پاکستان کی شکست 2011ء کا ری پلے
دراصل دونوں ٹیموں میں جو بنیادی فرق تھا وہ تھا فیلڈنگ کا۔
پاکستان گزشتہ 6 مہینوں میں صرف دو ایک روزہ مقابلے جیتا، اور اُس کے بعد عالمی کپ جیسے بڑے ٹورنامنٹ میں اسے پہلے ہی مقابلے میں ایک ایسے حریف کے خلاف کھیلنا پڑا کہ جس سے پاکستان آج تک نہیں جیتا یعنی بھارت سے۔ جب کارکردگی ندارد ہو، لیکن توقعات آسمان پر پہنچ جائیں تو ٹیم بوجھ تلے ٹیم دب جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ عالمی کپ میں بھارت کے خلاف شکستوں کا سلسلہ دراز ہوتے ہوئے اب 6 مقابلوں تک جاپہنچا ہے۔
شکست کا سبب صاف ظاہر ہے، کئی باؤلرز رنز نہیں روک سکتے، فیلڈر کیچ نہیں پکڑسکتے اور اہم بلے باز رنز نہیں بناسکتے تو توقعات بے جا ہی کہلائیں گی۔
بہرحال، اس کے باوجود پاک-بھارت مقابلہ ہمیشہ دونوں ممالک کے شائقین کرکٹ کے لیے حقائق سے زیادہ جذباتی معاملہ ہوتا ہے۔ دونوں ممالک کی باہمی تاریخ، حریف کو شکست دینے کی تمنا اور انجانی خوشی کے حصول کے لیے پاکستانی اور بھارتی ہمیشہ یہی چاہتے ہیں کہ جیت ان کو ملے۔ امکانات اور خدشات کے درمیان جب مقابلہ شروع ہوتا ہے تو ہر گزرتے لمحے کے ساتھ ایک حریف سکھ کا سانس لینے لگتا ہے اور دوسرا سولی پر لٹکنے لگتا ہے اور ایڈیلیڈ میں یہی ہوا جہاں 2011ء کے عالمی کپ سیمی فائنل کا 'ری پلے' کھیلا گیا۔
بھارت نے پہلے بیٹنگ کی، پاکستان نے بھارت کے بلے بازوں کو آؤٹ کرنے کے متعدد مواقع ضائع کیے اور حریف ٹیم کے اہم ترین بیٹسمین کو ایک عمدہ اننگز کھیلنے کا موقع دیا، ایک باؤلر نے پانچ وکٹیں حاصل کیں، لیکن بھارت کو بڑے مجموعے تک پہنچنے سے نہ روکا جاسکا اور آخر میں لاحاصل ثابت ہوئی لیکن سب سے اہم یہ کہ ہدف کے تعاقب میں ایسے موقع پر کہ جب مقابلے پر گرفت پانے کی ضرورت تھی، پاکستان نے پے در پے وکٹیں گنوائیں۔ مصباح الحق ایک بار پھر تنہا رہ گئے یہاں تک کہ پاکستان کی شکست پر مہر ثبت ہوگئی۔ اور ہاں! ایک متنازع فیصلہ بھی، وہ بھی ڈی آر ایس کی وجہ سے۔
دراصل دونوں ٹیموں میں فرق کیا تھا؟ وہ تھا فیلڈنگ کا۔ موہالی میں کئی کیچز چھوڑنے کے بعد پاکستان نے آج بھی کیچ ضائع کیے اور اب کی بار فائدہ اٹھانے والے سچن ٹنڈولکر کی جگہ ویرات کوہلی تھے۔ جنہوں نے پاک-بھارت عالمی کپ مقابلوں میں کسی بھی بھارتی بلے بازکی پہلی سنچری بنائی اور بھارت کو 300 رنز تک پہنچایا۔ پاکستان کے مقابلے میں بھارت کے فیلڈرز نے بہت عمدہ کیچز لیے۔
بھارت کے لیے یہ جیت بہت بڑی ہے۔ اسے آسٹریلیا میں آئے ہوئے تین مہینے ہونے والے ہیں۔ وہ ٹیسٹ سیریز میں کوئی مقابلہ نہ جیت سکا، پھر ٹرائی اینگولر سیریز میں انگلینڈ تک سے ہار گیا اور وارم-اپ میں بھی اسے صرف افغانستان سے جیتنے کی توفیق ملی۔ اس کارکردگی کے بعد پاکستان کے خلاف فتح ملنا، گویا ''لاٹری'' نکل آنے کے مترادف ہے اور بھارت اس کا پورا پورا فائدہ اٹھائے گا۔ اسے اب صرف ایک حریف کو زیر کرنا ہے، وہ ہے جنوبی افریقہ اس کے علاوہ گروپ میں تمام ٹیمیں ایسی ہیں جنہیں وہ باآسانی ہرا سکتا ہے۔ پاکستان کے مقابلے میں جیت کر بھارت کے سر سے بہت بڑا بوجھ اتر چکا ہے اور ٹیم کا گرتا ہوا اعتماد بحال ہوا ہے۔
''یہ دکھ کڑا سہی مگر'' لیکن یہ کڑوا گھونٹ پیتے ہوئے پاکستان کو اب اپنی نظریں حتمی ہدف پر رکھنی چاہیے، جو ہے عالمی کپ جیتنا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ فیصلوں میں تسلسل ہو۔ پاکستان کی بھارت کے ہاتھوں شکست کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ جلدبازی میں بڑے فیصلے کیے گئے۔ سرفراز احمد کو اچانک باہر بٹھا کر کیپنگ کے لیے دستانے عمر اکمل کو تھمانا اور یونس خان کو اوپنر کی حیثیت سے بھیجنے جیسے فیصلوں پر غور کرنا ہوگا اور ساتھ ساتھ ٹیم کو ''ورلڈ کپ ہار جاؤ، لیکن بھارت سے نہ ہارنا'' جیسے بچکانہ مطالبات پر کان نہیں دھرنا چاہیے کیونکہ 1992ء میں پاکستان ورلڈ کپ جیتا تھا تب بھی بھارت کے ہاتھوں مقابلے میں شکست ہوئی تھی۔آج کسی کو یاد ہے وہ شکست؟ کسی کو بھی نہیں، کیونکہ ورلڈ کپ کی جیت بھارت کے خلاف فتح سے کہیں زیادہ بڑی اور اہم ہے۔ ویسے یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ناک آؤٹ مرحلے میں ہی پاکستان اور بھارت ایک مرتبہ پھر آمنے سامنے آجائیں؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
شکست کا سبب صاف ظاہر ہے، کئی باؤلرز رنز نہیں روک سکتے، فیلڈر کیچ نہیں پکڑسکتے اور اہم بلے باز رنز نہیں بناسکتے تو توقعات بے جا ہی کہلائیں گی۔
بہرحال، اس کے باوجود پاک-بھارت مقابلہ ہمیشہ دونوں ممالک کے شائقین کرکٹ کے لیے حقائق سے زیادہ جذباتی معاملہ ہوتا ہے۔ دونوں ممالک کی باہمی تاریخ، حریف کو شکست دینے کی تمنا اور انجانی خوشی کے حصول کے لیے پاکستانی اور بھارتی ہمیشہ یہی چاہتے ہیں کہ جیت ان کو ملے۔ امکانات اور خدشات کے درمیان جب مقابلہ شروع ہوتا ہے تو ہر گزرتے لمحے کے ساتھ ایک حریف سکھ کا سانس لینے لگتا ہے اور دوسرا سولی پر لٹکنے لگتا ہے اور ایڈیلیڈ میں یہی ہوا جہاں 2011ء کے عالمی کپ سیمی فائنل کا 'ری پلے' کھیلا گیا۔
بھارت نے پہلے بیٹنگ کی، پاکستان نے بھارت کے بلے بازوں کو آؤٹ کرنے کے متعدد مواقع ضائع کیے اور حریف ٹیم کے اہم ترین بیٹسمین کو ایک عمدہ اننگز کھیلنے کا موقع دیا، ایک باؤلر نے پانچ وکٹیں حاصل کیں، لیکن بھارت کو بڑے مجموعے تک پہنچنے سے نہ روکا جاسکا اور آخر میں لاحاصل ثابت ہوئی لیکن سب سے اہم یہ کہ ہدف کے تعاقب میں ایسے موقع پر کہ جب مقابلے پر گرفت پانے کی ضرورت تھی، پاکستان نے پے در پے وکٹیں گنوائیں۔ مصباح الحق ایک بار پھر تنہا رہ گئے یہاں تک کہ پاکستان کی شکست پر مہر ثبت ہوگئی۔ اور ہاں! ایک متنازع فیصلہ بھی، وہ بھی ڈی آر ایس کی وجہ سے۔
دراصل دونوں ٹیموں میں فرق کیا تھا؟ وہ تھا فیلڈنگ کا۔ موہالی میں کئی کیچز چھوڑنے کے بعد پاکستان نے آج بھی کیچ ضائع کیے اور اب کی بار فائدہ اٹھانے والے سچن ٹنڈولکر کی جگہ ویرات کوہلی تھے۔ جنہوں نے پاک-بھارت عالمی کپ مقابلوں میں کسی بھی بھارتی بلے بازکی پہلی سنچری بنائی اور بھارت کو 300 رنز تک پہنچایا۔ پاکستان کے مقابلے میں بھارت کے فیلڈرز نے بہت عمدہ کیچز لیے۔
بھارت کے لیے یہ جیت بہت بڑی ہے۔ اسے آسٹریلیا میں آئے ہوئے تین مہینے ہونے والے ہیں۔ وہ ٹیسٹ سیریز میں کوئی مقابلہ نہ جیت سکا، پھر ٹرائی اینگولر سیریز میں انگلینڈ تک سے ہار گیا اور وارم-اپ میں بھی اسے صرف افغانستان سے جیتنے کی توفیق ملی۔ اس کارکردگی کے بعد پاکستان کے خلاف فتح ملنا، گویا ''لاٹری'' نکل آنے کے مترادف ہے اور بھارت اس کا پورا پورا فائدہ اٹھائے گا۔ اسے اب صرف ایک حریف کو زیر کرنا ہے، وہ ہے جنوبی افریقہ اس کے علاوہ گروپ میں تمام ٹیمیں ایسی ہیں جنہیں وہ باآسانی ہرا سکتا ہے۔ پاکستان کے مقابلے میں جیت کر بھارت کے سر سے بہت بڑا بوجھ اتر چکا ہے اور ٹیم کا گرتا ہوا اعتماد بحال ہوا ہے۔
''یہ دکھ کڑا سہی مگر'' لیکن یہ کڑوا گھونٹ پیتے ہوئے پاکستان کو اب اپنی نظریں حتمی ہدف پر رکھنی چاہیے، جو ہے عالمی کپ جیتنا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ فیصلوں میں تسلسل ہو۔ پاکستان کی بھارت کے ہاتھوں شکست کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ جلدبازی میں بڑے فیصلے کیے گئے۔ سرفراز احمد کو اچانک باہر بٹھا کر کیپنگ کے لیے دستانے عمر اکمل کو تھمانا اور یونس خان کو اوپنر کی حیثیت سے بھیجنے جیسے فیصلوں پر غور کرنا ہوگا اور ساتھ ساتھ ٹیم کو ''ورلڈ کپ ہار جاؤ، لیکن بھارت سے نہ ہارنا'' جیسے بچکانہ مطالبات پر کان نہیں دھرنا چاہیے کیونکہ 1992ء میں پاکستان ورلڈ کپ جیتا تھا تب بھی بھارت کے ہاتھوں مقابلے میں شکست ہوئی تھی۔آج کسی کو یاد ہے وہ شکست؟ کسی کو بھی نہیں، کیونکہ ورلڈ کپ کی جیت بھارت کے خلاف فتح سے کہیں زیادہ بڑی اور اہم ہے۔ ویسے یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ناک آؤٹ مرحلے میں ہی پاکستان اور بھارت ایک مرتبہ پھر آمنے سامنے آجائیں؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔