حکومت کا بڑے ریٹیلرز پر عائد ٹیکس میں کمی کا فیصلہ
اتھارٹی ریٹیلرز سے ٹیکس وصولی کا کام روک دے گی:ایف بی آر
ن لیگ کی حکومت نے بظاہر اپنے اہم ووٹروں کو رعایت دینے کیلیے ریٹیلرزکو ٹیکس نیٹ میں لانے کا اپنا فیصلہ جزوی طور پر واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے، دوسری جانب حکومت ان سیکٹرز پر ٹیکسوں میں اضافہ کیے جا رہی ہے جو پہلے ہی بہت زیادہ ٹیکس دے رہے ہیں۔
جون2014 میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اعلان کیا تھا کہ پہلے درجے کے ریٹیلرز پر17 فیصد اوردوسرے درجے کے ریٹیلرز پر5 سے7.5 فیصد تک سیلز ٹیکس عائدکیا جائے گا،17فیصد ٹیکس ان ریٹیلرز پرعائد ہونا تھا جو 4 میں سے کسی ایک شرط پر پورا اترتے، ایسے ریٹیلرز جو ایئر کنڈیشنڈ شاپنگ مال میں کام کرتے ہیں،کسی انٹرنیشنل کمپنی سے منسلک ہیں، ان کا بجلی بل 50 ہزار سے زیادہ ہے یا وہ ادائیگیاں کرنے میں کریڈٹ یا ڈیبٹ کارڈ بھی استعمال کرتے ہیں تاہم اب حکومت نے چوتھی شرط ختم کر دی ہے، وہ ریٹیلرز جوکریڈٹ یا ڈیبٹ کارڈ سے بھی صارفین سے رقم وصول کرتے ہیں ان سے17فیصد ٹیکس نہیں لیا جا رہا، اس بارے میں حکومتی اہلکارکا کہنا تھاکہ باقی 3 شرائط پوری کرنے والے ریٹیلرز سے ٹیکس لیا جا رہا ہے۔
حکومت نے اس کی وجہ یہ بیان کی کہ اس شرط کی وجہ سے کریڈٹ یا ڈیبٹ کارڈسے ادائیگیوں میں کمی آئی تھی، ٹیکس میں کمی کا فیصلہ وزیرخزانہ اسحاق ڈار، ہول سیل اور ریٹیلرزکے نمائندوں کے درمیان ملاقات کے بعدکیا گیا، ملاقات میں 2 لیگی ایم این اے پرویز ملک اور میاں عبدالمنان تاجروں کے نمائندوں کی حیثیت سے شریک ہوئے، وزارت خزانہ کے اہلکار نے کہا کہ ایس آر او نمبر608 کے تحت ٹیکس وصولی کے اس فیصلے پر عمل درآمدکیا گیا تھا ۔
تاہم اس ملاقات کے بعد عمل درآمد روک دیا گیا، ایف بی آر اہلکار نے بھی کہاکہ اتھارٹی ریٹیلرز سے ٹیکس وصولی کا کام روک دے گی، یہ اقدام اس وقت اٹھایا گیا ہے جب حکومت نے منی بجٹ کی صورت میں مزید50 ارب کے نئے ٹیکس عائد کیے ہیں، ایک اور ایف بی آر اہلکار نے بتایاکہ ٹیکس وصولیوں کے ہدف حاصل کرنے میں ناکامی پر ایف بی آرکو تنقیدکا سامنا ہے تاہم سیاسی عزم کی کمی بڑی وجہ ہے، ان کا کہنا تھا کہ سیاسی طور پر بااثر ریٹیلرزکی مزاحمت اور کمزور حکومتی رٹ کی وجہ سے انھیں ٹیکس نیٹ میں نہیں لایا جا سکا، ان کا کہنا تھا کہ ملک بھر کی کل رجسٹرڈ شاپس کی تعداد اسلام آباد میں قائم شاپنگ مالز سے کم ہے، انھوں نے کہا کہ اس ایس آراو کے تحت ملک بھر میں جتنا ٹیکس جمع کیا گیا وہ چیئرمین کی ماہانہ تنخواہ سے بھی کم تھا۔
جون2014 میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اعلان کیا تھا کہ پہلے درجے کے ریٹیلرز پر17 فیصد اوردوسرے درجے کے ریٹیلرز پر5 سے7.5 فیصد تک سیلز ٹیکس عائدکیا جائے گا،17فیصد ٹیکس ان ریٹیلرز پرعائد ہونا تھا جو 4 میں سے کسی ایک شرط پر پورا اترتے، ایسے ریٹیلرز جو ایئر کنڈیشنڈ شاپنگ مال میں کام کرتے ہیں،کسی انٹرنیشنل کمپنی سے منسلک ہیں، ان کا بجلی بل 50 ہزار سے زیادہ ہے یا وہ ادائیگیاں کرنے میں کریڈٹ یا ڈیبٹ کارڈ بھی استعمال کرتے ہیں تاہم اب حکومت نے چوتھی شرط ختم کر دی ہے، وہ ریٹیلرز جوکریڈٹ یا ڈیبٹ کارڈ سے بھی صارفین سے رقم وصول کرتے ہیں ان سے17فیصد ٹیکس نہیں لیا جا رہا، اس بارے میں حکومتی اہلکارکا کہنا تھاکہ باقی 3 شرائط پوری کرنے والے ریٹیلرز سے ٹیکس لیا جا رہا ہے۔
حکومت نے اس کی وجہ یہ بیان کی کہ اس شرط کی وجہ سے کریڈٹ یا ڈیبٹ کارڈسے ادائیگیوں میں کمی آئی تھی، ٹیکس میں کمی کا فیصلہ وزیرخزانہ اسحاق ڈار، ہول سیل اور ریٹیلرزکے نمائندوں کے درمیان ملاقات کے بعدکیا گیا، ملاقات میں 2 لیگی ایم این اے پرویز ملک اور میاں عبدالمنان تاجروں کے نمائندوں کی حیثیت سے شریک ہوئے، وزارت خزانہ کے اہلکار نے کہا کہ ایس آر او نمبر608 کے تحت ٹیکس وصولی کے اس فیصلے پر عمل درآمدکیا گیا تھا ۔
تاہم اس ملاقات کے بعد عمل درآمد روک دیا گیا، ایف بی آر اہلکار نے بھی کہاکہ اتھارٹی ریٹیلرز سے ٹیکس وصولی کا کام روک دے گی، یہ اقدام اس وقت اٹھایا گیا ہے جب حکومت نے منی بجٹ کی صورت میں مزید50 ارب کے نئے ٹیکس عائد کیے ہیں، ایک اور ایف بی آر اہلکار نے بتایاکہ ٹیکس وصولیوں کے ہدف حاصل کرنے میں ناکامی پر ایف بی آرکو تنقیدکا سامنا ہے تاہم سیاسی عزم کی کمی بڑی وجہ ہے، ان کا کہنا تھا کہ سیاسی طور پر بااثر ریٹیلرزکی مزاحمت اور کمزور حکومتی رٹ کی وجہ سے انھیں ٹیکس نیٹ میں نہیں لایا جا سکا، ان کا کہنا تھا کہ ملک بھر کی کل رجسٹرڈ شاپس کی تعداد اسلام آباد میں قائم شاپنگ مالز سے کم ہے، انھوں نے کہا کہ اس ایس آراو کے تحت ملک بھر میں جتنا ٹیکس جمع کیا گیا وہ چیئرمین کی ماہانہ تنخواہ سے بھی کم تھا۔