ایک آنکھ توکھول کر رکھیں

یہ شور شرابا کرنے والے جن کے اپنے پیٹ تو بھرے ہوتے ہیں لیکن انھیں دنیا کی غربت بہت نظر آتی ہے


انیس منصوری February 15, 2015
[email protected]

لاکھوں لوگوں کو مارکر چندکے جنازوں میں شرکت کرنے سے گناہ دھل نہیں جاتے، نفرتوں کے محل تعمیرکرکے اس پر محبتوں کے پھول چڑھا دینے سے کسی کی بخشش نہیں ہوجاتی اگر زہر پینا ہی ہوتا تو جنگ عظیم کے معصوم شہدا کی قبروں پر اتحادیوں کے پھول مجھے اچھے لگتے ہیں ۔

تقسیم درتقسیم کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے انسانوں کو رنگ نسل اور مذہب میں بانٹ دینا اور پھر عالمی یوم یکجہتی میں چند موم بتیاں جلا دینا کتنا بڑا دکھاوا ہے ۔علم کے خزانوں کو بارود سے اڑا دینے کے بعد ایک یادگار بنانا ایسا ہی معلوم ہوتا ہے جیسے چنگیز خان نے بغداد کو تباہ کرنے کے بعد ایک فقیرکو معاف کردیا ہو ۔یہاں لوگوں کوگولیاں اس لیے بانٹیں جاتی ہیں کہ وہ روز بھوک سے تھوڑا تھوڑا نہ مرجائیں ۔

یہ شور شرابا کرنے والے جن کے اپنے پیٹ تو بھرے ہوتے ہیں لیکن انھیں دنیا کی غربت بہت نظر آتی ہے جن کے کارخانے اس لیے چل رہے ہیں کہ بچے بھوک سے تلملاتے رہیں ، دنیا بھر میں امداد دینے والے ممالک اور اداروں پر ایک نظرٹھہرکر تو دیکھیں جن کے جسم سے لپٹے کپڑوں سے ہمارے لہو کی بو آتی ہے،کوئی بڑی بات نہیں کہ دنیا میں ہر سال اکتیس لاکھ بچے اس لیے مر جاتے ہیں کہ ان کے ماں باپ انھیں اتنی خوراک بھی فراہم نہیں کرسکتے کہ وہ زندہ رہ سکیں ۔کیاہمارے پاس اتنے وسائل نہیں یا ہم ان بچوں کو بچانا نہیں چاہتے،اگر کم ازکم صرف نوے ارب روپے اس پیٹ کی دوزخ کے لیے فراہم کیے جائیں تو پورے سال ان اکتیس لاکھ بچوں کو خوراک فراہم ہوسکتی ہے ۔

لیکن ہر سال امریکا ایٹمی ہتھیار بنانے پر پچیس سوارب روپے خرچ کرتا ہے یعنی ایک سال میں وہ اپنے ایٹمی ہتھیاروں پر جتنی رقم خرچ کرتا ہے اس سے ستائیس سال تک پوری دنیا میں کوئی بچہ غذا کی قلت سے نہیں مرے گا ۔یہ وہی امریکا ہے جو جمہوریت ، انسانی حقوق، تعلیم ، صحت اور اپنے نام نہاد دوست ممالک کے لیے جان قربان کرنے کا دعوے دار ہے ۔مگر ہمارے یہاں وہ ایک بہت بڑی امداد بھی دیتا ہے تو کیا امداد کم ہے ؟اس کے عوض ہم سے کیا لیا جاتا ہے ؟ وہ کہتے ہیں کہ ہمارے نظام میں موجود کرپشن ہمارے بچوں کو بھوک سے مار رہی ہے ، یہ موضوع ہرگزنہیں ورنہ اس پر بھی کئی دلیلیں ہوسکتی ہیں ، بات یہ ہے کہ دنیا انسانوں کے بنیادی مسائل اجتماعی طور پر حل کرنا چاہتی ہے یا نہیں ؟ اور اگر چاہتی ہے تو اس کی سمت کیا ہے؟ اور اگر نہیں چاہتی تو کیوں نہیں چاہتی؟یا پھر انسانوں کا ایک خاص گروپ اپنی بھوک سے بھی آزاد ہے، وہ ترقی کی نئی منازل بھی طے کررہا ہے اور وہی گروہ دوسرے انسانوں کو جانوروں کی طرح ذبح بھی کر رہا ہے۔

ہر پانچ میں سے دو بچے غذائی کمی کے باعث ہلاک ہوجاتے ہیں لیکن ہر سال ایک تجزیے کے مطابق ریاستیں پندرہ سو ارب ڈالر کا اسلحہ خریدتی ہیں یا فروخت کرتی ہیں ، انفرادی طور پر لوگوں اورگروہوں کے پاس موجود اسلحہ یا خریدو فروخت کا کوئی مستند حاصل نہیں لیکن وہیں پاکستان جیسے معاشرے میں ہر ایک گھنٹے میں حمل کے دوران ایک عورت اس دنیا سے رخصت ہوجاتی ہے ۔پی ایم اے کے مطابق جس کی بس دو وجوہات ہیں ،طب کی بہتر سہولیات کا نہ ہونا دوسری وجہ خوراک کی کمی ہے۔

پاکستان میں ایک ہزار میں سے67 بچے غذائی قلت کی وجہ سے اپنے پورے پانچ سال نہیں دیکھ پاتے ،کہنے اور سمجھنے کی موٹی بات یہ ہے کہ دنیا کو کس طرف جانا ہے ، ایک جانب انسان اپنے جیسے ہی انسان سے عدم تحفظ کا شکار ہوکر اسلحے کی بھر مارکر رہا ہے،ایک سمت انسانوں کا ایک گروپ جدید دنیا میں اپنے بھرے ہوئے پیٹ کے ساتھ داخل ہورہا ہے جب کہ دوسری جانب ایک گروپ اپنے بچوں کی بھوک سے ہلاکت دیکھتا ہے ،ہجرتیں سہہ رہا ہے اور پھر وہی بارود کے ڈھیر پر بھی بیٹھتا ہے ، اپنے خونی چہرے کو چھپانے کے لیے پہلا گروہ دوسرے گروہ کو جمہوریت ،غربت اور استحکام کے نام پر بھیک کے دو ٹکڑے ڈال دیتا ہے اور ہم شکرگزار ہوکراگلے دن کی روٹی کے لیے پھر لائن میں لگ جاتے ہیں، اس تفریق میں اور دی گئی بھیک میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے ، ہمیں سوچنا یہ ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں ۔

ایک تخمینے کے مطابق جتنا اسلحہ دنیا میں بنتا ہے اس کا دو فیصد بھی دشمنوں کے لیے استعمال نہیں ہوتا ۔(یہ بھی ایک الگ بحث ہے کہ دشمن کون ہے۔انسان ،انسان کا دشمن؟) تو پھر کیوں اتنی خطیر رقم اس پر خرچ کی جاتی ہے ؟ اور اس کی ضرورت کیوں ہے جب دنیا بھر کے لوگ اس فلسفے کو مانتے ہیں کہ''جیو اورجینے دو'' تو پھر کون سی ایسی طاقتیں ہیں جو چاہتی ہیں کہ بھوک بھی رہے اور اسلحہ بھی فروخت ہوتا رہے،یعنی آسان لفظوں میں کیا دونوں کا ایک دوسرے سے تعلق ہے کہ اگر بھوک ختم ہوگئی تو اسلحہ فروخت نہیں ہوگا یا پھر اسلحہ نہیں بنے گا تو بھوک ختم ہوجائے گی ،سازشوں میں مفادات چھپے ہوتے ہیں اور ان مفادات کا تعلق اکثر اپنی ذات یا اپنے گروہ سے ہوتا ہے ۔

باتیں کہنے میں آسان ہوتی ہیں دیکھنے میں مشکل اور سمجھنے میں مشکل تر ہوجاتی ہیں ۔آپ یقیناً یہ سمجھ رہے ہونگے کہ میں دو بالکل علیحدہ سمتوں کو ملانے کی بات کر رہا ہوں لیکن یہ ساری سمتیں ایک ہی راستے پر جاتی ہیں ۔آپ کو صرف ان اشاروں کو ملانا ہے یعنی بھوک ،ترقی،نفرتیں اور اسلحہ جہاں بھوک کا راج ہے وہیں نفرتوں کی دیواریں اتنی بلند کیوں ہیں کہ اس کو اور بڑھانے کے لیے بارود کا ڈھیر چاہیے ہوتا ہے ۔ حالیہ مثالیں دیکھ لیں شام عراق یمن اور لیبیا کے اندرونی مسائل اور پھر سرحدوں کی مثال لیتے جائیں ۔

بھوک، بد انتظامی ،کرپشن، جمہوریت، نظریات وہ نعرے ہیں جن کی پیٹھ پر بیٹھ کر تمام وہ کام کیے جاتے ہیں جو عام حالات میں ممکن نہیں ہوتے،اکثر زمین انھیں زرخیز مل جاتی ہے اور بعض جگہوں پر بھوک اور افراتفری کو جان بوجھ کر بنایا جاتا ہے ۔ سیدھے راستے میں ایسی مشکلات پیدا کی جاتی ہیں جس کا کبھی وہم بھی نہیں ہوتا اور ان سب کے لیے دوستوں کو استعمال کیا جاتا ہے،ہم اپنے دوستوں کے ہاتھوں بوئی گئی ایسی ہی فصل کو کاٹ رہے ہیں جب ہمیں بھوک سے لڑنے کی ضرورت نہیں تھی تو ہمیں بندوقیں دی گئیں ۔

بھوک کو اتنی شدت کے ساتھ بڑھانے پر خرچہ کیا گیا کہ ہمارے ہاتھ خود بخود بندوق تک پہنچ جائیں ۔ہمارے دوستوں نے بھی ایک میٹھے زہر کو ہماری رگوں میں اتارا، ہمارے قوانین اصول اور اخلاقی ضابطوں کے ذریعے زبانوں پر تالے لگا دیے گئے کہ ہم یہ نہ کہہ سکیں کہ ہمارا دوست ہماری نسلوں کے ساتھ کیا کر رہا ہے ۔جتنا پیسہ اس نے ہماری بھوک بڑھانے ،ہمارے ہاتھوں کو بندوق تک لے جانے اور بندوق فراہم کرنے پر کیا ہے اتنا پیسہ اور محبت اگر وہ سچے دل سے ہمیں دیتا تو آج ہم بھنور میں نہ پھنسے ہوتے ۔ایسے میں بس اتنا کہنا ہے کہ ۔اگر ہم سچے ہیں تو سعودی عرب سے آنے والی فنڈنگ پر ہمارا فیصلہ اب ٹھیک لگتا ہے ۔ پیسہ آنکھیں بند کر کے بس جیب میں مت ڈالیں ،کم از کم ایک آنکھ تو کھلی رکھیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں