دہشت گردی بھارتی جارحیت کا نیا انداز
فوج نے بھارت پر باقاعدہ الزام لگایا ہے اور صرف الزام ہی نہیں لگایا اسے تنبیہ بھی کی ہے کہ وہ باز رہے
جب ایٹم بم صرف بھارت کے پاس تھا تو بھارت کسی باقاعدہ جنگ کی مستقل دھمکی دے کر پاکستان کو اپنے خیال میں دباؤ میں رکھتا تھا لیکن جب پاکستان نے بھی ایٹم بم بنا لیا تو بھارت کی پاکستان دشمن حکمت عملی بدل گئی۔
اس کا نام ''دفاعی جارحیت'' رکھا گیا یعنی دشمن کے خلاف ایسے جارحانہ اقدامات جس کی وجہ سے وہ دباؤ میں رہے اور پریشان بھی یعنی ایسی حالت میں کہ وہ جنگ سے باز رہے اور اپنی سلامتی کی فکر کرتا رہے۔ پاکستان میں تخریب کاری کی مسلسل اور بڑی کارروائیاں اسی بھارتی جدید پالیسی کے مطابق ہیں۔ ابھی کل ہی پشاور میں بڑی تخریبی کارروائی کی گئی۔
اس کے پیچھے ان لوگوں کا ہاتھ بھی ہو سکتا ہے جن کے خلاف ہماری فوج برسرپیکار ہے اور ان کا ناطقہ بند کر رکھا ہے لیکن ان لوگوں کو تخریب کاری کے لیے ہر قسم کی مدد بھارت سے ملتی ہے۔ ہتھیار بھی اور سرمایہ بھی۔ اس سے قبل پشاور ہی کے اسکول میں جو ہولناک کارروائی ہوئی ہے اس کے بارے میں پاکستان کی رپورٹ یہ ہے کہ بھارت نے کرائی ہے۔ بھارت ان تخریبی کارروائیوں کو اصلی جنگ کے مترادف سمجھتا ہے۔ اس طرح سرحدی خلاف ورزیاں اور قاتلانہ حملے بھی تخریب کاری سمجھیں۔
بھارت کی طرف سے یہ سلسلہ کافی عرصے سے جاری ہے۔ گزشتہ حکومت کے وزیر داخلہ رحمان ملک صاحب بھارت کا نام لینے کی جرأت نہیں کرتے تھے۔ اسے بیرونی ہاتھ کا نام دیتے تھے چنانچہ جب تک وہ اس منصب پر قائم رہے یہی کہتے رہے لیکن اپنی حکومت ختم ہونے کے بعد انھوں نے بھارت کا نام لینا شروع کر دیا۔ ہماری موجودہ حکومت بھی قریب قریب خاموش ہی تھی اور یہ بھی بیرونی ہاتھ والی حکومت تھی مگر ہماری فوج کی پالیسی اب بدل چکی ہے اور وہ کھل کر فوجی لغت میں بات کر رہی ہے۔
فوج نے بھارت پر باقاعدہ الزام لگایا ہے اور صرف الزام ہی نہیں لگایا اسے تنبیہ بھی کی ہے کہ وہ باز رہے اور اپنی اوقات سے آگے نہ بڑھے۔ یہ سب ہمارے نئے آرمی چیف کی پالیسی اور جرأت ہے کہ وہ بیرونی ہاتھ جیسے مبہم الفاظ استعمال نہیں کرتے بلکہ صاف صاف بات کرتے ہیں جو دشمن کی سمجھ میں آئے اور اس پر پاکستان کا مؤقف جلد ہی واضح ہو جائے۔ اس طرح کہ اسے زیادہ زحمت نہ کرنی پڑے اور اپنی جگہ خبردار رہے۔ ایٹم بم تو پہلے کے سپہ سالاروں کے پاس بھی تھا لیکن ان کے دلوں میں وہ جان اور جرأت نہیں تھی جو ہمیں آج کی فوجی قیادت میں دکھائی دیتی ہے۔ ہمیں بھی اور ہمارے دشمن کو بھی۔
ہمارے سپہ سالار جنرل راحیل شریف نے اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد اپنی حکومت کا جائزہ بھی لیا کہ ہمارے حکمران ذہنی طور پر کتنے پانی میں ہیں اور ان کی جرأتوں کا کیا حال ہے۔ اگرچہ ہم پاکستانی ایک دوسرے کو خوب جانتے ہیں لیکن پھر بھی منہ در منہ دیکھنا اور بات کرنا اور بات ہوتی ہے۔ بھارت کے ساتھ ایک حالت جنگ میں جب ہم نے چین سے مدد طلب کی تو ائر مارشل اصغر خان بتاتے ہیں کہ چینیوں نے ان سے ملاقات میں کہا کہ حاضر ہیں لیکن اپنے صدر کو ہمارے پاس چند منٹ کے لیے ہی بھیج دیں کہ ہم ان کا چہرہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ یہ ایک کہانی ہے جو میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں کہ ایوب خان کس طرح راتوں رات چپکے سے چین پہنچے۔
چینیوں نے ان کا چہرہ دیکھ کر ہی ان کی قلبی کیفیت کا جائزہ لے لیا اور انھیں اطمینان دلا کر واپس بھجوا دیا اور بھارت سے کہا کہ ہماری کچھ بھیڑیں چرتے چرتے بھارت کی طرف نکل گئی ہیں وہ جلدی واپس کر دیں۔ بھارتی یہ بھیڑ ڈپلومیسی اور دھمکی فوراً سمجھ گئے اور فوجیں واپس لے گئے۔ ہمارے جنرل راحیل نے بھی چہروں کا مطالعہ کر کے دلوں کا حال معلوم کر لیا ہے اور اب بھارت کے بارے میں ایک پاکستانی سپہ سالار کا لہجہ بدل گیا ہے بلکہ وہ لہجہ زندہ ہو گیا ہے جو ہونا چاہیے تھا۔ جنرل راحیل ایک میجر کے صاحبزادے اور ایک نشان حیدر کے بھائی ہیں۔ وہ سرتاپا ایک فوجی ہیں اور بے پناہ محب وطن فوجی۔ وہ اپنی ٹُہر نہیں بناتے ملک کی ٹُہر بناتے ہیں۔
عام لوگ ان سے حالات کو درست کرنے اور عوام کے بے پناہ مسائل حل کرنے کبھی دبے لفظوں میں اور کبھی برملا اپنی خواہش یعنی مارشل لاء کا اظہار کرتے ہیں لیکن یہ جنرل کی صوابدید پر منحصر ہے کہ وہ کیا سمجھتے ہیں اور کیا چاہتے ہیں لیکن جو بھی ہو یہ جرنیل سچا پاکستانی ہے اور اس کی ذات کی پسند و ناپسند ملک کے مفاد کے سامنے ختم ہو جاتی ہے۔ میری کبھی جنرل راحیل سے ملاقات نہیں ہوئی کبھی ان کے والد میجر شریف مرحوم ہمارے دوست اور ہم نشین تھے۔ لاہور جمخانہ ان کا دوسرا گھر تھا اور وہ زیادہ وقت کلب کے کارڈ روم میں گزارتے تھے۔ ان سے باقاعدہ ملاقات ہوتی تھی۔
وہ میرے چچا مرحوم میجر شاہ جہاں کے پڑوسی بھی تھے جہاں میں اکثر آتا جاتا تھا۔ ان کی گفتگو سے اندازہ ہوتا تھا کہ فوج کا ان کے دل میں کیا مقام ہے اور کیا مقام ہونا چاہیے۔ ان کا ایک بیٹا اگر نشان حیدر تھا تو وہ ان ھی کی تربیت کا ثمر تھا۔ ایک دن وہ خلاف معمول کلب نہ آئے تو میں نے پوچھا کہ آپ کل کہاں تھے خیریت تو تھی تب انھوں نے اپنے عظیم بیٹے کا نام لیا اور بتایا کہ اس کی برسی تھی فاتحہ خوانی کے لیے قبرستان گیا تھا۔ میں یہ سن کر دنگ رہ گیا کہ اتنا بڑا آدمی ہمارا دن رات کا رفیق ہے۔ جنرل راحیل شریف کا بھی ان کے سپہ سالار بننے پر پتہ چلا کہ یہ میجر شریف کے بیٹے ہیں۔
میں نے جنرل صاحب کا تعارف کرانے کے لیے اس تعلق کا ذکر نہیں کیا کہ ان سے کسی گھٹیا حرکت کی توقع نہیں کی جا سکتی اور وہ پاکستان سے وفاداری کی کسی بھی انتہا تک جانے پر تیار ہوں گے۔ فوج اور ملک سے محبت ان کے خون میں شامل ہے اور یہ خون بے وفائی نہیں کر سکتا۔ اگر وہ بھارت کو خبردار کر رہے ہیں اور اس ضمن میں انھیں کسی سول حکومت کی پروا نہیں تو پھر ہم پاکستانی اس حد تک اسے مارشل لاء ہی سمجھیں۔ جب تک ہمارے جرنیل کی پاکستانیت متاثر نہیں ہوتی وہ مارشل لاء سے بچ کر فوج کی قیادت کرتے رہیں گے۔ اطمینان کی بات یہ ہے کہ وہ بھارت کو خوب سمجھتے ہیں اور اس سے ہرگز مرعوب نہیں ہیں۔
انھوں نے بروقت دنیا کے بڑے ملکوں اور پاکستان کے دوستوں سے جا کر ملاقاتیں کی ہیں اور ان کو بڑی پذیرائی بھی ملی ہے کیونکہ یہ ملک جانتے تھے کہ جنرل راحیل شریف کون ہے۔ دعا کریں کہ ہمارا سپہ سالار سلامت رہے اور اس کے ارادے مستحکم اور صاف ستھرے رہیں۔ آپ فوج کی باتیں اور لہجہ بغور دیکھئے۔ تبدیلی بہت صاف دکھائی دیتی ہے۔ بھارتی جارحیت کے ہر انداز کو وہ خوب سمجھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ بھارت کا ''دفاع بذریعہ جارحیت'' کا مطلب کیا ہے اور ہمارے پاس اس کا جواب کیا ہے۔
اس کا نام ''دفاعی جارحیت'' رکھا گیا یعنی دشمن کے خلاف ایسے جارحانہ اقدامات جس کی وجہ سے وہ دباؤ میں رہے اور پریشان بھی یعنی ایسی حالت میں کہ وہ جنگ سے باز رہے اور اپنی سلامتی کی فکر کرتا رہے۔ پاکستان میں تخریب کاری کی مسلسل اور بڑی کارروائیاں اسی بھارتی جدید پالیسی کے مطابق ہیں۔ ابھی کل ہی پشاور میں بڑی تخریبی کارروائی کی گئی۔
اس کے پیچھے ان لوگوں کا ہاتھ بھی ہو سکتا ہے جن کے خلاف ہماری فوج برسرپیکار ہے اور ان کا ناطقہ بند کر رکھا ہے لیکن ان لوگوں کو تخریب کاری کے لیے ہر قسم کی مدد بھارت سے ملتی ہے۔ ہتھیار بھی اور سرمایہ بھی۔ اس سے قبل پشاور ہی کے اسکول میں جو ہولناک کارروائی ہوئی ہے اس کے بارے میں پاکستان کی رپورٹ یہ ہے کہ بھارت نے کرائی ہے۔ بھارت ان تخریبی کارروائیوں کو اصلی جنگ کے مترادف سمجھتا ہے۔ اس طرح سرحدی خلاف ورزیاں اور قاتلانہ حملے بھی تخریب کاری سمجھیں۔
بھارت کی طرف سے یہ سلسلہ کافی عرصے سے جاری ہے۔ گزشتہ حکومت کے وزیر داخلہ رحمان ملک صاحب بھارت کا نام لینے کی جرأت نہیں کرتے تھے۔ اسے بیرونی ہاتھ کا نام دیتے تھے چنانچہ جب تک وہ اس منصب پر قائم رہے یہی کہتے رہے لیکن اپنی حکومت ختم ہونے کے بعد انھوں نے بھارت کا نام لینا شروع کر دیا۔ ہماری موجودہ حکومت بھی قریب قریب خاموش ہی تھی اور یہ بھی بیرونی ہاتھ والی حکومت تھی مگر ہماری فوج کی پالیسی اب بدل چکی ہے اور وہ کھل کر فوجی لغت میں بات کر رہی ہے۔
فوج نے بھارت پر باقاعدہ الزام لگایا ہے اور صرف الزام ہی نہیں لگایا اسے تنبیہ بھی کی ہے کہ وہ باز رہے اور اپنی اوقات سے آگے نہ بڑھے۔ یہ سب ہمارے نئے آرمی چیف کی پالیسی اور جرأت ہے کہ وہ بیرونی ہاتھ جیسے مبہم الفاظ استعمال نہیں کرتے بلکہ صاف صاف بات کرتے ہیں جو دشمن کی سمجھ میں آئے اور اس پر پاکستان کا مؤقف جلد ہی واضح ہو جائے۔ اس طرح کہ اسے زیادہ زحمت نہ کرنی پڑے اور اپنی جگہ خبردار رہے۔ ایٹم بم تو پہلے کے سپہ سالاروں کے پاس بھی تھا لیکن ان کے دلوں میں وہ جان اور جرأت نہیں تھی جو ہمیں آج کی فوجی قیادت میں دکھائی دیتی ہے۔ ہمیں بھی اور ہمارے دشمن کو بھی۔
ہمارے سپہ سالار جنرل راحیل شریف نے اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد اپنی حکومت کا جائزہ بھی لیا کہ ہمارے حکمران ذہنی طور پر کتنے پانی میں ہیں اور ان کی جرأتوں کا کیا حال ہے۔ اگرچہ ہم پاکستانی ایک دوسرے کو خوب جانتے ہیں لیکن پھر بھی منہ در منہ دیکھنا اور بات کرنا اور بات ہوتی ہے۔ بھارت کے ساتھ ایک حالت جنگ میں جب ہم نے چین سے مدد طلب کی تو ائر مارشل اصغر خان بتاتے ہیں کہ چینیوں نے ان سے ملاقات میں کہا کہ حاضر ہیں لیکن اپنے صدر کو ہمارے پاس چند منٹ کے لیے ہی بھیج دیں کہ ہم ان کا چہرہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ یہ ایک کہانی ہے جو میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں کہ ایوب خان کس طرح راتوں رات چپکے سے چین پہنچے۔
چینیوں نے ان کا چہرہ دیکھ کر ہی ان کی قلبی کیفیت کا جائزہ لے لیا اور انھیں اطمینان دلا کر واپس بھجوا دیا اور بھارت سے کہا کہ ہماری کچھ بھیڑیں چرتے چرتے بھارت کی طرف نکل گئی ہیں وہ جلدی واپس کر دیں۔ بھارتی یہ بھیڑ ڈپلومیسی اور دھمکی فوراً سمجھ گئے اور فوجیں واپس لے گئے۔ ہمارے جنرل راحیل نے بھی چہروں کا مطالعہ کر کے دلوں کا حال معلوم کر لیا ہے اور اب بھارت کے بارے میں ایک پاکستانی سپہ سالار کا لہجہ بدل گیا ہے بلکہ وہ لہجہ زندہ ہو گیا ہے جو ہونا چاہیے تھا۔ جنرل راحیل ایک میجر کے صاحبزادے اور ایک نشان حیدر کے بھائی ہیں۔ وہ سرتاپا ایک فوجی ہیں اور بے پناہ محب وطن فوجی۔ وہ اپنی ٹُہر نہیں بناتے ملک کی ٹُہر بناتے ہیں۔
عام لوگ ان سے حالات کو درست کرنے اور عوام کے بے پناہ مسائل حل کرنے کبھی دبے لفظوں میں اور کبھی برملا اپنی خواہش یعنی مارشل لاء کا اظہار کرتے ہیں لیکن یہ جنرل کی صوابدید پر منحصر ہے کہ وہ کیا سمجھتے ہیں اور کیا چاہتے ہیں لیکن جو بھی ہو یہ جرنیل سچا پاکستانی ہے اور اس کی ذات کی پسند و ناپسند ملک کے مفاد کے سامنے ختم ہو جاتی ہے۔ میری کبھی جنرل راحیل سے ملاقات نہیں ہوئی کبھی ان کے والد میجر شریف مرحوم ہمارے دوست اور ہم نشین تھے۔ لاہور جمخانہ ان کا دوسرا گھر تھا اور وہ زیادہ وقت کلب کے کارڈ روم میں گزارتے تھے۔ ان سے باقاعدہ ملاقات ہوتی تھی۔
وہ میرے چچا مرحوم میجر شاہ جہاں کے پڑوسی بھی تھے جہاں میں اکثر آتا جاتا تھا۔ ان کی گفتگو سے اندازہ ہوتا تھا کہ فوج کا ان کے دل میں کیا مقام ہے اور کیا مقام ہونا چاہیے۔ ان کا ایک بیٹا اگر نشان حیدر تھا تو وہ ان ھی کی تربیت کا ثمر تھا۔ ایک دن وہ خلاف معمول کلب نہ آئے تو میں نے پوچھا کہ آپ کل کہاں تھے خیریت تو تھی تب انھوں نے اپنے عظیم بیٹے کا نام لیا اور بتایا کہ اس کی برسی تھی فاتحہ خوانی کے لیے قبرستان گیا تھا۔ میں یہ سن کر دنگ رہ گیا کہ اتنا بڑا آدمی ہمارا دن رات کا رفیق ہے۔ جنرل راحیل شریف کا بھی ان کے سپہ سالار بننے پر پتہ چلا کہ یہ میجر شریف کے بیٹے ہیں۔
میں نے جنرل صاحب کا تعارف کرانے کے لیے اس تعلق کا ذکر نہیں کیا کہ ان سے کسی گھٹیا حرکت کی توقع نہیں کی جا سکتی اور وہ پاکستان سے وفاداری کی کسی بھی انتہا تک جانے پر تیار ہوں گے۔ فوج اور ملک سے محبت ان کے خون میں شامل ہے اور یہ خون بے وفائی نہیں کر سکتا۔ اگر وہ بھارت کو خبردار کر رہے ہیں اور اس ضمن میں انھیں کسی سول حکومت کی پروا نہیں تو پھر ہم پاکستانی اس حد تک اسے مارشل لاء ہی سمجھیں۔ جب تک ہمارے جرنیل کی پاکستانیت متاثر نہیں ہوتی وہ مارشل لاء سے بچ کر فوج کی قیادت کرتے رہیں گے۔ اطمینان کی بات یہ ہے کہ وہ بھارت کو خوب سمجھتے ہیں اور اس سے ہرگز مرعوب نہیں ہیں۔
انھوں نے بروقت دنیا کے بڑے ملکوں اور پاکستان کے دوستوں سے جا کر ملاقاتیں کی ہیں اور ان کو بڑی پذیرائی بھی ملی ہے کیونکہ یہ ملک جانتے تھے کہ جنرل راحیل شریف کون ہے۔ دعا کریں کہ ہمارا سپہ سالار سلامت رہے اور اس کے ارادے مستحکم اور صاف ستھرے رہیں۔ آپ فوج کی باتیں اور لہجہ بغور دیکھئے۔ تبدیلی بہت صاف دکھائی دیتی ہے۔ بھارتی جارحیت کے ہر انداز کو وہ خوب سمجھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ بھارت کا ''دفاع بذریعہ جارحیت'' کا مطلب کیا ہے اور ہمارے پاس اس کا جواب کیا ہے۔