کیا نئے محاذ کھل گئے ہیں
ہر طرف لہو بہہ رہا ہے، بے گناہ افراد کا خون ناحق۔کراچی میں ہر روز...
حالات بہت تیزی سے بدل رہے ہیں، اس تیزی سے واقعات کی یلغار ہو رہی ہے کہ سنبھلنا تو درکنار سانس لینے تک کی مہلت نہیں مل پا رہی۔ سیکیورٹی ایجنسیزپر تو جانے کیا گزر رہی ہوگی، تجزیہ نگاروں تک کو سمجھ نہیں آ رہی کہ کس کس ایشو پر لکھا جائے۔ افسوس تو یہ کہ ہر واقعہ ڈپریشن کی ایک نئی لہر لے کر وارد ہو رہاہے۔ ہر طرف لہو بہہ رہا ہے، بے گناہ افراد کا خون ناحق۔کراچی میں ہر روز دس بارہ لاشیں گر رہی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل سندھ سے پنجاب آنے والی ایک بس میں سے شناختی کارڈ دیکھ کر پنجابی اور پٹھان مسافروں کو گولیاں مار دی گئیں۔
ایسا ہولناک واقعہ اس علاقے میں پہلی بار ہوا۔ کراچی کی طرح کی کلنگ ماضی میں ہوئی ہوتی تواب تک صوبائی حکومت کے محاسبے یا براہ راست وفاقی حکومت کی عملداری کے مطالبے سامنے آ جاتے۔یہ ''اتحادی سیاست'' کا کرشمہ ہے کہ کوئی ایسا مطالبہ نہیں کر رہا ۔ ویسے بھی سندھ کی تمام قابل ذکر قوتیں اس وقت بیک وقت اسمبلی اور حکومت میں موجود ہیں۔ اندرون سندھ کی سب سے بڑی اور ممتاز پیپلز پارٹی مخالف قوت پیر پگارا ہوا کرتے تھے۔ چند دن پہلے موجودہ پیر پگاڑا کی وزیراعظم سے ملاقات کی خبر آئی، ساتھ پیر صاحب کا بیان جاری ہوا کہ پیپلز پارٹی کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔ ویسے یہ پالیسی ان کے والد پیر مردان شاہ پگاڑا ہی نے بنائی تھی ۔ ایسے میں کس طرف دیکھا جائے؟
ادھر بلوچستان کی صورتحال بڑی تشویش ناک ہوچکی ہے۔ ایک طرف وہاں ایف سی کے کردار پر انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں۔ ان کے کمانڈروں کو عدالت میں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ مسنگ پرسنز والے ایشو پر سپریم کورٹ نے عوامی آرزئوں کی بھرپور ترجمانی کی ہے۔ سوال مگر یہ پیدا ہورہا ہے کہ ایک ایسے وقت جب ایف سی پر مزاحمت کاروں کی جانب سے حملوں میں شدت آ گئی ہے، کیا چاروں طرف سے تنقید کا نشانہ بنی یہ فورس مقابلہ کرنے کے قابل رہ سکے گی؟ پچھلے سال کے وسط میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے موثر انداز سے ٹارگٹ کلنگ کو محدود کر دیا اور جنگجوئوں کو نشانہ بنا کر انھیں خاصا پسپا کر دیا۔ پھر وہاں موجود ٹیم بدل گئی،گوریلا گروپوں سے مذاکرات کا ڈول ڈالا گیا تو پوری حکمت عملی بدل گئی۔ معلوم یہ ہو رہا ہے کہ اب مزاحمت کار دوبارہ سے منظم ہوچکے ہیں۔
انھوں نے اپنی گرفت خاصی مضبوط کر لی ، ٹارگٹ کلنگ بھی بڑھ گئی اوربلوچ علاقوں کے ساتھ ساتھ پشتون علاقوں میں بھی داخل ہونے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔پچھلے چند ماہ ہزارہ کمیونٹی پر بہت بھاری پڑے۔ ان کو نہایت بے دردی سے نشانہ بنا جا رہا ہے۔ زائرین کی بسوں پر حملے اور کوئٹہ شہر میں ہزارہ فیملیز تک کو نشانہ بنانے سے نہ صرف خوف وہراس پھیل چکا ہے، بلکہ ایک مسلک کے لوگوں میں شدید عدم تحفظ اور فرسٹریشن پیدا ہو رہی ہے۔عام تاثر تو یہ تھا کہ اس سب میں کالعدم فرقہ ورانہ تنظیموں کے لوگ شامل ہیں،مگر پچھلی ایک دو کارروائیوں میں موبائل وڈیوز بنیں، جن سے اندازہ ہوا کہ ان میں صوبے کی بعض طاقتور قبائلی شخصیات کے قریبی رشتے دار بھی شامل ہیں ، جو غالباً افراتفری(Chaos) پھیلانا چاہتے ہیں۔
بلوچستان میں اغوا برائے تاوان کی وارداتیں غیر معمولی حد تک بڑھ چکی ہیں، ان کی ذمے داری بھی بعض مقتدر لوگوں پر عائد کی جاتی ہے۔ سپریم کورٹ اپنی کارروائی میں یہ کہہ چکی ہے کہ خود صوبائی وزرا اپنے بیانات میں اپنے ساتھی وزرا پر اغوا برائے تاوان کے نیٹ ورک کی سرپرستی کرنے کے الزامات لگا چکے ہیں۔ کرپشن تو خیر بلوچستان میں خوفناک حد تک ہے ہی، ہر ایم پی اے کو پینتیس پینتیس کروڑ سالانہ مل رہے ہیں۔ چار برسوں میں ہر ایم پی اے نے ترقیاتی فنڈز کے نام پر ایک ارب سے زیادہ لیا ہے۔ کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ وہ رقم کہاں خرچ ہوئی؟ وہاں کے لوگوں میں تو عجیب عجیب کہانیاں مشہور ہیں۔بلوچستان میں سو فیصد کرپشن کی بات کی جاتی ہے۔ جب تک ان ترقیاتی فنڈز کے آڈٹ کا کوئی شفاف سسٹم نہیں بنے گا ، اس طرح کی باتیں تو ہوتی رہیں گی۔ بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی کا ایک نیا ٹرینڈ سامنے آیا جو نہایت خوفناک ہے۔
اگر اسے بروقت نہ روکا گیا تو بڑے فساد کا اندیشہ ہے۔ چند ماہ پہلے تربت میں پشتون مزدوروں کو قتل کیا گیا تو اسی وقت اندازہ ہوگیا تھا کہ اب پشتونوں کو دیگر علاقوں میں بھی نشانہ بنایا جائے گا۔ وہی ہوا،چند دن پہلے پشتوں کان کنوں کو نشانہ بنایا گیا، اب جمعے کو اے این پی کے جلسہ میں بم دھماکہ کیا گیا ،جس سے ان کا اہم پارٹی عہدے دار کئی کارکنوں سمیت جاں بحق ہوگیا۔اس سے پہلے تمام حملوں کا نشانہ صرف سیٹلرز(پنجابی، سرائیکی، اردو اسپیکنگ) ہی تھے۔ پشتونوں پر حملے جو بھی کر رہا ہے ،اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ بلوچستان میں پشتوں اور بلوچ آبادی آپس میں لڑنا شروع کرے تاکہ حالات بالکل ہی قابو سے باہر ہوجائیں۔
خیبر پختون خوا میں دیر، چترال جیسے علاقوں پر حملے دوبارہ سے شروع ہوگئے۔افغانستان کے دو سرحدی صوبوں کنڑ اور نورستان سے یہ حملے ہو رہے ہیں۔ ان میں تحریک طالبان پاکستان کا مولوی فضل اللہ گروپ ہی انوالو ہے۔ فضل اللہ خود کنٹر میں موجود ہیں۔ مہمند ایجنسی میں فورسز کے ساتھ لڑنے والے عمر خالد نورستان میں پناہ لیے ہوئے ہے۔ مولوی فقیر محمد بھی ان افغان صوبوں میں موجود ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ امریکیوں نے یہ دونوں صوبے بالکل خالی کر دیے ،حالانکہ یہاں القاعدہ اور طالبان سے تعلق رکھنے والے ایک اہم کمانڈر قاری ضیا الرحمٰن کا کنٹرول ہے، امریکی جنھیں شدت سے ناپسند کرتے ہیں۔ پاکستانی فورسز میں اس حوالے سے بڑی تشویش پائی جا رہی ہے کہ امریکی آخر ان علاقوں میں ان پاکستان دشمن گروپوں کی محفوظ پناہ گاہوں پر حملے کیوں نہیں کرتے؟مسئلہ یہ ہے کہ ہماری فورسز کے لیے ایک دوسرے سے میلوں دور واقع ان تنہا پوسٹوں کا دفاع بھی آسان نہیں۔
حملہ آور اپنی مرضی سے کوئی ٹارگٹ چنتے اور پھر نصف شب کے قریب سیکڑوں لوگ اس پوسٹ میں موجود پندرہ بیس جوانوں کو گھیرے میں لے لیتے ہیں۔ اس وقت انھیں کہیں سے کمک پہنچانا بھی ممکن نہیں ہوتی، یہی وجہ ہے کہ جوانوں کے جرات سے لڑنے کے باوجود ان کا نقصان خاصا زیادہ ہوا ہے۔
یہ تمام محاذ ملک کے مختلف حصوں میں کھلے ہوئے ہیں۔ یوں محسوس ہورہا ہے کہ کوئی شاطر ذہن بڑی منظم پلاننگ کے ساتھ پاکستانی افواج اور خفیہ اداروں کو بیک وقت کئی جگہوں پر انگیج کر رہا ہے۔ انھیں اس بری طرح الجھا دیا گیا ہے کہ وہ پوری یکسوئی کے ساتھ مخالفوں کے دوسرے پلانز پر فوکس نہ کر سکیں۔ تازہ ترین محاذ پنجاب میں کھلا ہے۔ پہلے گجرات میں فوجی کیمپ پر حملہ اور پھر لاہور میں خیبر پختون خوا سے تعلق رکھنے والے کیڈٹس کو نشانہ بنانا بڑی گہری پلاننگ کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔ سال ڈیڑھ سے تحریک طالبان پاکستان نے پنجاب میں اپنی کارروائیاں روکی ہوئی تھیں۔ پنجابی طالبان کے گروپس بھی فوج کے خلاف نبردآزما نہیں تھے۔ ملک اسحاق کی رہائی کے بعد سے لشکر جھنگوی کے شدت پسند عناصر بھی قدرے نرم ہوئے تھے۔
اچھرہ لاہور میں پشتون کیڈٹس کے قتل کے واقعے میں بظاہر تو یوں لگ رہا ہے کہ دوبارہ سے پنجابی طالبان کا کوئی گروپ فعال ہوا ہے۔ تحریک طالبان کی قیادت محسود قبیلے کے پاس ہے، حکیم اللہ محسود اور ولی الرحمٰن محسود دونوں کی گرفت خاصی مضبوط ہے۔محسود جنگجوئوں کی اصل قوت ان کے خودکش بمبار ہیں۔ تاہم محسودوں میں گن فائٹ کرنے والے نسبتاً کم ہیں۔ خاص کر شہری علاقوں میں گوریلا جنگ لڑنے کے لیے جو مہارت اورذہنی مستعدی چاہیے، وہ ان میں قدرے کم ہے۔ یہ صلاحیت مقبوضہ کشمیر میں لڑنے والی سابق جہادی تنظیموں کے لڑاکوں میں موجود ہے۔ ان جہادی تنظیموں کے سپلنٹر گروپس اب پنجابی طالبان کا حصہ ہیں۔
زیادہ تر شہری علاقوںمیں گوریلا آپریشنز میں انھی گروپس کے لڑکے استعمال ہوتے رہے ہیں۔ یوں لگ رہا ہے کہ گجرات اور اچھرہ لاہور دونوں جگہ انھی گروپس کے جنگجوشامل ہیں۔ان حملوں کی ذمے داری تو تحریک طالبان پاکستان قبول کر چکی ہے۔ یہ بات البتہ غور طلب ہے کہ ڈیڑھ سال بعد اچانک ہی یہ گروپس کیوں متحرک ہوئے ؟ ان کا ایجنڈا کیا ہے اور کیا یہ کسی گرینڈ پلان کا حصہ ہے...؟ کچھ عرصے میں ان سوالوں کے جوابات سامنے آ جائیں گے۔ سردست یہ بات البتہ کہی جا سکتی ہے کہ یہ حملے اختتام نہیں بلکہ ایک نئے لہو رنگ کھیل کا آغاز ہیں۔ اللہ پاکستان کو اپنی پناہ میں رکھے۔