فورین زکس

آج انسان کے ایک بال، ایک بوند خون یا پھر سگریٹ پر لگے تھوک کو ٹیسٹ کرکے یہ بتایا جاسکتا ہے کہ یہ کس انسان کا ہے،


Wajahat Ali Abbasi February 15, 2015
[email protected]

KARACHI: اگر آپ انگریزی فلمیں یا ٹی وی دیکھتے ہیں تو ہوسکتا ہے کہ آپ ''Forensics'' سے واقف ہوں اس کا مطلب ہوتا ہے سائنس کی مدد سے کسی جرم کا سراغ لگانا یا پھر یہ لفظ اس لیب کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جہاں ان چیزوں کی ٹیسٹنگ ہورہی ہوتی ہے جو کسی جرم سے متعلق ہوتی ہیں۔

ہم نے انگریزی فلم یا ٹی وی کا حوالہ اس لیے دیا کہ اکثر ہم کو ان کی جرائم سے متعلق کہانیوں میں یہ سننے کو ملتا ہے کہ خون جس بندوق سے ہوا ہے وہ فورین زکس میں جائے گی۔ ٹیسٹنگ کے لیے یا پھر یہ کہ ابھی فلاں چیز کے رزلٹ فورین زکس سے نہیں آئے ہیں۔

فورین زکس میں ایک فنگر پرنٹ سے لے کر پوری پوری گاڑیوں کو مختلف کمپیوٹرز اور کیمیکلز جیسی چیزوں سے ٹیسٹ کرکے یہ پتہ لگایا جاتا ہے کہ جرم میں اس کا استعمال کیسے کیا گیا۔

آسان الفاظ میں یہ وہ سائنس جو بے جان چیزوں کو یہ بتانے پر آمادہ کرتی ہے کہ وہ کیسے کسی جرم کا حصہ بنیں؟ وہ دیوار پر لگا خون ہوسکتا ہے، کسی چھری پر موجود فنگر پرنٹس کسی کمپیوٹر کی وہ فائل ہوسکتی ہے جو Delete کردی گئی ہو یا پھر ایک انسان کے جسم پر لگے نشان۔

دنیا بھر میں کسی بھی جرم سے متعلق سب سے اہم فورین زکس ہوتے ہیں اور آج امریکا، انگلینڈ جیسی جگہوں پر اگر کوئی جرم ہوجائے تو جائے وقوعہ پر پولیس پہنچ کر بغیر کسی چیز کو ہاتھ لگائے سب سے پہلے فورین زکس کی ٹیم کو بلاتی ہے، وہ ٹیم اس جگہ سے بغیر کچھ ہلائے ہر وہ چیز محفوظ کرکے اپنے ساتھ لے جاتی ہے جس پر انھیں گمان ہوتا ہے کہ وہ جرم کا پتہ لگانے میں مدد دے گی، جب تک فورین زکس ٹیم کا کام ختم نہیں ہوجاتا یعنی وہ کرائمز سین سے چلے نہیں جاتے اس وقت تک کوئی دوسرا یہاں تک کہ پولیس والے تک ان کو کام کے بیچ تنگ نہیں کرتے، یہ بات مانی جاتی ہے کہ کرمنل کہیں نہ کہیں غلطی ضرور کرتا ہے اور فورین زکس یہی غلطی پکڑتا ہے۔

آج انسان کے ایک بال، ایک بوند خون یا پھر سگریٹ پر لگے تھوک کو ٹیسٹ کرکے یہ بتایا جاسکتا ہے کہ یہ کس انسان کا ہے، یہ اتنی چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں جنھیں با آسانی خراب کیا جاسکتا ہے اگر کرائم سین کو وہ لوگ چھیڑیں جنھیں اندازہ نہیں کہ وہ کیا کررہے ہیں۔

پاکستان میں فورین زکس کا کوئی خاص رجحان نہیں تھا۔ اگر کوئی واردات ہوتی تو عام سی پولیس پہنچ کر جس طرح جی چاہتا ہے تحقیقات کرتی ہے، نہ فورین زکس کے لیے کوئی ڈیٹا جمع ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی ٹیسٹنگ۔

کچھ عرصے پہلے فورین زکس کو لے کر ایک اچھی پیش رفت سامنے آئی، امریکا کے مشہور پاکستانی نژاد فورین زکس کے ماہر محمد طاہر نے پاکستان آکر لیب سیٹ کی ہے، محمد طاہر نے امریکا میں بڑے بڑے کیسز فورین زکس کی مدد سے حل کیے ہیں جن میں مشہور باکسر مائیک ٹائی سن کا ریپ کیس میں رہا ہونے میں مدد کرنا، بہت بڑے سیریل کلر جان وین کو سزا دلوانا اور مشہور ڈاکٹر میم شیپرڈ کو ان کے بیوی کے مرڈر کیس سے رہا کروانا ہے۔

محمد طاہر کے حساب سے پاکستان آکر پریکٹس سیٹ کرنا ان کی زندگی کا سب سے بڑا اور مشکل پروجیکٹ ہے، وہ کہتے ہیں کہ کرمنلز کو پکڑنا ان کے لیے بڑا چیلنج نہیں ہے بلکہ پاکستان میں رہتے یہاں کے پورے سسٹم سے لڑنا ان کے لیے چیلنج ہے۔

طاہر کو لگتا ہے کہ پاکستان میں وہی پرانا سسٹم ہے جس میں ثبوت سے زیادہ اہمیت گواہی کو دی جاتی ہے، ایسے میں گواہ کو دھمکی دینا یا خریدلینا بہت آسان کام ہے، اسی لیے وہ پاکستان میں فورین زکس کو عام کرنا چاہتے ہیں تاکہ ہمارے یہاں بھی اتھارٹیز ثبوت پر زیادہ زور دینے کی عادت ڈالیں۔

65 سالہ طاہر کے مطابق فورین زکس سے ملے ثبوت خاموش گواہ ہوتے ہیں جو جھوٹ نہیں بولتے، طاہر امریکا میں چھتیس سال کام کرچکے ہیں اور وہاں کی ایف بی آئی فورین زکس بک تک لکھنے میں مدد کی ہے۔

2008 میں جب پاکستان میں طالبان حملے بہت بڑھ گئے تو پنجاب چیف منسٹر نے طاہر سے درخواست کی کہ وہ پاکستان آکر یہاں لیب سیٹ کریں۔ ہمارے سسٹم کو بہتر بنانے کے لیے لاہور میں فورین زکس لیب بنانے کے لیے اکتیس (31) ملین ڈالرز خرچ کیے گئے۔ جس میں طاہر کو اپنی پسند کے سائنسدان چننے کی پوری آزادی تھی، ساتھ ہی انھیں یہ بھی ذمے داری دی گئی تھی کہ وہ ہمارے سسٹم میں نئے اسٹینڈرڈ متعارف کروائیں۔

لیب 2012 میں بن کر پوری طرح تیار ہوگئی تھی مگر ان کا کام بہت سست تھا لیکن اب وقت گزرنے کے ساتھ کام بڑھ گیا ہے، دن میں آج وہ چھ سو کیسز لیتے ہیں لیکن طاہر کے مطابق ان کی لیب اس سے دگنے کیسز لے سکتی ہے، انھیں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کی پولیس تعلیم یافتہ نہیں ہے، وہ نہیں جانتے کہ فورین زکس کی یہ لیب ان کے لیے کیا کیا کرسکتی ہے۔

پاکستان میں گنتی کے پولیس اہلکار ہیں جو جانتے ہیں کہ جائے وقوع سے کیسے صحیح طرح ٹیسٹنگ کے لیے ثبوتوں کو محفوظ کیا جاسکتا ہے۔

DNA کے نمونوں کو بیشتر بار کھلے عام لے کر جایا جاتا ہے یا پھر کرائم سین پر کوئی ہتھیار ملے تو ٹیسٹنگ کے بعد پتہ چلتا ہے کہ خود پولیس والوں کے انگلیوں کے نشان اس پر لگے ہوئے تھے۔

ان سب کو بدلنے کے لیے طاہر نے خود پولیس والوں کو باقاعدہ تربیت دینا شروع کیا ہے ان کے حساب کے مطابق اس وقت پنجاب پولیس کے ایک لاکھ بچاس ہزار اہلکاروں میں سے اکتیس سو کو فورین زکس میں تربیت دی جاچکی ہے یعنی مشکل سے دو فیصد بھی نہیں اسی لیے پولیس کسی بھی کرائم سین کو صحیح طرح محفوظ نہیں کرپاتی۔

پاکستان میں پولیس کا اتنا برا حال ہے کہ بیشتر خبریں ان کے خلاف ہوتی ہیں لیکن فورین زکس پر حکومت کے اتنے پیسے خرچ کرنا اور محمد طاہر جیسی لیڈر شپ حاصل کرنا ایک مثبت قدم ہے، کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے چاہے رفتار دھیمی ہے مگر آگے بڑھ تو رہے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں