عام آدمی پارٹی نے تمام تجزیے غلط کردکھائے
70 میں سے67نشستیں حاصل کرکے نریندرمودی کی جادوئی مقبولیت کوبھسم کردیا
بھارتی دارالحکومت دہلی کے ریاستی انتخابات میں مجموعی 70 میں سے67نشستیں حاصل کرکے نریندرمودی کی جادوئی مقبولیت کوبھسم کرنے والے اروندکیجریوال کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ وہ بھارتی قوم کے باپو گاندھی جی سے بہت متاثر ہیں، تاہم ایسا نہیں ہے۔
وہ مدرٹریسا سے متاثر ہیں۔90ء کی دہائی میں جب وہ اربوں روپے کا کاروبار کرنے والی کمپنی ٹاٹاکمپنی میں ملازم تھے، ایک دن نوکری سے تنگ آکر سکون کی تلاش میں مدرٹریسا کے مرکز میں پہنچ گئے، ایک طویل قطارکا حصہ بنے، جب مدرٹریسا سے ملنے کا لمحہ آیاتو مدرٹریسا نے کیجریوال کے ہاتھ پر بوسہ دیا، میں نے کہا کہ میں آپ کے کام کا حصہ بنناچاہتاہوں۔ یہ کیجریوال کے لئے عجب روحانی لمحہ تھا۔
عام آدمی پارٹی کے سربراہ کی زندگی کا دوسرا یادگار لمحہ وہ تھا جب انھوں نے دارالحکومت دہلی پر طویل عرصہ تک برسراقتدار رہنے والی پارٹی 'کانگریس' کو بدترین شکست سے دوچارکیا۔ شکست خوردہ وزیراعلیٰ شیلاڈکشٹ تین ادوار سے اس منصب پر فائز تھیں۔ ان انتخابات میں بھارتیہ جنتاپارٹی کو31سیٹیں ملی تھیں جبکہ کیجریوال کی پارٹی کو 28۔ انھوں نے شکست خوردہ کانگریس کے ساتھ مل کر حکومت قائم کرلی اور بی جے پی منہ دیکھتی رہ گئی۔
پچھلی بارکیجری وال دہلی میں انتخابی مہم چلارہے تھے تو ان کی انتخابی حکمت عملی مسحورکن تھی۔ انھوں نے غیرروایتی مہم چلائی۔ درست پالیسی، صحیح تشہیر اور بہترین انتخابی نظم و ضبط۔ اس کے زیادہ تر امیدوار سچ مچ کے عام آدمی تھے۔ کوئی حلوائی ،کوئی سافٹ ویئر انجینئر، کوئی چھوٹا بڑا تاجر، زیادہ تر نوجوان۔ عام آدمی پارٹی کو سب سے زیادہ حمایت متوسط طبقے سے ملی۔ ان میں زیادہ ترسرکاری ملازم ، چھوٹے تاجر، ڈاکٹر، ٹیچر، وکیل اور صحافی تھے۔
یہ طبقہ بدعنوانی اور مہنگائی کی وجہ سے بہت زیادہ پریشان تھا، یہ سرکاری محکموں سے ناراض ، بجلی کے بلوں سے تنگ آیا ہوا تھا، پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے پریشان، ہسپتالوں اور ٹرانسپورٹ کے شعبوں کے بارے میں بھی شدید شاکی تھا۔ عام آدمی پارٹی کو کنٹریکٹ پر کام کرنے والے ملازموں کی بھی بھرپور حمایت ملی کیونکہ وہ بہت عرصہ سے مستقل ہونے کا مطالبہ کررہے تھے، عام آدمی پارٹی پہلی جماعت تھی جس نے انھیں مستقل کرنے کا وعدہ کیا۔
یادرہے کہ صفائی کرنے والا عملہ، ٹیچرز، مزدور، ڈرائیور، میٹرو میں کام کرنے والے ملازمین زیادہ تر ٹھیکے پر ہی کام کرتے ہیں، یہ سب دہلی میں ایک بڑی آبادی شمار ہوتے ہیں۔ پارٹی کو این جی او، سماجی کارکنوں کی بھی بھرپور حمایت ملی، ان میں ہر مکتبہ فکر والے لوگ تھے۔
عام آدمی پارٹی نے نظریات کے بجائے مسائل کی بنیادپر انتخابی مہم چلائی ، فائدہ یہ ہوا کہ جو تنظیم جن طبقوں میں کام کرر ہی تھی، وہاں اس پارٹی کی تشہیر خود بخود ہوگئی۔ دہلی کی زیادہ تر این جی اوز جھگی جھونپڑیوں میں کام کرتی ہیں۔ ان غیر سرکاری تنظیموں نے عام آدمی پارٹی کی خوب تشہیر کی۔ جھگی جھونپڑی میں اب تک کانگریس کا دبدبہ رہاتھا، اور وہ جھگیوں میں انتخاب سے پہلے پیسے اور شراب بانٹتی تھی اور لوگوں کے ووٹ پاتی تھی۔ لیکن پہلی بار عام آدمی پارٹی کے کارکنوں نے رضاکار تنظیموں کے ذریعے جھگیوں میں براہ راست ووٹروں سے رابطہ کیا، انہیں گھر دینے کا وعدہ کیا، ٹھیکے پر کام سے نجات دلانے کی بات کا یقین دلایا۔ یوں یہ طبقہ عام آدمی پارٹی کی بھیڑ میں شامل ہوگیا۔ یوںعام آدمی کی وجہ سے عام آدمی کامیاب ہوگئی۔
کیجریوال کا کانگریس کے ساتھ رومانس زیادہ دیرتک نہ چل سکا۔ یوںکیجریوال 28دسمبر2013سے 14فروری2014ء تک، انچاس دن برسراقتداررہے اورپھراستعفیٰ دیدیا۔ سبب یہ تھاکہ وہ ریاستی اسمبلی میں کرپشن کے خلاف قانون 'جین لوک پال' منظورنہیں کراسکے تھے، اس کا انہوں نے اپنی قوم سے وعدہ کیاتھا۔ 70رکنی اسمبلی میں قانون کی منظوری کے لئے انھیں دیگر جماعتوں کی حمایت بھی درکارتھی لیکن دونوں بڑی جماعتوں کانگریس اور بھارتیہ جنتا پارٹی نے حمایت سے انکار کردیا۔ کیجریوال کہہ چکے تھے کہ وہ یہ قانون منظورنہ کراسکے تو استعفیٰ دیدیں گے۔ چنانچہ انھوں نے اپنے کئے پر عمل کردکھایا۔
یہ قانون منظور ہوجاتاتو ایک ایسا آزاد ادارہ وجود میں آتا جو سیاستدانوں اور سرکاری افسران کی مبینہ کرپشن کی تحقیقات کر تا۔ تاہم کانگریس اوربی جے پی نے یہ کہہ کر قانون کی حمایت سے انکارکردیا کہ اس بل کو اسمبلی میں پیش کرنے سے پہلے وفاقی حکومت سے منظوری نہیں لی گئی۔ یادرہے کہ آئین میں ایسی کوئی بات درج ہی نہیں۔کیجریوال کے مطابق شیلاڈکشت نے اپنے دور اقتدار میں تیرہ ایسے مالیاتی بل پاس کرائے جن کی مرکز سے منظوری نہیں لی گئی تھی۔ ثانیاً ان کی حکومت نے بھارت کی مشہورکاروباری شخصیت مکیش امبانی کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا جس پر، ان کے بقول ''انہیں سبق سکھانے کے لیے 'بی جے پی' اور 'کانگریس' نے اتحاد کرلیا''۔
انچاس روزہ اقتدار کے دوران دہلی کے وزیرِاعلیٰ اپنے عوامی طرزِ حکمرانی اور بدعنوانی جیسے معاملات پر سخت موقف کے باعث مرکزی حکومت اور دیگر ریاستی اداروں کے ساتھ مستقل حالت جنگ میں رہے۔ انھوں نے کئی اہم تبدیلیوں کو متعارف کرایا۔ وزارت اعلیٰ کا حلف لینے کے لئے بذریعہ میٹرو ٹرین پہنچ کر انھوں نے عوام کوباور کرایا کہ اس مرتبہ ایک عام آدمی ریاست کا وزیراعلیٰ بن رہاہے۔ ان کی گاڑی جب سڑک پر چلتی تھی، کوئی پہچان ہی نہیں سکتاتھا کہ وزیراعلیٰ گزررہاہے۔ ان کی ویگن کئی مرتبہ سرخ سگنل ہونے کی وجہ سے ٹریفک میں پھنسی ہوئی دیکھی گئی۔
انھوں نے یا ان کے کسی وزیر نے سرکاری بنگلہ نہ لے کر سیاست میں ایک نئی روایت قائم کی۔ انھوں نے سیکورٹی لی نہ ہی ان کے کسی وزیرنے۔ کرپشن کے خلاف ہیلپ لائن شروع کرکے انھوں نے کرپٹ بیورکریٹس کی نیندیں حرام کردیں اور عوام میں بلاکااعتماد پیدا کیا۔ سب سے بڑھ کر دہلی پولیس کے رویے کے خلاف دھرنے کے موقع پر انھوں نے رات سڑک پر گزاری۔ سڑک پر سونے والے شاید وہ ملک کے پہلے وزیراعلیٰ تھے۔کیجریوال کے دھرنا پر ان کے مخالفین نے کہا کہ وہ انارکسٹ ہیں، جس پر عام آدمی پارٹی کے سربراہ نے کہا: ''ہاں! میں انارکسٹ ہوں''۔ انھیں گرفتارکیاگیا، دہلی کی بدنام زمانہ تہاڑ جیل میں قیدکیاگیا۔
بھارتی تجزیہ نگاروں کے مطابق کیجریوال کا طرزعمل ملک کے باقی سیاست دانوں کے لئے باعث پریشانی تھا کہ کہیں عوام ان سے جڑ نہ جائیں۔ شایدیہی وجہ ہے کہ ان کے استعفے پر ملک کی دونوں بڑی پارٹیوں نے راحت کا سانس لیا۔ بی جے پی کے رہنما ارون جیٹلی کاکہناتھا کہ ایک بھیانک خواب ختم ہوگیا۔ یادرہے کہ بی جے پی گزشتہ ریاستی انتخابات میں کانگریس کی بری کارکردگی کے سبب دہلی میں اپنی جیت کے بارے میں یقین کی کیفیت میں مبتلاتھی لیکن عام آدمی پارٹی نے اس کے سارے خواب بکھیر دئیے۔
انچاس دنوں میں عام آدمی پارٹی نے عوام کومشکلات سے نجات دلانے کے لئے اقدامات کئے تو دونوں بڑی جماعتیں تڑپ اٹھیں۔ بجلی کے نرخوں میں پچاس فیصد کمی،دہلی کے شہریوں کوماہانہ 20 ہزار لیٹرپینے کے صاف پانی کی مفت فراہمی، وی آئی پی کلچر کا مکمل خاتمہ، بے گھر افراد کے لئے رات کے قیام کی سہولت فراہم کرنا،ایسے تمام اقدامات پر عوام خوش ہوئے لیکن دونوں بڑی جماعتیں تلملاتی رہیں۔ ابھی کیجریوال نے دہلی کے تمام اسکولوں کے انفراسٹرکچر کوٹھیک کرنا تھا، فوری انصاف کی خاطر 47 نئی عدالتیں قائم کرناتھیں، اگرایسا ہوجاتاہے تو کوئی اس تبدیلی کا تصوربھی نہیں کر سکتا تھا جو محض چندماہ میں وقوع پذیرہوجاتی۔
اگرچہ دونوں بڑی جماعتیں عوام کو باورکرانے کی کوشش کرتی رہیں کہ عام آدمی پارٹی دہلی میں حکومت چلانہیں سکی اور گھبرا کے بھاگ اٹھی۔ تاہم کیجریوال کے استعفے کے بعد رائے عامہ کے جائزہ لیاگیا تو پتہ چلا کہ کیجریوال کی حمایت میں اضافہ ہواہے۔ مثلاً 'ہندوستان ٹائمز' کے جائزے میں پوچھے گئے مختلف سوالات کے جواب میں لوگوں کی اکثریت نے کیجریوال کے استعفیٰ کو درست اقدام قراردیا۔ 56فیصد کا کہناتھا کہ کیجریوال کے استعفیٰ کی وجہ سے عام آدمی پارٹی دہلی کے اگلے ریاستی انتخابات میں زیادہ تعدادمیں سیٹیں جیت سکے گی۔
76فیصد لوگوں کا خیال تھا کہ اگلے ریاستی انتخابات میں دہلی میں عام آدمی پارٹی کے علاوہ کسی جماعت کی حکومت قائم ہوگئی تو وہ کیجریوال حکومت کے اقدامات کو واپس لے سکتی ہے۔کیجریوال حکومت کی ریٹنگ کے ضمن میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں 57فیصد لوگوں نے اسے 'اچھی' قراردیا۔ رائے عامہ کادوسرے جائزوں سے بھی پتہ چلا کہ عام آدمی پارٹی اگلے ریاستی انتخابات میں پہلے سے زیادہ سیٹیں لے کر حکومت سازی کرے گی۔ اورپھرحالیہ انتخابات میں ایسا ہی ہوا۔
ان انتخابات میںکانگریس کو ایک بھی سیٹ نہ ملی جبکہ سابقہ انتخابات میں اس کی 8نشستیں تھیں۔ پچھلے انتخابات میں 31سیٹیں حاصل کرنے والی بی جے پی کو امیدتھی کہ وہ قومی انتخابات کی طرح دہلی میں بھی زیادہ بڑی کامیابی حاصل کرے گی تاہم وہ محض 3نشستیں حاصل کرسکی۔ اس کا واضح مطلب ہے کہ مودی کی جادوئی مقبولیت کا بھانڈہ دہلی میں پھوٹ گیا۔ قومی انتخابی مہم میں بی جے پی کے ہیرو نے جو وعدے قوم سے کئے تھے، وہ پورے نہیں کرسکے۔ اگر وہ کوئی کرشمہ دکھاچکے ہوتے تو دہلی میں اس قدربری شکست سے دوچارنہ ہوتے۔دوسری طرف ان انتخابات نے کانگریس کے کارکنوں کو راہول گاندھی کے خلاف میدان میں نکلنے پر مجبورکردیاہے۔ ان کے خیال میں راہول گاندھی کوئی کرشمہ دکھانے میں ناکام رہے ہیں، اب پریانیکا گاندھی کو سامنے لاناضروری ہے۔
کیجریوال کی کامیابی کے 8 اسباب
دہلی والوں نے کیجری وال کو 96فیصد نشستیں دیکر بھاری ذمہ داری عائد کردی ہے۔ ان کی کامیابی میںجن فیکٹرزنے اہم کردار اداکیاہے، ان میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ قومی انتخابات میں کامیابی نہ حاصل کرنے کے بعد عام آدمی پارٹی نے ساری توجہ دہلی کی ریاستی انتخابی مہم پر لگا دی۔ انتخابی امیدواروں کے اعلان سے لے کر پارٹی منشور تک، عام آدمی پارٹی بی جے پی اور کانگریس سے کہیں آگے نظرآئی۔
2۔ دہلی والوں کے خیال میں بھی ہرفرد کو دوسرا موقع ضرور دینا چاہئے۔ کیجریوال نے 49دنوں کے بعد حکومت چھوڑ کرغلطی کو تسلیم کیا اور ہرموقع پر دہلی والوں سے معذرت کی۔ انھوں نے مخالفین کے خلاف اپنی زبان زیادہ نہ کھولی، بی جے پی کی امیدوار برائے وزارت اعلیٰ کرن بیدی کے خلاف ایک حرف نہ کہا۔ اس حکمت عملی نے ان کا تاثرووٹروں کی نظر میں مزید بہتر بنایا۔
3۔ نریندرمودی کا ایسا لباس پہننا جس پر ان کا نام لکھاہواتھا اور جس کی تیاری پر10لاکھ روپے کے اخراجات آئے تھے، یہ حرکت ان کے خلاف ہی گئی۔دوسری طرف کیجریوال عام آدمی ہی نظرآئے۔
4۔ماہرین کہہ رہے ہیں کہ دہلی انتخابات میں مسلمانوں کی عظیم اکثریت نے عام آدمی پارٹی ہی کو ووٹ دیا۔ گزشتہ ریاستی انتخابات میں مسلمان ووٹ عام آدمی پارٹی اور کانگریس میں تقسیم ہوگیاتھا۔ تاہم اس بار پہلے ہی سے طے تھا کہ مقابلہ بی جے پی اور عام آدمی پارٹی کے درمیان ہے، اس تناظر میں مسلمانوں نے عام آدمی پارٹی ہی کو اپنے ووٹ کا مستحق سمجھا۔
5۔ کانگریس کا زوال بھی عام آدمی پارٹی کے حق میں گیا۔ جو ووٹ کانگریس کو جاتاتھا، وہ بھی کیجریوال کی جماعت کو ملا۔
6۔بی جے پی نے انتخابی مہم کے دوران کرن بیدی کو 'امیدوار برائے وزیراعلیٰ' نامزدکردیا۔اس کا بھی حکمران جماعت کونقصان اٹھاناپڑا کیونکہ دہلی میں بی جے پی کے ووٹرنے کرن بیدی کو قبول نہیں کیا تھا، ان کے بارے میں اندرونی حلقوں میں مخالفت نظرآئی۔
7۔عام آدمی نے دہلی میں اپنی مہم میں ایسی کوئی بات نہ کہی جس سے اس کاہندواور مسلم ووٹ تقسیم ہو جائے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے جامع مسجد دہلی کے شاہی امام بخاری کی طرف سے حمایت کی پیشکش قبول نہ کی۔
8۔ عام آدمی پارٹی کی کامیابی کا سب سے بڑا سبب اس کی 49روز کی کارکردگی تھی جس پر دہلی کے ووٹرخوش تھے۔انھیں کیجریوال کے حکومت چھوڑنے کا غصہ ضرورتھا کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ کیجریوال ایسی ہی حکومت کرتے رہیں۔
وہ مدرٹریسا سے متاثر ہیں۔90ء کی دہائی میں جب وہ اربوں روپے کا کاروبار کرنے والی کمپنی ٹاٹاکمپنی میں ملازم تھے، ایک دن نوکری سے تنگ آکر سکون کی تلاش میں مدرٹریسا کے مرکز میں پہنچ گئے، ایک طویل قطارکا حصہ بنے، جب مدرٹریسا سے ملنے کا لمحہ آیاتو مدرٹریسا نے کیجریوال کے ہاتھ پر بوسہ دیا، میں نے کہا کہ میں آپ کے کام کا حصہ بنناچاہتاہوں۔ یہ کیجریوال کے لئے عجب روحانی لمحہ تھا۔
عام آدمی پارٹی کے سربراہ کی زندگی کا دوسرا یادگار لمحہ وہ تھا جب انھوں نے دارالحکومت دہلی پر طویل عرصہ تک برسراقتدار رہنے والی پارٹی 'کانگریس' کو بدترین شکست سے دوچارکیا۔ شکست خوردہ وزیراعلیٰ شیلاڈکشٹ تین ادوار سے اس منصب پر فائز تھیں۔ ان انتخابات میں بھارتیہ جنتاپارٹی کو31سیٹیں ملی تھیں جبکہ کیجریوال کی پارٹی کو 28۔ انھوں نے شکست خوردہ کانگریس کے ساتھ مل کر حکومت قائم کرلی اور بی جے پی منہ دیکھتی رہ گئی۔
پچھلی بارکیجری وال دہلی میں انتخابی مہم چلارہے تھے تو ان کی انتخابی حکمت عملی مسحورکن تھی۔ انھوں نے غیرروایتی مہم چلائی۔ درست پالیسی، صحیح تشہیر اور بہترین انتخابی نظم و ضبط۔ اس کے زیادہ تر امیدوار سچ مچ کے عام آدمی تھے۔ کوئی حلوائی ،کوئی سافٹ ویئر انجینئر، کوئی چھوٹا بڑا تاجر، زیادہ تر نوجوان۔ عام آدمی پارٹی کو سب سے زیادہ حمایت متوسط طبقے سے ملی۔ ان میں زیادہ ترسرکاری ملازم ، چھوٹے تاجر، ڈاکٹر، ٹیچر، وکیل اور صحافی تھے۔
یہ طبقہ بدعنوانی اور مہنگائی کی وجہ سے بہت زیادہ پریشان تھا، یہ سرکاری محکموں سے ناراض ، بجلی کے بلوں سے تنگ آیا ہوا تھا، پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے پریشان، ہسپتالوں اور ٹرانسپورٹ کے شعبوں کے بارے میں بھی شدید شاکی تھا۔ عام آدمی پارٹی کو کنٹریکٹ پر کام کرنے والے ملازموں کی بھی بھرپور حمایت ملی کیونکہ وہ بہت عرصہ سے مستقل ہونے کا مطالبہ کررہے تھے، عام آدمی پارٹی پہلی جماعت تھی جس نے انھیں مستقل کرنے کا وعدہ کیا۔
یادرہے کہ صفائی کرنے والا عملہ، ٹیچرز، مزدور، ڈرائیور، میٹرو میں کام کرنے والے ملازمین زیادہ تر ٹھیکے پر ہی کام کرتے ہیں، یہ سب دہلی میں ایک بڑی آبادی شمار ہوتے ہیں۔ پارٹی کو این جی او، سماجی کارکنوں کی بھی بھرپور حمایت ملی، ان میں ہر مکتبہ فکر والے لوگ تھے۔
عام آدمی پارٹی نے نظریات کے بجائے مسائل کی بنیادپر انتخابی مہم چلائی ، فائدہ یہ ہوا کہ جو تنظیم جن طبقوں میں کام کرر ہی تھی، وہاں اس پارٹی کی تشہیر خود بخود ہوگئی۔ دہلی کی زیادہ تر این جی اوز جھگی جھونپڑیوں میں کام کرتی ہیں۔ ان غیر سرکاری تنظیموں نے عام آدمی پارٹی کی خوب تشہیر کی۔ جھگی جھونپڑی میں اب تک کانگریس کا دبدبہ رہاتھا، اور وہ جھگیوں میں انتخاب سے پہلے پیسے اور شراب بانٹتی تھی اور لوگوں کے ووٹ پاتی تھی۔ لیکن پہلی بار عام آدمی پارٹی کے کارکنوں نے رضاکار تنظیموں کے ذریعے جھگیوں میں براہ راست ووٹروں سے رابطہ کیا، انہیں گھر دینے کا وعدہ کیا، ٹھیکے پر کام سے نجات دلانے کی بات کا یقین دلایا۔ یوں یہ طبقہ عام آدمی پارٹی کی بھیڑ میں شامل ہوگیا۔ یوںعام آدمی کی وجہ سے عام آدمی کامیاب ہوگئی۔
کیجریوال کا کانگریس کے ساتھ رومانس زیادہ دیرتک نہ چل سکا۔ یوںکیجریوال 28دسمبر2013سے 14فروری2014ء تک، انچاس دن برسراقتداررہے اورپھراستعفیٰ دیدیا۔ سبب یہ تھاکہ وہ ریاستی اسمبلی میں کرپشن کے خلاف قانون 'جین لوک پال' منظورنہیں کراسکے تھے، اس کا انہوں نے اپنی قوم سے وعدہ کیاتھا۔ 70رکنی اسمبلی میں قانون کی منظوری کے لئے انھیں دیگر جماعتوں کی حمایت بھی درکارتھی لیکن دونوں بڑی جماعتوں کانگریس اور بھارتیہ جنتا پارٹی نے حمایت سے انکار کردیا۔ کیجریوال کہہ چکے تھے کہ وہ یہ قانون منظورنہ کراسکے تو استعفیٰ دیدیں گے۔ چنانچہ انھوں نے اپنے کئے پر عمل کردکھایا۔
یہ قانون منظور ہوجاتاتو ایک ایسا آزاد ادارہ وجود میں آتا جو سیاستدانوں اور سرکاری افسران کی مبینہ کرپشن کی تحقیقات کر تا۔ تاہم کانگریس اوربی جے پی نے یہ کہہ کر قانون کی حمایت سے انکارکردیا کہ اس بل کو اسمبلی میں پیش کرنے سے پہلے وفاقی حکومت سے منظوری نہیں لی گئی۔ یادرہے کہ آئین میں ایسی کوئی بات درج ہی نہیں۔کیجریوال کے مطابق شیلاڈکشت نے اپنے دور اقتدار میں تیرہ ایسے مالیاتی بل پاس کرائے جن کی مرکز سے منظوری نہیں لی گئی تھی۔ ثانیاً ان کی حکومت نے بھارت کی مشہورکاروباری شخصیت مکیش امبانی کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا جس پر، ان کے بقول ''انہیں سبق سکھانے کے لیے 'بی جے پی' اور 'کانگریس' نے اتحاد کرلیا''۔
انچاس روزہ اقتدار کے دوران دہلی کے وزیرِاعلیٰ اپنے عوامی طرزِ حکمرانی اور بدعنوانی جیسے معاملات پر سخت موقف کے باعث مرکزی حکومت اور دیگر ریاستی اداروں کے ساتھ مستقل حالت جنگ میں رہے۔ انھوں نے کئی اہم تبدیلیوں کو متعارف کرایا۔ وزارت اعلیٰ کا حلف لینے کے لئے بذریعہ میٹرو ٹرین پہنچ کر انھوں نے عوام کوباور کرایا کہ اس مرتبہ ایک عام آدمی ریاست کا وزیراعلیٰ بن رہاہے۔ ان کی گاڑی جب سڑک پر چلتی تھی، کوئی پہچان ہی نہیں سکتاتھا کہ وزیراعلیٰ گزررہاہے۔ ان کی ویگن کئی مرتبہ سرخ سگنل ہونے کی وجہ سے ٹریفک میں پھنسی ہوئی دیکھی گئی۔
انھوں نے یا ان کے کسی وزیر نے سرکاری بنگلہ نہ لے کر سیاست میں ایک نئی روایت قائم کی۔ انھوں نے سیکورٹی لی نہ ہی ان کے کسی وزیرنے۔ کرپشن کے خلاف ہیلپ لائن شروع کرکے انھوں نے کرپٹ بیورکریٹس کی نیندیں حرام کردیں اور عوام میں بلاکااعتماد پیدا کیا۔ سب سے بڑھ کر دہلی پولیس کے رویے کے خلاف دھرنے کے موقع پر انھوں نے رات سڑک پر گزاری۔ سڑک پر سونے والے شاید وہ ملک کے پہلے وزیراعلیٰ تھے۔کیجریوال کے دھرنا پر ان کے مخالفین نے کہا کہ وہ انارکسٹ ہیں، جس پر عام آدمی پارٹی کے سربراہ نے کہا: ''ہاں! میں انارکسٹ ہوں''۔ انھیں گرفتارکیاگیا، دہلی کی بدنام زمانہ تہاڑ جیل میں قیدکیاگیا۔
بھارتی تجزیہ نگاروں کے مطابق کیجریوال کا طرزعمل ملک کے باقی سیاست دانوں کے لئے باعث پریشانی تھا کہ کہیں عوام ان سے جڑ نہ جائیں۔ شایدیہی وجہ ہے کہ ان کے استعفے پر ملک کی دونوں بڑی پارٹیوں نے راحت کا سانس لیا۔ بی جے پی کے رہنما ارون جیٹلی کاکہناتھا کہ ایک بھیانک خواب ختم ہوگیا۔ یادرہے کہ بی جے پی گزشتہ ریاستی انتخابات میں کانگریس کی بری کارکردگی کے سبب دہلی میں اپنی جیت کے بارے میں یقین کی کیفیت میں مبتلاتھی لیکن عام آدمی پارٹی نے اس کے سارے خواب بکھیر دئیے۔
انچاس دنوں میں عام آدمی پارٹی نے عوام کومشکلات سے نجات دلانے کے لئے اقدامات کئے تو دونوں بڑی جماعتیں تڑپ اٹھیں۔ بجلی کے نرخوں میں پچاس فیصد کمی،دہلی کے شہریوں کوماہانہ 20 ہزار لیٹرپینے کے صاف پانی کی مفت فراہمی، وی آئی پی کلچر کا مکمل خاتمہ، بے گھر افراد کے لئے رات کے قیام کی سہولت فراہم کرنا،ایسے تمام اقدامات پر عوام خوش ہوئے لیکن دونوں بڑی جماعتیں تلملاتی رہیں۔ ابھی کیجریوال نے دہلی کے تمام اسکولوں کے انفراسٹرکچر کوٹھیک کرنا تھا، فوری انصاف کی خاطر 47 نئی عدالتیں قائم کرناتھیں، اگرایسا ہوجاتاہے تو کوئی اس تبدیلی کا تصوربھی نہیں کر سکتا تھا جو محض چندماہ میں وقوع پذیرہوجاتی۔
اگرچہ دونوں بڑی جماعتیں عوام کو باورکرانے کی کوشش کرتی رہیں کہ عام آدمی پارٹی دہلی میں حکومت چلانہیں سکی اور گھبرا کے بھاگ اٹھی۔ تاہم کیجریوال کے استعفے کے بعد رائے عامہ کے جائزہ لیاگیا تو پتہ چلا کہ کیجریوال کی حمایت میں اضافہ ہواہے۔ مثلاً 'ہندوستان ٹائمز' کے جائزے میں پوچھے گئے مختلف سوالات کے جواب میں لوگوں کی اکثریت نے کیجریوال کے استعفیٰ کو درست اقدام قراردیا۔ 56فیصد کا کہناتھا کہ کیجریوال کے استعفیٰ کی وجہ سے عام آدمی پارٹی دہلی کے اگلے ریاستی انتخابات میں زیادہ تعدادمیں سیٹیں جیت سکے گی۔
76فیصد لوگوں کا خیال تھا کہ اگلے ریاستی انتخابات میں دہلی میں عام آدمی پارٹی کے علاوہ کسی جماعت کی حکومت قائم ہوگئی تو وہ کیجریوال حکومت کے اقدامات کو واپس لے سکتی ہے۔کیجریوال حکومت کی ریٹنگ کے ضمن میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں 57فیصد لوگوں نے اسے 'اچھی' قراردیا۔ رائے عامہ کادوسرے جائزوں سے بھی پتہ چلا کہ عام آدمی پارٹی اگلے ریاستی انتخابات میں پہلے سے زیادہ سیٹیں لے کر حکومت سازی کرے گی۔ اورپھرحالیہ انتخابات میں ایسا ہی ہوا۔
ان انتخابات میںکانگریس کو ایک بھی سیٹ نہ ملی جبکہ سابقہ انتخابات میں اس کی 8نشستیں تھیں۔ پچھلے انتخابات میں 31سیٹیں حاصل کرنے والی بی جے پی کو امیدتھی کہ وہ قومی انتخابات کی طرح دہلی میں بھی زیادہ بڑی کامیابی حاصل کرے گی تاہم وہ محض 3نشستیں حاصل کرسکی۔ اس کا واضح مطلب ہے کہ مودی کی جادوئی مقبولیت کا بھانڈہ دہلی میں پھوٹ گیا۔ قومی انتخابی مہم میں بی جے پی کے ہیرو نے جو وعدے قوم سے کئے تھے، وہ پورے نہیں کرسکے۔ اگر وہ کوئی کرشمہ دکھاچکے ہوتے تو دہلی میں اس قدربری شکست سے دوچارنہ ہوتے۔دوسری طرف ان انتخابات نے کانگریس کے کارکنوں کو راہول گاندھی کے خلاف میدان میں نکلنے پر مجبورکردیاہے۔ ان کے خیال میں راہول گاندھی کوئی کرشمہ دکھانے میں ناکام رہے ہیں، اب پریانیکا گاندھی کو سامنے لاناضروری ہے۔
کیجریوال کی کامیابی کے 8 اسباب
دہلی والوں نے کیجری وال کو 96فیصد نشستیں دیکر بھاری ذمہ داری عائد کردی ہے۔ ان کی کامیابی میںجن فیکٹرزنے اہم کردار اداکیاہے، ان میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ قومی انتخابات میں کامیابی نہ حاصل کرنے کے بعد عام آدمی پارٹی نے ساری توجہ دہلی کی ریاستی انتخابی مہم پر لگا دی۔ انتخابی امیدواروں کے اعلان سے لے کر پارٹی منشور تک، عام آدمی پارٹی بی جے پی اور کانگریس سے کہیں آگے نظرآئی۔
2۔ دہلی والوں کے خیال میں بھی ہرفرد کو دوسرا موقع ضرور دینا چاہئے۔ کیجریوال نے 49دنوں کے بعد حکومت چھوڑ کرغلطی کو تسلیم کیا اور ہرموقع پر دہلی والوں سے معذرت کی۔ انھوں نے مخالفین کے خلاف اپنی زبان زیادہ نہ کھولی، بی جے پی کی امیدوار برائے وزارت اعلیٰ کرن بیدی کے خلاف ایک حرف نہ کہا۔ اس حکمت عملی نے ان کا تاثرووٹروں کی نظر میں مزید بہتر بنایا۔
3۔ نریندرمودی کا ایسا لباس پہننا جس پر ان کا نام لکھاہواتھا اور جس کی تیاری پر10لاکھ روپے کے اخراجات آئے تھے، یہ حرکت ان کے خلاف ہی گئی۔دوسری طرف کیجریوال عام آدمی ہی نظرآئے۔
4۔ماہرین کہہ رہے ہیں کہ دہلی انتخابات میں مسلمانوں کی عظیم اکثریت نے عام آدمی پارٹی ہی کو ووٹ دیا۔ گزشتہ ریاستی انتخابات میں مسلمان ووٹ عام آدمی پارٹی اور کانگریس میں تقسیم ہوگیاتھا۔ تاہم اس بار پہلے ہی سے طے تھا کہ مقابلہ بی جے پی اور عام آدمی پارٹی کے درمیان ہے، اس تناظر میں مسلمانوں نے عام آدمی پارٹی ہی کو اپنے ووٹ کا مستحق سمجھا۔
5۔ کانگریس کا زوال بھی عام آدمی پارٹی کے حق میں گیا۔ جو ووٹ کانگریس کو جاتاتھا، وہ بھی کیجریوال کی جماعت کو ملا۔
6۔بی جے پی نے انتخابی مہم کے دوران کرن بیدی کو 'امیدوار برائے وزیراعلیٰ' نامزدکردیا۔اس کا بھی حکمران جماعت کونقصان اٹھاناپڑا کیونکہ دہلی میں بی جے پی کے ووٹرنے کرن بیدی کو قبول نہیں کیا تھا، ان کے بارے میں اندرونی حلقوں میں مخالفت نظرآئی۔
7۔عام آدمی نے دہلی میں اپنی مہم میں ایسی کوئی بات نہ کہی جس سے اس کاہندواور مسلم ووٹ تقسیم ہو جائے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے جامع مسجد دہلی کے شاہی امام بخاری کی طرف سے حمایت کی پیشکش قبول نہ کی۔
8۔ عام آدمی پارٹی کی کامیابی کا سب سے بڑا سبب اس کی 49روز کی کارکردگی تھی جس پر دہلی کے ووٹرخوش تھے۔انھیں کیجریوال کے حکومت چھوڑنے کا غصہ ضرورتھا کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ کیجریوال ایسی ہی حکومت کرتے رہیں۔