شعور اور آگہی
ہمارے ملک میں کوئی ایسے ادارے نہیں جو تمام شہریوں کو یکساں معیار زندگی فراہم کریں یا ان کی تربیت کا باقاعدہ انتظام ہو۔
LONDON/KARACHI:
علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے چاہے وہ مرد ہو یا عورت۔ اور علم یقیناً کسی ڈگری کا نام نہیں کہ اگر آپ اور ہم بیچلر ہوں گے یا ماسٹرز کرلیں گے تو ہی علم والے ہوں گے۔ علم تو خدا کی دین ہے کہ وہ رب ہے جس کو چاہے نواز دے اورجس کوچاہے ساری زندگی جاہل رکھے اور جاہل بھی ایسا کہ دوسرے لوگ پاس آنے سے کترائے یا شکل دیکھتے ہی غائب ہوجائیں۔ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو بے شمار ایسے لوگ ہمیں نظر آرہے ہوتے ہیں جو دیکھنے میں تو بہت مہذب لگتے ہیں لیکن جب وہ اپنی حرکات وسکنات کرتے نظر آتے ہیں تو بڑے بڑے جاہلوں کو مات دیتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں ہر طرح کے لوگ بستے ہیں کیونکہ تعلیم کے معیار بھی الگ الگ ہیں۔ زندگی کے معیار بھی الگ الگ ہیں اس لیے تمام معیار بھی الگ الگ نظر آتے ہیں۔ اور ہمارے ملک میں کوئی ایسے ادارے نہیں جو تمام شہریوں کو یکساں معیار زندگی فراہم کریں یا ان کی تربیت کا باقاعدہ انتظام ہو۔ یورپ میں تعلیمی معیار یکساں رکھا جاتا ہے اور کسی بھی عمر میں آپ ہو تعلیم حاصل کرسکتے ہیں مگر ہمارے پاس تو مذاق بن جاتا ہے اگر بڑی عمر میں تعلیم حاصل کرے۔ اگر ڈگریاں حاصل کرلی تو لو جی جناب آپ کا تعلق پڑھے لکھے لوگوں میں شمار ہونے لگا۔
ڈگریاں اپنی جگہ تعلیم و تربیت اپنی جگہ اور انسانیت اپنی جگہ! مگر اب وقت ہم سے کہہ رہا ہے کہ اے انسان! ذراکچھ شعور اورآگاہی کے دروازے کھول اورکچھ کھلی فضا میں سانس لے اور دیکھ کہ زندگی کتنی خوبصورت اور آسان ہے۔شعور اورآگاہی کے دروازے جب کھل جاتے ہیں تو انسان اپنے آپ کو واقعی انسان سمجھنے لگتا ہے کہ اس کو فرض بھی یاد آتے ہیں اور حقوق بھی پھر وہ اندھیروں کو بھی سمجھتا ہے اور روشنی کی بات بھی کرتا ہے۔ اس کو سیڑھیاں بھی نظر آتی ہیں اور پستیوں میں جھانکنے کی صلاحیت بھی آجاتی ہے۔
ورنہ بہت سے تو ایسے ہمارے اردگرد ہیں جنھوں نے اپنی ساری زندگی مصنوعی انداز میں ہی گزاردی۔ ادھوری ادھوری بیکار بیکار کہ نہ خدا ملا نہ وصال صنم۔ بس وہ اپنی موج و مستی میں ایسے مست رہیں کہ اپنی زندگی کو بھی نہ پہچان سکیں کہ کہاں ہے منزل اور کہاں ہے ٹھکانہ۔ جو مل گیا تھا شاید وہی مقدر تھا اور جو نہ ملا وہ شاید نصیب میں ہی نہیں تھا۔
مگر یقین جانیے شعور اور آگاہی ایسی بیش قیمت سوغات ہیں جو جس کو مل جائے اس کی زندگی آسان اور صاف و ستھری ہوجائے ۔علم تو سچ کے راستے کھولتا ہے۔ اور دھوکہ و فریب گناہ کی طرف دھکیلتا ہے۔ بار بار بتایا جاتا ہے سمجھایا جاتا ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے اپنے آپ کو صاف و ستھرا رکھیے اپنے اردگرد کی جگہوں کو صاف و ستھرا رکھیے لیکن جب والدین بچوں کو لے کر پارکوں کی طرف نکلتے ہیں اورکھانے پینے کے لوازمات بھی اپنے ساتھ لے کر آتے ہیں ، مائیں اپنے بچوں کو چپس، بسکٹس، فاسٹ فوڈز کھلارہی ہوتی ہیں۔
ڈرنکس کا بھی استعمال ہو رہا ہوتا ہے اور محبت کا عالم یہ کہ تمام خالی ڈبے اورخالی بوتلیں پارکوں میں لگے کوڑے دان Dustbin کی بجائے ادھر ادھر پھینک دیے جاتے ہیں اور سب کے جانے کے بعد اگر ان پارکوں کا جائزہ لیا جائے تو ان کی خوبصورتی کچرے کے ڈھیروں میں تبدیل ہوجاتی ہے کچھ لوگ تو گھروں سے سالن روٹی لے کر آتے ہیں اور وہ باقی بچا ہوا رزق ایسے ہی چھوڑ کر چلے جاتے ہیں حالانکہ ہر پارک میں بڑے بڑے Dust Bin ہوتے ہیں۔
چھوٹے بچوں کے والدین بچوں کے گندے Diapers تک ادھر ادھر پھینک دیتے ہیں حالانکہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ پھر واپس ان ہی پارکوں میں آئیں گے گندگی وغلاظت تو ایک طرف ان سے پھیلنے والے جراثیم اور مچھر مکھی اور دوسرے کیڑے الگ۔
خدارا! کھولیے اپنے عقل وشعور اورآگاہی کے دروازے۔ مائیں اپنے آپ کو زیادہ کام سے بچانے کے لیے اپنے بچوں کے لیے اور بڑوں کے لیے بھی فروزن کھانے جو پکے پکائے باآسانی دستیاب ہیں فریزر میں بھر لیے جاتے ہیں کہ جب دل چاہا مائیکرو ویو میں گرم کیا اور کھا لیا۔ بچوں کو اسکول لنچ میں دے دیا، اس کا ان کی صحت پر اور علم و یادداشت پر کیا اثر پڑے گا کچھ پتا نہیں۔ پہلے زمانوں میں والدین اصلی گھی،گڑ، شہد، بکرے کا گوشت وغیرہ ان ہی چیزوں کو فوقیت دیتے تھے کہ بچوں کی نشوونما اچھی ہو صحت اچھی شاید یہی وجہ ہے کہ غیرت اور شرم و حیا کا رجحان بھی تھا، اب مصنوعی خوراک پر پلی ہوئی مرغیاں مختلف باہر کے مارجرین اور جلدی امیر بننے والے نسخوں نے سر سے لے کر پیر تک ایسی بے حسی ڈالی ہے کہ سمجھ سے باہر۔
جوان اولاد اپنے والدین سے سیکھنے کی بجائے سکھانے پر تلی ہوتی ہے۔ والدین دوستانہ ماحول کا نعرہ لگا کر پستیوں کی طرف خود اپنی مرضی سے جا رہے ہیں۔ ہم تو اپنے بچوں کا بہترین مستقبل چاہتے ہیں۔ اکثر یہ جملے والدین ادا کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اندر سے شدید خوف زدہ کہ بڑھاپے میں اولاد کا سہارا نصیب ہوتا ہے یا نہیں۔عجیب گھٹن والا ماحول کہ جس میں لوگ اپنے دل کی بات اپنے بچوں سے کرنے سے ڈرتے ہیں کہ کہیں کسی کو کچھ برا نہ لگ جائے۔
بڑے بڑے خوبصورت گھر اور چار چھ گھروں کے بعد کچرے کا ڈھیر، بسانت، جراثیم اور گندگی، اپنے اپنے گھروں سے گندگی نکال کر ڈھیر درڈھیر جمع کرتے رہیں اور اپنے دروازے بند کرلیں، کسی اچھے air freshner کا استعمال کرلیا، اللہ اللہ خیر صلہ۔ ہفتوں یہ گندگی کے ڈھیر آتے جاتے تمام لوگوں کی نظروں کے سامنے ہوتے ہیں اور بڑھ بھی رہے ہوتے ہیں لیکن شاید گاڑیوں کے بند شیشے ان کی بدبو سے محفوظ رکھتے ہیں۔لاکھوں،کروڑوں لگا کر یہ بڑے بڑے گھر بنائے جاتے ہیں سجائے جاتے ہیں مگر ہزاروں خرچ کرکے ان کچروں کے لیے کوئی معقول انتظام نہیں ہوتا۔ پتا نہیں ڈگریاں کہاں رہ جاتی ہیں علم کے دروازے کیوں بند ہوجاتے ہیں؟
سگنل کی لال بتی پرکھڑی ہوتی گاڑیاں بھی آگے والی گاڑی کو ہارن دے رہی ہوتی ہیں ان کو کیا عقل کے اندھے کہیں یا جاہل،، بڑی بڑی گاڑیوں میں بیٹھے حضرات بھی کبھی یہ جہالت کرتے نظر آئے، پانی پیا اور خالی بوتل چلتی ہوئی گاڑی سے باہر پھینک دی، اگر پان کھانے کے عادی ہیں تو پان کی پیک بھی چلتی ہوئی گاڑی سے پھینکنے پر باز نہیں آئیں گے۔ اکثر شاپنگ سینٹر پر بھی آپ کو پان کی پیک سے گل وگلزار بنے ہوئے نظر آئیں گے۔
اب ان کو کون سمجھائے کہ یہ گندگی وغلاظت، گھن آنے کی حد تک غلیظ عادتوں میں شامل ہے۔ اللہ کے بندوں فیشن اور سیاست کے ساتھ ساتھ اگر صفائی بھی سیکھ لی ہوتی تو کیا برائی تھی، شعور اورآگاہی خالی پروفیسر، لیکچرار، ججز اورلکھاریوں کے لیے ضروری نہیں یہ تو ہر عام انسان کی میراث ہے، جس کا ان کے پاس ہونا ضروری ہے۔
اکثر گھروں میں پانی کے نلکوں میں ہلکے ہلکے رساؤ ہو رہا ہوتا ہے ، توجہ ہی نہیں۔ واش رومز اور باورچی خانوں کی بتیاں شام سے کھلی ہے تو کھلی ہے۔ اپنے گھر کا تمام دن کا کچرا رات کو گھر سے باہر نکال دیا، بھوکی بلیوں نے پوری رات اس کچرے کا پوسٹمارٹم کیا اور دروازے کے باہر کی جگہ کو کچرے سے سجا دیا۔ اب جب تک جمعدار نہیں آتا کچرا یوں ہی سجارہے گا،یہ کون سی کتابوں میں لکھا ہے اب تک سمجھ نہیں آیا۔بڑے بڑے ڈپارٹمنٹل اسٹورزہر نعمت سے بھرے ہوتے ہیں۔ سبزیاں وفروٹ، دالیں،چاول اورروزانہ کی ضروریات کا سامان بھرا ہوا ہے، بہت کم لوگ ڈبوں پر لکھی تحریرکو پڑھ کر خریداری کرتے ہوں گے۔
بہرحال ہمارے ملک میں تعلیم اورصحت پر بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے یہ حکومتی سطح پر بھی ہو اورانفرادی سطح پر بھی۔ انٹرنیٹ خالی کھیل تماشا نہیں۔ معلومات سے بھرا خزانہ ہے تھوڑا ساوقت نکالیے اورتھوڑی تھوڑی سی معلومات بھی حاصل کریں گے تو ایک دن کافی خزانہ جمع ہوجائے گا،مت سیکھیے لوگوں کو بے وقوف بنانے کے طریقے، مت آزمائیے چھوٹی زبان، مت کیجیے جھوٹے وعدے کہ یہ آخر میں آپ کو رسوائی کے علاوہ کچھ دینے والے نہیں۔
چھوٹی چھوٹی سچائیاں بڑی بڑی خوشیاں دے سکتی ہیں،گندگی وغلاظت چاہے ذہنی ہو یا جسمانی یا معاشرتی سوچئے ضرورکہ کیسے ان سے نجات پائی جاسکتی ہے۔ ہر انسان کو اپنی اپنی قبر میں جانا ہے اپنا ایک حساب دینا، رشتے،ناتے تو صرف دنیا کے لیے اللہ کے پاس کوئی رشتہ کام نہیں آنے والا، جو کچھ بوئیں گے وہی کچھ کاٹیں گے،کیکٹس کا پودا لگایا ہے تو اس میں سے کبھی ٹماٹرنہیں اگیں گے،کانٹے والے پتے ہی آئینگے،ناگہانی مصیبتیں اورپریشانیاں بھی ہمارے اپنے ہی گناہوںکی وجہ سے ہوتی ہیں بالکل اسی طرح جس طرح عجیب عجیب، مارنے والی بیماریاں جسموں کوگلا دیتی ہیں لوگ قریب آنے سے ڈرتے ہیں اور آخرکارایک بری موت مقدر بنتی ہے۔
علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے چاہے وہ مرد ہو یا عورت۔ اور علم یقیناً کسی ڈگری کا نام نہیں کہ اگر آپ اور ہم بیچلر ہوں گے یا ماسٹرز کرلیں گے تو ہی علم والے ہوں گے۔ علم تو خدا کی دین ہے کہ وہ رب ہے جس کو چاہے نواز دے اورجس کوچاہے ساری زندگی جاہل رکھے اور جاہل بھی ایسا کہ دوسرے لوگ پاس آنے سے کترائے یا شکل دیکھتے ہی غائب ہوجائیں۔ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو بے شمار ایسے لوگ ہمیں نظر آرہے ہوتے ہیں جو دیکھنے میں تو بہت مہذب لگتے ہیں لیکن جب وہ اپنی حرکات وسکنات کرتے نظر آتے ہیں تو بڑے بڑے جاہلوں کو مات دیتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں ہر طرح کے لوگ بستے ہیں کیونکہ تعلیم کے معیار بھی الگ الگ ہیں۔ زندگی کے معیار بھی الگ الگ ہیں اس لیے تمام معیار بھی الگ الگ نظر آتے ہیں۔ اور ہمارے ملک میں کوئی ایسے ادارے نہیں جو تمام شہریوں کو یکساں معیار زندگی فراہم کریں یا ان کی تربیت کا باقاعدہ انتظام ہو۔ یورپ میں تعلیمی معیار یکساں رکھا جاتا ہے اور کسی بھی عمر میں آپ ہو تعلیم حاصل کرسکتے ہیں مگر ہمارے پاس تو مذاق بن جاتا ہے اگر بڑی عمر میں تعلیم حاصل کرے۔ اگر ڈگریاں حاصل کرلی تو لو جی جناب آپ کا تعلق پڑھے لکھے لوگوں میں شمار ہونے لگا۔
ڈگریاں اپنی جگہ تعلیم و تربیت اپنی جگہ اور انسانیت اپنی جگہ! مگر اب وقت ہم سے کہہ رہا ہے کہ اے انسان! ذراکچھ شعور اورآگاہی کے دروازے کھول اورکچھ کھلی فضا میں سانس لے اور دیکھ کہ زندگی کتنی خوبصورت اور آسان ہے۔شعور اورآگاہی کے دروازے جب کھل جاتے ہیں تو انسان اپنے آپ کو واقعی انسان سمجھنے لگتا ہے کہ اس کو فرض بھی یاد آتے ہیں اور حقوق بھی پھر وہ اندھیروں کو بھی سمجھتا ہے اور روشنی کی بات بھی کرتا ہے۔ اس کو سیڑھیاں بھی نظر آتی ہیں اور پستیوں میں جھانکنے کی صلاحیت بھی آجاتی ہے۔
ورنہ بہت سے تو ایسے ہمارے اردگرد ہیں جنھوں نے اپنی ساری زندگی مصنوعی انداز میں ہی گزاردی۔ ادھوری ادھوری بیکار بیکار کہ نہ خدا ملا نہ وصال صنم۔ بس وہ اپنی موج و مستی میں ایسے مست رہیں کہ اپنی زندگی کو بھی نہ پہچان سکیں کہ کہاں ہے منزل اور کہاں ہے ٹھکانہ۔ جو مل گیا تھا شاید وہی مقدر تھا اور جو نہ ملا وہ شاید نصیب میں ہی نہیں تھا۔
مگر یقین جانیے شعور اور آگاہی ایسی بیش قیمت سوغات ہیں جو جس کو مل جائے اس کی زندگی آسان اور صاف و ستھری ہوجائے ۔علم تو سچ کے راستے کھولتا ہے۔ اور دھوکہ و فریب گناہ کی طرف دھکیلتا ہے۔ بار بار بتایا جاتا ہے سمجھایا جاتا ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے اپنے آپ کو صاف و ستھرا رکھیے اپنے اردگرد کی جگہوں کو صاف و ستھرا رکھیے لیکن جب والدین بچوں کو لے کر پارکوں کی طرف نکلتے ہیں اورکھانے پینے کے لوازمات بھی اپنے ساتھ لے کر آتے ہیں ، مائیں اپنے بچوں کو چپس، بسکٹس، فاسٹ فوڈز کھلارہی ہوتی ہیں۔
ڈرنکس کا بھی استعمال ہو رہا ہوتا ہے اور محبت کا عالم یہ کہ تمام خالی ڈبے اورخالی بوتلیں پارکوں میں لگے کوڑے دان Dustbin کی بجائے ادھر ادھر پھینک دیے جاتے ہیں اور سب کے جانے کے بعد اگر ان پارکوں کا جائزہ لیا جائے تو ان کی خوبصورتی کچرے کے ڈھیروں میں تبدیل ہوجاتی ہے کچھ لوگ تو گھروں سے سالن روٹی لے کر آتے ہیں اور وہ باقی بچا ہوا رزق ایسے ہی چھوڑ کر چلے جاتے ہیں حالانکہ ہر پارک میں بڑے بڑے Dust Bin ہوتے ہیں۔
چھوٹے بچوں کے والدین بچوں کے گندے Diapers تک ادھر ادھر پھینک دیتے ہیں حالانکہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ پھر واپس ان ہی پارکوں میں آئیں گے گندگی وغلاظت تو ایک طرف ان سے پھیلنے والے جراثیم اور مچھر مکھی اور دوسرے کیڑے الگ۔
خدارا! کھولیے اپنے عقل وشعور اورآگاہی کے دروازے۔ مائیں اپنے آپ کو زیادہ کام سے بچانے کے لیے اپنے بچوں کے لیے اور بڑوں کے لیے بھی فروزن کھانے جو پکے پکائے باآسانی دستیاب ہیں فریزر میں بھر لیے جاتے ہیں کہ جب دل چاہا مائیکرو ویو میں گرم کیا اور کھا لیا۔ بچوں کو اسکول لنچ میں دے دیا، اس کا ان کی صحت پر اور علم و یادداشت پر کیا اثر پڑے گا کچھ پتا نہیں۔ پہلے زمانوں میں والدین اصلی گھی،گڑ، شہد، بکرے کا گوشت وغیرہ ان ہی چیزوں کو فوقیت دیتے تھے کہ بچوں کی نشوونما اچھی ہو صحت اچھی شاید یہی وجہ ہے کہ غیرت اور شرم و حیا کا رجحان بھی تھا، اب مصنوعی خوراک پر پلی ہوئی مرغیاں مختلف باہر کے مارجرین اور جلدی امیر بننے والے نسخوں نے سر سے لے کر پیر تک ایسی بے حسی ڈالی ہے کہ سمجھ سے باہر۔
جوان اولاد اپنے والدین سے سیکھنے کی بجائے سکھانے پر تلی ہوتی ہے۔ والدین دوستانہ ماحول کا نعرہ لگا کر پستیوں کی طرف خود اپنی مرضی سے جا رہے ہیں۔ ہم تو اپنے بچوں کا بہترین مستقبل چاہتے ہیں۔ اکثر یہ جملے والدین ادا کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اندر سے شدید خوف زدہ کہ بڑھاپے میں اولاد کا سہارا نصیب ہوتا ہے یا نہیں۔عجیب گھٹن والا ماحول کہ جس میں لوگ اپنے دل کی بات اپنے بچوں سے کرنے سے ڈرتے ہیں کہ کہیں کسی کو کچھ برا نہ لگ جائے۔
بڑے بڑے خوبصورت گھر اور چار چھ گھروں کے بعد کچرے کا ڈھیر، بسانت، جراثیم اور گندگی، اپنے اپنے گھروں سے گندگی نکال کر ڈھیر درڈھیر جمع کرتے رہیں اور اپنے دروازے بند کرلیں، کسی اچھے air freshner کا استعمال کرلیا، اللہ اللہ خیر صلہ۔ ہفتوں یہ گندگی کے ڈھیر آتے جاتے تمام لوگوں کی نظروں کے سامنے ہوتے ہیں اور بڑھ بھی رہے ہوتے ہیں لیکن شاید گاڑیوں کے بند شیشے ان کی بدبو سے محفوظ رکھتے ہیں۔لاکھوں،کروڑوں لگا کر یہ بڑے بڑے گھر بنائے جاتے ہیں سجائے جاتے ہیں مگر ہزاروں خرچ کرکے ان کچروں کے لیے کوئی معقول انتظام نہیں ہوتا۔ پتا نہیں ڈگریاں کہاں رہ جاتی ہیں علم کے دروازے کیوں بند ہوجاتے ہیں؟
سگنل کی لال بتی پرکھڑی ہوتی گاڑیاں بھی آگے والی گاڑی کو ہارن دے رہی ہوتی ہیں ان کو کیا عقل کے اندھے کہیں یا جاہل،، بڑی بڑی گاڑیوں میں بیٹھے حضرات بھی کبھی یہ جہالت کرتے نظر آئے، پانی پیا اور خالی بوتل چلتی ہوئی گاڑی سے باہر پھینک دی، اگر پان کھانے کے عادی ہیں تو پان کی پیک بھی چلتی ہوئی گاڑی سے پھینکنے پر باز نہیں آئیں گے۔ اکثر شاپنگ سینٹر پر بھی آپ کو پان کی پیک سے گل وگلزار بنے ہوئے نظر آئیں گے۔
اب ان کو کون سمجھائے کہ یہ گندگی وغلاظت، گھن آنے کی حد تک غلیظ عادتوں میں شامل ہے۔ اللہ کے بندوں فیشن اور سیاست کے ساتھ ساتھ اگر صفائی بھی سیکھ لی ہوتی تو کیا برائی تھی، شعور اورآگاہی خالی پروفیسر، لیکچرار، ججز اورلکھاریوں کے لیے ضروری نہیں یہ تو ہر عام انسان کی میراث ہے، جس کا ان کے پاس ہونا ضروری ہے۔
اکثر گھروں میں پانی کے نلکوں میں ہلکے ہلکے رساؤ ہو رہا ہوتا ہے ، توجہ ہی نہیں۔ واش رومز اور باورچی خانوں کی بتیاں شام سے کھلی ہے تو کھلی ہے۔ اپنے گھر کا تمام دن کا کچرا رات کو گھر سے باہر نکال دیا، بھوکی بلیوں نے پوری رات اس کچرے کا پوسٹمارٹم کیا اور دروازے کے باہر کی جگہ کو کچرے سے سجا دیا۔ اب جب تک جمعدار نہیں آتا کچرا یوں ہی سجارہے گا،یہ کون سی کتابوں میں لکھا ہے اب تک سمجھ نہیں آیا۔بڑے بڑے ڈپارٹمنٹل اسٹورزہر نعمت سے بھرے ہوتے ہیں۔ سبزیاں وفروٹ، دالیں،چاول اورروزانہ کی ضروریات کا سامان بھرا ہوا ہے، بہت کم لوگ ڈبوں پر لکھی تحریرکو پڑھ کر خریداری کرتے ہوں گے۔
بہرحال ہمارے ملک میں تعلیم اورصحت پر بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے یہ حکومتی سطح پر بھی ہو اورانفرادی سطح پر بھی۔ انٹرنیٹ خالی کھیل تماشا نہیں۔ معلومات سے بھرا خزانہ ہے تھوڑا ساوقت نکالیے اورتھوڑی تھوڑی سی معلومات بھی حاصل کریں گے تو ایک دن کافی خزانہ جمع ہوجائے گا،مت سیکھیے لوگوں کو بے وقوف بنانے کے طریقے، مت آزمائیے چھوٹی زبان، مت کیجیے جھوٹے وعدے کہ یہ آخر میں آپ کو رسوائی کے علاوہ کچھ دینے والے نہیں۔
چھوٹی چھوٹی سچائیاں بڑی بڑی خوشیاں دے سکتی ہیں،گندگی وغلاظت چاہے ذہنی ہو یا جسمانی یا معاشرتی سوچئے ضرورکہ کیسے ان سے نجات پائی جاسکتی ہے۔ ہر انسان کو اپنی اپنی قبر میں جانا ہے اپنا ایک حساب دینا، رشتے،ناتے تو صرف دنیا کے لیے اللہ کے پاس کوئی رشتہ کام نہیں آنے والا، جو کچھ بوئیں گے وہی کچھ کاٹیں گے،کیکٹس کا پودا لگایا ہے تو اس میں سے کبھی ٹماٹرنہیں اگیں گے،کانٹے والے پتے ہی آئینگے،ناگہانی مصیبتیں اورپریشانیاں بھی ہمارے اپنے ہی گناہوںکی وجہ سے ہوتی ہیں بالکل اسی طرح جس طرح عجیب عجیب، مارنے والی بیماریاں جسموں کوگلا دیتی ہیں لوگ قریب آنے سے ڈرتے ہیں اور آخرکارایک بری موت مقدر بنتی ہے۔