بُک شیلف

برصغیر پاک و ہند کی دھرتی کے چپے چپے پر ان بزرگان دین و ملت کے عظیم الشان آثار موجود ہیں


مسلمان صوفیاء کرام نے اسلام کی اشاعت میں جو مساعی جمیلہ اور کردار ادا کیا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔فوٹو: فائل

KARACHI: سوانح خواجہ معین الدینؒ چشتی اجمیری
مصنف: ڈاکٹر سید آفاق احمد کاظمی
قیمت:250 روپے
ناشر: مکتبہ جمال ، اردو بازار ، لاہور


مسلمان صوفیاء کرام نے اسلام کی اشاعت میں جو مساعی جمیلہ اور کردار ادا کیا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ برصغیر پاک و ہند کی دھرتی کے چپے چپے پر ان بزرگان دین و ملت کے عظیم الشان آثار موجود ہیں ۔ اسلام کی اشاعت کا سلسلہ جب شروع ہو ا تو پہلی صدی ہجری میں ہی صوفیاء کرام اور مسلمان تاجروں کے ذریعے اسلام کا پیغام برصغیر کی ساحلی آبادیوں میں پھیلنا شروع ہو گیا تھا مگر چھٹی صدی ہجری میں خواجہ معین الدین چشتی ؒ کے ہندوستان میں قدم رنجہ فرمانے کے بعد اسلام بہت تیزی سے پھیلا اور چند سالوں میں لاکھوں لوگ حلقہ بگوش اسلام ہوئے ۔

خواجہ معین الدین چشتیؒ کی ہندوستان آمد سے گویا اسلام کے پودے کو ایک مضبوط اور تناور درخت بننے میں مدد ملی، آپؒ نے ہندوستان کے علاقے اجمیر میں قیام فرمایا جو ہندوؤں کا گڑھ تھا اور وہاں ایک سخت گیر اور طاقتور ہندو راجہ پرتھوی راج حکمران تھا مگر آپ کے قیام کے بعد حالات بدل گئے اور پرتھوی راج کو مسلمان جرنیل شہاب الدین غوری نے بری طرح شکست دی، یوں اسلام کی سربلندی کا کام تیزی سے شروع ہوا۔ مصنف نے سوانح حیات کی تحریر میں کافی تحقیق سے کام لیا ہے ، کتاب کے آخر میں حواشی بھی دیئے ہیں۔

تم دُور نظر آئے
مصنفہ: سائرہ اقبال
پبلشر: عظیم اکیڈمی، اردو بازار، لاہور
قیمت: 200 روپے



''تم دُور نظر آئے'' سائرہ اقبال کی اولین ادبی کاوش ہے، جسے مصنفہ نے بلاگ کی دنیا سے نکال کر کتابی شکل میں دنیا کے سامنے رکھ دیا ہے۔ یہ کتاب ایک ناول اور دو افسانوں پر مشتمل ہے، جس میں انسان کی جبلت اور خواہشات کو نہایت سادہ لیکن معنی خیز الفاظ میں بیان کیا گیا ہے، کیوں کہ یہ خواہشات ہی ہیں، جن کے حصول کی تگ و دو انسان کو تھکا دیتی ہے۔ بچپن سے لڑکپن اور لڑکپن سے جوانی تک کی خواہشات کا پیچھا انسان بالکل اس طرح کرتا ہے کہ جیسے نومولود بھوک سے نڈھال ہو کرماں کی طرف دیکھتا ہے۔ کہانیوں کے واقعات ایک دوسرے سے کچھ یوں مربوط ہیں کہ قاری کے ذہن کو کہیں جھٹکا نہیں لگتا، بلکہ وہ رواں پانی کی مانند منطقی انجام کی طرف گامزن رہتا ہے۔ حقیقی روپ دھارے کہانی کے یہ کردار نہ صرف زندگی کا مطلب سکھا رہے ہیں بلکہ خود کو جاننے کی صلاحیت بھی بڑھا دیتے ہیں۔

روشنی اور کامیابی
مصنف :شیخ صفدر علی نجم
قیمت: 300روپے
ناشر:خزینہء علم وادب ، الکریم مارکیٹ ، اردو بازار ، لاہور



زیر نظر کتاب اخلاقیات ، شخصیت وکردار سازی کو بنیاد بنا کر ایک خوشگوار زندگی کے حصول اور پرامن ، ترقی پسند ، خوشحال معاشرہ کے قیام کی خواہشات اور آدرشوں کے ساتھ تحریر کی گئی ہے ۔ مصنف کو ئی مستند قلم کاریا کوئی پیشہ ور ادیب نہیں ۔ ٹیکسٹائل کیمسٹری میں تخصص حاصل کرنے کے بعد وہ مختلف ٹیکسٹائل ملز میں خدمات انجام دیتے رہے ہیں ۔انہوں نے اصلاحِ معاشرہ اور قومی فلاح کے پاکیزہ جذبے اور خواہش نے انہیں کتاب لکھنے پر مجبور کیا ۔بلاشبہ وہ درد ِدل رکھنے والے شہری ہیں ۔جنہوں نے سچے جذبے اور حسن نیت کے ساتھ ان موضوعات کا انتخاب کیا ہے جو ایک آدمی کی زندگی کو کامیاب بنانے کے لیے بنیاد کاکام دیتے ہیں ۔

روحانیت ، نفسیات اور سائنس پر مبنی موضوعات کا احاطہ کرتے ہوئے مصنف نے ہدایت کی ابدی کتاب قرآن حکیم، احادیث ، مفکر پاکستان حضر ت علامہ محمد اقبال ؒ اور بانی پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناح ؒ کے افکار واقوال کا حوالہ دیا ہے اور اس بات پر زور دیاہے کہ انسان کی کامیابی کی کلیدعلم ، محنت ، تحقیق اور آفاقی اقدار کو اپنانے میں ہے صرف اسی صورت میں ایک صالح معاشرہ وجود میں آسکتا ہے ۔

مصنف کا انداز بیاں سادہ اور عام فہم ہے ۔لیکن کہیں کہیں انگریزی الفاظ کا استعمال غیر ضروری محسوس ہوتا ہے کہ اردو میںجب موزوں الفاظ دستیاب ہوں تو ان کی جگہ انگریزی الفاظ کا سہارا لینا تحریر کے حسن کو متاثر کرتاہے ۔علاوہ ازیں کہیں کہیں دیئے گئے اشعار بھی ساقط الوزن ہیں جو قاری کو بے مزہ کردیتے ہیں ۔امید ہے اگلے ایڈیشن میں ان خامیوں کا ازالہ کرلیا جائے گا ۔بہرحال ان کمزوریوں کے باوجود یہ کتاب پڑھے جانے کے لائق ہے اور ہماری نوجوان نسل کو اس کا ضرور مطالعہ کرنا چاہئے ۔

نام کتاب: مزاح راہ
مصنف :علی رضا احمد
قیمت: 300
ناشر: ا لقمر انٹرپرائزز ، رحمان مارکیٹ ، اردو بازار ، لاہور


''مزاح راہ '' علی رضا احمد کی تیسری کتاب ہے ۔اس سے پہلے ان کی دو کتابیں ''دھجی آں' ' اور ''ایرے غیرے'' کے نام سے منظر عام پر آچکی ہیں۔ مزاح لکھنا ایک مشکل کام ہے کہ اس میں مصنف کو خود بھی اپنی تمام حسیات کو کام میں لانا اور کردارں کے ساتھ ساتھ الفاظ ، جملوں اور منظر نامے کو بھی اس خوبصورت انداز اور اسلوب میں پیش کرنا ہوتا ہے کہ قاری نہ صرف ان سے پوری طرح حظ اٹھائے بلکہ بے اختیار ہنسنے یا کم ازکم مسکرانے پر مجبور ہوجائے۔

علی'' رضا'' احمد نے ''رضاکارانہ'' طورپر ا س مشکل کام کا بیڑا اٹھایا ہے اور آج کے تلخ ،مشکل اور بحرانی دور میں بھی مسائل و مشکلات میں گھرے اردو ادب کے قارئین کو اپنی شگفتہ اور پر لطف تحریر سے گدگدانے کی کوشش کی ہے ۔علی رضا احمد لفظوں کوتوڑ کر اور ان کے صوتی کریکٹر سے استفادہ کرنے کے فن سے آشنا ہیں اور خوب کھیلتے ہیں ۔ زیر تبصرہ کتاب میں 58 کے لگ بھگ مضامین ہیں ۔ان کا '' بیانیہ ''کم و بیش ایک سا ہے اگرچہ یہ مزاح پارے ہی ہیں لیکن کہیں کہیں ان پر انشائیے کا بھی گمان ہوتا ہے ۔ کتاب ایسی ہے کہ جسے پڑھ کر یقینا قاری کتاب ''بے مزاح'' نہیں ہوگا۔

نگارشاتِ شمیم
مرتب :ڈاکٹر خالد ندیم (شعبہ اردو سرگودھا یونیورسٹی )
ناشر :ادارہ یاد گارِ غالب ، کراچی
قیمت :250روپے



ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری کا نام اہل ادب کے لیے کسی تعارف کامحتاج نہیں ہے ۔مظفر حسین شمیم انہی کے بھائی تھے ۔وہ 1909ء میں رائے پور میں پیدا ہوئے اور 61 برس کی عمر میں کراچی میں وفات پائی ۔مظفر حسین شمیم ایک درویش منش انسان، شاعر ، ادیب ، نقاد ، صحافی اور مترجم تھے ۔انہوں نے شہرت اور خود نمائی سے کوسوں پرے کنج تنہائی میں رہ کر زندگی بسر کی جس کی وجہ سے انہیں وہ شہرت بھی نہ مل سکی جس کے وہ حقدار تھے ۔تقسیم ہند سے قبل اور بعد ازاں پاکستان میں آکر انہوںنے معاشی ضرورت کے ساتھ ساتھ اپنی ادبی صلاحیتوں کو جلا بخشنے کے لیے مختلف رسائل و اخباات سے وابستگی اختیار کی ۔اس عرصہ کے دوران انہیں معروف ادیبوں اور شاعروں کی صحبت اور ان سے ملاقاتوں کے مواقع میسر آئے ۔

جن میں چراغ حسن حسرت ، سلیم اﷲ فہمی ، علامہ محمد اقبال، تاجور نجیب آبادی ، مولانا ظفر علی خان، حکیم احمد شجاع، مولانا صلاح الدین احمد، امتیاز علی تاج اور مولوی عبدالحق ایسی عظیم شخصیات شامل تھیں۔مظفر حسین شمیم نے مختلف ادیبوں ، شاعروں پر مضامین لکھے اور متفرق موضوعات پر بھی خامہ فرسائی کی ۔یہ مضامین مختصر لیکن جامع ہیں ،بیشتر مضامین تحقیقی سے زیادہ تاثراتی ہیں جنہیں مختلف مواقع پر قلمبند کیاگیا۔ان کی یہ تحریریں بکھری ہوئی تھیں جنہیں ڈاکٹر خالد ندیم نے بڑی محنت ،جانفشانی اور ذوق وشوق کے ساتھ تلاش کرکے یک جا کیا اور ''نگارشاتِ شمیم '' کے نام سے کتابی صورت میں پیش کرنے کے قابل بنایا ہے۔اب یہ کتاب ادارہ یاد گارِ غالب کراچی کے توسط سے اشاعت کے مرحلے سے گزر کر منظر عام پر آچکی ہے یقین ہے کہ اردو ادب کے قارئین کے لیے علم افروزی کا باعث ہوگی ۔

100عظیم مسلم شخصیات
مرتب: میربابر مشتاق
قیمت: 540روپے
ناشر: عثمان پبلی کیشنز، اے۔8، بلاک بی۔13، ریلوے ہاؤسنگ اسکیم، گلشن اقبال، کراچی


عظیم لوگ انسانی تاریخ میں روشن مثالوں کی طرح ہوتے ہیں، قومیں ان سے روشنی حاصل کرتی اور اسی روشنی کی مدد سے کامیابیاں سمیٹتی ہیں۔اسی غرض سے میربابر مشتاق نے مسلم تاریخ کی 100اہم شخصیات کے زندگیوں کا ذکر زیرنظرکتاب کی صورت میں پیش کیاہے۔ شخصیات کا انتخاب سات دائروں میں کیا گیا ہے۔ اصحابِ رسول میں خلفائے راشدینؓ، امام حسنؓ، امام حسینؓ اور حضرت خالد بن ولیدؓ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ محدثین و فقہاے اْمت، محقق و مجدد اور مفسر، صوفیا و مصلح، مجاہدین اسلام، سلاطین و قاضی اور سائنس دان و سیاح اس دائرے میں شامل ہیں۔

چند شخصیات: امام ابوحنیفہ، امام غزالی، ابن خلدون، ڈاکٹر حمیداللہ، علامہ محمداقبال، امام خمینی، سیّد مودودی،امام حسن البنا، قاضی حسین احمد، حسن بصری، جنید بغدادی، مولانا محمد الیاس، مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا احمد رضاخان بریلوی، طارق بن زیاد، صلاح الدین ایوبی، عمرمختار، قاضی شریح، ٹیپوسلطان، بوعلی سینا، ابن بطوطہ وغیرہ۔اسلامی تاریخ عظیم شخصیات سے بھری پڑی ہے ، اس لئے کتاب کا مطالعہ کرنے کے بعد شدت سے یہ بات محسوس ہوتی ہے کہ بہت سی شخصیات رہ گئی ہیں۔ میں سمجھتاہوں کہ یہ کتاب ہرفرد کے مطالعہ کے لئے خاص ہے روشنی حاصل کرنے کے لئے اورانفرادی اور اجتماعی زندگی میں کامیابیاں سمیٹنے کے لئے۔

معروف موچی(بچوں کی الف لیلہ)
ترجمہ: محمد سلیم الرحمن
قیمت:90روپے
ناشر: القا پبلیکیشنز،12-K،مین بلیوارڈ، گلبرگ 2لاہور


'الف لیلہ'(پورا نام: الف لیلہ و لیلہ یعنی ایک ہزار ایک رات) کے نام سے یہ کتاب شروع میں عرب ادیبوں نے تحریر کی، بعدازاں ایرانی ، مصری اور ترک قصہ گو اس میں اضافہ کرتے رہے۔ اس کی اکثرکہانیاں بابل، فونیشیا، مصر اور یونان کی قدیم لو ک داستانوں سے ماخوذ ہیں۔ جدید دورمیں اس کے دنیا بھر کی زبانوں میں تراجم ہوئے، یادرہے کہ یورپ میں سب سے پہلے ایک فرانسیسی ادیب اینٹونی گلانڈ نے ترجمہ کیا، اسی سے دوسری زبانوں میں تراجم ہوئے۔

کہتے ہیں کہ سمرقند کا ایک بادشاہ شہر یار اپنی ملکہ کی بے وفائی سے دل برداشتہ ہو کر عورت ذات سے بدظن ہوگیا۔ اور اْس نے یہ دستور بنا لیا کہ ہر روز ایک نئی شادی کرتا اور دلہن کو رات بھر رکھ کر صبح کو قتل کر دیتا۔ آخر وزیر کی لڑکی شہر زاد نے اپنی صنف کو اس عذاب سے نجات دلانے کا تہیہ کر لیا اور باپ کو بمشکل راضی کرکے بادشاہ سے شادی کر لی۔ اْس نے رات کے وقت بادشاہ کو ایک کہانی سنانا شروع کی۔ رات ختم ہوگئی مگر کہانی ختم نہ ہوئی۔ کہانی اتنی دلچسپ تھی کہ بادشاہ نے باقی حصہ سننے کی خاطر وزیر زادی کا قتل ملتوی کردیا۔ دوسری رات اس نے وہ کہانی ختم کرکے ایک نئی کہانی شروع کردی۔

اس طرح ایک ہزار ایک رات تک کہانی سناتی رہی اس مدت میں اْس کے دو بچے ہوگئے اور بادشاہ کی بدظنی جاتی رہی۔ زیرنظرکہانی بھی انہی کہانیوں میں سے ایک ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ یہ کہانی جتنی دلچسپ بچوں کے لئے ہے، اسی قدر بڑوں کے لئے ہے بھی۔ جناب محمد سلیم الرحمن اور 'القاپبلیکیشنز' بے حد تحسین کا استحقاق رکھتے ہیں کہ انھوں نے ان کہانیوں کو بہت چھوٹے بچوں کی ذہنی صلاحیت کے مطابق تحریر اور شائع کیا،کتاب خوبصورت اور دلچسپ تصاویر سے مزیں ہے۔ پیشکش کا معیارخوبصورت اور بہترین ہے۔

نام:آہ بے تاثیر ہے...!
مصنف: عبداللہ طارق سہیل
قیمت:درج نہیں
ڈسٹری بیوٹر:کتاب سرائے، الحمدمارکیٹ غزنی سٹریٹ اردوبازار،لاہور



عبداللہ طارق سہیل میدان صحافت کا بڑا نام، علمیت ، صلاحیت اور دیانت میں ایک بہترین روشن مثال، انھوں نے کالم نگاری شروع کی تو شروع کے دنوں ہی میں پڑھنے والوں کا اس قدر بڑا حلقہ اکٹھا کرلیا کہ جس کا خواب دوسرے کالم نگار عشروں تک دیکھتے رہتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ وہ خواب ہی دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ زیرنظرکتاب انہی کالموں کا مجموعہ ہے جنھوں نے قارئین کی پسندیدگی وسیع پیمانے پر حاصل کی۔ اس وقت وہ روزنامہ ایکسپریس کے ایڈیٹرتھے ۔

ملک میں سویلین سیٹ اپ کے پردے کے پیچھے فوجی ڈکٹیٹرشپ کا دور تھا۔ یہ کالم اسی دور کی تاریخ ہیں جب اداروں کا نظام درہم برہم ہوگیاتھا، لسانی اور مسلکی بنیادوں پر قتل عام ہونے لگے، خون ریزی اتنی بڑھ گئی کہ پاکستان طویل خانہ جنگی سے تباہ ہونے والے افریقی ملکوں کے منظر پیش کرنے لگا۔ عبداللہ طارق سہیل چاہتے تو بہت سے دیگر کالم نگاروں کی طرح ڈکٹیٹرشپ سے فیض یاب ہوتے لیکن اس مرد درویش کی ساری زندگی ہر اس آلودگی سے پاک رہی جس پر دوسرے ''دانش ور'' خوشی سے پھولے نہیں سماتے۔ 'آہ بے تاثیر ہے' کامطالعہ کرنے سے آپ بخوبی جان جائیں گے کہ فوجی ڈکٹیراور اس کے کاسہ لیسوں سے لے کر بدعنوان اور نااہل اپوزیشن لیڈروں تک، ہرکوئی ان کے نشانے پر رہا، آپ کو کہیں بھی کسی سے رو رعایت نظرنہیں آئے گی۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ انھوں نے ہرکسی کے خلاف تلوار ہی اٹھائے رکھی۔

ان کالموں کی خوبی ہے کہ یہ صحیح معنوں میں کالم کہلائے جانے کا حق رکھتے ہیں ورنہ آج کے دور میں کالموں کے نام پر جو رطب ویابس چھپ رہاہے، خدا کی پناہ! آج کالم نگاری کے نام پر مضمون چھپ رہے ہیں اور عرصہ سے کالم شگفتگی سے خالی ہوچکے تھے لیکن جناب عبداللہ طارق سہیل کے کالموں میں وہی شگفتگی ، وہی کاٹ اور وہی تاثیر ملتی ہے جس کا مزہ قارئین کو مدتوں یادرہے گا۔ لکھنے کا ایسا اسلوب کہ ہرناہمواری پر انگلی اٹھائی اور ہربرائی کا تمسخر اڑایا۔ کہیں پر نام لے کر ہدف تنقید بنایا اور کہیں اس اندازمیں اشارہ کیا کہ ہدف بخوبی پہچاناگیا۔ یہاں ہر پہلو پوری شرح وبسط کے ساتھ زیربحث آیا ، اپنے پورے پس منظر کے ساتھ۔ اس اعتبار سے یہ کالم ہمیشہ زندہ رہیں گے اور پڑھے جائیں گے۔

جامع فارسی لغات( فارسی سے اردو)
مولفین: رفیق احمد ساقی، پروفیسرسیدامیرکھوکھر
قیمت:1500روپے
ناشر:بک کارنر بالمقابل اقبال لائبریری بک سٹریٹ جہلم



فارسی دنیا کی24 ویں بڑی زبان، بولنے والوں کی تعداد گیارہ کروڑ سے زائد، اردگرد کی متعدد زبانوںمثلاً اْردو پر اِس کے خاصے اثرات ہیں تاہم عربی اس کے اثر سے آزاد رہی، البتہ پشتو زبان کو فارسی کی دوسری شکل قرار دیا جاتاہے۔ برصغیر پر برطانوی راج سے پہلے اسے دوسری زبان کا درجہ حاصل تھا، اس نے جنوبی ایشیاء میں تعلیمی اور ثقافتی زبان کا مقام حاصل کیا اور مْغل دورِ حکومت میں سرکاری زبان رہی۔ اس زبان کو فخر ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب قرآن مجید کا دنیا میں پہلا ترجمہ اسی زبان میں ہوا۔ اس کے علاوہ سیرت، حدیث، تفسیر، فقہ، تاریخ اور تصوف کا بڑا ذخیرہ اسی زبان میں منتقل ہوا۔

پھر دنیا کی متعدد علمی، فکری اور روحانی بصیرت رکھنے والی شخصیات کا کام اسی زبان میں ہوا۔یہاں دوبڑے شاعر علامہ اقبال اور اسداللہ خان غالب کا ذکر بھی کرناہوگا۔ شاعرمشرق فارسی میں سہولت محسوس کرتے تھے جبکہ غالب چاہتے تھے کہ انھیں فارسی شاعر کی پہچان ملے۔ وہ اپنے فارسی کلام کو نقش ہائے رنگ رنگ جبکہ اردو کلام کو بے رنگ و بے کیف قراردیاکرتے تھے۔

سوائے عربوں کے فارس کے ہمسائیے آج بھی فارسی دانش کا اہم حصہ استعمال کرتے ہیں۔ ایک خیال ہے کہ پاکستان میں فارسی سیکھنے کے خواہش مندوں کی تعداد بڑھ رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ فارسی زبان کے کورسز میں اضافہ ہور ہاہے۔ 'بک کارنر' نے اس رجحان کو محسوس کیا اور فارسی سیکھنے والوں کیلئے زیرنظرلغت پیش کی۔ ایک بہترین لغت کی ساری خوبیوں کے علاوہ اس میں فارسی ضرب الامثال اور کہاوتوں کو الگ باب میںاردو ترجمہ کے ساتھ جمع کیا گیاہے، اسی طرح فارسی محاورات کیلئے بھی الگ باب باندھاگیاہے جسے اردو اور انگریزی ترجمہ کے ساتھ پیش کیاگیا ہے۔ ساڑھے سات سو صفحات پر مشتمل، مضبوط جلد اور عمدہ طباعت کیساتھ یہ لغت نسلوں کا ساتھ دیگی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔