فکری تبدیلی
یہ بات درست ہے کہ ہماراملک لوگوں کووہ مواقع فراہم نہیں کرتاجودنیاکے ترقی یافتہ ممالک فراہم کررہے ہیں۔
نعرے بازی نہ جذباتیت 'انسان صرف اپنے عمل سے ہی سب کچھ ثابت کرتاہے۔ عمل ہی ہرایک کی اندورنی شخصیت ظاہرکردیتاہے۔باقی سب کچھ زبانی جمع خرچ ہے۔
یہ بات درست ہے کہ ہماراملک لوگوں کووہ مواقع فراہم نہیں کرتاجودنیاکے ترقی یافتہ ممالک فراہم کررہے ہیں۔ ہر شخص کی صلاحیتوں سے بھرپورفائدہ اٹھانا ان کے نظام کی اصل بنیاد ہے۔ وہ اپنے ملک کے ہرشہری کوترقی کے برابر مواقع فراہم کرتے ہیں۔یہی بنیاد ہے،اس حیرت انگیزترقی کی جودو صدیوں میں مغرب کرچکا ہے۔ہم اس مادی ترقی کے خلاف بہت کچھ بول سکتے ہیں مگر سچ یہی ہے کہ مغرب نے اپنے نظام میں اپنے شہری کوسب سے زیادہ اہمیت دی ہے۔
ہمارے ہاں معاملہ بالکل الٹ ہے۔ہمارے ملک کے کسی شہری کوحکومتی سطح پرجائزطریقے سے آگے بڑھنے کے مواقع فراہم نہیں کیے جاتے۔اس کاثبوت ہے کہ کوئی باصلاحیت نوجوان اب پاکستان میں رکنے کے لیے تیارنہیں۔ ہر ایک ملک سے باہر جاکر قسمت آزماناچاہتاہے۔ہمارے ہاں ترقی کی جائز خواہش کوباعزت طریقے سے پوراکرنے کاکوئی میکنزم نہیں ہے۔ آپ غورکیجیے،ہمارے ہرصاحب حیثیت شہری کے بچے باہر تعلیم حاصل کرتے ہیں۔عملی طور پر اپنے نظام پرہمارے مقتدرحلقے کوکوئی اعتبارنہیں۔وہ اپنا اثاثہ اور اولادکومحفوظ ممالک میں رکھتے ہیں۔سچ صرف یہی ہے۔ ہمارے مقتدرحلقے اصل میں ذہنی طورپر انتہائی غیرمحفوظ ہیں۔
مگروہ یہ کہتے نہیں۔سچائی کے لفظی اظہار کی طاقت ان کے پاس نہیں ہے مگران کاعمل ظاہر کرتا ہے کہ وہ مروجہ نظام پرکسی قسم کااعتبارکرنے کوتیار نہیں۔کبھی کبھی مجھے ایسا لگتاہے کہ ہم ابھی قوم بننے کے مرحلہ میں داخل ہی نہیں ہوئے۔ہاں،کوئی حادثہ یاسانحہ ہمیں تھوڑی دیرکے لیے اکائی میں تبدیل کردیتا ہے۔ اس کے بعد،بالکل پہلے والامنتشرہجوم یاشائد ریوڑ!
تعلیم کے شعبہ سے شروع کیجیے۔سرکاری اسکول اور کالجوں کی بھرمارہے۔ہرمحلہ میں ایک گورنمنٹ اسکول موجود ہے۔کسی بھی وقت کی حکومتی دعوؤں کے برعکس اس میں صرف ان والدین کے بچے پڑھنے جاتے ہیں جومالی اعتبارسے اپنے بچوں کوپرائیویٹ اسکول میں بھیجنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ اگر یقین نہ آئے توآپ میرے عرض کرنے پرگورنمنٹ اسکولوں میں جائیے۔ان بچوں کے ساتھ وقت گزاریے۔ شائد آپکو میری بات سچی لگنے لگے۔کسی سرکاری درسگاہ میں چلے جائیے۔
بالکل ایک نوعیت کے مسائل نظرآئینگے۔وسائل کی کمی اس مسئلہ کامرکزنظرآئیگا۔مگرحقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی نظامِ تعلیم کوصحیح کرنے میں رَتی بھربھی آمادہ نہیں۔اساتذہ کی تنخواہوں کاتنقیدی جائزہ لیجیے۔ہمارے اسکول،کالجوں اور سرکاری یونیورسٹیوں میں پڑھانے والے افرادکوہم ان کی خدمات کے عوض کیادے رہے ہیں۔اول توجوعلم دے، اس کا کیامعاوضہ دیاجاسکتاہے۔کم ازکم میری سوچ سے توباہر ہے۔ مگردنیاوی طورپردیکھیے توآپ کونظرآئیگاکہ اسکول ٹیچرکی تنخواہ پولیس کانسٹیبل سے بھی کم ہے۔کسی بینک کے ڈرائیورسے بھی کم۔تنخواہیں اس حدتک مختصرہیں کہ سانس اوربدن کارشتہ قائم رکھنامشکل ہے۔
ہم انکومعقول مشاہراہ نہیں دیتے۔ یہ حقیقت ہے۔مگرتنخواہ کے سوا ہم انھیں کوئی سہولت بھی نہیں فراہم کرتے۔کیاہراستادکادل نہیں چاہتاکہ اسکوسرکاری رہائش ملے، ریٹائرہونے پرکسی بھی سرکاری ہاؤسنگ اسکیم میں چھوٹا سا پلاٹ ملے۔ طویل المیعادقرضے کی سہولت فراہم کی جائے۔ معاشرہ میں جہاں استاد کاذکر آئے،ہر زبان خاموش ہوجائے۔انھیں وہ عزت اورمرتبہ ملے جوان کاحق ہے۔مگرہم لوگ معاملے کوسمجھتے بوجھتے ہوئے بھی ان اساتذہ کے لیے کچھ نہیں کرتے۔ہاں،زورکس بات پرہے۔حاضری پر،درسگاہ میں موجودرہنے پر،یہ بات درست ہے کہ استادکوپڑھانے کے لیے اپنے اسکول یاکالج میں ہوناچاہیے۔
مگرمجھے سمجھائیے کہ اگراستادتکلیف دہ سفرکرکے اپنے اسکول تک پہنچ بھی گیا اور اس کے مالی اورذہنی مسائل دگرگوں ہوں،تووہ کیاپڑھائے گا۔علم تقسیم کرنے میں کتنی دلچسپی لیگا۔ظاہرہے کہ اس سے پورے کام کی توقع کرناایک غیرفطری خواہش ہے۔محض ڈنڈے کے زورپر آپ استادکومعیاری تعلیم دینے پرکیسے اور کیونکر مجبور کرسکتے ہیں۔یہی وہ نکتہ ہے جہاں سے آپ ہمارے تعلیمی نظام کی اصلیت کوسمجھنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ مناسب تنخواہوں کے علاوہ بھی بہت سے مسائل ہیں۔ ہماراجرم یہ ہے کہ ہم سب کچھ سمجھتے ہوئے بھی انکوٹھیک نہیں کرناچاہتے۔
میں نظام تعلیم پرابھی کچھ اوربھی عرض کرنا چاہتا ہوں۔ آپ اسکولوں کے اساتذہ کی پوسٹنگ کی جزئیات پرنظر ڈالیے۔کاغذی طورپرسب کچھ ٹھیک ہے۔مگرآپ کسی ایم پی اے یاایم۔این۔اے سے پوچھیے۔اسکاکافی وقت اساتذہ کی پوسٹنگ کی سفارش کرتے ہوئے گزرتاہے۔سوال یہ اٹھتا ہے، کہ استادکواتنی مشکل سے کیوں دوچارکیاجاتاہے کہ وہ تدریس کوپسِ پشت ڈال کرمحض اپنی ٹرانسفرپوسٹنگ کی سفارشیں تلاش کرتا رہے۔ وہ سیاسی لوگوں کے گھروں اور ڈیروں کا طواف کرتاپھرے۔
اپنی عزتِ نفس کوکچل کراپنے جائزکام کے لیے ٹھوکریں کھاتارہے۔ہم بات توتعلیم کی کرتے ہیں مگر استادکواسکاکوئی جائزحق دینے کے لیے تیارنہیں۔حقیقت میں ہم شعبہ تعلیم کے ساتھ المناک مذاق کررہے ہیں۔ہمارانظام اس بات کامتحمل ہی نہیں ہوسکتاکہ پاکستان میں شرح خواندگی سو فیصدہو۔کیونکہ پڑھالکھاانسان اپنے حقوق مانگے گا۔وہ ایک صائب رائے رکھے گا۔وہ پکڑلیگاکہ کہاں اس کے ساتھ جھوٹ بولاجارہاہے۔وہ مقتدرحلقے کے لیے خطرہ بن جائیگا۔مگربات سمجھنے کی یہ ہے کہ ہم نے تعلیم کے ساتھ مذاق توکرلیا، مگر نتیجہ میں ہم پوری دنیاکے لیے تماشا بن گئے۔
ہماری صورتحال کے برعکس مغرب نے اپنے اساتذۃ کو بے حداہمیت دی ہے۔ان کاتمام نظام اچھے اسکول،کالجوں اور یونیورسٹیوں کی بدولت وجودمیں آیاہے۔مغرب کی اصل ترقی کامحزن ان کی تعلیمی درسگاہیں ہیں۔وہ اپنے اس شعبے کی اہمیت سمجھتے ہیں،وہ اس شعبہ کے نام پرجھوٹ نہیں بولتے۔ آپ ان کے اسکول کے اساتذہ کے ماہانہ مشاہرہ پر نظر ڈالیے۔ ان کی حکومت اپنے اساتذہ کوانتہائی معقول تنخواہیں دیتی ہیں۔
عزت اوراحترام کایہ عالم ہے کہ اگرکسی بھی وجہ سے ٹریفک بند ہو یا رکوا دی گئی ہواورصرف ایک آدمی نکل کریہ کہہ دے کہ وہ استادہے اور اس کی کلاس پڑھانے کاوقت ہے، تو یقین فرمائیے، پولیس یا کسی بھی انتظامی ادارے کی جان پربن آئیگی۔وہ اس استاد کو کلاس میں پہنچانے کاباعزت انتظام کرینگے۔میری نظرسے ایک واقعہ گزراہے۔اس میں امریکی صدرکے لیے بہت تھوڑی دیرکے لیے ٹریفک بندکی گئی تھی۔ ایک استادنے باہرنکل کر صرف یہ کہاکہ وہ پڑھانے کے لیے لیٹ ہورہا ہے۔ پولیس نے تمام صدارتی قافلہ چند منٹ کی تاخیرسے روانہ کیا۔ مگر استاد کو اس کے اسکول تک بحفاظت چھوڑکرپہلے آئے تاکہ تدریس میں کوئی خلل نہ آئے۔
کیا ہمارے پیارے ملک میں اسکاعشر عشیر بھی سوچا جاسکتا ہے۔ آپ کواسکاجواب مجھ سے بہترطریقے سے معلوم ہے۔ہم محض دعوے اورباتیں کرنے کے ماہرہیں۔ آپ پچاس سال سے حکومتی دعوؤں کو پرکھیے۔ آپ کومحسوس ہوگا کہ واقعی اس بار تعلیمی انقلاب آجائیگا۔ مگر دو چار سال بعد معاملات وہیں کے وہیں ساکت نظر آئینگے۔ شائد پہلے سے بھی ابتر اور دگر گوں!
اس ساری صورتحال کوایک اورعنصربہت تکلیف دہ بناچکاہے۔جیسے کہ میں نے پہلے عرض کی کہ اپنے جائزکام کروانے کے لیے اساتذہ کوسیاست دانوں اوران کے اہلکاروںکے پاس جاناپڑتاہے۔اس مجبوری کاہماراسیاسی نظام خوب فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے۔ پسند اور ناپسند کے حوالے سے ان کا حق دینے کے رجحان نے اس مقدس پیشے سے وابسطہ لوگوں میں سیاسی تفریق پیداکرنے کی بھرپورکوشش کی ہے۔بنیادی وجہ یہ ہے کہ الیکشن کانظام شعبہ تعلیم کی افرادی قوت پرتکیہ کرتا ہے۔ہرپولنگ اسٹیشن پرسب سے زیادہ نمایندگی اساتذہ کی ہوتی ہے۔عملی طورپریہی لوگ الیکشن والے دن کی مشکل ذمے داری اٹھاتے ہیں۔اگران میں سے چندایک کی مخصوص سیاسی رجحان ہوتواسکانتیجہ بہت مشکل ہوسکتاہے۔
ہمیں یہ حقیقت باربارسمجھنے کی اشدضرورت ہے کہ جس دنیامیں ہم سانس لے رہے ہیں،یہ صنعتی انقلاب کانتیجہ ہے۔ آپ مغرب کی تاریخ اٹھاکردیکھیے۔آپکومعلوم ہو جائیگا کہ اس معاشی انقلاب کی بنیادجدیدایجادات پررکھی گئی تھی۔ ان کایہ کام صرف اورصرف سائنسدانوں اورمحققین نے سرانجام دیاہے۔ اوریہ تمام ذہین لوگ ان کے تعلیمی نظام میں نکھر کر سامنے آئے ہیں۔مغرب کی ترقی کی بنیادان کی تعلیمی درسگا ہیں ہیں۔ان کے اساتذہ ہیں۔ان کی یونیورسٹیوں میں تحقیق کی مکمل آزادی موجود تھی اورہے۔آپ ان کی دوصدیوں کی تعلیمی تاریخ پرنظر ڈالیے۔ آپ کے سامنے ہر چیز عیاں ہو جائیگی۔
ان کے کسی استادکو ٹرانسفر پوسٹنگ کے لیے دفتروں کے لامتناہی چکرنہیں لگانے پڑتے۔ خصوصی طور پر لندن، فرانس اورامریکا کی یونیورسٹیوں کاذکر کرنا چاہونگا۔ وہاں تعلیم حاصل کرناتوزندگی کابہترین حصہ ہے ہی، مگران کا ماحول انتہائی متاثرکن ہے۔پروفیسروںکی تنخواہ اورمراعات انتہائی معقول ہیں۔ان کی عزت اورتعظیم بھی ہرسطح پرحددرجہ موجود ہے۔ٹیچریااستادبننابچپن سے ہی کچھ بچوں کاخواب ہوتا ہے۔
وہ اوائل عمری سے ہی بڑے ہوکرشعبہ تدریس سے منسلک ہونے کامشن بنالیتے ہیں۔پڑھانے والے ان کے معاشرے کاسب سے باعزت طبقہ ہے۔ہمارے ملک میں کیا حالت ہے۔اس پربات کرتے ہوئے بھی تکلیف ہوتی ہے۔
شعبہ تدریس ہمارے نظام کی بنیادہونی چاہیے۔ہم جتنی بھی محنت تعلیم کے بہتراورمعیاری حصول کے لیے کرگزریں،وہ کم ہے۔ اساتذہ فکری تبدیلی میں سب سے موثرکرداراداکرسکتے ہیں۔کم ازکم تاریخ تواسی اَمرکی گواہ ہے۔اصل میں ہم کسی قسم کی کوئی مثبت تبدیلی کوبرداشت نہیں کرسکتے!ہم دعوے اوراعلانات کرنے والی قوم ہیں۔حقیقت اورسچائی سے ہمارادوردورکاکوئی تعلق نہیں۔ہم کیابن سکتے تھے،یہ بات بھی بہت اہم ہے مگرصاحبان!اصل میں ہم کیاہیں،وہ سب سے زیادہ سفاک سچ ہے۔ہمارانظام اساتذہ اورشعبہ تعلیم کواسلیے اہمیت نہیں دیتاکہ اندرسے ہرایک کومعلوم ہے کہ اگرفکری تبدیلی آ گئی توسب کچھ بدل جائیگا۔سب کچھ!ہم اس کے لیے کسی قیمت پربھی تیارنہیں۔
یہ بات درست ہے کہ ہماراملک لوگوں کووہ مواقع فراہم نہیں کرتاجودنیاکے ترقی یافتہ ممالک فراہم کررہے ہیں۔ ہر شخص کی صلاحیتوں سے بھرپورفائدہ اٹھانا ان کے نظام کی اصل بنیاد ہے۔ وہ اپنے ملک کے ہرشہری کوترقی کے برابر مواقع فراہم کرتے ہیں۔یہی بنیاد ہے،اس حیرت انگیزترقی کی جودو صدیوں میں مغرب کرچکا ہے۔ہم اس مادی ترقی کے خلاف بہت کچھ بول سکتے ہیں مگر سچ یہی ہے کہ مغرب نے اپنے نظام میں اپنے شہری کوسب سے زیادہ اہمیت دی ہے۔
ہمارے ہاں معاملہ بالکل الٹ ہے۔ہمارے ملک کے کسی شہری کوحکومتی سطح پرجائزطریقے سے آگے بڑھنے کے مواقع فراہم نہیں کیے جاتے۔اس کاثبوت ہے کہ کوئی باصلاحیت نوجوان اب پاکستان میں رکنے کے لیے تیارنہیں۔ ہر ایک ملک سے باہر جاکر قسمت آزماناچاہتاہے۔ہمارے ہاں ترقی کی جائز خواہش کوباعزت طریقے سے پوراکرنے کاکوئی میکنزم نہیں ہے۔ آپ غورکیجیے،ہمارے ہرصاحب حیثیت شہری کے بچے باہر تعلیم حاصل کرتے ہیں۔عملی طور پر اپنے نظام پرہمارے مقتدرحلقے کوکوئی اعتبارنہیں۔وہ اپنا اثاثہ اور اولادکومحفوظ ممالک میں رکھتے ہیں۔سچ صرف یہی ہے۔ ہمارے مقتدرحلقے اصل میں ذہنی طورپر انتہائی غیرمحفوظ ہیں۔
مگروہ یہ کہتے نہیں۔سچائی کے لفظی اظہار کی طاقت ان کے پاس نہیں ہے مگران کاعمل ظاہر کرتا ہے کہ وہ مروجہ نظام پرکسی قسم کااعتبارکرنے کوتیار نہیں۔کبھی کبھی مجھے ایسا لگتاہے کہ ہم ابھی قوم بننے کے مرحلہ میں داخل ہی نہیں ہوئے۔ہاں،کوئی حادثہ یاسانحہ ہمیں تھوڑی دیرکے لیے اکائی میں تبدیل کردیتا ہے۔ اس کے بعد،بالکل پہلے والامنتشرہجوم یاشائد ریوڑ!
تعلیم کے شعبہ سے شروع کیجیے۔سرکاری اسکول اور کالجوں کی بھرمارہے۔ہرمحلہ میں ایک گورنمنٹ اسکول موجود ہے۔کسی بھی وقت کی حکومتی دعوؤں کے برعکس اس میں صرف ان والدین کے بچے پڑھنے جاتے ہیں جومالی اعتبارسے اپنے بچوں کوپرائیویٹ اسکول میں بھیجنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ اگر یقین نہ آئے توآپ میرے عرض کرنے پرگورنمنٹ اسکولوں میں جائیے۔ان بچوں کے ساتھ وقت گزاریے۔ شائد آپکو میری بات سچی لگنے لگے۔کسی سرکاری درسگاہ میں چلے جائیے۔
بالکل ایک نوعیت کے مسائل نظرآئینگے۔وسائل کی کمی اس مسئلہ کامرکزنظرآئیگا۔مگرحقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی نظامِ تعلیم کوصحیح کرنے میں رَتی بھربھی آمادہ نہیں۔اساتذہ کی تنخواہوں کاتنقیدی جائزہ لیجیے۔ہمارے اسکول،کالجوں اور سرکاری یونیورسٹیوں میں پڑھانے والے افرادکوہم ان کی خدمات کے عوض کیادے رہے ہیں۔اول توجوعلم دے، اس کا کیامعاوضہ دیاجاسکتاہے۔کم ازکم میری سوچ سے توباہر ہے۔ مگردنیاوی طورپردیکھیے توآپ کونظرآئیگاکہ اسکول ٹیچرکی تنخواہ پولیس کانسٹیبل سے بھی کم ہے۔کسی بینک کے ڈرائیورسے بھی کم۔تنخواہیں اس حدتک مختصرہیں کہ سانس اوربدن کارشتہ قائم رکھنامشکل ہے۔
ہم انکومعقول مشاہراہ نہیں دیتے۔ یہ حقیقت ہے۔مگرتنخواہ کے سوا ہم انھیں کوئی سہولت بھی نہیں فراہم کرتے۔کیاہراستادکادل نہیں چاہتاکہ اسکوسرکاری رہائش ملے، ریٹائرہونے پرکسی بھی سرکاری ہاؤسنگ اسکیم میں چھوٹا سا پلاٹ ملے۔ طویل المیعادقرضے کی سہولت فراہم کی جائے۔ معاشرہ میں جہاں استاد کاذکر آئے،ہر زبان خاموش ہوجائے۔انھیں وہ عزت اورمرتبہ ملے جوان کاحق ہے۔مگرہم لوگ معاملے کوسمجھتے بوجھتے ہوئے بھی ان اساتذہ کے لیے کچھ نہیں کرتے۔ہاں،زورکس بات پرہے۔حاضری پر،درسگاہ میں موجودرہنے پر،یہ بات درست ہے کہ استادکوپڑھانے کے لیے اپنے اسکول یاکالج میں ہوناچاہیے۔
مگرمجھے سمجھائیے کہ اگراستادتکلیف دہ سفرکرکے اپنے اسکول تک پہنچ بھی گیا اور اس کے مالی اورذہنی مسائل دگرگوں ہوں،تووہ کیاپڑھائے گا۔علم تقسیم کرنے میں کتنی دلچسپی لیگا۔ظاہرہے کہ اس سے پورے کام کی توقع کرناایک غیرفطری خواہش ہے۔محض ڈنڈے کے زورپر آپ استادکومعیاری تعلیم دینے پرکیسے اور کیونکر مجبور کرسکتے ہیں۔یہی وہ نکتہ ہے جہاں سے آپ ہمارے تعلیمی نظام کی اصلیت کوسمجھنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ مناسب تنخواہوں کے علاوہ بھی بہت سے مسائل ہیں۔ ہماراجرم یہ ہے کہ ہم سب کچھ سمجھتے ہوئے بھی انکوٹھیک نہیں کرناچاہتے۔
میں نظام تعلیم پرابھی کچھ اوربھی عرض کرنا چاہتا ہوں۔ آپ اسکولوں کے اساتذہ کی پوسٹنگ کی جزئیات پرنظر ڈالیے۔کاغذی طورپرسب کچھ ٹھیک ہے۔مگرآپ کسی ایم پی اے یاایم۔این۔اے سے پوچھیے۔اسکاکافی وقت اساتذہ کی پوسٹنگ کی سفارش کرتے ہوئے گزرتاہے۔سوال یہ اٹھتا ہے، کہ استادکواتنی مشکل سے کیوں دوچارکیاجاتاہے کہ وہ تدریس کوپسِ پشت ڈال کرمحض اپنی ٹرانسفرپوسٹنگ کی سفارشیں تلاش کرتا رہے۔ وہ سیاسی لوگوں کے گھروں اور ڈیروں کا طواف کرتاپھرے۔
اپنی عزتِ نفس کوکچل کراپنے جائزکام کے لیے ٹھوکریں کھاتارہے۔ہم بات توتعلیم کی کرتے ہیں مگر استادکواسکاکوئی جائزحق دینے کے لیے تیارنہیں۔حقیقت میں ہم شعبہ تعلیم کے ساتھ المناک مذاق کررہے ہیں۔ہمارانظام اس بات کامتحمل ہی نہیں ہوسکتاکہ پاکستان میں شرح خواندگی سو فیصدہو۔کیونکہ پڑھالکھاانسان اپنے حقوق مانگے گا۔وہ ایک صائب رائے رکھے گا۔وہ پکڑلیگاکہ کہاں اس کے ساتھ جھوٹ بولاجارہاہے۔وہ مقتدرحلقے کے لیے خطرہ بن جائیگا۔مگربات سمجھنے کی یہ ہے کہ ہم نے تعلیم کے ساتھ مذاق توکرلیا، مگر نتیجہ میں ہم پوری دنیاکے لیے تماشا بن گئے۔
ہماری صورتحال کے برعکس مغرب نے اپنے اساتذۃ کو بے حداہمیت دی ہے۔ان کاتمام نظام اچھے اسکول،کالجوں اور یونیورسٹیوں کی بدولت وجودمیں آیاہے۔مغرب کی اصل ترقی کامحزن ان کی تعلیمی درسگاہیں ہیں۔وہ اپنے اس شعبے کی اہمیت سمجھتے ہیں،وہ اس شعبہ کے نام پرجھوٹ نہیں بولتے۔ آپ ان کے اسکول کے اساتذہ کے ماہانہ مشاہرہ پر نظر ڈالیے۔ ان کی حکومت اپنے اساتذہ کوانتہائی معقول تنخواہیں دیتی ہیں۔
عزت اوراحترام کایہ عالم ہے کہ اگرکسی بھی وجہ سے ٹریفک بند ہو یا رکوا دی گئی ہواورصرف ایک آدمی نکل کریہ کہہ دے کہ وہ استادہے اور اس کی کلاس پڑھانے کاوقت ہے، تو یقین فرمائیے، پولیس یا کسی بھی انتظامی ادارے کی جان پربن آئیگی۔وہ اس استاد کو کلاس میں پہنچانے کاباعزت انتظام کرینگے۔میری نظرسے ایک واقعہ گزراہے۔اس میں امریکی صدرکے لیے بہت تھوڑی دیرکے لیے ٹریفک بندکی گئی تھی۔ ایک استادنے باہرنکل کر صرف یہ کہاکہ وہ پڑھانے کے لیے لیٹ ہورہا ہے۔ پولیس نے تمام صدارتی قافلہ چند منٹ کی تاخیرسے روانہ کیا۔ مگر استاد کو اس کے اسکول تک بحفاظت چھوڑکرپہلے آئے تاکہ تدریس میں کوئی خلل نہ آئے۔
کیا ہمارے پیارے ملک میں اسکاعشر عشیر بھی سوچا جاسکتا ہے۔ آپ کواسکاجواب مجھ سے بہترطریقے سے معلوم ہے۔ہم محض دعوے اورباتیں کرنے کے ماہرہیں۔ آپ پچاس سال سے حکومتی دعوؤں کو پرکھیے۔ آپ کومحسوس ہوگا کہ واقعی اس بار تعلیمی انقلاب آجائیگا۔ مگر دو چار سال بعد معاملات وہیں کے وہیں ساکت نظر آئینگے۔ شائد پہلے سے بھی ابتر اور دگر گوں!
اس ساری صورتحال کوایک اورعنصربہت تکلیف دہ بناچکاہے۔جیسے کہ میں نے پہلے عرض کی کہ اپنے جائزکام کروانے کے لیے اساتذہ کوسیاست دانوں اوران کے اہلکاروںکے پاس جاناپڑتاہے۔اس مجبوری کاہماراسیاسی نظام خوب فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے۔ پسند اور ناپسند کے حوالے سے ان کا حق دینے کے رجحان نے اس مقدس پیشے سے وابسطہ لوگوں میں سیاسی تفریق پیداکرنے کی بھرپورکوشش کی ہے۔بنیادی وجہ یہ ہے کہ الیکشن کانظام شعبہ تعلیم کی افرادی قوت پرتکیہ کرتا ہے۔ہرپولنگ اسٹیشن پرسب سے زیادہ نمایندگی اساتذہ کی ہوتی ہے۔عملی طورپریہی لوگ الیکشن والے دن کی مشکل ذمے داری اٹھاتے ہیں۔اگران میں سے چندایک کی مخصوص سیاسی رجحان ہوتواسکانتیجہ بہت مشکل ہوسکتاہے۔
ہمیں یہ حقیقت باربارسمجھنے کی اشدضرورت ہے کہ جس دنیامیں ہم سانس لے رہے ہیں،یہ صنعتی انقلاب کانتیجہ ہے۔ آپ مغرب کی تاریخ اٹھاکردیکھیے۔آپکومعلوم ہو جائیگا کہ اس معاشی انقلاب کی بنیادجدیدایجادات پررکھی گئی تھی۔ ان کایہ کام صرف اورصرف سائنسدانوں اورمحققین نے سرانجام دیاہے۔ اوریہ تمام ذہین لوگ ان کے تعلیمی نظام میں نکھر کر سامنے آئے ہیں۔مغرب کی ترقی کی بنیادان کی تعلیمی درسگا ہیں ہیں۔ان کے اساتذہ ہیں۔ان کی یونیورسٹیوں میں تحقیق کی مکمل آزادی موجود تھی اورہے۔آپ ان کی دوصدیوں کی تعلیمی تاریخ پرنظر ڈالیے۔ آپ کے سامنے ہر چیز عیاں ہو جائیگی۔
ان کے کسی استادکو ٹرانسفر پوسٹنگ کے لیے دفتروں کے لامتناہی چکرنہیں لگانے پڑتے۔ خصوصی طور پر لندن، فرانس اورامریکا کی یونیورسٹیوں کاذکر کرنا چاہونگا۔ وہاں تعلیم حاصل کرناتوزندگی کابہترین حصہ ہے ہی، مگران کا ماحول انتہائی متاثرکن ہے۔پروفیسروںکی تنخواہ اورمراعات انتہائی معقول ہیں۔ان کی عزت اورتعظیم بھی ہرسطح پرحددرجہ موجود ہے۔ٹیچریااستادبننابچپن سے ہی کچھ بچوں کاخواب ہوتا ہے۔
وہ اوائل عمری سے ہی بڑے ہوکرشعبہ تدریس سے منسلک ہونے کامشن بنالیتے ہیں۔پڑھانے والے ان کے معاشرے کاسب سے باعزت طبقہ ہے۔ہمارے ملک میں کیا حالت ہے۔اس پربات کرتے ہوئے بھی تکلیف ہوتی ہے۔
شعبہ تدریس ہمارے نظام کی بنیادہونی چاہیے۔ہم جتنی بھی محنت تعلیم کے بہتراورمعیاری حصول کے لیے کرگزریں،وہ کم ہے۔ اساتذہ فکری تبدیلی میں سب سے موثرکرداراداکرسکتے ہیں۔کم ازکم تاریخ تواسی اَمرکی گواہ ہے۔اصل میں ہم کسی قسم کی کوئی مثبت تبدیلی کوبرداشت نہیں کرسکتے!ہم دعوے اوراعلانات کرنے والی قوم ہیں۔حقیقت اورسچائی سے ہمارادوردورکاکوئی تعلق نہیں۔ہم کیابن سکتے تھے،یہ بات بھی بہت اہم ہے مگرصاحبان!اصل میں ہم کیاہیں،وہ سب سے زیادہ سفاک سچ ہے۔ہمارانظام اساتذہ اورشعبہ تعلیم کواسلیے اہمیت نہیں دیتاکہ اندرسے ہرایک کومعلوم ہے کہ اگرفکری تبدیلی آ گئی توسب کچھ بدل جائیگا۔سب کچھ!ہم اس کے لیے کسی قیمت پربھی تیارنہیں۔