عام آدمی
ہندوستان سات فیصد سے شرح نمو میں اضافہ تو کر رہا ہے مگر غریب غریب تر ہو رہا تھا۔
ISLAMABAD:
دلی کی ریاست نے برصغیر کے لیے اک نئی خبر کو جنم دیا ہے۔ ستر ممبران کے ایوان میں 67 نشستیں عام آدمی پارٹی جیت گئی، بی جے پی صرف تین جیت سکی اور کانگریس صفر۔ ستر سالہ پرانی جمہوریت، دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت یہ ایک مقداری چھلانگ تھی۔ اگر اب کے انقلاب انارکی کے ذریعے نہیں بلکہ بیلٹ باکس کے ذریعے آئیں گے تو یہ اس کی تصدیق تھی۔
عام آدمی کی اگر تاریخ میں جائیں گے تو اس کی بنیاد ان غلاموں کی آزادی کی تحریک میں ملے گی جو اسپارٹیکس رومن امپائر کے خلاف لڑ رہے تھے یا جس کی پاداش میں یسوع سولی پر لٹک گئے تھے۔ اور پھر برطانیہ میں جو بھی جمہوریت تھی اس میں عورت کو ووٹ دینے کا حق نہیں تھا۔ وہاں پے ہاؤس آف کامن (ایوان عامہ) بھی نہیں تھا بلکہ صرف ہاؤس آف لارجر (ایوان خاص) تھا اور اس طرح میگاکارٹا جنم لیتا ہے۔ پھر اس کی کوکھ سے عام آدمیوں کے ووٹ سے چنا ہوا ایوان عامہ جنم لیتا ہے اور پھر عورت کے ووٹ کو بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔ عام آدمی لفظ معنی عوام۔ جمہوریت کہتی تو رہی کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہے لیکن ایسی جمہوریت پر شرفا کا گٹھ جوڑ رہا ہے، جمہوریت ایک مخصوص طبقے کے مفادات کی ترجمان بن جاتی ہے۔
لیکن ہمارے جیسے ممالک میں یا جہاں جہاں آمریتوں کے سائے منڈلا رہے ہوتے ہیں وہاں ایسی شرفا بھی غنیمت جو جمہوریت کے نام لیوا ہوتے ہیں۔ ہندوستان ایسے تضادات سے کوسوں دور رہا مگر ان کی مذہبی حقائق میں پیوست غلامی کی زنجیریں کبھی نہ کبھی جمہوریت پر اپنے عکس چھوڑ گئیں۔ گاندھی نے ان پسماندہ جات کے لوگوں کے لیے آئینی تحفظ مانگا اور جب یہ تحفظ ایوان نے آج سے بیس سال قبل اور مضبوط کیا تو پورا ہندوستان میرٹ کی وکالت کرنے کے لیے گلیوں میں نکل آیا تھا۔
ہندوستان سات فیصد سے شرح نمو میں اضافہ تو کر رہا ہے مگر غریب غریب تر ہو رہا تھا۔ مودی جی ہیں تو چائے کی پیالی سے آغاز کرنے والے مگر ہندوستان کے کارپوریٹ مفادات کے سب سے بڑے ترجمان و اتحادی ہیں۔ جس طرح ہمارے شرفا نے ہندوستان دشمنی پہ اپنی دکان چمکائی اسی طرح مودی اور ان کے ہم نوا پاکستان دشمنی کے بہانے سے مستفید ہو رہے تھے اور اس طرح لازم تھا کہ ہم بھی وہی کچھ پائیں جو انھوں نے پایا۔ یعنی امیر امیر ترین ہوگا اور غریب غریب ترین۔ ان کے ہاں خودکشی حرام نہیں، مودی کے گجرات بالخصوص اور پورے ہندوستان میں ہزاروں دہقان خودکشیاں ہر سال کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں لوگ غربت کے مارے بچوں کو مدرسوں میں چھوڑ آتے ہیں اور شواہدات بتاتے ہیں کہ نوے فیصد خودکش بمبار بیس سال سے کم عمر بچے ہوتے ہیں۔
جس طرح سرداروں کے بچوں میں کوئی کاری کر کے نہیں ماری جاتی یہ صرف سرداروں کے قبیلوں کے غریبوں میں ہوتا ہے۔ اسی طرح مدرسوں کے رکھوالوں میں سے کوئی خودکش بمبار نہیں ہوتا یہ صرف ان قبائلی غریبوں کے بچوں میں سے ہوتے ہیں۔
عام آدمی کیا مانگتا ہے؟ عام آدمی انصاف مانگتا ہے۔ ایک وکیل ہونے کے ناطے مجھے کہنے دیجیے یہ سچ کہ جس طرح ''محبت کرنا امیروں کی بازی ہے'' ن م راشد کی اس بات کو کچھ اس طرح لیجیے کہ انصاف پانا صرف امیروں کی رکھیل ہے۔ عام آدمی کیا مانگتا ہے۔ عام آدمی اسکول مانگتا ہے۔ اسکول جس طرح تفریق کرگئے ہیں، اس سے پہلے کبھی نہیں تھا۔ غریبوں کے اسکول الگ امیروں کے الگ۔ میرے نوابشاہ میں صرف ایچ ایم خواجہ کے اسکول ہوتے تھے جہاں امیر و غریب کے بچے ساتھ بینچوں پر بیٹھتے تھے۔ آج سندھ حکومت 150ارب روپے تعلیم پر خرچ کرتی ہے مگر اس سے مستفید غریبوں کے بچے نہیں بلکہ سندھ کے وڈیرے ہوتے ہیں۔ انھوں نے زرداری صاحب کے زمانے میں اب اپنے کمداروں کو ماسٹر کر کے بھرتی کروایا ہے۔
ایک لاکھ اس سرکاری ماسٹروں کی فوج میں 80 ہزار اسکول پڑھانے نہیں جاتے۔ وہ اپنی آدھی تنخواہ سپروائزر کو رشوت کے طور پر دیتے ہیں اور سپروائزر ڈائریکٹر کو دیتا ہے اور ڈائریکٹر۔۔۔۔۔ ایسی نوکریوں پر تبادلے صرف وڈیرے کرواتے ہیں۔ وہ وڈیرے جو حکمراں جماعت کا حصہ ہیں اور وہ تبادلے کیسے ممکن ہیں کہ مفت میں کرواتے ہوں گے۔ عام آدمی کے بچے تعلیم سے محروم کیوں کہ وڈیرے کا پیٹ ہے کہ بھرتا نہیں۔
عام آدمی کیا مانگتا ہے؟ عام آدمی اسپتال مانگتا ہے، پینے کے لیے صاف پانی مانگتا ہے روزگار مانگتا ہے وہ غربت کی لکیر سے نکلنا مانگتا ہے۔
ہماری اسٹیبلشمنٹ نے سیاسی پارٹیوں کو آزادی سے پروان نہیں چڑھنے دیا۔ ان کو ہر ایک خطرہ لاحق تھا۔ غریب لوگوں کے لیے جب پارلیمنٹ کی سیاست کرنا ناممکن ہوگئی وہ قوم پرست بن گئے۔ اور بہت سے ایسے ہیں جن کا بھتہ خوری پر چولہا چلتا ہے۔
تو لازم ہے کہ ایک کیجریوال، یہاں بھی پیدا ہو۔ کل جس گرج کے ساتھ ذوالفقار مرزا بول رہے تھے ان کے سیاسی مقاصد کیا تھے یہ وہی جانتے ہوں گے مگر زرداری صاحب کے قائم علی شاہ والی حکومت نے بھٹوؤں کی عوامی پارٹی کو غیر عوامی پارٹی میں تبدیل کردیا تو زرداری صاحب کا اچھا ہوا۔ انھوں نے پوری بھٹوؤں کی قربانی کی قیمت لے لی۔ مگر عام آدمی کی عوامی پارٹی کے لیے جو حال پیدا ہوا ہے وہ تو ہونا ہے۔ اور جو حال وڈیروں کی اقتداری پارٹی کے لیے پیدا ہوا ہے اس میں اب ان کو مقابلہ کرنا ہے۔ اور پیپلز پارٹی کیوں۔ مسلم لیگ سے لے کر تمام اقتداری سیاست کرنے والی پارٹیوں پر یہ قانون لاگو ہوتا ہے۔
ہمارے ہاں اور ہندوستان میں فرق صرف اتنا ہے کہ وہاں بیلٹ باکس شفاف و صاف ہے۔ جب کہ یہاں اس طرح نہیں ہے۔ عمران خان کو اس بات کا کریڈٹ دینا پڑے گا کہ انھوں نے بیلٹ باکس کی شفافیت کے لیے جدوجہد کی۔ یہ اور بات ہے کہ وہ دلی کے کیجریوال نہیں۔
عجیب ہے دلی کی داستان۔ میری اردو اسی شہر میں پنپ کے بڑی ہوئی اور اس ملک خداداد کی روح بنی۔ دلی سے اردو کی ہجرت ہوئی۔ دلی کی گلیاں اور مرزا غالب یا وہ بہادر شاہ ظفر جس کو دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں۔ وہ امیر خسرو والا دلی۔ طبلے کی تان پر ، ستار کی لے پر، بانسری کی دھن والی، تان سین والا دلی۔
کیجریوال پاکستان دشمنی کے بہانے سے اپنا پیٹ مودی سرکار کی طرح نہیں بھرتا اور کیجریوال نہ ہی جنونیت و مذہبی انتہا پرستی کے کاروبار میں ملوث ہے۔ وہ کتنا سچ ہے اور کتنا جھوٹ ہے وہ تو خیر وقت بتائے گا لیکن اب تک دلی کے لوگ پورے ہندوستان کو کوسوں دور چھوڑ کر وہ دروازہ کھول چکے ہیں جس کی دستک اب پورے برصغیر میں گونج رہی ہے۔
یہ پہلی مرتبہ تھا کہ ہمارے سرتاج عزیز نے اس بات کو واضح کردیا کہ ہمیں رہنا اس خطے میں ہے (نہ کہ سعودی عرب کے پڑوسی ہیں ہم) اور ایک ایسی خارجہ پالیسی میں اب تبدیلی ناگزیر ہے جس سے ہندوستان، افغانستان و ایران کے ساتھ بہت سارے حوالے سے اشتراک ہو۔ کیجریوال کچھ ایسے خیالات رکھنے والوں میں سے ہیں۔ وہ ہندوستان میں پاکستان کے لیے نرم گوشہ پیدا کرنے کی وجہ سے ہندوستان کے سخت موقف رکھنے والوں کی طرف سے غداری کا لیبل پاچکے ہیں۔ کیجریوال دائیں بازو کی سیاست پر یقین نہیں رکھتے ہیں ۔ اس وجہ سے کارپوریٹ ہندوستان اس سے خوش نہیں ہے۔
ابھی دلی دور است کی طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ چلو نیا باب تو کھلا لیکن پورے برصغیر کو اپنی لپیٹ میں یہ تبدیلی کب لیتی ہے اس میں ابھی وقت ہے۔ ایک طویل جدوجہد پڑی ہے اور کوئی بھی چیز آپ کو بنا قیمت دیے ہتھیلی پر نہیں رکھ کر دے گا۔