پھر دستور محبت قائم کریں

ہم محبت کررہے ہوں یا نفرت، انتہا پسندی اور بے دینی ہمارا قومی مزاج بن گئی ہے۔

ہم محبت کررہے ہوں یا نفرت، انتہا پسندی اور بے دینی ہمارا قومی مزاج بن گئی ہے۔ فوٹع فائل

کچھ عرصہ قبل ایسا ہی افسوسناک رویہ میرے مشاہدے میں آیا کہ ایک چھت تلے میں جوان اولاد اور بزرگ و بیمار والدین رہائش پذیر ہیں مگر اِس کے باوجود بھی آپس میں تعلقات استوار نہیں ہیں۔ مالی خوشحالی کے باوجود مادہ پرستی کا ایسا اثر ہے کہ اولاد اور والدین کے دلگداز رشتوں میں موجود محبت پر نفرت کی بد ترین چادر تن گئی ہے۔ محبت و نفرت کی اس تلخ حقیقت نے ہمارے جذبات و احساسات کو یکدم بوجھل ہی کردیا۔ ذہن و خیالات محبتوں اور نفرتوں سے متعلق رویوں اور معاشرتی رجحانات کے بارے میں سر گرداں ہوگئے کہ آخر ہمارا معاشرہ کس رخ کی جانب بڑھ رہا ہے؟

رب کریم نے انسانی فطرت و نفسیات کو معاشرتی بنایا ہے۔ انسان اور معاشرہ ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔ ہر معاشرے کا ایک نظریہ موجود ہوتا ہے، وہ بنیاد جس پر معاشرے کی عمارت قائم و دائم ہے اور بنیاد ہی دراصل اس کی شناخت ہے۔ ہماری تہذیب اور اقدار و روایات ہی ہمارے معاشرے کی بنیاد اور ہماری پہچان ہیں۔ بنیادوں کی مضبوطی کی طرف مسلسل توجہ نہ رہے تو پھر عمارت کی کمزوری یقینی ہے۔

ہمارے معاشرے میں بگاڑ کا راستہ بھی یہی ہے۔ معاشرے کی تعمیر و ترقی میں جو عناصر اور ادارے بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان میں والدین، اساتذہ، درس گاہیں، میڈیا، حکومتی پالیسیاں، قومی ترجیحات، کیا بحیثیت مجموعی ہر عنصر اور ہر ادارے میں اپنی اقدار، اپنے نظریے اپنے دین و بنیاد کو پس پشت ڈالنے کا رویہ عام نہیں ہے؟

ہمارے حکمرانوں کی مغرب پسند پالیسیوں نے اور ارباب اختیار کی چشم پوشیوں نے عوام کو مادہ پرستی اورمفاد پرستی کی دوڑمیں لگا دیا ہے۔ اس دوڑ نے محبتوں اور نفرتوں سے متعلق معاشرے کی سوچوں کو بدل ڈالا، جس کے نتیجے میں ہماری اقدار و روایات نے بھی نیا رخ اختیار کیا۔ رشتوں میں اخلاص، بزرگوں کا احترام، چھوٹوں سے شفقت، ان کی تربیت کی فکر، باہمی معاملات میں ایثار، قربانی، عفو و درگزر، شرم و حیا کی سوچ و نگاہ سے لے کر عمل تک وجود رکھنا، مرد و عورت کا قدرت کے تفویض کردہ دائرہ عمل میں ہر کام کرنا، گھروں کا سکون کا گہوارہ ہونا اور درسگاہوں کا تربیت گاہ ہونا یہ سب اسلامی طرز معاشرت کا خاصہ ہیں۔

مگر رفتہ رفتہ اپنی طرز معاشرت سے جب ہم نے ان کو باہر دھکیلنا شروع کیا تو مادہ پرستی، غیر اقوام کی تہذیب و افکار اور ان کی اقدار کی نقالی ہمارے معاشرے کا حصہ بن گئی اور نتیجتاََ وہ بگاڑ اور عدم توازن پیدا ہوا جو ہمیں ہر سمت دکھائی دے رہا ہے۔


ہم محبت کررہے ہوں یا نفرت، انتہا پسندی اور بے دینی ہمارا قومی مزاج بن گئی ہے۔ ہم جلد حاصل ہونے والے حقیر فوائد اور لذتوں کی خاطر اپنی بیش بہا اور ہمیشہ کی زندگی کو داؤ پر لگانے پر تل گئے ہیں۔ محبت اور نفرت کے معیار کے تعین کے لیے ہم نے اپنے نفس کو نگران و مربی بنالیا ہے۔ بلاشبہ محبت اور نفرت کے جذبات انسانی فطرت اور معاشرت کا حصہ ہیں بلکہ ہمارے دین نے ان جذبات سے برسر پیکار ہونے کے بجائے ان کو مہذب اور شائستہ بنایاہے ۔

محبت ایک طاقتور فطری جذبہ ہے جو انسان کو عمل اور تعمیر و ترقی پر ابھارتا ہے مگر محبت کے نام پر ہر لمحہ لذتوں کے حصول کے لئے دوڑنا انسانی فطرت پر ظلم ہے۔ کیا انسانی زندگی اور محبت کے فطری جذبے کی تکمیل کا درست راستہ لذتوں کا غلام بننا ہی ہے؟ ہم سے بے پناہ محبت کرنے والے رب کریم نے زمین پر انسانی معاشرے کی بنیاد رکھنے کے ساتھ ہی تمام کائنات کو اس کا شریک زندگی بنادیا پھر وہ تمام انسان جو ایک ہی نفس سے پیدا ہوئے ہیں ان کے مفادات اور ان کا آغاز و انجام بھی مشترک ہے، اس لئے ان کے درمیان رشتہ اخوت اور تعلق محبت استوار رہنا چاہییے اور اس کے لیے دین میں قدم قدم پر رہنمائی بھی موجود ہے۔

سلام میں پہل کرنا، آپس میں پسند و ناپسند کا معیار یکساں ہونا، باہمی معاملات میں فیاضی کا حکم، مسلم بھائی کو دیکھ کر مسکرانا، ناگوار بات پر چشم پوشی اور میٹھے بول، غرض یہ اور اس قسم کی تمام ہدایات اس جانب رہنمائی کرتی ہیں کہ تمام مسلمان آپس میں صاف اور شفاف محبت رکھیں اور اس محبت کا صحیح مقام پر جائز اظہار بھی کریں۔ مگر اپنی محبت میں توازن اور اعتدال کا خیال رکھیں، اپنی محبت کی خاطر دوسرے انسانوں سے نفرت اور ان پر ظلم و زیادتی سے باز رہیں کیونکہ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ نفرت کی خصوصیت شر کی قوت کی جانب متوجہ کرتی ہے۔ اس لیے انسانوں کو ہدایت ہے کہ شر اور برائی کو ہر رنگ اور ہر صورت میں ناپسند کریں اور اس کو ظلم سمجھتے ہوئے روکنے کی کوشش بھی کریں۔

ہمیں مغرب کے لگائے ہوئے انتہا پسندی کے لیبل پر غور کرنا ہوگا۔ محبت اور نفرت کے بارے میں اپنے تصورات کو حقیقت کا رنگ دینا ہوگا۔ بغاوت، نفرت اور انتقام کی جگہ اخوت، احترام اور محبت کے جذبات کو پروان چڑھانا ہوگا اور اس کی خاطراپنی اقدار، اپنی پہچان اپنی معاشرت کی طرف پلٹنا ہوگا۔ تب ہی ہماری زندگیوں میں محبت و نفرت میں اعتدال و توازن قائم رہے گا۔ پھر ہم اپنے خالق کی مطلوب و متوازن امت بھی ہوں گے اور اس کے وعدے کے مطابق غالب بھی ہم ہوں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔
Load Next Story