سندھ ہائیکورٹ گیلانی کے فیصلوں کیخلاف درخواست مسترد پٹیشنر پر جرمانہ عائد
ایسے ایشو انتشار پیدا کرنے کے لیے کھڑے کیے جاتے ہیں، پیچھے مخصوص لوگ ہوتے ہیں، سندھ ہائی کورٹ کی آبزرویشن
ISLAMABAD:
سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے 26اپریل 2012 سے 18 جون 2012 کے دوران کیے گئے فیصلوں کو غیر قانونی قرار دینے کیلیے دائر درخواست مسترد کرتے ہوئے درخواست گزار کو 5 ہزار روپے جرمانہ عائد کردیا ہے۔
فاضل بینچ نے اپنی آبزرویشن میں کہا کہ اس طرح کے ایشوزانتشارپیداکرنے کیلیے کھڑے کیے جاتے ہیں اور ایسی درخواستوں کے پیچھے مخصوص لوگ ہوتے ہیں جو درخواستیں تیار کرکے دیتے ہیں۔ بینچ نے درخواست کی سماعت کے آغاز پرہی درخواست گزار رانا فیض الحسن سے درخواست کے متعلق بنیادی سوالات کیے۔ فاضل بینچ نے استفسار کیا کہ آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت آپ نے عدالت سے رجوع کیا ہے تاہم وہ جواب نہیں دے سکے، جس پر عدالت نے ناراضی کااظہار کرتے ہوئے اپنے ریمارکس میں کہا کہ درخواست گزار کی اپنی قابلیت بڑاسوالیہ نشان ہے، ایسی درخواستیں خاص مقصدحاصل کرنے کیلیے دائرکی جاتی ہیں جو خاص لوگ تیار کرکے دیتے ہیں
۔آئینی درخواست میں وفاق پاکستان، اسپیکرقومی اسمبلی، وزارت قانون اوروفاقی وزیر خزانہ کو فریق بناتے ہوئے کہا گیا تھا کہ 19 جون 2012ء کو سپریم کورٹ نے اسپیکر رولنگ کیس میں وزیراعظم کو نا اہل قراردیا اور واضح کیا کہ یوسف رضا گیلانی 26 اپریل 2012سے نا اہل قرار پائیں گے۔ اعلیٰ عدلیہ نے یوسف رضا گیلانی کو آئین کے آرٹیکل 204(2) اور توہین عدالت آرڈیننس 2003ء کی دفعہ 3کے تحت مجرم قرار دیا۔ عدالت کے فیصلے کے مطابق وزیراعظم کا عہدہ 26اپریل سے خالی ہے ۔
اس کے بعد ہونے والے وفاقی حکومت کے فیصلے غیر آئینی و غیر قانونی ہیں۔ فنانس ایکٹ سمیت یکم جون کو پیش کیا جانے والا بجٹ بھی منظور شدہ تصور نہیں کیا جاسکتا۔ عدالت سے استدعا ہے کہ سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کے 26اپریل2012ء سے 18 جون 2012ء کے دوران کیے گئے فیصلوں کو غیر قانونی قرار دیا جائے اور اس دوران ان کے بیرون ملک دوروں پر آنے والے اخراجات بھی وصول کیے جائیں۔ عدالت عالیہ نے درخواست مسترد کر دی۔
سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے 26اپریل 2012 سے 18 جون 2012 کے دوران کیے گئے فیصلوں کو غیر قانونی قرار دینے کیلیے دائر درخواست مسترد کرتے ہوئے درخواست گزار کو 5 ہزار روپے جرمانہ عائد کردیا ہے۔
فاضل بینچ نے اپنی آبزرویشن میں کہا کہ اس طرح کے ایشوزانتشارپیداکرنے کیلیے کھڑے کیے جاتے ہیں اور ایسی درخواستوں کے پیچھے مخصوص لوگ ہوتے ہیں جو درخواستیں تیار کرکے دیتے ہیں۔ بینچ نے درخواست کی سماعت کے آغاز پرہی درخواست گزار رانا فیض الحسن سے درخواست کے متعلق بنیادی سوالات کیے۔ فاضل بینچ نے استفسار کیا کہ آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت آپ نے عدالت سے رجوع کیا ہے تاہم وہ جواب نہیں دے سکے، جس پر عدالت نے ناراضی کااظہار کرتے ہوئے اپنے ریمارکس میں کہا کہ درخواست گزار کی اپنی قابلیت بڑاسوالیہ نشان ہے، ایسی درخواستیں خاص مقصدحاصل کرنے کیلیے دائرکی جاتی ہیں جو خاص لوگ تیار کرکے دیتے ہیں
۔آئینی درخواست میں وفاق پاکستان، اسپیکرقومی اسمبلی، وزارت قانون اوروفاقی وزیر خزانہ کو فریق بناتے ہوئے کہا گیا تھا کہ 19 جون 2012ء کو سپریم کورٹ نے اسپیکر رولنگ کیس میں وزیراعظم کو نا اہل قراردیا اور واضح کیا کہ یوسف رضا گیلانی 26 اپریل 2012سے نا اہل قرار پائیں گے۔ اعلیٰ عدلیہ نے یوسف رضا گیلانی کو آئین کے آرٹیکل 204(2) اور توہین عدالت آرڈیننس 2003ء کی دفعہ 3کے تحت مجرم قرار دیا۔ عدالت کے فیصلے کے مطابق وزیراعظم کا عہدہ 26اپریل سے خالی ہے ۔
اس کے بعد ہونے والے وفاقی حکومت کے فیصلے غیر آئینی و غیر قانونی ہیں۔ فنانس ایکٹ سمیت یکم جون کو پیش کیا جانے والا بجٹ بھی منظور شدہ تصور نہیں کیا جاسکتا۔ عدالت سے استدعا ہے کہ سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کے 26اپریل2012ء سے 18 جون 2012ء کے دوران کیے گئے فیصلوں کو غیر قانونی قرار دیا جائے اور اس دوران ان کے بیرون ملک دوروں پر آنے والے اخراجات بھی وصول کیے جائیں۔ عدالت عالیہ نے درخواست مسترد کر دی۔