پھوڑ ڈال میرے لعل

اب درحقیقت بھارت کی کمزور باؤلنگ اور پاکستان کی کمزور بیٹنگ کا مقابلہ ہے۔


فہد کیہر February 14, 2015
اب جنوبی آسٹریلیا ایک دن کے لیے جنوبی ایشیا بن جائے گا کس کے نصیب میں کیا آتا ہے؟ کون پٹاخے پھوڑے گا اور کون صرف دل کے پھپھولے؟ یہ جاننے کے لیے بس ایک دن کا مزید انتظار کرلیں۔ فوٹو: فائل

ABU DHABI: آج سے کوئی 23 سال پہلے سڈنی کرکٹ گراؤنڈ سے جس مایوس کن سفر کا آغاز ہوا تھا، بنگلور، مانچسٹر، سنچورین اور موہالی کے بعد اس سفر کی نئی منزل اب آسٹریلیا ہی کا شہر ایڈیلیڈ ہے۔ روایتی حریف بھارت کے خلاف ان پانچوں ورلڈ کپ مقابلوں میں پاکستان کو شکست ہوئی لیکن اب وہ ایک نئے عزم، حوصلے اور ہمت کے ساتھ اس سلسلے کو توڑنے کا خواہاں ہے۔

کل یعنی 15 فروری کو جنوبی آسٹریلیا کے شہر ایڈیلیڈ میں 'تاریخ کا سب سے بڑامقابلہ' کھیلا جائے گا، پاک-بھارت مقابلہ، جس سے بڑا کرکٹ میں کوئی مقابلہ نہیں۔ آسٹریلیا اور انگلینڈ کی رقابت دیرینہ سہی، پرانی بھی بہت اور دونوں حریف باقاعدگی سے ایک دوسرے کے مقابل بھی آتے ہیں لیکن پاکستان اور بھارت کے مقابلوں کی تو بات ہی اور ہے۔ جس مقابلے کی ٹکٹیں فروخت کے لیے دستیاب ہوتے ہی چند منٹوں میں فروخت ہوجائیں، جس کے دوران بھارت میں 10 سیکنڈز کا اشتہار 25 لاکھ روپے میں فروخت ہو، جس مقابلے کو دیکھنے کے لیے ایک ارب سے زيادہ افراد اپنے روزمرہ معمولات کو چھوڑ دینے کے لیے تیار ہوں، وہ آخر کیسے نہ دنیا کے بڑے مقابلوں میں شمار ہو؟ پھر گزشتہ ایک دہائی میں دونوں کو باہم کھیلتے دیکھنے کے مواقع بھی بہت کم میسر آئے ہیں۔

2008ء میں ممبئی دہشت گرد حملوں کے بعد سے تو محدود اوورز کی ایک سیریز کے علاوہ دونوں ٹیمیں صرف عالمی ٹورنامنٹس ہی میں آمنے سامنے آتی ہیں، اس لیے ان پاک-بھارت مقابلوں کی اہمیت کئی گنا بڑھ گئی ہے۔

اس پس منظر کو دیکھیں تو اندازہ ہوسکتا ہے کہ یہ توقعات کھلاڑیوں پر کتنا بڑا دباؤ ڈالتی ہوں گی۔ سچن تنڈولکر نے بتایا تھا کہ 2003ء کے ورلڈ کپ میں پاکستان کے مقابلے سے پہلے وہ 15 راتوں تک اچھی طرح نہیں سو پائے تھے اور جب مقابلے کے لیے میدان میں اترے تو 75 گیندوں پر 98 رنز کی فاتحانہ اننگز کھیلی۔ اب 2015ء میں تو شاید دونوں ہی ٹیموں کی نیندیں حرام ہوں۔ بھارت کا دستہ ڈھائی مہینے سے آسٹریلیا کی سرزمین پر موجود ہے اور اس کے ہاتھ سوائے شکست کے کچھ نہیں لگا۔ نہ کوئی ٹیسٹ جیت پائےاور نہ ہی اس کے بعد ''بگ تھری'' کے درمیان ہونے والی سہ فریقی سیریز کا کوئی مقابلہ۔ یہاں تک کہ ورلڈ کپ کے وارم-اپ مقابلوں میں بھی وہ صرف افغانستان جیسے کمزور حریف کو زیر کر پائے ہیں۔ اس فارم کے ساتھ کیا بھارت پاکستان کے خلاف مقابلے کا دباؤ برداشت کر پائے گا؟ اگر کاغذ پر دیکھا جائے تو بھارت کا پلڑا واضح طور پر بھاری ہے۔

اس کے پاس دنیا کا بہترین بیٹسمین ویرات کوہلی اور مقابلے کو اپنے حق میں پلٹا دینے والا بہترین کپتان مہندرسنگھ دھونی ہے۔ شیکھردھاون، روہیت شرما، سریش رائنا، اجنکیاراہانے کے بعد رویندر جدیجا جیسے آل راؤنڈ کی موجودگی بھارت کی بیٹنگ لائن کو مکمل کرتی ہے۔ لیکن 'مور کے پیروں' کی طرح بھارت کی باؤلنگ لائن اتنی ہی بدنما ہے جتنی بیٹنگ لائن خوبصورت۔ بھوونیشور کمار، محمد شامی اور موہیت شرما بلاشبہ باصلاحیت ہیں لیکن اتنے بڑے مقابلے کے دباؤ کو برداشت کرنے کے لیے شاید تیار نہ ہوں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بھارت کی باؤلنگ لائن جتنی ناقص ہے، پاکستان کی بیٹنگ لائن کا حال بھی اتنا ہی بُرا ہے یعنی یہ بات یقینی نہیں کہ پاکستان کے بلے باز بھارت کی اس کمزوری کا فائدہ اٹھا پائیں گے۔ یہی چیز پاک-بھارت مقابلے کو دلچسپ بنارہی ہے جو اب درحقیقت بھارت کی کمزور باؤلنگ اور پاکستان کی کمزور بیٹنگ کا مقابلہ ہے۔

چند روز قبل ٹیم پاکستان کی حالت بھارت سے گئی گزری نظر آرہی تھی، جو گزشتہ 12 ایک روزہ مقابلوں میں صرف دو فتوحات حاصل کرپائی تھی لیکن پاکستان کے حوصلوں کو بلند کیا ہے ورلڈ کپ کے وارم اپ مقابلوں میں بہترین فتوحات نے۔ پاکستان بنگلہ دیش کے بعد انگلینڈ جیسے مضبوط حریف کے خلاف بھی ہدف کا تعاقب کرکے مقابلہ جیتا۔ یعنی اس انگلینڈ کے خلاف جو حال ہی میں بھارت کو دو مرتبہ بری طرح شکست دے چکا ہے۔

پاکستان کے لیے ایک اور خوش آئند بات یہ ہے کہ اس کے اہم ترین کھلاڑی مصباح الحق، شاہد آفریدی اور احمد شہزاد فارم میں ہیں اور نوجوان صہیب مقصود اور حارث سہیل بھی عمدہ کارکردگی دکھا رہے ہیں۔ یہی بات پاکستان کو بھارت پر برتری دلا رہی ہے کہ بھارت پے در پے شکستوں کے بعد ایڈیلیڈ پہنچے گا جبکہ پاکستان دو حوصلہ افزاء فتوحات حاصل کرکے اس میدان کا رخ کررہا ہے۔

اب جنوبی آسٹریلیا ایک دن کے لیے جنوبی ایشیا بن جائے گا اور کل شام تک سرحد کے ایک طرف جشن ہوگا اور دوسری جانب شام غریباں! کس کے نصیب میں کیا آتا ہے؟ کون پٹاخے پھوڑے گا اور کون صرف دل کے پھپھولے؟ یہ جاننے کے لیے بس ایک دن کا مزید انتظار کرلیں۔

 


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں