ایران اور پاکستان کی خفیہ جنگ

29 دسمبر 2014ء کی صبح محبت خان اہل خانہ کے ساتھ محوِ خواب تھا


سید عاصم محمود February 15, 2015
ریاست اور ناراض ریاستی عناصر کی کشمکش سے فائدہ اٹھا کر عالمی میڈیا دونوں پڑوسیوں کو لڑانے کی سازش کرنے لگا۔چشم کشا رپورٹ۔ فوٹو : فائل

29 دسمبر 2014ء کی صبح محبت خان اہل خانہ کے ساتھ محوِ خواب تھا۔ علاقے میں خاصی سردی تھی اور سبھی لوگ لحافوں میں دبکے ہوئے تھے۔ محبت خان زمران نامی گاؤں کا باسی تھا۔ یہ گاؤں پاک ایران سرحد کے قریب واقع ہے۔

اچانک زمران کے مکینوں کو یکے بعد دیگرے زور دار دھماکوں کی آوازیں آئیں۔ سبھی جاگتے لوگ لرز گئے جبکہ سوتے بچے اٹھ کر خوف کے مارے چیخنے چلانے لگے۔ کچھ دیر بعد اوسان بحال ہوئے، تو سبھی لوگ یہ دیکھنے گھروں سے نکلے کہ کیا آفت نازل ہوئی ہے۔ تبھی انہیں معلوم ہوا کہ یہ دھماکے چار افراد کو زخمی کرچکے۔تفتیش سے انکشاف ہوا کہ گاؤں پر ایران کی طرف سے مارٹر گولے اور راکٹ مارے گئے ہیں۔ دو راکٹ ایک چھت پر گرے ۔اس کے گرنے سے نیچے سوئے اہل خانہ زخمی ہوگئے۔ انہیں فوری طور پر طبی امداد دی گئی اور پھر نزدیکی شہر، تربت روانہ کردیا گیا۔

محبت خان گاؤں کا اکلوتا پڑھا لکھا فرد تھا۔ وہ بھی زخمیوں کے ساتھ ضلعی صدر مقام پہنچا۔ وہاں اس نے راکٹ پھینکنے کے سلسلے میں پولیس تھانے رپورٹ لکھوانی چاہی مگر انسپکٹر نے اسے درج کرنے سے انکار کردیا۔ اس کا کہنا تھا: ''یہ معاملہ ہمارے دائرہ کار سے باہر ہے۔'' بیچارا محبت خان سٹپٹا کر رہ گیا کہ اب کس کے پاس فریاد لے کر جائے۔ اس کا گاؤں دوبارہ ایرانی بموں اور راکٹوں کا نشانہ بن سکتا تھا۔اُدھر تربت بھی ماضی کی طرح پُرسکون اور شانت شہر نہیں رہا۔ پہلے یہاں علیحدگی پسند بلوچ دندنانے لگے۔ پھر مذہبی شدت پسند بھی آپہنچے جو ہندو، ذکریوں اور غیر سنیّوں کو مسلمان بنانا چاہتے تھے۔ چناں چہ ان کی متشددانہ کارروائیوں سے خوفزدہ ہوکر تین لاکھ ہزارہ شیعہ ،ذکری اور ہندو بلوچستان سے نقل مکانی کرچکے۔

دیگر بلوچوں کی طرح ضلع کیچ کے بلوچ بھی مویشی پال یا تھوڑی بہت کاشت کاری کرکے گزر بسر کرتے ہیں۔ بعض باشندے اسمگلر بھی ہیں۔ وہ ایران یا افغانستان کے راستے ہر شے... سیمنٹ سے لے کر پٹرول اور افیون تک کی اسمگلنگ کرتے ہیں۔ ضلع میں چند ہی پکی سڑکیں ہیں جبکہ تربت ہوائی اڈے پر فوجی نظر آتے ہیں۔



یہی علاقہ اس خفیہ جنگ کا مرکز بھی ہے جو ایرانی بلوچ گروہوں اور حکومتِ ایران کے مابین چھڑی ہوئی ہے۔ ایران شام اور عراق میں داعش کے خلاف نبردآزما ہے۔ اُدھر اسرائیل وقفے وقفے سے ایران میں اپنے جاسوس بھیجتا رہتا ہے۔ امریکا بھی پوشیدہ و عیاں طور پر ایرانیوں کے خلاف سرگرمیوں میں مصروف ہے۔ ایسے معاندانہ ماحول میں ایرانی حکومت کو شک ہے،اس کے مخالف پاکستانی صوبے، بلوچستان سے اس کے خلاف نیا محاذ کھولنا چاہتے ہیں۔

ایرانی حکومت دبے دبے الفاظ میں اس خدشے کا ا ظہار کرچکی کہ سنی جہادی ایران کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ اسے شبہ ہے کہ پاکستانی حکومت بھی اس عظیم عالمی سازش کا حصہ بن چکی۔ حالانکہ حکومت پاکستان نے کئی بار واشگاف الفاظ میں ایران کو بتایا ہے کہ وہ کسی عالمی سازش کا حصہ نہیں اور نہ ہی وہ ایران پر حملہ آور کسی بلوچ دہشت گرد تنظیم کی سرپرستی کررہی ہے۔

29 دسمبر کو ایرانی سرحدی فوج نے پاکستانی علاقے میں جو راکٹ و گولے برسائے یہ دراصل جوابی حملہ تھا۔ چند دن قبل جیش العدل نامی ایرانی بلوچ تنظیم سے تعلق رکھنے والے مسلح افراد نے کوہ ثور میں واقع ایرانی چوکی پر حملہ کیا تھا۔ اس حملے میں ایران کی ایلیٹ فوج، سپاہ پاسدران کے تین فوجی ہلاک ہوگئے۔

ایرانی حکومت کا دعویٰ ہے،ایرانی بلوچوں کی کم از کم تین تنظیمیں...جند اللہ،جیش العدل اور حرکت الانصار ایران میں دہشت گردی کررہی ہیں۔ ان تنظیموں کے جنگجو ایرانی چوکیوں پر حملے کرتے، سڑک کنارے بم رکھتے اور مساجد میں خودکش دھماکے کرتے ہیں۔ ایرانی حکومت کے مطابق 2005ء سے جنگجوؤں کی کارروائیوں کے باعث چھ سو ایرانی فوجی و سپاہی اور شہری ہلاک ہوچکے۔

مسئلہ یہ ہے کہ بقول ایرانی حکومت درج بالا ایرانی بلوچ تنظیموں کے دہشت گرد اپنی کارروائیاں انجام دے کر پاکستانی بلوچستان میں جاچھپتے ہیں۔ اسی لیے ایرانی اکثر اب ان کے پیچھے پاکستانی علاقے میں بھی آدھمکتے ہیں۔ یہی نہیں، ضلع کیچ میں ایسے ایرانی ڈرونوں کی پروازیں بھی شروع ہوچکیں جو میزائل پھینکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔



25 نومبر 2013ء کو ایرانی ڈرونوں نے ہی کلہاؤ نامی دیہہ میں میزائل پھینکے۔ یہ دیہہ تربت سے 30 میل دور واقع ہے۔ حملے کا نشانہ ''ملا عمر'' تھا، جیش العدل نامی بلوچ تنظیم کا اہم رہنما! کلہاؤ میں اس نے اہل خانہ کی خاطر گھر تعمیر کر رکھے تھے۔ ایرانی میزائلوں نے انہی گھروں کو ٹارگٹ کیا۔

ملا عمر دیہہ میں موجود نہ تھا، مگر اس کی ایک تین سالہ رشتے دار بچی حملے میں ہلاک ہوگئی۔ پچھلے ماہ ہی جیش العدل کے ایک حملے میں 16 ایرانی فوجی مارے گئے تھے۔ بدلے کے طور پر ایران نے میزائلوں سے ملا عمر کی رہائش گاہ کو نشانہ بنا ڈالا۔

پاکستان اور ایران کے مابین سرحد 900 کلو میٹر طویل ہے۔ سرحد کے دونوں اطراف کئی میل دور تک آبادی کا نام و نشان نہیں۔ نیز وہ علاقہ بنجر و بیابان ہے۔ چناں چہ پوری سرحد پر نظر رکھنا بالکل ممکن نہیں۔ اسی صورت حال سے اسمگلر اور چوری چھپے ایران جانے والے پاکستانی ہی نہیں ایرانی حکومت سے ناراض ایرانی بلوچ بھی فائدہ اٹھاتے ہیں۔انھوں نے پاکستانی بلوچستان میں پناہ لے رکھی ہے۔ وہ چھپ کر ایران میں داخل ہوتے اور اپنی سرگرمیاں انجام دے کر واپس آجاتے ہیں۔

پچھلے دو برس میں ایرانی سکیورٹی فورسز بظاہر دہشت گردوں کا تعاقب کرتے ہوئے کئی بار پاکستانی حدود میں داخل ہوچکیں۔ قانونی و اخلاقی لحاظ سے یہ عمل بہرحال بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے ۔ ایرانی حکومت کا کہنا ہے، اگر حکومت پاکستان بلوچستان میں موجود دہشت گردوں کے خلاف کارروائی نہیں کرسکتی، تو وہ خود یہ عمل انجام دے گی۔

بلوچستان کی انتظامیہ بتاتی ہے کہ ایرانی بعض اوقات ہیلی کاپٹروں میں بیٹھ کر قافلے کی صورت پاکستانی علاقے میں گھس آتے ہیں اور مطلوبہ شرپسندوں کا پیچھا کرتے ہیں۔ جب کبھی پاکستانی سکیورٹی فورسز نے ایرانیوں کی راہ روکنی چاہی تو دونوں میں ناگزیر تصادم بھی ہوگیا۔ایک بار لڑائی میں چند پاکستانی اہلکار اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔لیکن یہ ایک ناخوشگوار واقعہ تھا جو اب دوبارہ جنم نہیں لے سکتا۔

دوسری طرف دونوں ملکوں کے مابین کشیدگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عالمی میڈیا یہ پروپیگنڈہ کرنے لگا کہ ایران اور پاکستان کے مابین خفیہ جنگ چھڑ چکی۔اور یہ کہ اس جنگ میں امریکا اور سعودیہ پاکستان کی پشت پہ ہیں۔یہ صاف جھوٹ اور افواہ بازی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ طویل عرصے سے ایرانی حکومت اور بعض ایرانی بلوچ رہنماؤں کے درمیان کشمکش جاری ہے اور اس علاقائی مسئلے کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں۔مگر بین الاقوامی میڈیا خواہ مخواہ اس مسئلے میں پاکستان کو ملوث کرنے کی سعی کر رہا ہے تاکہ دونوں دوست اسلامی ممالک کے مابین غلط فہمیاں جنم لے سکیں۔

پاکستانی سکیورٹی فورسز پہلے ہی آزاد کشمیر اور صوبہ خیبر پختون خوا میں دشمنوں سے نبردآزما ہیں۔ ان کے پاس اتنے زیادہ وسائل نہیں کہ کئی سو میل طویل پاک ایران سرحد کی بھی حفاظت کرسکیں۔ یہی صورت حال ایرانی سکیورٹی فورسز کو بھی درپیش ہے۔ چناں چہ دونوں ممالک کے اسمگلر اور شرپسند عناصر حالات سے فائدہ اٹھاتے اور اپنی سرگرمیاں جاری رکھتے ہیں۔ مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ ایران سے نبردآزما دہشت گردوں یا شدت پسندوں کو پاکستانی حکومت کی حمایت حاصل ہے۔ پاکستانی سکیورٹی فورسز تو پہلے ہی بلوچستان میں علیحدگی پسندوں اور فرقہ وارانہ فساد پھیلانے والوں سے نمٹنے میں محو ہیں۔

اختلافات کی بنیادیں
پاکستان، ایران اور افغانستان میں تقسیم ہونے سے قبل بلوچستان کا تاریخی علاقہ تقریباً ساڑھے چار لاکھ مربع کلو میٹر رقبے پر پھیلا ہوا تھا۔انیسویں صدی میں یہ علاقہ درج بالا تینوں ممالک کے درمیان تقسیم ہو گیا۔(تب پاکستان ہندوستان کا حصہ تھا)۔ 1871ء میں ہندوستان کے انگریز حاکموں اور ایرانی بادشاہوں نے موجودہ پاک۔ایران سرحد کا تعین کیا۔ یہ سرحد بحیرہ عرب سے شروع ہوتی، بے آب و گیاہ پہاڑوں، صحرائی علاقوں اور خشک دریاؤں سے ہوتی اس جگہ جاپہنچتی ہے جہاں افغانستان، ایران اور پاکستان کی سرحدوں کا ملاپ ہوتا ہے ۔

بلوچستان کا جو علاقہ ایران میں شامل ہوا ،وہ اب صوبہ ''سیستان و بلوچستان'' کہلاتا ہے۔اس صوبے میں بلوچوں کی اکثریت ہے مگر ایران میں وہ سنی اقلیت کا درجہ رکھتے ہیں۔یہ بلوچ فارسی نہیں بلکہ اپنے ہم قوم پاکستانی بلوچوں کی طرح بلوچی زبان بولتے ہیں۔ شلوار قمیص پہنتے اور تمام عادات و اطوار میں پاکستانی بلوچوں جیسے ہیں۔ حتیٰ کہ ان کی آپس میں رشتے داریاں بھی ہیں۔ کئی ایرانی و پاکستانی بلوچ یہ انوکھی مشابہت بھی رکھتے ہیں کہ وہ اپنی اپنی حکومتوں سے خوش نہیں۔



ہمارے صوبہ بلوچستان کا رقبہ تقریباً آدھے پاکستان پر مشتمل ہے۔ مگر بہت کم آبادی، دشوار گزار راستوں اور نااہل حکومتوں کی وجہ سے ہمارا یہ اہم صوبہ معاشی و تعلیمی لحاظ سے ویسی ترقی نہیں کرسکا، جو انجام پانی چاہیے تھی۔ایران کا صوبہ سیستان وبلوچستان بھی معاشی، تعلیمی اور معاشرتی طور پر تمام ایرانی صوبوں میں سب سے زیادہ پسماندہ ہے۔ بلکہ پاکستانی بلوچوں کی بہ نسبت ایرانی بلوچ زیادہ تکلیف دہ اور کٹھن زندگی گزار رہے ہیں۔ آج تقریباً آدھے ایرانی بلوچ بے روزگار ہیں۔ ماہرین عالمی امور کی رو سے وجہ یہی ہے کہ ایرانی حکومتوں نے ان کا معیار زندگی بلند کرنے کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے۔

شاہ ایران کی اپنے دور حکومت میں سعی رہی کہ ایرانی بلوچ فارسی تہذیب و تمدن میں جذب ہوجائیں۔ اسی لیے ان کے حکم پر یہ پابندی لگادی گئی کہ بلوچ بچے ان سکولوں میں شلوار قمیص زیب تن نہیں کرسکتے۔ایرانی بلوچوں کا دعوی ہے کہ 1979 ء میں انقلاب آنے کے بعد بھی حکومت کی یہی کوشش رہی کہ ان کی مذہبی،تہذیبی اور ثقافتی شناخت ختم کر دی جائے۔چناں چہ ایرانی بلوچ ایرانی حکومت سے نبردآزما ہو گئے ۔یوں ریاست اور ریاستی عناصر کے درمیان تصادم کا آغاز ہوا جو اب تک جاری ہے۔یہ عیاں ہے کہ جب تک حکومت ِایران اپنے بلوچوں کی شکایات و مسائل حل نہیں کرتی،وہ مسلح جدوجہد سے اپنے غم وغصّے کا اظہار کرتے رہیں گے۔

مولابخش سے عبدالمالک ریگی تک
پہاڑوں کی کثرت اور دشوار گزار علاقے ہونے کے باعث بلوچی طویل عرصہ خود مختار اور آزاد رہے۔ انیسویں صدی میں سب سے پہلے انگریزوں نے ان کی خود مختاری کو چیلنج کیا اور بعدازاں بلوچستان کو تین حصّوں (پاکستانی، ایرانی، افغانی) میں تقسیم کردیا۔ ایرانی بلوچستان پہ 1921ء میں جدید ایران کا پہلا بادشاہ،رضا شاہ حملہ آور ہوا جو اس خطّے کو اپنے کنٹرول میں لانا چاہتا تھا۔ایرانی بلوچ سردار رضا شاہ پہلوی کی طاقتورفوج کا مقابلہ نہیں کرپائے اور انہوں نے طوعاً کراہاً اس کی اطاعت قبول کرلی۔ ایرانی حکومت نے بدلے میں بلوچوں کی طرز زندگی میں زیادہ دخل اندازی سے پرہیز کیا اور ان کی خود مختاری خاصی حد تک برقرار رہی۔

جب 1941ء میں محمد رضا پہلوی (شاہ ایران) نے حکومت سنبھالی تو اس کے دور میں پھر بلوچوں کو مطیع کرنے کی کوششیں شروع ہوئیں۔ یہ سلسلہ 1979ء میں انقلاب آنے کے بعد بھی جاری رہا۔ ایرانی بلوچوں کا کہنا ہے کہ اس دوران ایرانی حکومت نے ان کے علاقے میں بہت کم ترقیاتی کام کرائے اور بلوچستان و سیستان صوبے کو ترقی وخوشحالی دینے کے واسطے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا۔ اس امر نے ایرانی بلوچوں کے غم و غصّے میں اضافہ کردیا۔

ایرانی حکومت کے خلاف مسلح تصادم کی بنیاد ایک ایرانی بلوچ رہنما، مولا بخش درخشاں نے رکھی۔ اس نے 1992ء میں ایک تنظیم، سپاہ رسول اللہؐ قائم کی اور اپنے گرد ایرانی حکومت سے ناراض کئی کارکن اکٹھے کرلیے۔ یہ کارکن پھر ایرانی سکیورٹی فورسز پر حملے کرنے لگے۔جب ایرانی افواج نے تنظیم کو نشانہ بنایا تو مولا بخش درخشاں پاکستان بھاگ آیا اورکلہائو گائوں میں مقیم ہو گیا۔ اس نے اپنی تنظیم دوبارہ منظم کی اور پھر ایرانی سکیورٹی فورسز پر حملہ آور ہوا۔ اس کی دیکھا دیکھی دیگر ایرانی بلوچ بھی اپنی تنظیمیں بناکر حکومت ایران کے خلاف نبرد آزما ہوئے جن میں عبدالمالک ریگی سرفہرست تھا۔ اس نے 2003ء میں اپنی تنظیم، جنداللہ کی بنیاد رکھی۔

2006ء میں ایرانی فوج نے مولا بخش کو ہلاک کردیا۔ چناں چہ اس کی تنظیم جنداللہ میں جذب ہوگئی۔ جنداللہ نے پھر ایرانی سکیورٹی فورسز پر کئی حملے کیے، یہاں تک کہ 2010ء میں ریگی بھی پکڑا گیا۔ ایرانیوں نے اسی سال اسے پھانسی دے ڈالی۔اس وقت ایرانی بلوچوں کی تین تنظیمیں حکومت ایران سے نبرد آزما ہیں۔ ان میں جیش العدل سب سے مضبوط ہے۔ اس کی بنیاد نومبر 2013ء میں رکھی گئی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں