محبت جب دل سے ہو تو۔۔۔
محبت ایسا خوب صورت اور شیریں ترین جذبہ ہے جس کے سہارے زندگی رواں بھی ہے اور سہل بھی۔
کچھ احساسات اور جذبات ان چیزوں میں سے ہیں، جو اشرف المخلوقات کا خاصہ ہیں، اسی بنا پر انہیں ''انسانی جذبات'' سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔۔۔ اگرچہ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ دیگر جان داروں میں یہ جذبات سرے سے موجود ہی نہیں۔۔۔ شعور نہ رکھنے کے باوجود جانور بھی واضح طور پر خوشی، غم، غصے اور محبت کا اظہار کرتے ہیں۔۔۔ ماں اور بچے کی لگن کا جذبہ سب ہی جان داروں میں عیاں نظر آتا ہے۔
یہی نہیں نباتات میں بھی اس کی بہتیری نظیریں سامنے آئی ہیں، کہ جب ایک پودا یا درخت کاٹ دیا گیا یا کسی وجہ سے ختم ہوا تو دیکھتے ہی دیکھتے اس کے برابر والا سرسبز پودا بھی سوکھتا چلا گیا۔ ان حقائق کے باوجود انسانی جذبات کہلانے والے احساسات کی توقع انسانوں سے ہی کی جاتی ہے۔۔۔ محبت ایسا ہی خوب صورت اور شیریں ترین جذبہ ہے، جس کے سہارے زندگی رواں بھی ہے اور سہل بھی۔۔۔ گو کہ بعض اوقات یہی جذبہ جیون کو بہت سی کٹھنائیوں میں بھی دھکیل دیتا ہے، بالخصوص جب یہ جذبہ یک طرفہ ہو یا کسی محبی کی دوری سے واسطہ اور سابقہ پڑ جائے۔۔۔ محبوب کی بے وفائی یا توقعات کے برعکس رویوں کا سامنا کرنا پڑے،مگر درج ذیل میں ہم اس عظیم جذبے سے نتھی چند حقیقی واقعات پیش کر رہے ہیں۔
سرد جنگ میں جھلستی ایک محبت
محبت کے لطیف جذبے کے تحت جب ایک مرد اور ایک عورت شادی کے بندھن میں بندھتے ہیں، تو یہ ایک باضابطہ اعلان ہوتا ہے کہ آنے والے جیون میں وہ ایک دوسرے کے دکھ سکھ کے ساتھی ہیں، لیکن تقدیر بعض اوقات عجب کھلواڑ کرتی ہے۔۔۔ انہیں ملنے نہیں دیتی۔۔۔ پریمیوں کے بیچ لمحوں کی دوری، صدیوں جیسی بن جاتی ہے۔۔۔ مگر کبھی یوں بھی بیتتا ہے کہ کاتب تقدیر نے یہ فاصلے ملن کی سعید گھڑی کے بعد لکھے ہوتے ہیںایرینا(Irina) اور ووڈ فورڈ مکلیلن (Woodford McClellan) کے معاملے میں کچھ ایسا ہی تو ہوا۔
یہ 1970ء کے اوائل کا زمانہ تھا۔۔ایرینا اُس وقت کے سوویت یونین کے دارالحکومت ماسکو میں بین الاقوامی تعلقات اور عالمی معیشت کے ایک ادارے میں کام کرتی تھیں۔ جہاں ایک امریکی پروفیسر ووڈ فورڈ مکلیلن سے ملاقات ہوئی، جو دھیرے دھیرے دل کے تعلقات میں بدلتی چلی گئی، چناں چہ انہوں نے 1974ء میں شادی کر لی۔ اس کے فوراً بعد ہی اگست میں ووڈفورڈ کا ویزہ ختم ہو گیا اور انہیں سوویت یونین چھوڑنا پڑ گیا۔ اس وقت انہوں نے یہ تصور بھی نہیں کیا ہوگا کہ وہ اگلے گیارہ برس تک ایک دوسرے کو دیکھ بھی نہ سکیں گے۔۔۔! کچھ عرصے بعد جب انہوں نے دوبارہ اپنی شریک سفر کے پاس جانے کے لیے ماسکو کا رخت سفر باندھا تو سیاسی مسائل ان کی راہ میں حائل ہو گئے۔۔۔ دوسری طرف لرینا کو بھی کچھ ایسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا، انہیں بھی ملک سے نکلنے کی اجازت نہ مل سکی۔
اس نوبیاہتا جوڑے نے شادی کے بعد گیارہ برس فون کال، کارڈ اور تصاویر کے تبادلوں میں گزارے۔ اسی آس کے تحت کہ وہ کبھی نہ کبھی پھر ملیں گے۔۔۔ ان کی یہ امید 11 برس بعد جنوری 1986ء میں بر آئی، جب لرینا نے بالآخر واشنگٹن کے ہوائی اڈے تک رسائی حاصل کر ہی لی، جہاں ان کے شوہر نے کھلی بانہوں سے ان کا استقبال کیا۔۔۔ ایک دہائی قبل ایک ایسے ہی ہوائی اڈے پر وہ جدا ہوئے تھے اور آج ملن کے سمے بھی وہ ایک ہوائی اڈے پر تھے۔۔۔ ذرایع اِبلاغ کے کئی نامہ نگاروں نے اس دل آویز ملاپ کا مشاہدہ کیا اور عکس بند کیا۔ لرینا نے اپنے اس تجربے کو کتاب Of Love and Russia: The Eleven-Year Fight for My Husband and Freedom. میں بھی قلم بند کیا ہے۔
ملن کے بیچ 60 برس کی دیوار۔۔۔
ایناکوزلوف (Anna Kozlov)بوریس اور (Boris adieu) کا قصہ سائبیریا کے گاؤں بورولینکا (Borovlyanka) میں شروع ہوا۔ بوریس پہلی ملاقات میں ہی اینا کی آنکھوں کے سِحر میں جکڑ گئے، پھر یہ جوڑا جلد ازدواجی تعلقات میں بندھ گیا۔۔۔ یہ 1946ء کی بات ہے، اس ناتے سے جڑتے ہی دونوں کی ایک نئی آزمایش شروع ہونے والی تھی۔ ایناکوزلوف (Anna Kozlov) محض تین دن کی دُلہن تھیں کہ ان کے شوہر بوریس (Boris adieu) کو سوویت فوج کے رکن کی حیثیت سے واپسی کا راستہ لینا پڑا۔ اُدھر اینا کو اس انتظار کے جبر میں مع خاندان سائیبریا سے جلا وطنی کا ایک اور وار بھی سہنا پڑ گیا۔۔۔ اس آپا دھاپی میں وہ اپنے سرتاج سے کوئی رابطہ نہیں کر سکیں۔ بوریس لوٹا تو سال بھر ایرینا کی راہ تکتا رہا، مگر اینا تو کوئی نام ونشاں چھوڑے بغیر کہیں لاپتا ہو گئی تھی۔
بوریس نے ہر وہ طریقہ آزما کر دیکھ لیا، جس سے ایرینا تک پہنچنا ممکن تھا، مگر ہر وقت اس کی آمد کی منتظر ایرینا کا کوئی سراغ ہی نہ مل سکا، وہ بھی مایوس ہو کر شادی کر لیتا ہے۔ ایریناکہتی ہیں کہ دَم رخصت ان کے سان و گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ ساٹھ برس طویل ایک کٹھن دوری کا آغاز ہے۔ یہ زندگی کی سب سے دکھ بھری گھڑی تھی۔ ایرینا کی ماں نے ان کو شادی کے لیے تیار کرنے کے لیے کہا کہ بوریس شادی کر چکا ہے، اسے باور کرایا کہ بوریس اسے بھول چکا ہے، تبھی تو کوئی خط نہیں آیا، مگر اینا کے لیے شوہر کو بھلانا آسان نہ تھا۔ ایریناکی ماں نے ایک دن وہ تمام خطوط، شادی کی تصاویر اور اس ناتے سے جڑی ہر چیز آگ میں جھونک دی اور انہیں ایک اور لڑکے سے شادی کرنے کو کہا، اینا اس کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھیں، ان کا جی چاہا گلے میں پھندا ڈال کر خود کُشی کر لے، مگر والدہ کے دباؤ اور سختی کے آگے انہیں ہتھیار ڈالنا پڑے۔ دوسری طرف بوریس نے بھی بالآخر شادی کر لی۔ ایک کتاب لکھی جو اس لڑکی کے نام کی، جو نو عمری میں کسی سپاہی سے بیاہی گئی اور فقط تین دن ساتھ رہ سکی۔
ساٹھ برس بیت گئے۔۔۔ سمے نے ایک اور کروٹ لی۔۔۔ دونوں ہی کے شریک حیات داغ مفارقت دے گئے۔ انا ایک بار پھر اپنے آبائی گھر جانے کے قابل ہوئیں، جو بوریس سے ملنے کا وسیلہ بن گئی۔ بوریس وہاں کے قبرستان اپنے والدین کی قبروں پر آئے تھے۔ بوریس نے 60 سال بعد جب اینا کو دیکھا توکہتے ہیں ''میں ان پر سے اپنی نظریں ہٹانا بھول گیا، اگرچہ علیحدگی کے بعد میں نے دوسرے لوگوں سے بھی محبت کی، مگر انا میری زندگی کا حقیقی پیار تھا۔''
ایرینا کے الفاظ میں انہیں ایسا لگا کہ ان کی آنکھیں انہیں دھوکا دے رہی ہیں۔ انہوں نے ایک شخص کو ٹکٹکی باندھے اپنی طرف متوجہ پایا، ان کا دل بھی زور سے اچھلا، جب انہوں نے یہ جان لیا کہ یہ تو بوریس ہیں۔۔۔! خوشی کے عالم میں ان کے آنسو بہنے لگے۔ بوریس اب 80 سال کے ہو چکے تھے، وہ دوڑ کر ان کی طرف لپکے اور انہیں پکارا ''عزیزمن، میں کتنے طویل عرصے سے تمہارا انتظار کر رہا ہوں، میری شریک حیات میری زندگی۔''
دوبارہ ملن کے بعد انہوں نے نصف صدی قبل ساتھ بیتے تمام پل تازہ کیے۔۔۔ 60 سال پرانی ہر وہ یاد جو دونوں کے ذہنوں میں محفوظ تھی۔ بوریس نے انہیں دوبارہ شادی کی پیشکش کی، انہوں نے اسے قبول کرنے میں تامل کیا۔ اس پس وپیش کا سبب یہ تھا کہ وہ عمر کے اس حصے میں دُلہن کا روپ دھارنا نہیں چاہتی تھیں، ان کا خیال تھا کہ وہ دوبارہ مل گئے، باقی زندگی بتانے کے لیے یہی کافی ہے، لیکن جب بوریس کا اصرار بڑھا، تو انہیں ماننا پڑا۔
امریکا کے طویل العمر جوڑے کی پریم کتھا
اُس وقت شامی نژاد ایناa Ann کی عمر 17 برس تھی، جب کہ جون 21 برس کے تھے۔۔۔ دونوں ہم سائے میں رہائش پذیر رہے، اسکول کے توسط سے دوستی کی راہ بھی ہم وار ہوئی، جب یہ دوستی رشتے میں بدلنا چاہی تو 'این' کے والدین مزاحم ہوئے اور انہوں نے ایک دوسری جگہ شادی طے کرنا چاہی، این نے وہ رشتہ قبول کرنے سے انکار کر دیا اور گھر چھوڑ دیا اور نیو یارک پہنچ کر جون سے شادی کر لی۔ یہ 1932ء کا زمانہ تھا۔ زندگی کے سرد وگرم سے گزرتے ہوئے نومبر 2014ء میں ان کی شادی کے 82 برس مکمل ہوئے۔ ان کے پانچ بچے، 14 نواسے نواسیاں اور پوتے پوتیاں، جب کہ پڑنواسے، پڑنواسیاں، پڑپوتے اورپڑپوتیوں کی تعداد 16 ہے۔ آج جون (John Betar) اور اینا (Anna Betar) امریکا کے طویل العمر جوڑے کا اعزاز حاصل کر چکے ہیں۔ جون کی عمر 104 سال جب کہ اینا کی عمر کی نقدی تہرے ہندسے میں پہنچنے کو ہے۔
سو سال کی عمر میں ایک ہونے کا پیماں۔۔۔
عموماً شادی کی ایک مخصوص عمر قرار پاتی ہے۔۔۔ اس عمر کے لد جانے کے بعد رشتہ ازدواج میں بندھنے کے امکانات محدود تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔۔۔ مگر یہ دھرتی بھی اَن ہونے واقعات سے خالی نہیں۔۔۔ یہ کتھا بھی اُن ہی میں سے ایک ہے۔ 1983ء میں امریکا کے فوریسٹ (Forrest Lunsway) اور روز پولارڈ (Rose Pollard) ایک تقریب میں ملے۔ اُس وقت دونوں کے شریک حیات دنیا سے رخصت ہو چکے تھے۔ روز شوہر کی علالت اور انتقال کے بعد بہت دل برداشتہ تھیں۔۔۔ انہوں نے قصد کیا کہ وہ دوسری شادی نہیں کریں گی۔
البتہ وہ اپنی زندگی گزارنے کے لیے کسی کا ساتھ چاہتی تھیں۔۔۔ یہ ساتھ انہیں اب فوریسٹ (Forrest Lunsway) کی صورت میں دست یاب تھا۔۔۔ وہ دونوں ایک دوسرے سے ملنے کے لیے 40 میل کا فاصلہ طے کر کے آتے تھے۔ یہ سلسلہ محبت دو دہائیوں تک جاری رہا۔ فورسٹ اکثر روز کی خاطر دُہرا فاصلہ طے کرتا، اور اسے واپس بھی چھوڑ کر آتا۔ 2003ء میں جب فروسٹ زندگی کی 90 بہاریں دیکھ چکے اور روزکی عمر 80 برس کے قریب ہوتی ہے، وہ دل ہار کر روز کو شادی کی پیشکش کر ڈالتے ہیں۔
روز اسے سنجیدگی سے لینے کے بہ جائے مذاقاً ہامی بھر لیتی ہیں اورکہتی ہیںکہ اگر وہ سو برس تک زندہ رہے، تو وہ ان کی سوویں سال گرہ پر ان کی نصف بہتر بن جائیں گی۔۔۔ بات آئی گئی ہو گئی۔ گزرتے سمے نے فوریسٹ کو زندگی کی ایک صدی پر لا کھڑا کیا، تب روز کو ان کی شرط یاد دلائی گئی اور یوں وہ عین فوریسٹ کی سوویں سال گرہ کے دن ان سے رشتہ ازدواج میں بندھ گئیں۔ یہ تقریب ایک کمیونٹی سینٹر میں انجام پائی۔ شادی کے بعد ان کے ہنی مون کے لیے ہوٹل بلا معاوضہ دیا۔ دنیا بھر سے انہیں مبارک باد کے پیغام موصول ہوئے۔ امریکی صدر باراک اوباما اور خاتون اول مشیل اوباما نے بھی اس معمر جوڑے کو نئی زندگی شروع کرنے پر تہنیتی پیغام ارسال کیے۔
بیماری بھی انہیں دور نہ کرسکی!
دس برس قبل بننے والی ایک فلم ''نوٹ بک'' ایک خاتون کے جذبات کا بیان تھی۔ یہ ایک ناول پر بنائی گئی تھی، 1990ء کی دہائی کے اوائل میں برطانیہ کے جیک(Jack) اور فلیس (Phyllis) اس کہانی کے حقیقی کردار بن گئے۔ (Jack Potter) نے ڈیمنشیا نامی بیماری کی تنہائی میں اپنی محبت کو دور نہیں جانے دیا۔ جیک اور فلیس 4 اکتوبر 1941ء کو پہلی بار ملے۔ انہوں نے اس وقت کو اپنے ڈائری میں قلم بند کر لیا کہ جیک فلیس کو اسی وقت سے پسند کرنے لگا تھا، جس لمحے وہ اس سے ملا تھا۔
محض 16 ماہ بعد وہ دونوں شادی کے بندھن میں بندھ گئے اورکینٹ (Kent) انگلستان میں رہائش اختیار کی اس رفاقت کو نصف صدی بیت گئی۔ اُدھر وقت گزرتے کے ساتھ فلیس کے مرض کی شدت بڑھتی گئی اور جیک کے لیے انہیں سنبھالنا بہت مشکل ہو گیا، چناں چہ انہیں ایک نرسنگ ہوم میں داخل کرانا پڑا، لیکن وہ خود کو اس سے دور نہیں رکھ پائے۔ کوئی دن جاتا ہے کہ جب وہ ان سے ملنے نہ جاتے ہوں۔
وہ اس کے حوالے سے اپنے روزنامچے میں رقم وہ الفاظ پڑھتے اور اس محبت کی حلاوت کو محسوس کرتے۔۔۔ یادیں تازہ کرتے ہوئے اسے نہ بھولتا کہ فلیس اس سے کتنی محبت کرتی ہے۔ جب بھی جیک اس کے پاس جاتا وہ خوشی کا اظہار کرتی۔ آج ان کی شادی کو 70 برس بیت رہے ہیں۔ جیک کی عمر 91 جب کہ ان کی رفیقۂ حیات فلیس کی عمر 93 برس ہو چکی ہے، لیکن وہ دنیا بھر کے محبت کرنے والوں کے لیے ایک مثال بن چکے ہیں۔ فلیس کی شدید بیماری کی بنا پر اسے نرسنگ ہوم میں داخل کرانا پڑا، لیکن جیک کی محبت نے شدید بیماری کے باوجود فلیس کی دل جوئی جاری رکھی۔
ساتھ جیے بھی اور مرے بھی ساتھ
کہتے ہیں جوڑے بنتے آسمانوں پر ہیں، ملتے زمین پر ہیں۔۔۔ عرش پر اس ناتے کی استواری کی ایک نظیر امریکا کی (Les Brown Jr.) اور (Helen) کی جوڑی ہے۔ جنہوں نے دنیا میں ایک ہی دن 31 دسمبر 1918ء کو آنکھ کھولی۔۔۔ پھر جب اسکول میں ایک دوسرے سے ملے تو دل ہار بیٹھے۔ دونوں کے خاندان کا طبقاتی فرق در آیا اور ان کے والدین نے اس محبت کو نہ مانا، چناں چہ اسکول سے فراغت کے بعد دنوں نے فرار اختیار کی اور جنوبی کیلیفورنیا میں بسے۔ دونوں محبت کرنے والوں نے جیون کا ایک ایک پل ساتھ بِتایا، یہاں تک کہ 90 برس کی عمر تک یہ جوڑا مستعد اور صحت مند رہا، لیکن اس کے بعد ہیلن معدے کے سرطان کا شکار ہو جاتی ہیں۔
لیس شریک حیات کے موذی مرض کا گہرا اثر لیتے ہیں، انہیں اعصابی بیماری Parkinson's لاحق ہو جاتی ہے۔ ہیلن شادی کے 75 برس بعد 16 جولائی 2013ء کو اس دار فانی سے کوچ کر جاتی ہیں۔ زندگی بھر ساتھ جینے مرنے کی افسانوی اور کتابی باتیں حقیقت بنتی ہیں اور اگلے دن ہی ان کے نصف بہتر لیس (Les Brown Jr.) بھی اس جہان کو خیر آباد کہہ دیتے ہیں۔
یہی نہیں نباتات میں بھی اس کی بہتیری نظیریں سامنے آئی ہیں، کہ جب ایک پودا یا درخت کاٹ دیا گیا یا کسی وجہ سے ختم ہوا تو دیکھتے ہی دیکھتے اس کے برابر والا سرسبز پودا بھی سوکھتا چلا گیا۔ ان حقائق کے باوجود انسانی جذبات کہلانے والے احساسات کی توقع انسانوں سے ہی کی جاتی ہے۔۔۔ محبت ایسا ہی خوب صورت اور شیریں ترین جذبہ ہے، جس کے سہارے زندگی رواں بھی ہے اور سہل بھی۔۔۔ گو کہ بعض اوقات یہی جذبہ جیون کو بہت سی کٹھنائیوں میں بھی دھکیل دیتا ہے، بالخصوص جب یہ جذبہ یک طرفہ ہو یا کسی محبی کی دوری سے واسطہ اور سابقہ پڑ جائے۔۔۔ محبوب کی بے وفائی یا توقعات کے برعکس رویوں کا سامنا کرنا پڑے،مگر درج ذیل میں ہم اس عظیم جذبے سے نتھی چند حقیقی واقعات پیش کر رہے ہیں۔
سرد جنگ میں جھلستی ایک محبت
محبت کے لطیف جذبے کے تحت جب ایک مرد اور ایک عورت شادی کے بندھن میں بندھتے ہیں، تو یہ ایک باضابطہ اعلان ہوتا ہے کہ آنے والے جیون میں وہ ایک دوسرے کے دکھ سکھ کے ساتھی ہیں، لیکن تقدیر بعض اوقات عجب کھلواڑ کرتی ہے۔۔۔ انہیں ملنے نہیں دیتی۔۔۔ پریمیوں کے بیچ لمحوں کی دوری، صدیوں جیسی بن جاتی ہے۔۔۔ مگر کبھی یوں بھی بیتتا ہے کہ کاتب تقدیر نے یہ فاصلے ملن کی سعید گھڑی کے بعد لکھے ہوتے ہیںایرینا(Irina) اور ووڈ فورڈ مکلیلن (Woodford McClellan) کے معاملے میں کچھ ایسا ہی تو ہوا۔
یہ 1970ء کے اوائل کا زمانہ تھا۔۔ایرینا اُس وقت کے سوویت یونین کے دارالحکومت ماسکو میں بین الاقوامی تعلقات اور عالمی معیشت کے ایک ادارے میں کام کرتی تھیں۔ جہاں ایک امریکی پروفیسر ووڈ فورڈ مکلیلن سے ملاقات ہوئی، جو دھیرے دھیرے دل کے تعلقات میں بدلتی چلی گئی، چناں چہ انہوں نے 1974ء میں شادی کر لی۔ اس کے فوراً بعد ہی اگست میں ووڈفورڈ کا ویزہ ختم ہو گیا اور انہیں سوویت یونین چھوڑنا پڑ گیا۔ اس وقت انہوں نے یہ تصور بھی نہیں کیا ہوگا کہ وہ اگلے گیارہ برس تک ایک دوسرے کو دیکھ بھی نہ سکیں گے۔۔۔! کچھ عرصے بعد جب انہوں نے دوبارہ اپنی شریک سفر کے پاس جانے کے لیے ماسکو کا رخت سفر باندھا تو سیاسی مسائل ان کی راہ میں حائل ہو گئے۔۔۔ دوسری طرف لرینا کو بھی کچھ ایسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا، انہیں بھی ملک سے نکلنے کی اجازت نہ مل سکی۔
اس نوبیاہتا جوڑے نے شادی کے بعد گیارہ برس فون کال، کارڈ اور تصاویر کے تبادلوں میں گزارے۔ اسی آس کے تحت کہ وہ کبھی نہ کبھی پھر ملیں گے۔۔۔ ان کی یہ امید 11 برس بعد جنوری 1986ء میں بر آئی، جب لرینا نے بالآخر واشنگٹن کے ہوائی اڈے تک رسائی حاصل کر ہی لی، جہاں ان کے شوہر نے کھلی بانہوں سے ان کا استقبال کیا۔۔۔ ایک دہائی قبل ایک ایسے ہی ہوائی اڈے پر وہ جدا ہوئے تھے اور آج ملن کے سمے بھی وہ ایک ہوائی اڈے پر تھے۔۔۔ ذرایع اِبلاغ کے کئی نامہ نگاروں نے اس دل آویز ملاپ کا مشاہدہ کیا اور عکس بند کیا۔ لرینا نے اپنے اس تجربے کو کتاب Of Love and Russia: The Eleven-Year Fight for My Husband and Freedom. میں بھی قلم بند کیا ہے۔
ملن کے بیچ 60 برس کی دیوار۔۔۔
ایناکوزلوف (Anna Kozlov)بوریس اور (Boris adieu) کا قصہ سائبیریا کے گاؤں بورولینکا (Borovlyanka) میں شروع ہوا۔ بوریس پہلی ملاقات میں ہی اینا کی آنکھوں کے سِحر میں جکڑ گئے، پھر یہ جوڑا جلد ازدواجی تعلقات میں بندھ گیا۔۔۔ یہ 1946ء کی بات ہے، اس ناتے سے جڑتے ہی دونوں کی ایک نئی آزمایش شروع ہونے والی تھی۔ ایناکوزلوف (Anna Kozlov) محض تین دن کی دُلہن تھیں کہ ان کے شوہر بوریس (Boris adieu) کو سوویت فوج کے رکن کی حیثیت سے واپسی کا راستہ لینا پڑا۔ اُدھر اینا کو اس انتظار کے جبر میں مع خاندان سائیبریا سے جلا وطنی کا ایک اور وار بھی سہنا پڑ گیا۔۔۔ اس آپا دھاپی میں وہ اپنے سرتاج سے کوئی رابطہ نہیں کر سکیں۔ بوریس لوٹا تو سال بھر ایرینا کی راہ تکتا رہا، مگر اینا تو کوئی نام ونشاں چھوڑے بغیر کہیں لاپتا ہو گئی تھی۔
بوریس نے ہر وہ طریقہ آزما کر دیکھ لیا، جس سے ایرینا تک پہنچنا ممکن تھا، مگر ہر وقت اس کی آمد کی منتظر ایرینا کا کوئی سراغ ہی نہ مل سکا، وہ بھی مایوس ہو کر شادی کر لیتا ہے۔ ایریناکہتی ہیں کہ دَم رخصت ان کے سان و گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ ساٹھ برس طویل ایک کٹھن دوری کا آغاز ہے۔ یہ زندگی کی سب سے دکھ بھری گھڑی تھی۔ ایرینا کی ماں نے ان کو شادی کے لیے تیار کرنے کے لیے کہا کہ بوریس شادی کر چکا ہے، اسے باور کرایا کہ بوریس اسے بھول چکا ہے، تبھی تو کوئی خط نہیں آیا، مگر اینا کے لیے شوہر کو بھلانا آسان نہ تھا۔ ایریناکی ماں نے ایک دن وہ تمام خطوط، شادی کی تصاویر اور اس ناتے سے جڑی ہر چیز آگ میں جھونک دی اور انہیں ایک اور لڑکے سے شادی کرنے کو کہا، اینا اس کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھیں، ان کا جی چاہا گلے میں پھندا ڈال کر خود کُشی کر لے، مگر والدہ کے دباؤ اور سختی کے آگے انہیں ہتھیار ڈالنا پڑے۔ دوسری طرف بوریس نے بھی بالآخر شادی کر لی۔ ایک کتاب لکھی جو اس لڑکی کے نام کی، جو نو عمری میں کسی سپاہی سے بیاہی گئی اور فقط تین دن ساتھ رہ سکی۔
ساٹھ برس بیت گئے۔۔۔ سمے نے ایک اور کروٹ لی۔۔۔ دونوں ہی کے شریک حیات داغ مفارقت دے گئے۔ انا ایک بار پھر اپنے آبائی گھر جانے کے قابل ہوئیں، جو بوریس سے ملنے کا وسیلہ بن گئی۔ بوریس وہاں کے قبرستان اپنے والدین کی قبروں پر آئے تھے۔ بوریس نے 60 سال بعد جب اینا کو دیکھا توکہتے ہیں ''میں ان پر سے اپنی نظریں ہٹانا بھول گیا، اگرچہ علیحدگی کے بعد میں نے دوسرے لوگوں سے بھی محبت کی، مگر انا میری زندگی کا حقیقی پیار تھا۔''
ایرینا کے الفاظ میں انہیں ایسا لگا کہ ان کی آنکھیں انہیں دھوکا دے رہی ہیں۔ انہوں نے ایک شخص کو ٹکٹکی باندھے اپنی طرف متوجہ پایا، ان کا دل بھی زور سے اچھلا، جب انہوں نے یہ جان لیا کہ یہ تو بوریس ہیں۔۔۔! خوشی کے عالم میں ان کے آنسو بہنے لگے۔ بوریس اب 80 سال کے ہو چکے تھے، وہ دوڑ کر ان کی طرف لپکے اور انہیں پکارا ''عزیزمن، میں کتنے طویل عرصے سے تمہارا انتظار کر رہا ہوں، میری شریک حیات میری زندگی۔''
دوبارہ ملن کے بعد انہوں نے نصف صدی قبل ساتھ بیتے تمام پل تازہ کیے۔۔۔ 60 سال پرانی ہر وہ یاد جو دونوں کے ذہنوں میں محفوظ تھی۔ بوریس نے انہیں دوبارہ شادی کی پیشکش کی، انہوں نے اسے قبول کرنے میں تامل کیا۔ اس پس وپیش کا سبب یہ تھا کہ وہ عمر کے اس حصے میں دُلہن کا روپ دھارنا نہیں چاہتی تھیں، ان کا خیال تھا کہ وہ دوبارہ مل گئے، باقی زندگی بتانے کے لیے یہی کافی ہے، لیکن جب بوریس کا اصرار بڑھا، تو انہیں ماننا پڑا۔
امریکا کے طویل العمر جوڑے کی پریم کتھا
اُس وقت شامی نژاد ایناa Ann کی عمر 17 برس تھی، جب کہ جون 21 برس کے تھے۔۔۔ دونوں ہم سائے میں رہائش پذیر رہے، اسکول کے توسط سے دوستی کی راہ بھی ہم وار ہوئی، جب یہ دوستی رشتے میں بدلنا چاہی تو 'این' کے والدین مزاحم ہوئے اور انہوں نے ایک دوسری جگہ شادی طے کرنا چاہی، این نے وہ رشتہ قبول کرنے سے انکار کر دیا اور گھر چھوڑ دیا اور نیو یارک پہنچ کر جون سے شادی کر لی۔ یہ 1932ء کا زمانہ تھا۔ زندگی کے سرد وگرم سے گزرتے ہوئے نومبر 2014ء میں ان کی شادی کے 82 برس مکمل ہوئے۔ ان کے پانچ بچے، 14 نواسے نواسیاں اور پوتے پوتیاں، جب کہ پڑنواسے، پڑنواسیاں، پڑپوتے اورپڑپوتیوں کی تعداد 16 ہے۔ آج جون (John Betar) اور اینا (Anna Betar) امریکا کے طویل العمر جوڑے کا اعزاز حاصل کر چکے ہیں۔ جون کی عمر 104 سال جب کہ اینا کی عمر کی نقدی تہرے ہندسے میں پہنچنے کو ہے۔
سو سال کی عمر میں ایک ہونے کا پیماں۔۔۔
عموماً شادی کی ایک مخصوص عمر قرار پاتی ہے۔۔۔ اس عمر کے لد جانے کے بعد رشتہ ازدواج میں بندھنے کے امکانات محدود تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔۔۔ مگر یہ دھرتی بھی اَن ہونے واقعات سے خالی نہیں۔۔۔ یہ کتھا بھی اُن ہی میں سے ایک ہے۔ 1983ء میں امریکا کے فوریسٹ (Forrest Lunsway) اور روز پولارڈ (Rose Pollard) ایک تقریب میں ملے۔ اُس وقت دونوں کے شریک حیات دنیا سے رخصت ہو چکے تھے۔ روز شوہر کی علالت اور انتقال کے بعد بہت دل برداشتہ تھیں۔۔۔ انہوں نے قصد کیا کہ وہ دوسری شادی نہیں کریں گی۔
البتہ وہ اپنی زندگی گزارنے کے لیے کسی کا ساتھ چاہتی تھیں۔۔۔ یہ ساتھ انہیں اب فوریسٹ (Forrest Lunsway) کی صورت میں دست یاب تھا۔۔۔ وہ دونوں ایک دوسرے سے ملنے کے لیے 40 میل کا فاصلہ طے کر کے آتے تھے۔ یہ سلسلہ محبت دو دہائیوں تک جاری رہا۔ فورسٹ اکثر روز کی خاطر دُہرا فاصلہ طے کرتا، اور اسے واپس بھی چھوڑ کر آتا۔ 2003ء میں جب فروسٹ زندگی کی 90 بہاریں دیکھ چکے اور روزکی عمر 80 برس کے قریب ہوتی ہے، وہ دل ہار کر روز کو شادی کی پیشکش کر ڈالتے ہیں۔
روز اسے سنجیدگی سے لینے کے بہ جائے مذاقاً ہامی بھر لیتی ہیں اورکہتی ہیںکہ اگر وہ سو برس تک زندہ رہے، تو وہ ان کی سوویں سال گرہ پر ان کی نصف بہتر بن جائیں گی۔۔۔ بات آئی گئی ہو گئی۔ گزرتے سمے نے فوریسٹ کو زندگی کی ایک صدی پر لا کھڑا کیا، تب روز کو ان کی شرط یاد دلائی گئی اور یوں وہ عین فوریسٹ کی سوویں سال گرہ کے دن ان سے رشتہ ازدواج میں بندھ گئیں۔ یہ تقریب ایک کمیونٹی سینٹر میں انجام پائی۔ شادی کے بعد ان کے ہنی مون کے لیے ہوٹل بلا معاوضہ دیا۔ دنیا بھر سے انہیں مبارک باد کے پیغام موصول ہوئے۔ امریکی صدر باراک اوباما اور خاتون اول مشیل اوباما نے بھی اس معمر جوڑے کو نئی زندگی شروع کرنے پر تہنیتی پیغام ارسال کیے۔
بیماری بھی انہیں دور نہ کرسکی!
دس برس قبل بننے والی ایک فلم ''نوٹ بک'' ایک خاتون کے جذبات کا بیان تھی۔ یہ ایک ناول پر بنائی گئی تھی، 1990ء کی دہائی کے اوائل میں برطانیہ کے جیک(Jack) اور فلیس (Phyllis) اس کہانی کے حقیقی کردار بن گئے۔ (Jack Potter) نے ڈیمنشیا نامی بیماری کی تنہائی میں اپنی محبت کو دور نہیں جانے دیا۔ جیک اور فلیس 4 اکتوبر 1941ء کو پہلی بار ملے۔ انہوں نے اس وقت کو اپنے ڈائری میں قلم بند کر لیا کہ جیک فلیس کو اسی وقت سے پسند کرنے لگا تھا، جس لمحے وہ اس سے ملا تھا۔
محض 16 ماہ بعد وہ دونوں شادی کے بندھن میں بندھ گئے اورکینٹ (Kent) انگلستان میں رہائش اختیار کی اس رفاقت کو نصف صدی بیت گئی۔ اُدھر وقت گزرتے کے ساتھ فلیس کے مرض کی شدت بڑھتی گئی اور جیک کے لیے انہیں سنبھالنا بہت مشکل ہو گیا، چناں چہ انہیں ایک نرسنگ ہوم میں داخل کرانا پڑا، لیکن وہ خود کو اس سے دور نہیں رکھ پائے۔ کوئی دن جاتا ہے کہ جب وہ ان سے ملنے نہ جاتے ہوں۔
وہ اس کے حوالے سے اپنے روزنامچے میں رقم وہ الفاظ پڑھتے اور اس محبت کی حلاوت کو محسوس کرتے۔۔۔ یادیں تازہ کرتے ہوئے اسے نہ بھولتا کہ فلیس اس سے کتنی محبت کرتی ہے۔ جب بھی جیک اس کے پاس جاتا وہ خوشی کا اظہار کرتی۔ آج ان کی شادی کو 70 برس بیت رہے ہیں۔ جیک کی عمر 91 جب کہ ان کی رفیقۂ حیات فلیس کی عمر 93 برس ہو چکی ہے، لیکن وہ دنیا بھر کے محبت کرنے والوں کے لیے ایک مثال بن چکے ہیں۔ فلیس کی شدید بیماری کی بنا پر اسے نرسنگ ہوم میں داخل کرانا پڑا، لیکن جیک کی محبت نے شدید بیماری کے باوجود فلیس کی دل جوئی جاری رکھی۔
ساتھ جیے بھی اور مرے بھی ساتھ
کہتے ہیں جوڑے بنتے آسمانوں پر ہیں، ملتے زمین پر ہیں۔۔۔ عرش پر اس ناتے کی استواری کی ایک نظیر امریکا کی (Les Brown Jr.) اور (Helen) کی جوڑی ہے۔ جنہوں نے دنیا میں ایک ہی دن 31 دسمبر 1918ء کو آنکھ کھولی۔۔۔ پھر جب اسکول میں ایک دوسرے سے ملے تو دل ہار بیٹھے۔ دونوں کے خاندان کا طبقاتی فرق در آیا اور ان کے والدین نے اس محبت کو نہ مانا، چناں چہ اسکول سے فراغت کے بعد دنوں نے فرار اختیار کی اور جنوبی کیلیفورنیا میں بسے۔ دونوں محبت کرنے والوں نے جیون کا ایک ایک پل ساتھ بِتایا، یہاں تک کہ 90 برس کی عمر تک یہ جوڑا مستعد اور صحت مند رہا، لیکن اس کے بعد ہیلن معدے کے سرطان کا شکار ہو جاتی ہیں۔
لیس شریک حیات کے موذی مرض کا گہرا اثر لیتے ہیں، انہیں اعصابی بیماری Parkinson's لاحق ہو جاتی ہے۔ ہیلن شادی کے 75 برس بعد 16 جولائی 2013ء کو اس دار فانی سے کوچ کر جاتی ہیں۔ زندگی بھر ساتھ جینے مرنے کی افسانوی اور کتابی باتیں حقیقت بنتی ہیں اور اگلے دن ہی ان کے نصف بہتر لیس (Les Brown Jr.) بھی اس جہان کو خیر آباد کہہ دیتے ہیں۔