دنیا کے تیسرے بڑے سمندر بحر ہند میں چین اور بھارت کا ٹکراؤ

بیش قیمت بحری تجارت کے راستے محفوظ کرنے کی خاطر کیا مستقبل میں دونوں طاقتوں کا تصادم ناگزیر ہو چکا؟

کسی ملک سے لڑے بغیر اپنی عسکری خصوصاً بحری قوت بڑھائی جائے تاکہ چینی عالمی تجارت پر آنچ نہ آئے، فوٹو : فائل

28 تا 29 نومبر 2014ء کو چینی دارالحکومت، بیجنگ میں ''امور خارجہ سے متعلق پالیسی'' پر ایک اعلیٰ سطحی کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس میں چینی صدر،زی جنپنگ سمیت حکمران طبقے کے سبھی اعلیٰ عہدے دار شریک ہوئے۔ کانفرنس میں طے پایا کہ عالمی معاشی، سیاسی و جغرافیائی حالات مدنظر رکھ کر چین اپنی تزویراتی (سٹرٹیجک) پالیسی جاری رکھے۔ اس تزویراتی حکمت عملی کے دو نمایاں اصول یہ ہیں:

-1 کسی ملک سے لڑے بغیر اپنی عسکری خصوصاً بحری قوت بڑھائی جائے تاکہ چینی عالمی تجارت پر آنچ نہ آئے۔

-2 امریکا اور یورپی یونین کے علاوہ ایشیائی و افریقی ممالک اور روس سے بھی تجارتی تعلقات بڑھائے جائیں۔

جنگ نہ کرنے کی امن پسندانہ پالیسی کے باعث ہی آج چین دنیا کا سب سے بڑا ایکسپورٹر بن چکا۔ وہ دنیا کے سیکڑوں ممالک کو سالانہ ''سوا دو ٹرلین ڈالر'' کا سامان بھجواتا ہے۔ (اس کے بعد یورپی یونین اور امریکا کا نمبر ہے)۔ لیکن چینی حکومت اپنے دفاع سے غافل نہیں رہی اور چپکے چپکے اپنی عسکری صلاحیتیں بڑھاتی جارہی ہے۔چین اپنی بیشتر عالمی تجارت سمندری راستوں کے ذریعے کرتا ہے۔

اسی لیے آج وہ ''دو ہزار'' سے زائد بار بردار بحری جہازوں کا مالک بن چکا ۔ چینی حکومت کو احساس ہے کہ مستقبل میں معاصرین کسی بھی وقت اپنے علاقائی سمندر میں ناکہ بندی کرکے اس کی بحری تجارت روک سکتے ہیں ۔ اسی وار کا مقابلہ کرنے کے لیے چینی حکمران طبقہ پچھلے پندرہ برس میں اپنی بحریہ کو بہت طاقت ور بنا چکا۔

اس امر کا اندازہ یوں لگائیے کہ 2000ء میں چینی بحریہ صرف ''ایک'' آبدوز رکھتی تھی، آج وہ ''67 '' جدید ترین آبدوزوں کی مالک بن چکی۔ امریکا کے بعد بہ لحاظ نفری چینی بحریہ دنیا کی سب سے دوسری بڑی بحری قوت ہے۔ اب چینی حکومت اسے جدید ترین سازوسامان سے بھی لیس کررہی ہے۔ مدعا یہی ہے کہ مستقبل میں اپنے بحری تجارتی راستوں کی بخوبی حفاظت کی جا سکے۔

بحرالکاہل میں چینی بحریہ کے مدمقابل امریکی و جاپانی بحریہ ہیں، جبکہ بحرہند میں اسے بھارتی بحریہ کی قوت کا سامنا ہے۔ عسکری ذرائع کے مطابق اس سال چینی بحریہ طاقت کے لحاظ سے جاپانی بحریہ کو پیچھے چھوڑ جائے گی۔ بھارتی بحریہ پہلے ہی اس کے مقابلے میں کمزور ہے۔ یوں دونوں بڑے سمندروں میں اب امریکی بحریہ ہی چینیوں کے مدمقابل ہوگی۔

1982ء تا 1988ء لیو ہواکنگ(Liu Huaqing) چینی بحریہ کے سربراہ رہے ہیں۔ اپنے دور میں انہوںنے ''چینی بحریہ کی ترقی و تعمیر کا جامع منصوبہ'' (Maritime Development Plan) مرتب کیا۔ چینی بحریہ 1985ء سے اسی منصوبے پر عمل پیرا ہے۔

درج بالا منصوبے کی رو سے چینی بحریہ بحرالکاہل میں 2010ء تک ''فرسٹ آئی لینڈ چین'' (first island chain) یعنی جنوبی کوریا تا ویت نام کا کنٹرول حاصل کرنا چاہتی ہے۔ 2020ء تک وہ اس قابل ہوجائے گی کہ ''سیکنڈ آئی لینڈ چین'' کے علاقوں (جاپان تا فلپائن) میں اپنا اثرو نفوذ بڑھاسکے ۔جبکہ 205ء تک چینی بحریہ اتنی طاقتور ہوجائے گی کہ امریکی بحری قوت کا مقابلہ کرسکے ۔امریکا ایشیا اور افریقا میں تیزی سے اپنا معاشی وسیاسی اثرکھورہا ہے۔

اس کی جگہ چین لے چکا۔ یہ حقیقت اس امر سے ظاہر ہے کہ چین کے تیس بڑے برآمدی ساتھیوں میں صرف تین ممالک (امریکا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ) مغربی ہیں۔ بقیہ سب ساتھی ایشیائی، افریقی یا لاطینی ملک ہیں۔

بحرالکاہل اور بحر ہند میں اپنی کمزور پڑتی بحری طاقت اور چینی بحریہ کی فقید المثال بڑھوتری دیکھ کر اب امریکی حکمران طبقہ خطے میں ''نئی گریٹ گیم'' شروع کرنا چاہتا ہے... یہ کہ بھارت کو چین کے مدمقابل لایا جائے۔ صدر بارک اوباما کا حالیہ دورہ بھارت اسی گیم کا حصّہ تھا۔

سوا ارب آبادی اور موزوں سرکاری پالیسیوں کے باعث پچھلے پندرہ برس میں بھارت بڑی معاشی قوت بن چکا۔ وہ امریکا، یورپی یونین اور چین کے بعد چوتھا بڑا جی ڈی پی رکھتا ہے۔ اور کہا جارہا ہے کہ 2016ء میں بھارت کی شرح ترقی (6.5 فیصد) چین کے مقابلے (6.3فیصد) میں بڑھ جائے گی۔ دیکھنا یہ ہے کہ چین کو محدود کرنے کی خاطر امریکا کی گریٹ گیم میں بھارت شامل ہوتا ہے یا نہیں؟ جاپان، آسٹریلیا، تائیوان اور فلپائن اس گیم میں امریکا کے دیگر اتحادی ہیں۔

دلچسپ بات یہ کہ ماضی کی گریٹ گیموں کے برعکس اس نئے کھیل میں چاروں بڑی معاصر قوتیں... امریکا، چین، جاپان اور بھارت معاشی مفادات کے باعث کُھل کر ایک دوسرے کے سامنے نہیں آسکتیں۔وجہ یہ کہ چاروں ایک دوسرے کے بڑے اہم تجارتی ساتھی ہیں۔ مثال کے طور پر امریکا سب سے زیادہ سامان چین سے منگواتا ہے۔ اسی طرح بھارت اور جاپان بھی چین سے سالانہ اربوں ڈالر کی اشیا خریدتے ہیں۔



اس لیے امکان یہی ہے کہ چاروں ممالک ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور کمزور کرنے کی خاطر پوشیدہ چالیں چلیں گے ۔اور ہر طاقت کے اتحادی بھی ان چالوں کا نشانہ بن سکتے ہیں۔

بحرہند کے راستے چین مشرق وسطیٰ اور افریقی ممالک سے سالانہ کھربوں روپے کی بھاری تجارت کرتا ہے۔ اسی لیے چینی نقطہ نظر سے یہ سمندر بہت اہم ہو چکا۔اس خطہِ بحر میںبھارتی بحریہ چینیوں کے مدمقابل ہے۔بھارتی حکمران طبقے کا دماغ معاشی ترقی ہونے کے باعث ساتویں آسمان پر پہنچا ہوا ہے۔ وہ اب خود کو کم از کم بطور علاقائی طاقت منوانا چاہتا ہے۔ سلامتی کونسل میں نشست کا بھی طلبگار ہے۔

پھر بھارت کے چین سے سنگین جغرافیائی تنازعات بھی چل رہے ہیں۔ اسی لیے وہ بھارتی بحریہ کو بطور ''بلیو واٹرنیوی'' (Blue-water navy) پیش کرتا ہے۔بلیو واٹر نیوی سے مراد ایسی بحریہ ہے جو دور دراز واقع سمندروں میں بھی عسکری کارروائیاں کرسکے۔ فی الوقت امریکا، برطانیہ اور فرانس کی بحری افواج صحیح معنوں میں ایسی بحریہ ہونے کا اعزاز رکھتی ہیں۔


دوسری طرف چینی بحریہ بھارت سے طاقتور ہونے کے باوجود خود کو بلیوواٹر نیوی کہنے سے کتراتی ہے۔ ماہرین کے نزدیک اس کی وجہ یہی ہے کہ چینی حکومت بڑا بول بولنا اور شیخیاں نہیں مارنا چاہتی، وہ بس خاموشی سے اپنی بحریہ کو زیادہ سے زیادہ طاقتور بنانے میں محو ہے۔

پچھلے ایک عشرے میں چینی بحریہ برما، سری لنکا اور مالدیپ میں اپنی موجودگی بہت بڑھا چکی۔ سری لنکا میں تو وہ کولمبو بندرگاہ پر اپنا ٹرمنل (Colombo South Container Terminal) بھی تعمیر کرچکی۔ پچھلے سال اس ٹرمنل پر چینی آبدوزیں کھڑی ہوئیں، تو بھارتی حکمران طبقے کی آنکھیں ابل پڑی تھیں۔ بھارت کا بیشتر ایندھن بحرہند کے راستے ہی آتا ہے۔ پھر وہ اس سمندر کو اپنی ملکیت سمجھتا ہے۔ اسی باعث سری لنکا، مالدیپ اور برما میں چینی بحریہ کا اثرونفوذ اسے ایک آنکھ نہیں بھاتا۔

یاد رہے، چین بحرہند میں ''آبی شاہراہ ریشم ''(Maritime Silk Road) تخلیق کرنا چاہتا ہے تاکہ اس کی بحری تجارت میں روزافزوں اضافہ ہوسکے۔ جنوبی ایشیائی خطے میں گوادر، کراچی، مالے (مالدیپ)، کولمبو (سری لنکا)، چٹاگانگ (بنگلہ دیش) اور کیاؤ کیویو (برما) اس آبی شاہراہ ریشم کے اہم مراکز ہوں گے۔

اب نئے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی سعی ہے کہ سری لنکا، برما، بنگلہ دیش اور مالدیپ کے علاوہ چین کے معاصرین مثلاً ویت نام، فلپائن، جنوبی کوریا اور جاپان سے تعلقات بڑھائے جائیں۔ مگر چین ان تمام ممالک میں بھاری سرمایہ کاری کرتا ہے لہٰذا اسے ایک طرف کرنا بھارت کے لیے آسان کام نہیں ہو گا۔بلکہ امریکاکی شہ پر چینیوں کو آنکھیں دکھانے سے چین اور بھارت میں عیاں و پوشیدہ نئی چپقلش شروع ہوسکتی ہے۔

کراچی کی اہمیت بڑھ گئی
تاریخ ِانساں سے عیاں ہے کہ جب کسی عالمی طاقت یا سپرپاور کے بیرون ممالک سے تجارتی روابط قائم ہوئے، تو جلد یا بدیر اس نے وہاں اپنے فوجی اڈے بھی تعمیر کر لیے۔ مقصد یہی تھا کہ اپنے تجارتی مفادات محفوظ کیے جاسکیں۔ مثال کے طور پر جدید عالمی طاقت، امریکا کئی ممالک سے تجارتی تعلقات رکھتا ہے۔ لہٰذا اس نے دنیا کے کونے کونے میں اپنے جنگی اڈے قائم کررکھے ہیں۔ مدعا یہی کہ مخالفین بزور اس کی تجارت روک نہ سکیں۔

اب چین بھی عالمی طاقت بن کر ابھر رہا ہے۔ وہ کئی ممالک سے تجارتی تعلقات رکھتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا مستقبل میں چین بھی اپنے تجارتی مفادات کو تحفظ دینے کی خاطر مختلف ممالک میں جنگی اڈے قائم کرے گا؟مثلاً بعض ماہرین کا دعویٰ ہے کہ چین بحر ہند میں تزویراتی مقامات پہ فوجی اڈے بنانا چاہتا ہے۔اس منصوبے کو ''موتیوں کی مالا''(String of Pearls)کا دلچسپ نام دیا گیا۔



لیکن ماہرین کی اکثریت کا خیال ہے کہ نو آبادیاتی طاقتوں کے بھیانک انجام کو دیکھتے ہوئے چینی حکمران طبقہ توسیع پسندانہ عزائم نہیں رکھتا اور نہ ہی وہ امریکیوں کی طرح دنیا بھر میں حکومتیں گراتا اور بناتا پھرے گا۔ تاہم وہ بیرون ممالک تزویراتی مقامات میں ایسے اڈے ضرور تعمیر کرے گا جنہیں وقت ضرورت جنگی نقطہ نظر سے بھی استعمال میں لاسکے۔

بحرہند میں ایک ایسا ہی تزویراتی مقام پاکستان کی تجارتی شاہ رگ، کراچی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مستقبل میں چینی کراچی کو بطور ''کثیر الاستعمال لاجسٹک مرکز'' (Dual Use Logistics Facility) اپناسکتے ہیں۔ یعنی وہاں چین ایسا بڑا بحری اڈہ تعمیر کرے گا جسے مختلف طریقوں سے استعمال کیا جاسکے، مثلاً ڈاکٹروں کی تعیناتی، جہازوں کی مرمت و تزئین نو، اسلحے کا ڈپو،ملاحوں کی عارضی رہائش گاہیں وغیرہ۔

یاد رہے، چین پہلے ہی پاکستان میں گوادر بندرگاہ تعمیر کررہا ہے۔ لیکن یہ بندرگاہ چینی تجارتی سامان کی درآمد برآمد میں استعمال ہوگی۔ نیز گوادر میں کراچی کے مانند سبھی شہری و ضروری سہولیات بھی دستیاب نہیں۔ اس لیے چینی گوادر کو بہ حیثیت کثیر الاستعمال لاجسٹک مرکز نہیں برت سکتے۔ یا پھر چینی و پاکستانی حکومتیں یہ کشٹ اٹھائیں گی کہ وہاں بھی تمام شہری سہولیات دستیاب ہوجائیں۔

مستقبل میں براعظم افریقہ اور یورپ سے بھی چین کی تجارت کا بڑا حصہ بحرہند کے راستے انجام پائے گا۔ لہٰذا چینی حکومت یقیناً اپنے تجارتی راستوں کو محفوظ کرنا چاہے گی۔ اس بدلتی صورتحال میں چینی کراچی میں اپنا بڑا اور ''ملٹی پرپز'' اڈہ تعمیر کرکے پورے بحرہند پر نظر رکھ سکتے ہیں۔

کراچی اور گوادر میں چینی اڈوں کی تعمیر سے نہ صرف وطن عزیز کو معاشی فائدہ ہوگا بلکہ مستقبل کی سپرپاور کا قرب ہمارے دفاع کو مضبوط تر کرے گا۔ یوں چانکیہ کے پرستار بھارتی حکمران طبقے کا مقابلہ کرنا آسان ہوجائے گا۔اب ضرورت اس امر کی ہے کہ کراچی میں بدامنی پر قابو پاکر وہاں امن قائم کیا جائے۔ اگر کراچی کے حالات مزید خراب ہوئے تو چینی قیادت کسی اور مقام مثلاً مسقط، صلالہ (عمان) یا عدن (یمن) میں اپنا بڑا اڈہ کھول سکتی ہے۔

سمندروں میں طاقتور کون؟
چین کی بحریہ بہ لحاظ نفری دوسری بڑی عالمی بحری فوج ہے۔ یہ دو لاکھ پچیس ہزار مردوزن پر مشتمل ہے۔ یہ 325 جنگی جہاز (24 ڈسٹرائر، 47 فریگیٹ، 18 کورویٹی، 105 میزائل بوٹس اور 131 گن بوٹس) رکھتی ہے۔ چینی بحری بیڑے میں ایک طیارہ بردار جہاز، 67 آبدوزیں، 3 آبی ٹرانسپورٹ ڈوکس، 68 بارودی سرنگیں ہٹانے والے جہاز اور 26 ٹینک و بکتر شکن گاڑیاں لے جانے والے جہاز بھی شامل ہیں۔

چین 2030ء تک ''دس'' طیارہ بردار جہاز تیار کرنا چاہتا ہے۔ یوں تب چینی بحریہ حقیقی معنوں میں ''بلیوواٹر نیوی'' بن جائے گی۔ چینی میڈیا کے مطابق پہلے مقامی طیارہ بردار جہاز کا ڈیزائن تیار ہوچکا اور جلد اس کی تیاری شروع ہونے والی ہے۔چین کے پہلے مقامی طیارہ بردار جہاز میں 50 سے زائد جے۔15 بی طیارے کھڑے ہوسکیں گے۔ مزید برآں چینی اپنے طیارہ بردار جہازوں کی خاطر ہی J-20 ففتھ جنریشن اسٹیلتھ طیارہ بھی تیار کررہے ہیں۔ پاکستان بھی یہ جدید ترین چینی طیارہ خریدنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔



بھارت کی بحریہ اٹھاون ہزار تین سو پچاس سپاہ پر مشتمل ہے۔ یہ 159 جنگی جہاز (9 ڈسٹرائر، 15 فریگیٹ، 25 کوریٹی، 10 بڑی گن بوٹس اور 100 چھوٹی گن بوٹس) رکھتی ہے۔ مزید براں دو طیارہ بردار جہاز، 15 آبدوزیں، 7 آبی ٹرانسپورٹ ڈاک اور 9 ٹینک وبکتربند گاڑیاں لے جانے والے جہاز بھی بھارتی بحریہ کا حصہ ہیں۔

بھارتی حکمران طبقہ توسیع پسندانہ عزائم رکھتا ہے۔ اسی لیے وہ بتدریج بھارتی بحریہ کا بجٹ بڑھا رہا ہے تاکہ اسے جدید ترین سازوسامان سے لیس کرسکے۔ اس حکمت عملی کے تحت نئے طیارہ بردار جہاز اور جنگی بحری جہاز بحری بیڑے کا حصہ بنیں گے۔یہ واضح رہے کہ چین پاک بحریہ کو مضبوط بنانے میں پیش پیش ہے۔ پاکستان نے ذوالفقار کلاس کے چار فریگیٹ چین کے تعاون ہی سے تیار کیے۔ پاک بحریہ کل 10 فریگیٹ، 12 بڑی گن بوٹس اور 8 آبدوزیں رکھتی ہیں۔ ان کے ذریعے ساحل پاکستان کا دفاع بخوبی کیا جا رہا ہے۔ پاک بحریہ ویسے بھی جارحانہ عزائم نہیں رکھتی اور دفاعِ وطن کے لیے پوری طرح مستعد ہے۔
Load Next Story