جمہوریت پر منڈلاتے ہوئے خطرات

2014ء کے آخری نصف سے ملک کے سیاسی اُفق پر مسلسل ایسے حالات رونماء ہورہے ہیں جس سے سیاسی حکومت کی پہل کاری


Fazal Bazai February 15, 2015

2014ء کے آخری نصف سے ملک کے سیاسی اُفق پر مسلسل ایسے حالات رونماء ہورہے ہیں جس سے سیاسی حکومت کی پہل کاری ۔معاملات کو سدھارنے اور ملکی معاشی ٹیک آف کرانے پر سنجیدہ سوالات اٹھنے لگے ہیں۔

دہشتگردی کے خلاف جنگ میں کچھ نااہلی اور کسی حد تک ڈر کی وجہ سے سیاسی حکومت اس کی owner ship لینے سے مسلسل ہچکچاتی رہی ہے جسکا کا ثبوت ٹھوس پالیسی اور اقدامات کرنے کے بجائے متفقہ آل پارٹیز کانفرنسز ہیں جب کہ اس کے لیے بہترین فورم پارلمینٹ ہوا کرتا ہے لوگوں نے اس حکومت کو مینڈیٹ دیا ہے، ایگزیکٹو پاور بھی حکومت کے پاس ہوتی ہے لیکن یہ حکومت نہ تو مینڈیٹ کا خیال رکھتی ہے اور نہ ہی انتظامی اختیارات کی۔

بجائے اس کے معاملات کو ٹالنے اور ذمے داریاں دوسروں پر ڈالنے کی کوششیں کر رہی ہیں ۔جب ملک میں ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان نے دھرنے کا آغاز کیا تو حکومت نے معاملات کو سیاسی طور پر سلجھانے اور ان کی تشفی کرنے کے بجائے بوکھلاہٹ کا مظاہرہ کیا۔ جب پارلمینٹ کا اجلاس ہوا تو ہمارے پارلمینٹیرینز نے بھی انتہائی کمزور سا احتجاج اس پر کیا کہ پارلمینٹ کے ذریعے ان معاملات کو کیوں حل کرنے کی کوشش نہیں کی ، اس سے حکومت کی کمزوری اور اسٹیبلشمنٹ کا معاملات میں دخیل ہونے کا باقاعدہ رستہ کھولا گیا ۔

ترکی کے حالات سے اگر کچھ سیکھا جاتا تو شائد یہ نوبت نہ آتی، وہاں رجب طیب اردگان نے معاشی اور انتظامی اور گڈگورننس کے حوالے سے ایسے اقدامات کیے جس سے ترکی دنیا کی 16 ویں بڑی معیشت بن گئی۔ ہمارے ہاں لوٹ مار، کرپشن ، اقربا پروری اور کسی بھی ضابطے پر عملدرآمد نہ کرنا اس حکومت کا طرہ امتیاز ہے۔ حکومت خاندان کے افراد ، دوستوں اور چند وفادار سرکاری ملازمین کے ذریعے چلائی جارہی ہے اور کاروباری مفادات ملک وعوام کے مقابلے میں بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔ بڑے بڑے میگا پروجیکٹ جن میں کرپشن اور لوگوں کو دکھانے کے مواقع زیادہ ہوتے ہیں بغیر کسی فیزیبلٹی رپورٹ کے بنائے جارہے ہیں ۔

حکومت میں آتے ہی نوازشریف نے سرکلر ڈیٹ کی مد میں 500 ارب روپے اسٹیٹ بینک سے لے کر پاور کمپنیوں کو ادا کیے جس پر آڈیٹر جنرل بلند اختر رانا نے پری آڈٹ کا مطالبہ کیا جس کا خمیازہ وہ پیشیوں کی شکل میں( اپنی تنخواہ میں چند ہزار روپیہ کا اضافہ کرنے پر ) بھگت رہے ہیں لیکن اس سے بجلی کا بحران تو حل نہ ہوا ، 20 ،22 مہینوں کے بعد سرکلر ڈیٹ پھر دوسو ارب تک پہنچ گیا ہے جس سے پٹرولیم کے ایک نئے بحران نے جنم لیا ہے بعض حلقے اسے مصنوعی بحران قرار دیتے ہیں جسکی آڑ میں حکمرانوں کا مقصد پی ایس او کی نا اہلی ثابت کرنا اور آخرکار اسے نجی ہاتھوں میں دینا ہے (یہ نجی ہاتھ سب ہی جانتے ہیں ) لیکن بحران نے حکومت کی نااہلی ظاہر کرنے کے ساتھ اس کی بنیادیں ہلا دی ہیں ۔چینی کا بحران سر اُٹھانے کو ہے۔

اس طرح دوسرے اداروں کے معاملات پی آئی اے ،پی ایس او ، اسٹیل مل اور پاکستان ریلوے بھی دیوالیہ ہونے کو ہیں۔ ایک نیا ڈرامہ اور میگا اسکینڈل مستقبل قریب میں ریکوڈک کا ہے TTC کے لائسنس کو سپریم کورٹ نے منسوخ کردیا ہے جس پر TTC نے بین الاقوامی تنازعات کی عدالت میں ہرجانے کا دعویٰ کیا ہے ، اگر اس کمپنی کو ہرجانے کے طور پر رقم دی جاتی ہے یا کسی فرنٹ کمپنی کو دوسرے نام سے ٹھیکہ دیا جاتا ہے تو ایک طرف بلوچستان کے وسائل پر ڈاکہ تصور کیا جائیگا اور دوسری طرف یہ آئین پاکستان کی بھی خلاف ورزی ہوگی کیونکہ آئین کے تحت اس سرزمین پر سپریم لاء آئینِ پاکستان ہے جس کی آخری تشریح سپریم کورٹ کی ہی ہوتی ہے کسی دوسری عدالت کی نہیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ بلوچستان کی صوبائی حکومت جو بلوچ اور پشتون قوم پرستوں پر مشتمل ہیں پیدا شدہ دباؤ پر کہTTC کے ساتھ کوئی سمجھوتہ کیا جائے ،کہاں تک مزاحمت کرتی ہے۔

سندھ میں بگڑتی ہوئی امن و امان کی صورتحال اور تھر میں قحط اور روزانہ بچوں کے مرنے کے ساتھ اب سندھ پبلک سروس کمیشن کے چیرمین آغارفیق کا میرٹ پر تین ہزار اسامیوں کو پُر کرنے اور حکومت سندھ کا دباؤ قبول نہ کرنے کی وجہ سے مستعفی ہونے کی وجہ سے سندھ حکومت کی کارکردگی پر سنگین سوالات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں ۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ اور آئی ڈی پیز کا مسئلہ تو اپنی جگہ پر موجود ہے اس کے علاوہ بے روزگاری، معاشی بدحالی ، کرپشن میںبے انتہا اضافے اور زندگی مزید تلخ ہونے کی وجہ سے عوام جمہوریت سے دور ہوتے جا رہے ہیں اور ان کا جمہوریت پر سے اعتبار اٹھتا ہوا نظر آرہا ہے۔

حکومت اور سیاسی قوتوں کی مسلسل پسپائی کی وجہ سے جو خلاء پیدا ہورہا ہے اسے ایک طرف اسٹیبلشمنٹ اور دوسری طرف انتہا پسند قوتیں پُر کررہی ہے آخری مرحلہ جسے اونٹ کی پُشت پر آخری تنکا کہا جاسکتا ہے وہ فوجی عدالتوں کا قیام اور آئین میں21 ویں ترمیم کی بغیر کسی بحث ومباحثے کی منظوری ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی موجودگی میں آل پارٹیز کانفرنس کے اجلاسوں کے انعقاد اور غیرملکی دوریں سیاسی قیادت کا بحثیت مجموعی شکست اور پسپائی کی نشاندہی کرتے ہیں۔

اسٹیبلشمنٹ کے پروردہ سیاستدان اور ٹیکنوکریٹس باقاعدہ متحرک ہوکر واشگاف الفاظ میں مارشل لاء لگانے کے مطالبات کررہے ہیں ، کچھ سیاسی حلقے بھی ان کا ساتھ دے رہی ہیں ۔یہ ہمارے ملک میں ہر مارشل لاء کے لگنے سے پہلے کے حالات کی یاد دہانی (Deja vu)کراتے ہیں۔اگر ہمارے سیاستدانوں نے بحیثیتِ مجموعی لوگوں کے مسائل کم نہیں کیے اور عوام کو ریلیف نہیں دی تو خطرہ ہے کہ آنیوالے دنوں میں غیر جمہوری قوتیں اپنے ایجنڈے میں کامیاب ہوکر کہیں جمہوریت کی بساط لپیٹنے میں کامیاب نہ ہوجائیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں