سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگ
پولیس کی گاڑیاں اور اسلحہ پرانا ہے اور جدید بلٹ پروف جیکٹس اور اندھیرے میں دیکھنے والے چشمے دستیاب نہیں ہیں۔
ISLAMABAD:
سندھ ہائی کورٹ میں بلدیہ ٹاؤن میں گارمنٹس فیکٹری میں آتشزدگی کے مقدمے میں رینجرز کی جانب سے جوائنٹ انٹیروگیشن ٹیم (J.I.T) کی رپورٹ میں ایک ملزم رضوان قریشی کا اقرار جرم شامل تھا۔ ملزم نے بیس کروڑ بھتہ نہ دینے پر فیکٹری میں آتشگیر مادہ پھینکنے کا اقرار کیا ہے۔
اس آتشزدگی کے واقعے میں 257 کے قریب افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ اس واقعے کے تناظر میں تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کے درمیان الفاظ کی جنگ چھڑ گئی۔ غیر اخلاقی جملوں کا تبادلہ ہوا۔ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے تحریکِ انصاف سے معذرت کر لی۔ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے رولنگ دیدی کہ میڈیا اس کیس پر تبصرہ میں احتیاط کرے ،یہ رپورٹ ٹرائل کورٹ میں زیرِغور لانی چاہیے۔ کراچی شہر میں سرگرمِ عمل سیاسی جماعتوں اور مذہبی تنظیموں کے بارے میں یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ ان کے عسکری ونگ موجود ہیں۔ یہ عسکری ونگ بھتہ وصول کرنے اور مخالفین کو قتل کرنے کا کام کرتے ہیں۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انتہاپسند تنظیمیں اور مختلف نوعیت کی مافیاز اپنے عسکری ونگ کے ذریعے ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہیں۔ بعض رپورٹوں میں یہ بھی کہا گیا کہ سیاسی جماعتوں اور مذہبی تنظیموں کے عسکری ونگ کے متحرک ہونے کی بنا ء پر شہر میں ٹارگٹ کلنگ، اغواء برائے تاوان، گاڑیاں اور موبائل چھیننے اور زمینوں پر قبضے کے معاملات میں کمی نہیں آ رہی۔ قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ ڈسٹرکٹ سینٹرل اور ڈسٹرکٹ ایسٹ میں فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ کے ختم نہ ہونے کی بنیادی وجہ سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کا ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہونا ہے اور لیاری میں گینگ وار ختم نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔
کراچی میں امن و امان کے بارے میں رپورٹنگ کرنے والے بعض سینئر صحافی امن و امان کی صورتحال کی براہِ راست ذمے داری پولیس، رینجرز، خفیہ ایجنسیوں کے نیٹ ورک اور سیاسی جماعتوں پر عائد کرتے ہیں۔ چند سال قبل جب سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے کراچی کی صورتحال کا ازخود نوٹس لیتے ہوئےSuo Motu اختیار کے تحت سماعت شروع کی تھی تو اس وقت کے انسپکٹر جنرل پولیس واجد درانی نے اپنے حلفیہ بیان میں اس الزام کی تصدیق کی تھی کہ پولیس فورس میں سیاسی بنیادوں پر بھرتیاں کی گئیں، یہ پولیس والے اپنی سیاسی جماعتوں کے تابعدار ہیں اور یہ افراد اپنی پسند کی جماعتوں کے عسکری ونگ کے خاتمے کی ہر کوشش کو غیر مؤثر بنادیتے ہیں۔
چند برس قبل یہ خبریں شایع ہوئی تھیں کہ سندھ میں پولیس کے شعبے میں تقرری اور تبادلے کے لیے مخصوص رقم کا حصول طے ہے اور یہ خبریں بھی مسلسل ذرایع ابلاغ کی زینت بنیں کہ پولیس فورس کا معیار گر چکا ہے۔ کراچی سے متعلق مختلف رپورٹوں میں یہ الزام دھرایا گیا کہ پولیس والوں کی تربیت کا معیار گر گیا ہے۔ یہ پولیس افسران نئے حقائق کو جاننے اور محنت کرنے سے کتراتے ہیں۔ دہشت گردوں کے مقابلے میں جوانوں اور افسروں کی تربیت کا معیار بین الاقوامی سطح کے معیار کے برابر نہیں ہے۔
پولیس کی گاڑیاں اور اسلحہ پرانا ہے اور جدید بلٹ پروف جیکٹس اور اندھیرے میں دیکھنے والے چشمے دستیاب نہیں ہیں۔ پولیس فورس میں موجود ملزمان کے ساتھی انھیں اطلاعات فراہم کرتے ہیں۔ اس صورتحال میں پولیس کے جوانوں اور افسروں کے قتل ہونے کی شرح زیادہ ہے۔ یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ پولیس فورس میں ایسے جرائم پیشہ افراد بھی موجود ہیں جو خود بھی جرائم کرتے ہیں اس بناء پر پولیس آپریشن بہت زیادہ مؤثر نہیں ہوتے۔
اسی طرح رینجرز کی کارکردگی پر بھی تنقید کی جاتی ہے۔ پولیس اور رینجرز کی تحقیقات پر بھی سخت تنقید ہوتی ہے۔ سرکاری وکلاء کا کہنا ہے کہ عمومی طور پر اہم مقدمات میں چالان کی تیاری میں قانونی سقم رہ جاتے ہیں۔ گواہوں کی تلاش پر توجہ نہیں دی جاتی اور گواہوں کے تحفظ کے لیے بھی کوئی قانون موجود نہیں ہے، اس بناء پر عام آدمی گواہی دینے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ یوں پولیس اور رینجرز کے اہلکار جعلی گواہ تیار کرتے ہیں۔ جب مقدمات کی سماعت ہوتی ہے تو وکلاء صفائی اس نکتے پر خصوصی توجہ دیتے ہیں کہ ملزم سے تشدد کر کے اقراری بیان لیا گیا۔ ملزم کھلی عدالت میں اپنے جرم سے انکار کرتا ہے۔
اس طرح جے آئی ٹی کی رپورٹیں بے اثر ہوجاتی ہیں اور گواہ کے نہ پیش ہونے یا منحرف ہونے سے عدالتوں کے پاس اس ملزم کو رہا کرنے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں رہتا۔ پولیس افسران نے کئی اہم شخصیتوں کے قتل کے تحقیقات کے دوران ملزمان کی گرفتاری کا اعلان کیا اور پھر ایک قتل ہونے والے ایک پروفیسر کے بیٹوں کو بلا کر گواہی دینے کی ہدایت کی۔ جب ان لڑکوں نے واضح کیا کہ اپنے والد کے قتل کے وقت وہ اپنے کاموں پر تھے اور وہ گواہی نہیں دے سکتے تو کہا گیا کہ وہ لوگ کسی اور فرد کو گواہی کے لیے تیار کریں ورنہ ملزم رہا ہو جائے گا۔ اس صورتحال میں پولیس اور رینجرز کے دعوؤں کی ساکھ متاثر ہوتی ہے۔
ایک سابق پبلک پراسیکیوٹر کا کہنا ہے کہ رینجرز کی تیار کردہ جے آئی ٹی کی رپورٹ میں بنیادی قانونی سقم ہیں جس سے ملزمان کی رہائی کے امکانات روشن نظر آتے ہیں۔ اس بحث سے قطع نظر آتشزدگی میں ایم کیو ایم ملوث ہے کہ نہیں یہ حقیقت ہے کہ مختلف سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے عسکری ونگ شہر میں امن و امان کو بگاڑنے میں ملوث ہیں۔ کراچی شہر کے عوام کی خدمت کا وعدہ کرنے والی جماعتیں اگر اپنے مؤقف میں سچی ہیں تو انھیں اپنے عسکری ونگ رضاکارانہ طور پر ختم کردینے چاہئیں اور جو کارکن فوجداری مقدمات میں ملوث ہیں انھیں قانون کے حوالے کرنا چاہیے۔
اسی طرح پولیس کو سیاسی اثرات سے دور کرنے اور مجرمانہ پس منظر رکھنے والے افراد سے پاک کرنے کے لیے ایک مربوط حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ہی پولیس کے جوانوں اور افسران کی عملی تربیت اور جدید اسلحے سے لیس کرنے کے لیے خاطرخواہ فنڈ مختص ہونے چاہئیں۔ پولیس اور رینجرز کے تفتیشی نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنے اور چالان کو قانونی تقاضوں کے مطابق سچائی کے اصول کے تحت تیار کرنے کے لیے خصوصی کورس ہونے چاہئیں۔
سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو سنگین جرائم میں ملوث افراد کی ضمانتوں پر رہائی اور بری ہونے کے مقدمات کی سختی سے جانچ پڑتال کے لیے طریقہ کار وضع کرنا چاہیے۔ جج صاحبان اور فوجداری مقدمات کے وکلاء ہر مقدمے کا تنقیدی جائزہ لیں تا کہ ناقص تفتیش اور ناقص چالان تیار کرنے کے ذمے دار افسران کے خلاف کارروائی ہو سکے۔ انسدادِ دہشت گردی کی عدالتوں کی تعداد بڑھنی چاہیے تا کہ مقدمات جلد از جلد منطقی انجام کو پہنچ جائیں۔ اسی طرح خفیہ عسکری اور سویلین ایجنسیوں کے نیٹ ورک کو مؤثر بنانے کے لیے اقدامات وقت کی ضرورت ہیں۔ مگر ان سب تجاویز پر اس وقت تک غور نہیں ہو سکتا جب تک حکمراں اس معاملے میں دلچسپی نہ لیں۔
اب ایم کیو ایم پھر سندھ حکومت میں شامل ہو رہی ہے، سندھ کے دیہی اور شہری علاقوں کے نمایندے صوبائی حکومت کے زیرِ سایہ متحد ہونگے مگر اس اتحاد کا عوام کو فائدہ اس وقت ہو گا جب تمام اسٹیک ہولڈرز کراچی کے بارے میں ایک مؤقف پر متفق ہونگے۔ اپنی جماعتوں کے عسکری ونگ ختم کریں گے، دوسری صورت میں کراچی کے حالات خراب رہیں گے۔ بلدیہ ٹاؤن فیکٹری کے اس سانحے کے ذمے دار افراد کے بارے میں بحث ختم ہو جائے گی، ملزمان عدالتوں سے باعزت بری ہو جائیں گے مگر کراچی کے حالات خراب رہیں گے۔
سندھ ہائی کورٹ میں بلدیہ ٹاؤن میں گارمنٹس فیکٹری میں آتشزدگی کے مقدمے میں رینجرز کی جانب سے جوائنٹ انٹیروگیشن ٹیم (J.I.T) کی رپورٹ میں ایک ملزم رضوان قریشی کا اقرار جرم شامل تھا۔ ملزم نے بیس کروڑ بھتہ نہ دینے پر فیکٹری میں آتشگیر مادہ پھینکنے کا اقرار کیا ہے۔
اس آتشزدگی کے واقعے میں 257 کے قریب افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ اس واقعے کے تناظر میں تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کے درمیان الفاظ کی جنگ چھڑ گئی۔ غیر اخلاقی جملوں کا تبادلہ ہوا۔ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے تحریکِ انصاف سے معذرت کر لی۔ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے رولنگ دیدی کہ میڈیا اس کیس پر تبصرہ میں احتیاط کرے ،یہ رپورٹ ٹرائل کورٹ میں زیرِغور لانی چاہیے۔ کراچی شہر میں سرگرمِ عمل سیاسی جماعتوں اور مذہبی تنظیموں کے بارے میں یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ ان کے عسکری ونگ موجود ہیں۔ یہ عسکری ونگ بھتہ وصول کرنے اور مخالفین کو قتل کرنے کا کام کرتے ہیں۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انتہاپسند تنظیمیں اور مختلف نوعیت کی مافیاز اپنے عسکری ونگ کے ذریعے ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہیں۔ بعض رپورٹوں میں یہ بھی کہا گیا کہ سیاسی جماعتوں اور مذہبی تنظیموں کے عسکری ونگ کے متحرک ہونے کی بنا ء پر شہر میں ٹارگٹ کلنگ، اغواء برائے تاوان، گاڑیاں اور موبائل چھیننے اور زمینوں پر قبضے کے معاملات میں کمی نہیں آ رہی۔ قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ ڈسٹرکٹ سینٹرل اور ڈسٹرکٹ ایسٹ میں فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ کے ختم نہ ہونے کی بنیادی وجہ سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کا ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہونا ہے اور لیاری میں گینگ وار ختم نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔
کراچی میں امن و امان کے بارے میں رپورٹنگ کرنے والے بعض سینئر صحافی امن و امان کی صورتحال کی براہِ راست ذمے داری پولیس، رینجرز، خفیہ ایجنسیوں کے نیٹ ورک اور سیاسی جماعتوں پر عائد کرتے ہیں۔ چند سال قبل جب سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے کراچی کی صورتحال کا ازخود نوٹس لیتے ہوئےSuo Motu اختیار کے تحت سماعت شروع کی تھی تو اس وقت کے انسپکٹر جنرل پولیس واجد درانی نے اپنے حلفیہ بیان میں اس الزام کی تصدیق کی تھی کہ پولیس فورس میں سیاسی بنیادوں پر بھرتیاں کی گئیں، یہ پولیس والے اپنی سیاسی جماعتوں کے تابعدار ہیں اور یہ افراد اپنی پسند کی جماعتوں کے عسکری ونگ کے خاتمے کی ہر کوشش کو غیر مؤثر بنادیتے ہیں۔
چند برس قبل یہ خبریں شایع ہوئی تھیں کہ سندھ میں پولیس کے شعبے میں تقرری اور تبادلے کے لیے مخصوص رقم کا حصول طے ہے اور یہ خبریں بھی مسلسل ذرایع ابلاغ کی زینت بنیں کہ پولیس فورس کا معیار گر چکا ہے۔ کراچی سے متعلق مختلف رپورٹوں میں یہ الزام دھرایا گیا کہ پولیس والوں کی تربیت کا معیار گر گیا ہے۔ یہ پولیس افسران نئے حقائق کو جاننے اور محنت کرنے سے کتراتے ہیں۔ دہشت گردوں کے مقابلے میں جوانوں اور افسروں کی تربیت کا معیار بین الاقوامی سطح کے معیار کے برابر نہیں ہے۔
پولیس کی گاڑیاں اور اسلحہ پرانا ہے اور جدید بلٹ پروف جیکٹس اور اندھیرے میں دیکھنے والے چشمے دستیاب نہیں ہیں۔ پولیس فورس میں موجود ملزمان کے ساتھی انھیں اطلاعات فراہم کرتے ہیں۔ اس صورتحال میں پولیس کے جوانوں اور افسروں کے قتل ہونے کی شرح زیادہ ہے۔ یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ پولیس فورس میں ایسے جرائم پیشہ افراد بھی موجود ہیں جو خود بھی جرائم کرتے ہیں اس بناء پر پولیس آپریشن بہت زیادہ مؤثر نہیں ہوتے۔
اسی طرح رینجرز کی کارکردگی پر بھی تنقید کی جاتی ہے۔ پولیس اور رینجرز کی تحقیقات پر بھی سخت تنقید ہوتی ہے۔ سرکاری وکلاء کا کہنا ہے کہ عمومی طور پر اہم مقدمات میں چالان کی تیاری میں قانونی سقم رہ جاتے ہیں۔ گواہوں کی تلاش پر توجہ نہیں دی جاتی اور گواہوں کے تحفظ کے لیے بھی کوئی قانون موجود نہیں ہے، اس بناء پر عام آدمی گواہی دینے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ یوں پولیس اور رینجرز کے اہلکار جعلی گواہ تیار کرتے ہیں۔ جب مقدمات کی سماعت ہوتی ہے تو وکلاء صفائی اس نکتے پر خصوصی توجہ دیتے ہیں کہ ملزم سے تشدد کر کے اقراری بیان لیا گیا۔ ملزم کھلی عدالت میں اپنے جرم سے انکار کرتا ہے۔
اس طرح جے آئی ٹی کی رپورٹیں بے اثر ہوجاتی ہیں اور گواہ کے نہ پیش ہونے یا منحرف ہونے سے عدالتوں کے پاس اس ملزم کو رہا کرنے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں رہتا۔ پولیس افسران نے کئی اہم شخصیتوں کے قتل کے تحقیقات کے دوران ملزمان کی گرفتاری کا اعلان کیا اور پھر ایک قتل ہونے والے ایک پروفیسر کے بیٹوں کو بلا کر گواہی دینے کی ہدایت کی۔ جب ان لڑکوں نے واضح کیا کہ اپنے والد کے قتل کے وقت وہ اپنے کاموں پر تھے اور وہ گواہی نہیں دے سکتے تو کہا گیا کہ وہ لوگ کسی اور فرد کو گواہی کے لیے تیار کریں ورنہ ملزم رہا ہو جائے گا۔ اس صورتحال میں پولیس اور رینجرز کے دعوؤں کی ساکھ متاثر ہوتی ہے۔
ایک سابق پبلک پراسیکیوٹر کا کہنا ہے کہ رینجرز کی تیار کردہ جے آئی ٹی کی رپورٹ میں بنیادی قانونی سقم ہیں جس سے ملزمان کی رہائی کے امکانات روشن نظر آتے ہیں۔ اس بحث سے قطع نظر آتشزدگی میں ایم کیو ایم ملوث ہے کہ نہیں یہ حقیقت ہے کہ مختلف سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے عسکری ونگ شہر میں امن و امان کو بگاڑنے میں ملوث ہیں۔ کراچی شہر کے عوام کی خدمت کا وعدہ کرنے والی جماعتیں اگر اپنے مؤقف میں سچی ہیں تو انھیں اپنے عسکری ونگ رضاکارانہ طور پر ختم کردینے چاہئیں اور جو کارکن فوجداری مقدمات میں ملوث ہیں انھیں قانون کے حوالے کرنا چاہیے۔
اسی طرح پولیس کو سیاسی اثرات سے دور کرنے اور مجرمانہ پس منظر رکھنے والے افراد سے پاک کرنے کے لیے ایک مربوط حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ہی پولیس کے جوانوں اور افسران کی عملی تربیت اور جدید اسلحے سے لیس کرنے کے لیے خاطرخواہ فنڈ مختص ہونے چاہئیں۔ پولیس اور رینجرز کے تفتیشی نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنے اور چالان کو قانونی تقاضوں کے مطابق سچائی کے اصول کے تحت تیار کرنے کے لیے خصوصی کورس ہونے چاہئیں۔
سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو سنگین جرائم میں ملوث افراد کی ضمانتوں پر رہائی اور بری ہونے کے مقدمات کی سختی سے جانچ پڑتال کے لیے طریقہ کار وضع کرنا چاہیے۔ جج صاحبان اور فوجداری مقدمات کے وکلاء ہر مقدمے کا تنقیدی جائزہ لیں تا کہ ناقص تفتیش اور ناقص چالان تیار کرنے کے ذمے دار افسران کے خلاف کارروائی ہو سکے۔ انسدادِ دہشت گردی کی عدالتوں کی تعداد بڑھنی چاہیے تا کہ مقدمات جلد از جلد منطقی انجام کو پہنچ جائیں۔ اسی طرح خفیہ عسکری اور سویلین ایجنسیوں کے نیٹ ورک کو مؤثر بنانے کے لیے اقدامات وقت کی ضرورت ہیں۔ مگر ان سب تجاویز پر اس وقت تک غور نہیں ہو سکتا جب تک حکمراں اس معاملے میں دلچسپی نہ لیں۔
اب ایم کیو ایم پھر سندھ حکومت میں شامل ہو رہی ہے، سندھ کے دیہی اور شہری علاقوں کے نمایندے صوبائی حکومت کے زیرِ سایہ متحد ہونگے مگر اس اتحاد کا عوام کو فائدہ اس وقت ہو گا جب تمام اسٹیک ہولڈرز کراچی کے بارے میں ایک مؤقف پر متفق ہونگے۔ اپنی جماعتوں کے عسکری ونگ ختم کریں گے، دوسری صورت میں کراچی کے حالات خراب رہیں گے۔ بلدیہ ٹاؤن فیکٹری کے اس سانحے کے ذمے دار افراد کے بارے میں بحث ختم ہو جائے گی، ملزمان عدالتوں سے باعزت بری ہو جائیں گے مگر کراچی کے حالات خراب رہیں گے۔