کرائے کے لیے فلیٹ خالی ہے

پہلے جہاں پچاس ساٹھ لوگ پانی کا استعمال کرتے تھے، وہاں اب پانچ، چھ سو یا اس سے بھی زیادہ لوگ پانی استعمال کریں گے۔


کراچی جیسے شہر کی حالت دیکھیں، کبھی پانی غائب تو کبھی گیس کی لوڈ شیڈنگ اور بجلی کا حال نہ ہی پوچھیں۔ اب سونے پر سہاگا یہ کہ جہاں پہلے گھر ہوتے تھے اب وہاں عمارات قائم ہورہی ہیں۔ فوٹو: فائل

سمجھ نہیں آتا ماتم کس کس بات پر کیا جائے۔ ہر چیز کا تیا پانچہ ہوا جارہا ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک ترقی کی شاہراہ پر گامزن، بہترین منصوبہ بندی کے ذریعے آگے بڑھنے کی سعی میں مصروف اور ہم سعی لاحاصل میں ہمہ وقت اور ہمہ تن مصرف عمل ہیں۔ ہر ترقی یافتہ ملک شہروں کی آبادی بڑھنے کی صورت میں چند اقدامات طے کرتا ہے۔ منصوبے بنائے جاتے ہیں اور نئے شہروں کی جانب پیش رفت ہوتی ہے۔ اگر ہم پاکستان کا جائزہ لیں تو پاکستان میں متعدد شہروں کی آبادی اتنی بڑھ چکی ہے کہ شہر میں گنجائش نہ ہونے کے برابر ہے۔

پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں بھی یہی صورت حال ہے۔ کراچی کی آبادی دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔ پاکستان بھر سے لوگ کراچی منتقل ہوتے ہیں۔ ابھی تو کراچی کے حالات خراب ہیں جس دن اس شہر میں امن قائم ہوگیا یہاں تل دھرنے کی جگہ بھی شاید میسر نہ آئے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق کراچی کے گنجان آباد علاقے طارق روڈ پر نئی عمارتیں تعمیر کی جارہی ہیں۔ جہاں پہلے پچاس، ساٹھ لوگ رہتے تھے۔ اب وہاں پانچ سو سے چھ سو لوگ رہیں گے۔ نئے فلیٹوں کی تعمیر ایک جگہ پر بہت سارے لوگوں کو چھت تو دے دیتی ہے لیکن اس کے نقصانات اتنے زیادہ ہیں کہ جسے نظر انداز کرنا ممکن نہیں اور نہ ہی فلیٹوں کی اجازت دی جاسکتی ہے۔

شہر میں پہلے ہی ٹریفک کا مسئلہ سنگین ہوتا جارہا ہے۔ تجاوزات کی بھر مار نے جہاں ٹریفک کے نظام کو متاثر کیا ہے وہیں شہر کی خوب صورتی کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ طارق روڈ میں ہونے والی ان تعمیرات کے نقصان کا ذرا جائزہ تو لیں۔

پہلے جہاں پچاس ساٹھ لوگ پانی کا استعمال کرتے تھے، وہاں اب پانچ، چھ سو یا اس سے بھی زیادہ لوگ پانی استعمال کریں گے۔ اس طرح گیس اور بجلی کا استعمال ہوگا اور ساتھ ہی ساتھ ٹریفک کا نظام بھی متاثر ہوگا۔

پورے شہر میں جگہ جگہ فلیٹس کی تعمیرات جاری ہیں۔ بڑے بڑے شاپنگ پلازے بنائے جارہے ہیں۔ لیکن کوئی ان مالکان فلیٹس حکومت کے متعلقہ ذمہ داروں سے دریافت تو کریں کہ جناب پارکنگ پلازہ کون بنائے گا اور کتنا بڑا بنائے گا۔ آپ دیکھیں سینکڑوں جگہوں پر پارکنگ کی جگہ نہیں۔ جس کی وجہ سے ٹریفک درہم برہم ہوجاتا ہے۔

کراچی جیسے شہر کی حالت دیکھیں، کبھی پانی غائب ہوتا ہے تو کبھی گیس کی لوڈ شیڈنگ ہوجاتی ہے۔ بجلی کا حال نہ ہی پوچھیں تو بہتر ہے۔ مسئلہ یہ نہیں کہ طارق روڈ کی اس آبادی کو یہ ساری چیزیں میسر نہ ہوں گی، طارق روڈ کے اس علاقے میں تو متوسط یا اس سے اوپر اپر کلاس کے لوگ رہیں گے لیکن غریب غرباء کو اس کا بوجھ برداشت کرنا پڑے گا۔ کراچی کے شہری پہلے ہی بجلی استعمال نہ کرکے بھی بجلی کا بل ادا کرتے ہیں، کراچی الیکٹرک اور سوئی سدرن گیس کے عملے کا غریب لوگوں کے ساتھ جو رویہ ہے اسے طشت ازبام کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ آپ ذرا ان اداروں کے دفتروں میں اپنی کوئی شکایت لے جائے پھر دیکھیں کیا درگت بنتی ہے۔ اس وقت آپ کے علاقے کا بدمعاش کام آئے گا۔ وہ آپ کے مسئلے کو حل کروائے گا، جرم پھلے پھولے گا اور پھر اس قوم کے بزرگ کہیں گے کہ پتا نہیں اس ملک کے مقدر میں اچھے حکمران کیوں نہیں ہیں جو غریبوں کا حکمراں ہو امیروں کا نہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں