کیا ہمیں واضح علامتوں کا انتظار ہے
جو گھر میں مزے سے بیوی بچوں کے ساتھ بیٹھا ہے اس کو کوئی غم نہیں کہ...
KANDAHAR:
ڈھلوان پر پھسلتی ہوئی گاڑی بے قابو ہو جائے' ڈرائیور پر لوگوں کو پہلے ہی سے شک ہو کہ اسے گاڑی کی الف بے تک کا نہیں پتہ' بریک فیل ہو جائیں تو گاڑی میں بیٹھی سواریاں دو تین کام فوری اور غیر ارادی طور پر کرتی ہیں' سب سے پہلے کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے اﷲکو یاد کرنے لگتی ہیں' چیخوں سے آسمان سر پر اٹھا لیتی ہیں اور اگر سواریوں میں سے کچھ لوگوں کو گاڑی سنبھالنا یا چلانا آتی ہو، وہ آگے بڑھ کر ڈرائیور کو سیٹ سے اتار کر گاڑی کو بچانے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں لیکن حیرت کی بات ہے کہ اس ملک میں بسنے والے اٹھارہ کروڑ لوگوں کے سامنے یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہے کہ وہ جس ملک میں رہتے ہیں، اس کا سفر ڈھلوان کی سمت تیزی سے رواں دواں ہے۔
ڈرائیور کی مہارت پر انھیں بالکل بھروسہ نہیں بلکہ یقین ہے کہ یہ بس کھائی کی جانب اسی کی غلطیوں سے لڑھکی ہے لیکن کمال کی بات ہے کہ کسی کے منہ پر نہ کلمہ طیبہ کا ورد ہے' نہ گناہوں سے معافی اور استغفار سے بھری التجائیں ہیں' اگر چیخ و پکار بھی ہے تو وہ اول تو محدود ہے یا پھر اپنے اپنے دکھ کی بات کرتے ہیں جو گاڑی کو ڈھلوان پر پھسلنے سے روک سکتے ہیں' وہ یا تو مصلحت کی وجہ سے چپ ہیں یا پھر انھیں اس ملک سے زیادہ اپنی عزت و توقیر بچانے کی فکر لاحق ہے۔ ساری علامتیں' ساری نشانیاں نظر آ رہی ہیں' فرق صرف یہ ہے کہ اس ملک کی اکثریت خود غرض ہو گئی ہے۔ جو زندگی گزار رہا ہے اسے اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ آج کتنے لوگ جان کی بازی ہار گئے۔
جو گھر میں مزے سے بیوی بچوں کے ساتھ بیٹھا ہے اس کو کوئی غم نہیں کہ کتنے لوگ ہیں جو اغوا ہوئے یا لاپتہ کر دیے گئے۔ جسے رات کو کھانا میسر ہے اسے اس بات کی خبر تک نہیں کہ اس کے شہر' قصبے' گلی یا محلے میں کتنے لوگوں نے بھوکے پیٹ رات گزاری۔ سب اس بات سے بے خبر ہیں کہ جو دوسروں پر بیت رہی ہے وہ ان پر بھی گزرنے والی ہے۔ اس لیے کہ پوری کی پوری بس کا رخ ڈھلوان کی سمت ہے۔ لیکن ہمیں اس بات کا ادراک تک نہیں ہوتا اکثر یہ ہے کہ جب ادراک ہونے لگتا ہے تو لوگ کھڑکیاں دروازے توڑ کر چھلانگیں لگانے کی کوشش کرتے ہیں ،کچھ دھکم پیل میں مارے جاتے ہیں اور جو کودنے میں کامیاب ہوتے ہیں ان کے سر باہر موجود نوکیلی چٹانوں سے ٹکرا کر پاش پاش ہو جاتے ہیں۔
یہ الگ بات ہے کہ حادثے کے بعد بس کا مالک کسی کرین کی مدد سے بس کو کھائی سے نکالتا ہے' اسے بہترین کاریگروں کے حوالے کرتا ہے جو ناکارہ ہو جاتا ہے اس حصے کی جگہ نئے حصے کو لگا کر بس کو از سر نو رواں دواں کر دیا جاتا ہے۔ نئے لوگ نیا ڈرائیور' نئی سواریاں۔
بندگان خدا کو علم تک نہیں کہ یہ زمین میرے اﷲ کی ہے اور وہ اسے جب تک چاہے گا قائم رکھے گا۔ اس زمین پر ہم سب مسافرہیں اور اسے آباد' سرسبزوشاداب اور رہنے کے قابل بنانے کے لیے بھیجے گئے ہیں۔ ہم میں سے ہر کوئی اتنا ہی ذمے دار ہے جتنا بس کا ڈرائیور۔ تیز رفتار کرتے ہوئے' غلط موڑ کاٹتے ہوئے' اشارے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہم کیسے اچھل اچھل کر ڈرائیور کو لعن طعن کر رہے ہوتے ہیں۔ اس لیے کہ ہمیں یقین ہوتا ہے کہ ہماری جان خطرے میں ہے لیکن اس ملک کو کوئی جیسے' جس طرح' جس خرابی کے ساتھ چلائے ہم دم سادھے بیٹھے ہوتے ہیں۔ بس کے مالک کو غصہ دلانے اور اس کے غیظ و غضب کو آواز دینے کے لیے ہم میں سے بہت سے ایسے ہیں جو بڑھ چڑھ کر غلط ڈرائیونگ کی حمایت کرتے ہیں۔
کتنے ہیں جو بولنے والوں کو یہ کہہ کر چپ کراتے ہیں کہ خاموش بیٹھو،ڈرائیور کو پانچ سال کے لیے نوکری پر رکھا ہے اس سے پہلے اسے کوئی نہیں نکالے گا خواہ وہ بس کو تباہ و برباد کیوں نہ کر دے۔ ہم کس قدر بے حس ہیں۔ اگر ہماری ذاتی بس' کار' یا رکشا ہی کیوں نہ ہوتا' ہم نے کسی ڈرائیور کو ایک ماہ کے لیے ہی کیوں نہ رکھا ہوتا' ہم اسے پہلی ہی غلطی پر کان پکڑ کر نوکری سے نکال دیتے لیکن آفرین ہے اٹھارہ کروڑ عوام پر جنھیں اس بات کا احساس تک نہیں۔
جب ایسا عالم طاری ہو جاتا ہے تو پھر مالک کائنات' میرا رب اور اس دنیا کا تنہا فرمانروا ایک فیصلہ کرتا ہے۔ ان سب کو احساس دلاتا ہے کہ تم سب تباہی کی طرف جا رہے ہو۔ وہ سورہ السجدہ کی آیت نمبر21 میں فرماتا ہے ''اور ہم انھیں لازماً مزہ چکھائیں گے چھوٹے عذاب کا' بڑے عذاب سے قبل' شاید وہ رجوع کر لیں''۔ اس کے آغاز کا اندازہ سید الانبیاء کی اس حدیث سے کیجیے۔ فرمایا ''جس بستی میں کسی نے ایک رات بھوکے پیٹ گزاری' اﷲ اس بستی سے اپنی حفاظت کا ذمے اٹھا لیتا ہے۔ اﷲ نے قرآن پاک میں اپنے غیظ و غضب کی تین علامتیں بتائی ہیں۔ ان تینوں میں سے رسول اکرم نے سب سے کم ترین یہ بتائی کہ تمہیں آپس میں لڑا کر' ایک دوسرے کی گردنیں کٹوا کر عذاب کا مزا چکھایا جائے۔
یہ عذاب ہم پر برسوں سے مسلط ہے لیکن ہم وہ بے حس قوم ہیں جو اﷲ کی طرف رجوع کرنے کے بجائے اپنوں کی لاشیں گنتے پھرتے ہیں' اتنے پٹھان' اتنے سندھی' اتنے اردو بولنے والے' اتنے پنجابی' اتنے بلوچ مارے گئے۔ جن کے دن رات اﷲ کا کلام پڑھنے پڑھانے پر صرف ہوتے ہیں، وہ بھی اسی گنتی میں لگے ہوئے ہیں' اتنے شیعہ اور اتنے سنی مارے گئے۔ دوسری علامت آسمانوں سے عذاب نازل کرنے کی ہے۔ سیلاب آئے ہم نے سوچا تک نہیں کہ کیوں آئے۔ تیسری علامت پائوں کے نیچے سے عذاب۔ جب زمین تھرتھراتی ہے۔ یہ وہ مقام ہوتا ہے جب لوگ ڈھلوان میں گرتی بس کی طرح کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے گھروں سے باہر بھاگتے ہیں۔ جائے پناہ ڈھونڈتے ہیں۔ کیا ہمیں سنبھلنے کے لیے اس علامت کا انتظار ہے۔
ڈھلوان پر پھسلتی ہوئی گاڑی بے قابو ہو جائے' ڈرائیور پر لوگوں کو پہلے ہی سے شک ہو کہ اسے گاڑی کی الف بے تک کا نہیں پتہ' بریک فیل ہو جائیں تو گاڑی میں بیٹھی سواریاں دو تین کام فوری اور غیر ارادی طور پر کرتی ہیں' سب سے پہلے کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے اﷲکو یاد کرنے لگتی ہیں' چیخوں سے آسمان سر پر اٹھا لیتی ہیں اور اگر سواریوں میں سے کچھ لوگوں کو گاڑی سنبھالنا یا چلانا آتی ہو، وہ آگے بڑھ کر ڈرائیور کو سیٹ سے اتار کر گاڑی کو بچانے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں لیکن حیرت کی بات ہے کہ اس ملک میں بسنے والے اٹھارہ کروڑ لوگوں کے سامنے یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہے کہ وہ جس ملک میں رہتے ہیں، اس کا سفر ڈھلوان کی سمت تیزی سے رواں دواں ہے۔
ڈرائیور کی مہارت پر انھیں بالکل بھروسہ نہیں بلکہ یقین ہے کہ یہ بس کھائی کی جانب اسی کی غلطیوں سے لڑھکی ہے لیکن کمال کی بات ہے کہ کسی کے منہ پر نہ کلمہ طیبہ کا ورد ہے' نہ گناہوں سے معافی اور استغفار سے بھری التجائیں ہیں' اگر چیخ و پکار بھی ہے تو وہ اول تو محدود ہے یا پھر اپنے اپنے دکھ کی بات کرتے ہیں جو گاڑی کو ڈھلوان پر پھسلنے سے روک سکتے ہیں' وہ یا تو مصلحت کی وجہ سے چپ ہیں یا پھر انھیں اس ملک سے زیادہ اپنی عزت و توقیر بچانے کی فکر لاحق ہے۔ ساری علامتیں' ساری نشانیاں نظر آ رہی ہیں' فرق صرف یہ ہے کہ اس ملک کی اکثریت خود غرض ہو گئی ہے۔ جو زندگی گزار رہا ہے اسے اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ آج کتنے لوگ جان کی بازی ہار گئے۔
جو گھر میں مزے سے بیوی بچوں کے ساتھ بیٹھا ہے اس کو کوئی غم نہیں کہ کتنے لوگ ہیں جو اغوا ہوئے یا لاپتہ کر دیے گئے۔ جسے رات کو کھانا میسر ہے اسے اس بات کی خبر تک نہیں کہ اس کے شہر' قصبے' گلی یا محلے میں کتنے لوگوں نے بھوکے پیٹ رات گزاری۔ سب اس بات سے بے خبر ہیں کہ جو دوسروں پر بیت رہی ہے وہ ان پر بھی گزرنے والی ہے۔ اس لیے کہ پوری کی پوری بس کا رخ ڈھلوان کی سمت ہے۔ لیکن ہمیں اس بات کا ادراک تک نہیں ہوتا اکثر یہ ہے کہ جب ادراک ہونے لگتا ہے تو لوگ کھڑکیاں دروازے توڑ کر چھلانگیں لگانے کی کوشش کرتے ہیں ،کچھ دھکم پیل میں مارے جاتے ہیں اور جو کودنے میں کامیاب ہوتے ہیں ان کے سر باہر موجود نوکیلی چٹانوں سے ٹکرا کر پاش پاش ہو جاتے ہیں۔
یہ الگ بات ہے کہ حادثے کے بعد بس کا مالک کسی کرین کی مدد سے بس کو کھائی سے نکالتا ہے' اسے بہترین کاریگروں کے حوالے کرتا ہے جو ناکارہ ہو جاتا ہے اس حصے کی جگہ نئے حصے کو لگا کر بس کو از سر نو رواں دواں کر دیا جاتا ہے۔ نئے لوگ نیا ڈرائیور' نئی سواریاں۔
بندگان خدا کو علم تک نہیں کہ یہ زمین میرے اﷲ کی ہے اور وہ اسے جب تک چاہے گا قائم رکھے گا۔ اس زمین پر ہم سب مسافرہیں اور اسے آباد' سرسبزوشاداب اور رہنے کے قابل بنانے کے لیے بھیجے گئے ہیں۔ ہم میں سے ہر کوئی اتنا ہی ذمے دار ہے جتنا بس کا ڈرائیور۔ تیز رفتار کرتے ہوئے' غلط موڑ کاٹتے ہوئے' اشارے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہم کیسے اچھل اچھل کر ڈرائیور کو لعن طعن کر رہے ہوتے ہیں۔ اس لیے کہ ہمیں یقین ہوتا ہے کہ ہماری جان خطرے میں ہے لیکن اس ملک کو کوئی جیسے' جس طرح' جس خرابی کے ساتھ چلائے ہم دم سادھے بیٹھے ہوتے ہیں۔ بس کے مالک کو غصہ دلانے اور اس کے غیظ و غضب کو آواز دینے کے لیے ہم میں سے بہت سے ایسے ہیں جو بڑھ چڑھ کر غلط ڈرائیونگ کی حمایت کرتے ہیں۔
کتنے ہیں جو بولنے والوں کو یہ کہہ کر چپ کراتے ہیں کہ خاموش بیٹھو،ڈرائیور کو پانچ سال کے لیے نوکری پر رکھا ہے اس سے پہلے اسے کوئی نہیں نکالے گا خواہ وہ بس کو تباہ و برباد کیوں نہ کر دے۔ ہم کس قدر بے حس ہیں۔ اگر ہماری ذاتی بس' کار' یا رکشا ہی کیوں نہ ہوتا' ہم نے کسی ڈرائیور کو ایک ماہ کے لیے ہی کیوں نہ رکھا ہوتا' ہم اسے پہلی ہی غلطی پر کان پکڑ کر نوکری سے نکال دیتے لیکن آفرین ہے اٹھارہ کروڑ عوام پر جنھیں اس بات کا احساس تک نہیں۔
جب ایسا عالم طاری ہو جاتا ہے تو پھر مالک کائنات' میرا رب اور اس دنیا کا تنہا فرمانروا ایک فیصلہ کرتا ہے۔ ان سب کو احساس دلاتا ہے کہ تم سب تباہی کی طرف جا رہے ہو۔ وہ سورہ السجدہ کی آیت نمبر21 میں فرماتا ہے ''اور ہم انھیں لازماً مزہ چکھائیں گے چھوٹے عذاب کا' بڑے عذاب سے قبل' شاید وہ رجوع کر لیں''۔ اس کے آغاز کا اندازہ سید الانبیاء کی اس حدیث سے کیجیے۔ فرمایا ''جس بستی میں کسی نے ایک رات بھوکے پیٹ گزاری' اﷲ اس بستی سے اپنی حفاظت کا ذمے اٹھا لیتا ہے۔ اﷲ نے قرآن پاک میں اپنے غیظ و غضب کی تین علامتیں بتائی ہیں۔ ان تینوں میں سے رسول اکرم نے سب سے کم ترین یہ بتائی کہ تمہیں آپس میں لڑا کر' ایک دوسرے کی گردنیں کٹوا کر عذاب کا مزا چکھایا جائے۔
یہ عذاب ہم پر برسوں سے مسلط ہے لیکن ہم وہ بے حس قوم ہیں جو اﷲ کی طرف رجوع کرنے کے بجائے اپنوں کی لاشیں گنتے پھرتے ہیں' اتنے پٹھان' اتنے سندھی' اتنے اردو بولنے والے' اتنے پنجابی' اتنے بلوچ مارے گئے۔ جن کے دن رات اﷲ کا کلام پڑھنے پڑھانے پر صرف ہوتے ہیں، وہ بھی اسی گنتی میں لگے ہوئے ہیں' اتنے شیعہ اور اتنے سنی مارے گئے۔ دوسری علامت آسمانوں سے عذاب نازل کرنے کی ہے۔ سیلاب آئے ہم نے سوچا تک نہیں کہ کیوں آئے۔ تیسری علامت پائوں کے نیچے سے عذاب۔ جب زمین تھرتھراتی ہے۔ یہ وہ مقام ہوتا ہے جب لوگ ڈھلوان میں گرتی بس کی طرح کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے گھروں سے باہر بھاگتے ہیں۔ جائے پناہ ڈھونڈتے ہیں۔ کیا ہمیں سنبھلنے کے لیے اس علامت کا انتظار ہے۔