سانحہ شکارپورسندھ حکومت کی بے حسی
پیپلز پارٹی کے گزشتہ دور حکومت میں لوگ یہ کہا کرتے تھے کہ حکومت ’’بنکر‘‘ میں چھپی ہوئی ہے۔
یقینا یہ امرخوش آیند ہے کہ سانحہ شکار پورکے ماسٹرمائنڈ کا پتہ چل گیا ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثارعلی خان نے قومی اسمبلی میں یہ انکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ وہ سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر ابھی اس کی تشہیر نہیں کرسکتے۔ بلاشبہ یہ حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ دہشت گردی میں ملوث ایسے ملزمان کے گردگھیرا تنگ کرے ۔ گزشتہ کئی عشروں سے پاکستان دہشت گردی کا بری طرح شکار ہے ۔گزشتہ حکومتوں نے دانستہ طور پر اس اہم مسئلے سے چشم پوشی اختیارکر رکھی تھی۔
پیپلز پارٹی کے گزشتہ دور حکومت میں لوگ یہ کہا کرتے تھے کہ حکومت ''بنکر'' میں چھپی ہوئی ہے۔ اگر دہشت گردی کے خلاف بروقت اقدامات کیے جاتے تو دہشت گردی کو اتنا فروغ حاصل نہ ہوتا جتنا اب ہوچکا ہے۔ نواز حکومت کو دہشت گردی کا مسئلہ سیاسی ورثے میں ملا ہے لیکن سانحہ پشاورکے بعد فوجی اورسیاسی قیادت نے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کا حتمی فیصلہ کرلیا ہے۔ اس سلسلے میں حکومت نے آپریشن ضرب عضب شروع کیا اور شمالی وزیرستان سے دہشت گردوں کا صفایا کردیا۔آج دہشت گرد منہ چھپائے پھررہے ہیں۔ بعض افغانستان کی طرف فرار ہوگئے ہیں۔
اس کے علاوہ دہشت گردی میں ملوث ملزمان کو پھانسی دینے کا عمل شروع کردیا تھا اور تادم تحریر متعدد دہشت گردوں کو تختہ دار پر لٹکایا جاچکا ہے جب کہ وزیر اعظم نواز شریف اورآرمی چیف راحیل شریف نے اپنی ایک حالیہ ملاقات میں دہشت گردی کے خلاف آپریشن اور قومی ایکشن پلان پر عمل تیزکرنے،فوجی عدالتوں کو جلد عملی شکل دینے پر بھی اتفاق کیا ہے،جس کے نتائج قوم کے سامنے جلد آجائیں گے۔ عسکری اور سیاسی قیادت پہلے ہی اس عزم کا اظہارکرچکی ہے کہ آخری دہشت گرد کے خاتمے تک ہم چین سے نہیں بیٹھیں گے اور دہشت گردوں سے خون کے ایک ایک قطرے کا حساب لیں۔ یہی وہ صورتحال ہے جس کے باعث دہشت گردوں نے مایوس کے عالم میں پہلے پشاورکے آرمی پبلک اسکول پر حملہ اور اس کے بعد شکارپورکی امام بارگاہ میں دھماکے کرکے تقریباً 60 افراد کو شہید اور 50 کو زخمی کردیا۔
اپنے جغرافیائی محل وقوع کی بنا پرشکارپور پر دہشت گردوں کے لیے آسان نشانہ تھا۔ یہ بلوچستان کی صوبائی حدودکے قریب ہے جہاں دہشت گرد آسانی کے ساتھ واردات کرسکتے تھے اور انھوں نے ایسا ہی کیا لیکن جہاں ایک جانب وفاقی حکومت دہشت گردی کے خلاف بھرپور اقدامات کر رہی ہے اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے تیار ہے، اسی طرح حکومت سندھ کو بھی خواب غفلت سے جانا ہوگا۔ پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت اس وقت بالکل لاعلم ہے۔
اس کے پاس کسی قسم کی کوئی انٹیلی جنس اطلاعات نہیں تھیں، ہونا تو یہ چاہیے کہ پورے صوبہ سندھ میں دہشت گردی کے ممکنہ واقعات سے نمٹنے کے لیے موثر اقدامات کیے جاتے، لیکن ہورہا ہے کہ جب کوئی سانحہ ہوجاتا ہے تو حکومت سندھ سانپ گزرنے کے بعد لکیر پیٹنے کے مصداق شورشرابا کرتی دکھائی دیتی ہے۔ کیا یہ مقام حیرت نہیں کہ شکارپور سول اسپتال میں زخمیوں کو لانے کے لیے ایمبولینس بھی موجود نہیں تھی۔ 100افراد کے لیے صرف 5ڈاکٹرز موجود تھے اور ان کے پاس کارٹن اور دیگر ضروری سامان وادویات بھی مناسب تعداد نہیں تھیں اورمجبوری کی حالت میں اپنے پیاروں کوگدھا گاڑیوں میں اسپتال لے کر پہنچ رہے تھے۔ یہ بڑی افسوس ناک صورتحال تھی اس موقعے پر وفاقی حکومت نے فوری طور پر شکار پورکے زخمیوں کے لیے c-130طیارہ روانہ کیا جو شدید زخمیوں کو فوری کراچی لے کر آیا۔ قائم علی شاہ کی حکومت نہ صرف سندھ میں دہشت گردی سے نمٹنے میں ناکام ہوئی بلکہ وہ امدادی سرگرمیوں میں موثر اقدامات نہیں کرسکی ۔
کراچی سمیت بڑے شہروں میں ایدھی اوردیگر این جی اوز ایسے مواقعے پر بڑھ چڑھ کر امدادی کام کرتی ہیں لیکن شکارپور میں ایسے ادارے نہ ہونے کے باعث زخمیوں اور شہداکے ورثا کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ حکومت سندھ کو چاہیے کہ وہ ہرضلع میں فائربریگیڈ ایمبولینس اور اسپتالوں کے نظام کو موثر بنائے تاکہ ایسے بڑے واقعات میں جانی نقصان کو کم سے کم کیا جاسکے۔
درجنوں افراد کے جاں بحق و زخمی ہونے کے باوجود پیپلزپارٹی کے سرکردہ رہنمائوں نے شکارپور پہنچ کر غم زدہ عوام کی تسلی کے لیے دو بول بھی نہیں بولے۔ اپنے ہی صوبے میں عوام کے ساتھ پیپلز پارٹی کا رویہ بے حسی کے مترادف ہے۔
جب کہ وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ رات 2بجے شکارپور پہنچے اور صحافیوں سے بات چیت کرنے کے بعد خیرپور روانہ ہوگئے۔ ان کا یہ دورہ محض رسمی کارروائی تھا۔ اتنے بڑے سانحے پر پی پی اپنی نا اہلی چھپانے کے لیے وفاقی حکومت کو نکتہ چینی کا نشانہ بناتی رہی۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ اور پیپلز پارٹی کے وزرا اس سانحے پر بھی سیاست کر رہے ہیں۔ دہشت گردی پورے ملک کا مسئلہ ہے لیکن سندھ حکومت اس سلسلے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہی۔ بلکہ وزیر تعلیم نثار کھوڑو نے سندھ اسمبلی میں یہ بیان دیا کہ اگر زخمیوں کوگدھا گاڑیوں پر لایا گیا تو کیا ہوگیا۔ اس بیان پر شکارپور کے عوام نے شدید ردعمل کا مظاہرہ کیا اور ان سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا ہے جو میں سمجھتا ہوں بالکل درست ہے۔
جہاں تک پیپلز پارٹی کے وفاقی حکومت پر الزامات کا تعلق ہے تو سانحہ شکارپور پر صدر ممنون حسین اور وزیر اعظم نواز شریف نے شدید مذمت کی ہے اور واقعے کے فوری بعد متعلقہ حکام کو ضروری احکامات جاری کیے ہیں۔زخمیوں کو کراچی منتقل کرنے کے لیے سی0 C13طیارہ روانہ کیا اور وفاقی وزیر احسن اقبال نے وزیر اعظم کے خصوصی نمایندے کی حیثیت سے شکارپورکا دورہ کیا اور لوگوں سے واقعے کے تفصیلات معلوم کرنے کے علاوہ شہدا کے لواحقین کو تسلی دی۔ اس کے علاوہ مسلم لیگ کے صوبائی صدر اسماعیل راہو کی قیادت میں ایک وفد نے آغا خان اسپتال میں زخمیوں کی عیادت کی اور انھیں تسلی دی، جب کہ وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کے علاوہ مسلم لیگ کے سینئر نائب صدرشاہ محمد شاہ کی قیادت میں ایک وفد نے شکارپورکا دورہ کیا ۔
وفد میں نہال ہاشمی،علی اکبرگجر،کھیل داس کوہستانی،ایم پی اے سورٹھ تھیبو، قمر راجیہ، ڈاکٹر شیام سندر شامل تھے۔ وفد نے امام بارگاہ کا دورہ کیا اور شہدا کے ورثا سے تعزیت کا اظہار کیا۔ وفد نے شہدا کے لواحقین کو یقین دلایا کہ وزیر اعظم نواز شریف بھی جلد شکارپورکا دورہ کریں گی۔ کیونکہ تھر میں قحط ہو یا سندھ میں سیلاب آئے یا ایسا کوئی اور موقعہ ہو وزیر اعظم نواز شریف سندھ کے عوام کی داد رسی کے لیے ضرور سندھ آتے ہیں۔ ممکن ہے سیکیورٹی وجوہات یا سرکاری مصروفیات کے باعث ان کے دورے میں تاخیر ہورہی ہو۔ درحقیقت سانحہ شکارپور ایک گہری سازش تھی جس میں شیعہ اور سنی بھائیوں کو لڑانے کی کوشش کی گئی مگر شیعہ سنی سمیت سندھ کے عوام نے اس ناپاک سازش کو ناکام بنادیا اور انشاء اللہ عوام کا یہ رشتہ ہمیشہ قائم رہے گا۔
پیپلز پارٹی کے گزشتہ دور حکومت میں لوگ یہ کہا کرتے تھے کہ حکومت ''بنکر'' میں چھپی ہوئی ہے۔ اگر دہشت گردی کے خلاف بروقت اقدامات کیے جاتے تو دہشت گردی کو اتنا فروغ حاصل نہ ہوتا جتنا اب ہوچکا ہے۔ نواز حکومت کو دہشت گردی کا مسئلہ سیاسی ورثے میں ملا ہے لیکن سانحہ پشاورکے بعد فوجی اورسیاسی قیادت نے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کا حتمی فیصلہ کرلیا ہے۔ اس سلسلے میں حکومت نے آپریشن ضرب عضب شروع کیا اور شمالی وزیرستان سے دہشت گردوں کا صفایا کردیا۔آج دہشت گرد منہ چھپائے پھررہے ہیں۔ بعض افغانستان کی طرف فرار ہوگئے ہیں۔
اس کے علاوہ دہشت گردی میں ملوث ملزمان کو پھانسی دینے کا عمل شروع کردیا تھا اور تادم تحریر متعدد دہشت گردوں کو تختہ دار پر لٹکایا جاچکا ہے جب کہ وزیر اعظم نواز شریف اورآرمی چیف راحیل شریف نے اپنی ایک حالیہ ملاقات میں دہشت گردی کے خلاف آپریشن اور قومی ایکشن پلان پر عمل تیزکرنے،فوجی عدالتوں کو جلد عملی شکل دینے پر بھی اتفاق کیا ہے،جس کے نتائج قوم کے سامنے جلد آجائیں گے۔ عسکری اور سیاسی قیادت پہلے ہی اس عزم کا اظہارکرچکی ہے کہ آخری دہشت گرد کے خاتمے تک ہم چین سے نہیں بیٹھیں گے اور دہشت گردوں سے خون کے ایک ایک قطرے کا حساب لیں۔ یہی وہ صورتحال ہے جس کے باعث دہشت گردوں نے مایوس کے عالم میں پہلے پشاورکے آرمی پبلک اسکول پر حملہ اور اس کے بعد شکارپورکی امام بارگاہ میں دھماکے کرکے تقریباً 60 افراد کو شہید اور 50 کو زخمی کردیا۔
اپنے جغرافیائی محل وقوع کی بنا پرشکارپور پر دہشت گردوں کے لیے آسان نشانہ تھا۔ یہ بلوچستان کی صوبائی حدودکے قریب ہے جہاں دہشت گرد آسانی کے ساتھ واردات کرسکتے تھے اور انھوں نے ایسا ہی کیا لیکن جہاں ایک جانب وفاقی حکومت دہشت گردی کے خلاف بھرپور اقدامات کر رہی ہے اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے تیار ہے، اسی طرح حکومت سندھ کو بھی خواب غفلت سے جانا ہوگا۔ پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت اس وقت بالکل لاعلم ہے۔
اس کے پاس کسی قسم کی کوئی انٹیلی جنس اطلاعات نہیں تھیں، ہونا تو یہ چاہیے کہ پورے صوبہ سندھ میں دہشت گردی کے ممکنہ واقعات سے نمٹنے کے لیے موثر اقدامات کیے جاتے، لیکن ہورہا ہے کہ جب کوئی سانحہ ہوجاتا ہے تو حکومت سندھ سانپ گزرنے کے بعد لکیر پیٹنے کے مصداق شورشرابا کرتی دکھائی دیتی ہے۔ کیا یہ مقام حیرت نہیں کہ شکارپور سول اسپتال میں زخمیوں کو لانے کے لیے ایمبولینس بھی موجود نہیں تھی۔ 100افراد کے لیے صرف 5ڈاکٹرز موجود تھے اور ان کے پاس کارٹن اور دیگر ضروری سامان وادویات بھی مناسب تعداد نہیں تھیں اورمجبوری کی حالت میں اپنے پیاروں کوگدھا گاڑیوں میں اسپتال لے کر پہنچ رہے تھے۔ یہ بڑی افسوس ناک صورتحال تھی اس موقعے پر وفاقی حکومت نے فوری طور پر شکار پورکے زخمیوں کے لیے c-130طیارہ روانہ کیا جو شدید زخمیوں کو فوری کراچی لے کر آیا۔ قائم علی شاہ کی حکومت نہ صرف سندھ میں دہشت گردی سے نمٹنے میں ناکام ہوئی بلکہ وہ امدادی سرگرمیوں میں موثر اقدامات نہیں کرسکی ۔
کراچی سمیت بڑے شہروں میں ایدھی اوردیگر این جی اوز ایسے مواقعے پر بڑھ چڑھ کر امدادی کام کرتی ہیں لیکن شکارپور میں ایسے ادارے نہ ہونے کے باعث زخمیوں اور شہداکے ورثا کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ حکومت سندھ کو چاہیے کہ وہ ہرضلع میں فائربریگیڈ ایمبولینس اور اسپتالوں کے نظام کو موثر بنائے تاکہ ایسے بڑے واقعات میں جانی نقصان کو کم سے کم کیا جاسکے۔
درجنوں افراد کے جاں بحق و زخمی ہونے کے باوجود پیپلزپارٹی کے سرکردہ رہنمائوں نے شکارپور پہنچ کر غم زدہ عوام کی تسلی کے لیے دو بول بھی نہیں بولے۔ اپنے ہی صوبے میں عوام کے ساتھ پیپلز پارٹی کا رویہ بے حسی کے مترادف ہے۔
جب کہ وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ رات 2بجے شکارپور پہنچے اور صحافیوں سے بات چیت کرنے کے بعد خیرپور روانہ ہوگئے۔ ان کا یہ دورہ محض رسمی کارروائی تھا۔ اتنے بڑے سانحے پر پی پی اپنی نا اہلی چھپانے کے لیے وفاقی حکومت کو نکتہ چینی کا نشانہ بناتی رہی۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ اور پیپلز پارٹی کے وزرا اس سانحے پر بھی سیاست کر رہے ہیں۔ دہشت گردی پورے ملک کا مسئلہ ہے لیکن سندھ حکومت اس سلسلے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہی۔ بلکہ وزیر تعلیم نثار کھوڑو نے سندھ اسمبلی میں یہ بیان دیا کہ اگر زخمیوں کوگدھا گاڑیوں پر لایا گیا تو کیا ہوگیا۔ اس بیان پر شکارپور کے عوام نے شدید ردعمل کا مظاہرہ کیا اور ان سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا ہے جو میں سمجھتا ہوں بالکل درست ہے۔
جہاں تک پیپلز پارٹی کے وفاقی حکومت پر الزامات کا تعلق ہے تو سانحہ شکارپور پر صدر ممنون حسین اور وزیر اعظم نواز شریف نے شدید مذمت کی ہے اور واقعے کے فوری بعد متعلقہ حکام کو ضروری احکامات جاری کیے ہیں۔زخمیوں کو کراچی منتقل کرنے کے لیے سی0 C13طیارہ روانہ کیا اور وفاقی وزیر احسن اقبال نے وزیر اعظم کے خصوصی نمایندے کی حیثیت سے شکارپورکا دورہ کیا اور لوگوں سے واقعے کے تفصیلات معلوم کرنے کے علاوہ شہدا کے لواحقین کو تسلی دی۔ اس کے علاوہ مسلم لیگ کے صوبائی صدر اسماعیل راہو کی قیادت میں ایک وفد نے آغا خان اسپتال میں زخمیوں کی عیادت کی اور انھیں تسلی دی، جب کہ وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کے علاوہ مسلم لیگ کے سینئر نائب صدرشاہ محمد شاہ کی قیادت میں ایک وفد نے شکارپورکا دورہ کیا ۔
وفد میں نہال ہاشمی،علی اکبرگجر،کھیل داس کوہستانی،ایم پی اے سورٹھ تھیبو، قمر راجیہ، ڈاکٹر شیام سندر شامل تھے۔ وفد نے امام بارگاہ کا دورہ کیا اور شہدا کے ورثا سے تعزیت کا اظہار کیا۔ وفد نے شہدا کے لواحقین کو یقین دلایا کہ وزیر اعظم نواز شریف بھی جلد شکارپورکا دورہ کریں گی۔ کیونکہ تھر میں قحط ہو یا سندھ میں سیلاب آئے یا ایسا کوئی اور موقعہ ہو وزیر اعظم نواز شریف سندھ کے عوام کی داد رسی کے لیے ضرور سندھ آتے ہیں۔ ممکن ہے سیکیورٹی وجوہات یا سرکاری مصروفیات کے باعث ان کے دورے میں تاخیر ہورہی ہو۔ درحقیقت سانحہ شکارپور ایک گہری سازش تھی جس میں شیعہ اور سنی بھائیوں کو لڑانے کی کوشش کی گئی مگر شیعہ سنی سمیت سندھ کے عوام نے اس ناپاک سازش کو ناکام بنادیا اور انشاء اللہ عوام کا یہ رشتہ ہمیشہ قائم رہے گا۔