ورلڈ کپ 2015ء کون کتنے پانی میں آخری قسط
پاکستان اب ایک مشکل گروپ میں موجود ہے، جہاں اسے بھارت، جنوبی افریقہ اور ویسٹ انڈیز کیساتھ آئرلینڈ سے مقابلہ کرنا ہوگا۔
ISLAMABAD:
انتظار کی طویل گھڑیاں ختم ہوچکی اور ورلڈ کپ کا آغاز ہوچکا۔ آسٹریلیا کو یقین کامل ہے، بھارت کا اعتماد متزلزل ہے، سری لنکا گومگو کی کیفیت میں جبکہ جنوبی افریقہ اپنی قسمت کی لکیروں کو دیکھ رہا ہے۔ جب آخری بار 1992ء میں ورلڈ کپ آسٹریلیا میں کھیلا گیا تھا تو ان میں سے تین ٹیموں کو بُری طرح شکست ہوئی تھی اور وہ سیمی فائنل تک بھی نہیں پہنچ سکیں تھیں۔ اب 23 سال بعد حالات کافی بدل چکے ہیں لیکن یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انگلینڈ، نیوزی لینڈ اور پاکستان 1992ء والی کارکردگی دہراتے ہوئے سیمی فائنل تک پہنچ جائیں۔ کیا اس کا امکان ہے؟ یہی جاننے کے لیے ورلڈ کپ میں شریک اہم ٹیموں کا جائزہ لے رہے ہیں اور ان تین ٹیموں کے علاوہ ویسٹ انڈیز کی صلاحیتوں، خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ ساتھ ان کے امکانات اور خدشات کو بھی دیکھیں گے۔ شروع کرتے ہیں انگلینڈ سے۔
انگلینڈ
بیٹنگ 7.0
باؤلنگ 7.3
فیلڈنگ 7.8
انگلینڈ بلاشبہ ورلڈ کپ کی تاریخ کی سب سے بدنصیب ٹیم ہے۔ یہ ٹیم صرف ایک، دو مرتبہ نہیں بلکہ پورے تین بار فائنل تک پہنچی اور ہر مرتبہ شکست کھائی۔ 1992ء میں پاکستان نے میلبرن کے مقام پر انگلینڈ کو فائنل میں شکست دے کر ایسا دھچکا پہنچایا کہ اس کے بعد سے آج تک وہ کسی ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں بھی نہیں پہنچ پایا۔
پھر 2013ء کے بعد سے اب تک انگلینڈ کی ون ڈے کارکردگی بھی ہرگز ایسی نہیں کہ اسے موجودہ عالمی کپ میں کوئی سنجیدہ خطرہ سمجھا جائے۔ چیمپئنز ٹرافی کے فائنل میں بھارت کے ہاتھوں شکست کے بعد سے اب تک انگلینڈ نے 35 میچز کھیلے ہیں، صرف 13 میں فتح حاصل کی اور 21 میں شکست کھائی ہے۔ اسی کارکردگی کی وجہ سے ایلسٹر کک کوقیادت سے بھی ہٹادیا کیا گیا اور ورلڈ کپ سے صرف چند ہفتے پہلے ایون مورگن کو یہ بھاری ذمہ داری دی گئی۔ جو 'بگ تھری سیریز' کی صورت میں اپنے پہلے امتحان میں کسی حد تک کامیاب ہوگئے ہیں۔ اس سیریز میں انگلینڈ نے دو مرتبہ بھارت کو شکست دی لیکن ورلڈ کپ سے پہلے وارم اپ میں پاکستان کے ہاتھوں شکست نے انہیں دوبارہ اسی مقام پر پہنچا دیا ہے جہاں وہ سہ فریقی سیریز سے پہلے تھے۔
اس کے باوجود انگلینڈ کے پاس این بیل کا تجربہ ہے، ایون مورگن جیسا مرد بحران بھی اسے میسر ہے، دنیا کے دو باصلاحیت ترین نوجوان کھلاڑی جو روٹ اور جوس بٹلر ٹیم کا اہم جز ہیں اور سب سے بڑھ کر باؤلنگ لائن کو اسٹورٹ براڈ اور جیمز اینڈرسن کی قوت حاصل ہے۔ اس لیے اگر کوئی اس ورلڈ کپ کا 'چھپا رستم' ثابت ہوسکتا ہے تو وہ انگلینڈ ہے اور یہ ٹیم ان کھلاڑیوں کی بدولت سیمی فائنل تک رسائی بھی حاصل کرسکتی ہے، ضرورت صرف اتنی ہوگی کہ اپنے حواس اور اعصاب پر قابو رکھے۔
نیوزی لینڈ
بیٹنگ 8.0
باؤلنگ 7.8
فیلڈنگ 8.4
ورلڈ کپ کی تاریخ شاید ہی کبھی نیوزی لینڈ کو فیورٹ قرار دیا گیا لیکن اس بار وہ فتح کے لیے درکار تمام لوازمات پر پوری اُترتی دکھائی دے رہی ہے۔ وہ ایسے میدانوں میں کھیلی گی جن سے وہ اچھی طرح مانوس ہے، کپتان مکمل جارحانہ موڈ میں ہيں، بیٹسمین بہترین فارم اور باؤلرز مکمل تیونگ میں ہیں اور فیلڈرز کی کارکردگی بلندیوں کو چھورہی ہے۔
حالیہ کارکردگی ہی سے ظاہر ہے کہ جہاں نیوزی لینڈ نے سری لنکا اور پھر پاکستان کو بُری طرح شکست دی ہے اور وارم اپ میچز میں جنوبی افریقہ جیسے سخت حریف کو چاروں خانے چت کیا ہے۔ اگر زبردستی ٹیم میں کوئی کمزوری نکالی جائے تو وہ اوپننگ میں ہوگی جہاں مارٹن گپٹل کا فارم میں واپس آنا بہت ضروری دکھائی دیتا ہے اس کے علاوہ دستے میں کوئی کمزور کڑی نہيں دکھائی دیتی۔ نیوزی لینڈ کی بیٹنگ لائن فولاد کی طرح مضبوط نظر آ رہی ہے۔ برینڈن میک کولم، ان کے بعد کین ولیم سن، روس ٹیلر اور لوئر مڈل آرڈر میں کوری اینڈرسن، گرانٹ ایلیٹ اور لیوک رونکی۔ اس بیٹنگ لائن کو نیچا دکھانا دنیا کے بہترین باؤلنگ اٹیک کے لیے بھی دشوار ہوگا۔
پھر اگر باؤلنگ لائن کو دیکھیں تو ہمیں ٹم ساؤتھی، ٹرینٹ بولٹ اور مچل میک کلیناگھن کی 'مثلث' نظر آتی ہے اور ان میں سے کسی ایک کی عدم موجودگی میں برق رفتار ایڈم ملنے بھی جگہ پاسکتے ہیں۔ پھر ڈینیل ویٹوری جیسا تجربہ کار اسپنر بھی دستے کا حصہ ہے۔
یوں بہترین اسکواڈ، بہترین فارم اور بہترین مقام، نیوزی لینڈ کو ورلڈ کپ کے لیے بہترین ٹیم بناتے ہیں لیکن ایک سوال، کیا نیوزی لینڈ اتنے بڑے دباؤ کو جھیل سکتا ہے؟ جو ٹیم ہمیشہ سیمی فائنل میں پہنچ کر شکست سے دوچار ہوئی ہے کیا اس بار وہ ان تمام رکاوٹوں کو عبور کر پائے گی؟ یہ آنے والا وقت بتائے گا۔
ویسٹ انڈیز
بیٹنگ 6.9
باؤلنگ 7.0
فیلڈنگ 7.0
اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ورلڈ کپ میں بنگلہ دیش اور آئرلینڈ سے بھی برا حال اس وقت ویسٹ انڈیز کا ہے۔ اپنے اہم ترین کھلاڑیوں سے محروم ہونے کے ساتھ ساتھ یہ بدترین فارم میں بھی ہے۔ کرس گیل، ڈیرن سیمی، مارلون سیموئلز، کیمار روچ اور آندرے رسل جیسے بڑے ناموں کے باوجود ویسٹ انڈیز شکست کی راہوں پر گامزن ہے۔ کچھ اندازہ آپ کو وارم اپ ہی میں ہوگیا ہوگا کہ جہاں اسکاٹ لینڈ جیسے کمزور حریف کے خلاف ویسٹ انڈیز کو 314 رنز کے بھاری ہدف کے دفاع میں بھی سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور وہ صرف تین رنز سے جیت پایا۔
پھر مجموعی طور پر ٹیم کی کارکردگی کا یہ حال ہے کہ ڈھائی سالوں سے کسی قابل ذکر ٹیم کے خلاف کوئی ون ڈے سیریز نہیں جیت پائی۔ 2012ء میں نیوزی لینڈ کو شکست دینے سے قبل اس کی کوئی نمایاں سیریز جیت 2008ء میں سری لنکا کے خلاف تھی یعنی گزشتہ چھ سات سالوں میں ویسٹ انڈيز کی زیادہ تر فتوحات بنگلہ دیش، زمبابوے اور آئرلینڈ جیسے کمزور حریفوں کے خلاف ہیں۔
لیکن انفرادی سطح پر دیکھیں تو دنیا کے سب سے بڑے 'کرائے کے سپاہی' یعنی لیگ پلیئرز ویسٹ انڈیز کے پاس ہیں۔ گیل، سیمی اور رسل کو خریدنے کے لیے دنیا کی ہر بڑی لیگ کی فرنچائزز بے تاب رہتی ہے لیکن جب یہ کھلاڑی مل کر کھیلتے ہیں تو کالی آندھی نظر نہیں آتی۔ کوئی اندازہ ہی نہیں کرسکتا کہ یہ وہ پہلی ٹیم ہے جس نے تقریباً بیس سالوں تک دنیائے کرکٹ پر حکمرانی کی اور مسلسل تین بار ورلڈ کپ کا فائنل کھیلا ہے۔
اب بھی، اس وقت بھی اگر یہ کھلاڑی اپنی صلاحیتوں کے مطابق اور متحد ہوکر کھیلیں تو شاید کچھ انہونی کر دکھائیں جیسا کہ انہوں نے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2012ء میں کیا تھا جہاں اہم مقابلوں میں چند کھلاڑیوں کی غیر معمولی کارکردگی نے اسے ٹی ٹوئنٹی کا عالمی چیمپئن بنا دیا تھا۔ ون ڈے کرکٹ خاصی مختلف ہے اور اس کا مزاج اور تقاضے بھی الگ ہیں لیکن پھر بھی ویسٹ انڈیز کو مکمل طور پر خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔
پاکستان
بیٹنگ 7.4
باؤلنگ 7.2
فیلڈنگ 6.0
پچھلی قسط میں آپ کو عالمی چیمپئن بننے کے لیے تین ضروری عناصر بتائے تھے، ایک بہترین ٹیم، پھر بہترین کارکردگی اور اس کےبعد قسمت۔ پاکستان نہ ہی اپنی بہترین ٹیم کے ساتھ آسٹریلیا میں موجود ہے اور نہ ہی اس کی حالیہ کارکردگی کچھ ایسی ہے کہ جس کی بنیاد پر خوش فہمیاں قائم کی جائیں لیکن قسمت ایک ایسا عنصر ہے جو کسی بھی ٹیم کو جتواسکتا ہے۔ 1992ء میں جب پاکستان اپنے ابتدائی مقابلوں میں بدترین کارکردگی دکھانے کے بعد عالمی کپ کی دوڑ سے باہر ہونے والا تھا تو یہی قسمت پاکستان کے کھلاڑیوں کو مقابلے میں واپس لے کر آئی تھی اور پھر 'دیوار سے لگے شیروں' نے ایسا وار کیا کہ دنیا کی کسی ٹیم کے لیے ان کو روکنا ممکن نہیں دکھائی دیا تھا۔
پاکستان اس وقت بھی اپنے بہترین باؤلرز کے بغیر ورلڈ کپ کھیلا تھا اور آج بھی یہی عالم ہے۔ سعید اجمل، محمد حفیظ اور جنید خان مختلف وجوہات کی بنیاد پر عالمی کپ میں شریک نہیں اس لیے پاکستان کو محمد عرفان، وہاب ریاض، سہیل خان، احسان عادل اور یاسر شاہ پر مشتمل نسبتاً کم تجربہ کار باؤلنگ لائن پر اکتفا کرنا پڑے گا۔ لیکن تمام اہم باؤلرز سے محروم ہوجانے کے باوجود پاکستان کی اصل قوت اس کی باؤلنگ ہی ہے اور اس پر ٹیم کے کرتا دھرتاؤں کو پوری توجہ رکھنا ہوگی۔ پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ پانچ گیند بازوں کے ساتھ کھیلے کیونکہ اسی صورت میں وہ حریف ٹیم کو کم اسکور پر آؤٹ کرکے اپنے بلے بازوں پر دباؤ کو کم کرسکتا ہے۔
بیٹنگ میں مصباح الحق اور یونس خان کی صورت میں دو انتہائی تجربہ کار بلے بازوں کا ساتھ ضرور حاصل ہے لیکن یونس کی حالیہ فارم پاکستان کے لیے تشویش کا باعث ہے۔ انہیں ورلڈ کپ کے دوران اپنی کارکردگی کے ذریعے ثابت کرنا ہوگا کہ ان کا انتخاب درست ہوا ہے بصورت دیگر اس اسٹار بیٹسمین کا کیریئر اپنے خاتمے کو پہنچ جائے گا۔ اس لیے مصباح الحق، عمر اکمل اور شاہد آفریدی کے ساتھ ان پر بھی بڑی ذمہ داری ہوگی۔
ٹیم کی حالیہ کارکردگی پر مجموعی طور پر مایوس کن ہے۔ پاکستان اب ایک مشکل گروپ میں موجود ہے، جہاں اسے بھارت، جنوبی افریقہ اور ویسٹ انڈیز کے ساتھ آئرلینڈ سے مقابلہ کرنا ہوگا۔
اس پس منظر کے باوجود پاکستان نے وارم اپ مقابلوں میں عمدہ کارکردگی دکھائی ہے۔ زیادہ حوصلہ افزاء بات یہ ہے کہ بنگلہ دیش اور انگلستان دونوں کے خلاف ہدف کا تعاقب کامیابی کے ساتھ کیا ہے اور یوں پاکستانی شائقین کے لیے امید کی ایک کرن پیدا کی ہے۔ اگر پاکستان بھارت کے خلاف اپنا پہلا مقابلہ جیت گیا تو اس کے حوصلوں بہت بلند ہوں گے جو آئندہ مقابلوں کے لیے تحریک کا کام کریں گے۔
پاکستان کے لیے ایک اور خوش کن امر نوجوان حارث سہیل اور صہیب مقصود کی عمدہ کارکردگی ہے جنہوں نے حالیہ مقابلوں میں خود کو مرد بحران ثابت کیا ہے۔ اگر یہ کھلاڑی اپنی اہلیت کے مطابق کھیلیں تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان سیمی فائنل نہ کھیلے۔ اس کے بعد صرف دو دن کی اچھی کارکردگی درکار ہوگی جو پاکستان کو 23 سال بعد ورلڈ چیمپئن بنا سکتی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
انتظار کی طویل گھڑیاں ختم ہوچکی اور ورلڈ کپ کا آغاز ہوچکا۔ آسٹریلیا کو یقین کامل ہے، بھارت کا اعتماد متزلزل ہے، سری لنکا گومگو کی کیفیت میں جبکہ جنوبی افریقہ اپنی قسمت کی لکیروں کو دیکھ رہا ہے۔ جب آخری بار 1992ء میں ورلڈ کپ آسٹریلیا میں کھیلا گیا تھا تو ان میں سے تین ٹیموں کو بُری طرح شکست ہوئی تھی اور وہ سیمی فائنل تک بھی نہیں پہنچ سکیں تھیں۔ اب 23 سال بعد حالات کافی بدل چکے ہیں لیکن یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انگلینڈ، نیوزی لینڈ اور پاکستان 1992ء والی کارکردگی دہراتے ہوئے سیمی فائنل تک پہنچ جائیں۔ کیا اس کا امکان ہے؟ یہی جاننے کے لیے ورلڈ کپ میں شریک اہم ٹیموں کا جائزہ لے رہے ہیں اور ان تین ٹیموں کے علاوہ ویسٹ انڈیز کی صلاحیتوں، خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ ساتھ ان کے امکانات اور خدشات کو بھی دیکھیں گے۔ شروع کرتے ہیں انگلینڈ سے۔
انگلینڈ
بیٹنگ 7.0
باؤلنگ 7.3
فیلڈنگ 7.8
انگلینڈ بلاشبہ ورلڈ کپ کی تاریخ کی سب سے بدنصیب ٹیم ہے۔ یہ ٹیم صرف ایک، دو مرتبہ نہیں بلکہ پورے تین بار فائنل تک پہنچی اور ہر مرتبہ شکست کھائی۔ 1992ء میں پاکستان نے میلبرن کے مقام پر انگلینڈ کو فائنل میں شکست دے کر ایسا دھچکا پہنچایا کہ اس کے بعد سے آج تک وہ کسی ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں بھی نہیں پہنچ پایا۔
پھر 2013ء کے بعد سے اب تک انگلینڈ کی ون ڈے کارکردگی بھی ہرگز ایسی نہیں کہ اسے موجودہ عالمی کپ میں کوئی سنجیدہ خطرہ سمجھا جائے۔ چیمپئنز ٹرافی کے فائنل میں بھارت کے ہاتھوں شکست کے بعد سے اب تک انگلینڈ نے 35 میچز کھیلے ہیں، صرف 13 میں فتح حاصل کی اور 21 میں شکست کھائی ہے۔ اسی کارکردگی کی وجہ سے ایلسٹر کک کوقیادت سے بھی ہٹادیا کیا گیا اور ورلڈ کپ سے صرف چند ہفتے پہلے ایون مورگن کو یہ بھاری ذمہ داری دی گئی۔ جو 'بگ تھری سیریز' کی صورت میں اپنے پہلے امتحان میں کسی حد تک کامیاب ہوگئے ہیں۔ اس سیریز میں انگلینڈ نے دو مرتبہ بھارت کو شکست دی لیکن ورلڈ کپ سے پہلے وارم اپ میں پاکستان کے ہاتھوں شکست نے انہیں دوبارہ اسی مقام پر پہنچا دیا ہے جہاں وہ سہ فریقی سیریز سے پہلے تھے۔
اس کے باوجود انگلینڈ کے پاس این بیل کا تجربہ ہے، ایون مورگن جیسا مرد بحران بھی اسے میسر ہے، دنیا کے دو باصلاحیت ترین نوجوان کھلاڑی جو روٹ اور جوس بٹلر ٹیم کا اہم جز ہیں اور سب سے بڑھ کر باؤلنگ لائن کو اسٹورٹ براڈ اور جیمز اینڈرسن کی قوت حاصل ہے۔ اس لیے اگر کوئی اس ورلڈ کپ کا 'چھپا رستم' ثابت ہوسکتا ہے تو وہ انگلینڈ ہے اور یہ ٹیم ان کھلاڑیوں کی بدولت سیمی فائنل تک رسائی بھی حاصل کرسکتی ہے، ضرورت صرف اتنی ہوگی کہ اپنے حواس اور اعصاب پر قابو رکھے۔
نیوزی لینڈ
بیٹنگ 8.0
باؤلنگ 7.8
فیلڈنگ 8.4
ورلڈ کپ کی تاریخ شاید ہی کبھی نیوزی لینڈ کو فیورٹ قرار دیا گیا لیکن اس بار وہ فتح کے لیے درکار تمام لوازمات پر پوری اُترتی دکھائی دے رہی ہے۔ وہ ایسے میدانوں میں کھیلی گی جن سے وہ اچھی طرح مانوس ہے، کپتان مکمل جارحانہ موڈ میں ہيں، بیٹسمین بہترین فارم اور باؤلرز مکمل تیونگ میں ہیں اور فیلڈرز کی کارکردگی بلندیوں کو چھورہی ہے۔
حالیہ کارکردگی ہی سے ظاہر ہے کہ جہاں نیوزی لینڈ نے سری لنکا اور پھر پاکستان کو بُری طرح شکست دی ہے اور وارم اپ میچز میں جنوبی افریقہ جیسے سخت حریف کو چاروں خانے چت کیا ہے۔ اگر زبردستی ٹیم میں کوئی کمزوری نکالی جائے تو وہ اوپننگ میں ہوگی جہاں مارٹن گپٹل کا فارم میں واپس آنا بہت ضروری دکھائی دیتا ہے اس کے علاوہ دستے میں کوئی کمزور کڑی نہيں دکھائی دیتی۔ نیوزی لینڈ کی بیٹنگ لائن فولاد کی طرح مضبوط نظر آ رہی ہے۔ برینڈن میک کولم، ان کے بعد کین ولیم سن، روس ٹیلر اور لوئر مڈل آرڈر میں کوری اینڈرسن، گرانٹ ایلیٹ اور لیوک رونکی۔ اس بیٹنگ لائن کو نیچا دکھانا دنیا کے بہترین باؤلنگ اٹیک کے لیے بھی دشوار ہوگا۔
پھر اگر باؤلنگ لائن کو دیکھیں تو ہمیں ٹم ساؤتھی، ٹرینٹ بولٹ اور مچل میک کلیناگھن کی 'مثلث' نظر آتی ہے اور ان میں سے کسی ایک کی عدم موجودگی میں برق رفتار ایڈم ملنے بھی جگہ پاسکتے ہیں۔ پھر ڈینیل ویٹوری جیسا تجربہ کار اسپنر بھی دستے کا حصہ ہے۔
یوں بہترین اسکواڈ، بہترین فارم اور بہترین مقام، نیوزی لینڈ کو ورلڈ کپ کے لیے بہترین ٹیم بناتے ہیں لیکن ایک سوال، کیا نیوزی لینڈ اتنے بڑے دباؤ کو جھیل سکتا ہے؟ جو ٹیم ہمیشہ سیمی فائنل میں پہنچ کر شکست سے دوچار ہوئی ہے کیا اس بار وہ ان تمام رکاوٹوں کو عبور کر پائے گی؟ یہ آنے والا وقت بتائے گا۔
ویسٹ انڈیز
بیٹنگ 6.9
باؤلنگ 7.0
فیلڈنگ 7.0
اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ورلڈ کپ میں بنگلہ دیش اور آئرلینڈ سے بھی برا حال اس وقت ویسٹ انڈیز کا ہے۔ اپنے اہم ترین کھلاڑیوں سے محروم ہونے کے ساتھ ساتھ یہ بدترین فارم میں بھی ہے۔ کرس گیل، ڈیرن سیمی، مارلون سیموئلز، کیمار روچ اور آندرے رسل جیسے بڑے ناموں کے باوجود ویسٹ انڈیز شکست کی راہوں پر گامزن ہے۔ کچھ اندازہ آپ کو وارم اپ ہی میں ہوگیا ہوگا کہ جہاں اسکاٹ لینڈ جیسے کمزور حریف کے خلاف ویسٹ انڈیز کو 314 رنز کے بھاری ہدف کے دفاع میں بھی سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور وہ صرف تین رنز سے جیت پایا۔
پھر مجموعی طور پر ٹیم کی کارکردگی کا یہ حال ہے کہ ڈھائی سالوں سے کسی قابل ذکر ٹیم کے خلاف کوئی ون ڈے سیریز نہیں جیت پائی۔ 2012ء میں نیوزی لینڈ کو شکست دینے سے قبل اس کی کوئی نمایاں سیریز جیت 2008ء میں سری لنکا کے خلاف تھی یعنی گزشتہ چھ سات سالوں میں ویسٹ انڈيز کی زیادہ تر فتوحات بنگلہ دیش، زمبابوے اور آئرلینڈ جیسے کمزور حریفوں کے خلاف ہیں۔
لیکن انفرادی سطح پر دیکھیں تو دنیا کے سب سے بڑے 'کرائے کے سپاہی' یعنی لیگ پلیئرز ویسٹ انڈیز کے پاس ہیں۔ گیل، سیمی اور رسل کو خریدنے کے لیے دنیا کی ہر بڑی لیگ کی فرنچائزز بے تاب رہتی ہے لیکن جب یہ کھلاڑی مل کر کھیلتے ہیں تو کالی آندھی نظر نہیں آتی۔ کوئی اندازہ ہی نہیں کرسکتا کہ یہ وہ پہلی ٹیم ہے جس نے تقریباً بیس سالوں تک دنیائے کرکٹ پر حکمرانی کی اور مسلسل تین بار ورلڈ کپ کا فائنل کھیلا ہے۔
اب بھی، اس وقت بھی اگر یہ کھلاڑی اپنی صلاحیتوں کے مطابق اور متحد ہوکر کھیلیں تو شاید کچھ انہونی کر دکھائیں جیسا کہ انہوں نے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2012ء میں کیا تھا جہاں اہم مقابلوں میں چند کھلاڑیوں کی غیر معمولی کارکردگی نے اسے ٹی ٹوئنٹی کا عالمی چیمپئن بنا دیا تھا۔ ون ڈے کرکٹ خاصی مختلف ہے اور اس کا مزاج اور تقاضے بھی الگ ہیں لیکن پھر بھی ویسٹ انڈیز کو مکمل طور پر خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔
پاکستان
بیٹنگ 7.4
باؤلنگ 7.2
فیلڈنگ 6.0
پچھلی قسط میں آپ کو عالمی چیمپئن بننے کے لیے تین ضروری عناصر بتائے تھے، ایک بہترین ٹیم، پھر بہترین کارکردگی اور اس کےبعد قسمت۔ پاکستان نہ ہی اپنی بہترین ٹیم کے ساتھ آسٹریلیا میں موجود ہے اور نہ ہی اس کی حالیہ کارکردگی کچھ ایسی ہے کہ جس کی بنیاد پر خوش فہمیاں قائم کی جائیں لیکن قسمت ایک ایسا عنصر ہے جو کسی بھی ٹیم کو جتواسکتا ہے۔ 1992ء میں جب پاکستان اپنے ابتدائی مقابلوں میں بدترین کارکردگی دکھانے کے بعد عالمی کپ کی دوڑ سے باہر ہونے والا تھا تو یہی قسمت پاکستان کے کھلاڑیوں کو مقابلے میں واپس لے کر آئی تھی اور پھر 'دیوار سے لگے شیروں' نے ایسا وار کیا کہ دنیا کی کسی ٹیم کے لیے ان کو روکنا ممکن نہیں دکھائی دیا تھا۔
پاکستان اس وقت بھی اپنے بہترین باؤلرز کے بغیر ورلڈ کپ کھیلا تھا اور آج بھی یہی عالم ہے۔ سعید اجمل، محمد حفیظ اور جنید خان مختلف وجوہات کی بنیاد پر عالمی کپ میں شریک نہیں اس لیے پاکستان کو محمد عرفان، وہاب ریاض، سہیل خان، احسان عادل اور یاسر شاہ پر مشتمل نسبتاً کم تجربہ کار باؤلنگ لائن پر اکتفا کرنا پڑے گا۔ لیکن تمام اہم باؤلرز سے محروم ہوجانے کے باوجود پاکستان کی اصل قوت اس کی باؤلنگ ہی ہے اور اس پر ٹیم کے کرتا دھرتاؤں کو پوری توجہ رکھنا ہوگی۔ پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ پانچ گیند بازوں کے ساتھ کھیلے کیونکہ اسی صورت میں وہ حریف ٹیم کو کم اسکور پر آؤٹ کرکے اپنے بلے بازوں پر دباؤ کو کم کرسکتا ہے۔
بیٹنگ میں مصباح الحق اور یونس خان کی صورت میں دو انتہائی تجربہ کار بلے بازوں کا ساتھ ضرور حاصل ہے لیکن یونس کی حالیہ فارم پاکستان کے لیے تشویش کا باعث ہے۔ انہیں ورلڈ کپ کے دوران اپنی کارکردگی کے ذریعے ثابت کرنا ہوگا کہ ان کا انتخاب درست ہوا ہے بصورت دیگر اس اسٹار بیٹسمین کا کیریئر اپنے خاتمے کو پہنچ جائے گا۔ اس لیے مصباح الحق، عمر اکمل اور شاہد آفریدی کے ساتھ ان پر بھی بڑی ذمہ داری ہوگی۔
ٹیم کی حالیہ کارکردگی پر مجموعی طور پر مایوس کن ہے۔ پاکستان اب ایک مشکل گروپ میں موجود ہے، جہاں اسے بھارت، جنوبی افریقہ اور ویسٹ انڈیز کے ساتھ آئرلینڈ سے مقابلہ کرنا ہوگا۔
اس پس منظر کے باوجود پاکستان نے وارم اپ مقابلوں میں عمدہ کارکردگی دکھائی ہے۔ زیادہ حوصلہ افزاء بات یہ ہے کہ بنگلہ دیش اور انگلستان دونوں کے خلاف ہدف کا تعاقب کامیابی کے ساتھ کیا ہے اور یوں پاکستانی شائقین کے لیے امید کی ایک کرن پیدا کی ہے۔ اگر پاکستان بھارت کے خلاف اپنا پہلا مقابلہ جیت گیا تو اس کے حوصلوں بہت بلند ہوں گے جو آئندہ مقابلوں کے لیے تحریک کا کام کریں گے۔
پاکستان کے لیے ایک اور خوش کن امر نوجوان حارث سہیل اور صہیب مقصود کی عمدہ کارکردگی ہے جنہوں نے حالیہ مقابلوں میں خود کو مرد بحران ثابت کیا ہے۔ اگر یہ کھلاڑی اپنی اہلیت کے مطابق کھیلیں تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان سیمی فائنل نہ کھیلے۔ اس کے بعد صرف دو دن کی اچھی کارکردگی درکار ہوگی جو پاکستان کو 23 سال بعد ورلڈ چیمپئن بنا سکتی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔