمن کی مفاہمتی سیاست اور جماعت کی ''اصولی سیاست'' اس کے آڑے آرہی ہے۔ اس سارے بھان متی کے کنبے میں عوامی مفادات کا کہیں دور دور تک کوئی پتا ہے؟ یہ وہ سوال ہے جو عوام اس خاندانی جمہوریت کے ناخدائوں سے کررہے ہیں؟ گھوم پھر کر معاملہ اس مسئلے پر آکر رک جاتا ہے کہ ایسے مقدس اتحاد میں شامل ہونے والے جمہوریت کے علمبرداروں کو حکومت بننے کی صورت میں کتنی وزارتیں، کتنی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی سیٹیں الاٹ کی جائیں گی۔ یہ وہ اصل مسئلہ ہے جس پر درپردہ نہیں بلکہ کھلے عام انتہائی بے شرمی کے ساتھ بارگیننگ کی جارہی ہے اور بے چارے عوام اس جمہوریت کو حیرت سے دیکھ رہے ہیں اور ان اتحادوں پر حیرت کا اظہار کررہے ہیں۔