بلاتفریق
امن کے حوالے سے کراچی کی بنتی بگڑتی حالت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں،
امن کے حوالے سے کراچی کی بنتی بگڑتی حالت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، کبھی کراچی کے حالات خرابی کی زمرے میں انتہا پر چلے جاتے ہیں تو کبھی اس شہر دلربا کے حالات نسبتاً ''کم تر گناہ'' کے درجے پر ہو تے ہیں، گزشتہ چند برسوں سے کراچی کے حالات ایسے ہیں جن پر بالخصوص اہل کراچی اور بالعموم اہل پاکستان کلمہ شکر کہنے کی پوزیشن میں نہیں۔
کراچی میں جاری بدامنی اور لاقانونیت کے علاج کے لیے آپریشن کا نسخہ تجویز کیا گیا، ابتدا میں چہار سو سے اس فیصلے کا خیر مقدم بھی کیا گیا، جب اس فیصلے پر عملدرآمد کا آغاز ہوا تو کئی سمتوں سے اس پر تنقید کے تیر برسائے جانے لگے۔ حکومت امن کے بحالی کے لیے جاری آپریشن پر شاداں و فرحاں رویے پر بڑی ثابت قدمی سے قائم و دائم ہے، لیکن کراچی میں بسنے والے کچھ طبقہ فکر برابر اس آپریشن کو اپنے لیے پسنے کا آلہ قرار دے کر اس کے خلاف کبھی دبے تو بھی کھلے لفظوں مخالفت کر رہے ہیں۔
کراچی میں جرائم پیشہ عناصر کے خلاف حکومتی ایما پر جاری آپریشن پر جہاں کراچی میں بسنے والے گروہ اور کچھ سیاسی جماعتیں تنقید کر رہی ہیں، وہیں کچھ غیر جانبدار حلقے بھی یہ کہتے سنائی دے رہے ہیں کہ آپریشن کی ''طوالت'' کے باوجود وہ نتائج حاصل نہیں ہو سکے جن نتائج اور توقعات کو سامنے رکھتے ہوئے یہ آپریشن شروع کیا گیا تھا۔ آخر کیا وجہ ہے کہ کراچی کے حالات کے سدھار کے لیے حکومتی ایما پر کراچی کو جرائم پیشہ عناصر سے پاک کرنے کے لیے جو آپریشن شروع کیا گیا تھا اس کے حسب منشا نتائج نہیں نکل رہے؟
غیر جانبدار حلقوں کے خیال زریں کے مطابق اس کی سب سے بڑی وجہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھ عملی طور پر باندھے رکھنا ہے۔ اس آپریشن میں کہیں ''دباؤ'' اپنا کام دکھا رہا ہے، کہیں ''اپنوں کا پاس، دوسروں کے ساتھ انصاف'' کے فارمولے کو سامنے رکھ کر کام چلایا جارہا ہے۔ سادہ ترین الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ کراچی میں جاری امن کی بحالی کے لیے آپریشن ''بلاتفریق'' کی خصوصیت سے پاک ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اس آپریشن پر کبھی کراچی میں آباد سیاسی جماعتیں واویلا شروع کر دیتی ہیں، کبھی مذہبی گروہ اس آپریشن کو اپنے لیے پھانسنے کا پھندہ قرار دے کر کراچی میں جاری آپریشن کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے نظر آتے ہیں۔ اگر مقتدر حلقے واقعی کراچی کو امن کا تحفہ دینے میں مخلص ہیں، پھر صوبائی اور مرکزی حکومت کو بلاتفریق جرائم پیشہ عناصر کے خلاف بغیر کسی دباؤ کے کریک ڈاؤن کا راستہ اختیار کرنا پڑے گا۔
جب تک کراچی کے حالات کو بہتر بنانے کے لیے حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے آزادانہ اور منصفانہ حکمت عملی اختیار کرکے کارروائی کا راستہ اختیار نہیں کریں گے، حکومت کی جانب سے جاری آپریشن کے حوصلہ افزا نتائج کا آنا عبث ہے۔ دوسری جانب خود کو کراچی کے ''وارث'' سمجھنے والوں کو بھی تعصب اور مفادات کی عینک اپنی آنکھوں سے اتارنی ہوگی۔ اصل معاملہ کیا ہے؟
کراچی کے حالات میں سدھارپن کی خواہش کراچی کے ہر اسٹیک ہولڈر کی ہے لیکن کراچی پر ہولڈ اور کنٹرول کی خواہش مند تمام قوتوں کی اندرون خانہ خواہش اور کوشش یہ ہے کہ دوسروں کی تو اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے لیکن انھیں ''پوتر'' سمجھ کر کچھ بھی نہ کہا جائے، نہ ہی ان کی آستینوں میں موجود جرائم پیشہ عناصر کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے۔ اپنوں کا پاس اور دوسروں کے ساتھ انصاف کی اس سوچ کی بنا پر تمام تر کوششوں کے باوجود آج تک کراچی کے حالات وہیں کے وہیں ہیں۔
کراچی کے مسئلے کا صائب حل یہ کہ ہے ایک تو حکومت اور حکومتی ادارے خالصتاً میرٹ کو اپنا ''امام'' مان کر سماج دشمن عناصر کے خلاف کارروائی کریں، دوم کراچی کے تمام اسٹیک ہولڈرز اپنی آستینوں میں موجود تمام ''گندے انڈوں'' کے خلاف ایکشن پر ناک بھوں چڑھانے کی روش ترک کردیں۔ کیا صرف کراچی کی کسی ایک جماعت یا گروہ میں ایسے لوگ شامل ہیں جو کراچی میں جاری بدامنی کے ذمے دار ہیں؟
ایسا نہیں۔ کراچی میں جتنی بھی سیاسی جماعتیں، گروہ اور تنظیمیں ہیں ان میں کالی بھیڑیں موجود ہیں۔ اخلاقیات کا تقاضا تو یہ ہے کہ کراچی کے اسٹیک ہولڈرز خود ملک اور شہر کے وسیع تر مفاد میں اپنی صفوں میں موجود کالی بھیڑوں کو فارغ کردیں، اگر یہ اسٹیک ہولڈرز ایسا نہیں کرتے دوسری صورت میں پھر حکومتی ادارے جب ان ناپسندیدہ عناصر کو قانون کے گرفت میں لانے کی کوشش کریں تو ان کے ''اماموں'' کو نوحہ خوانی سے پرہیز کرنا چاہیے۔
دیکھا یہ گیا ہے کہ کراچی میں حالات کی بہتری کے لیے جب قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ''سرگرم'' کردیا جاتا ہے، مختلف اطراف سے اس پر نکتہ چینی شروع ہوجاتی ہے، اگر اس طرز عمل کو ترک کیا جائے، پھر کراچی میں امن کی خواہش حقیقت کا روپ دھار سکتی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ کراچی کے حالات کو خراب کرنے میں مٹھی بھر عناصر ریاستی اور حکومتی اداروں کا مقابلہ نہیں کرسکتے مگر شرط یہ ہے اگر ان جرائم پیشہ عناصر کے ''گاڈ فادرز'' ان کی پشت پناہی نہ کریں۔ موزوں حل کے لیے اگر ارباب اختیار واقعی سنجیدہ ہیں پھر ''بلاتفریق'' قانون کی لاٹھی سے تمام امور ہانکنے کی راہ اپنا کر کراچی کو پرامن شہر بنایا جاسکتا ہے۔ سوال مگر یہ ہے کہ میرٹ کی گھنٹی کو کون اپنے گلے میں باندھے؟ اس کے لیے کوئی بھی تیار نہیں۔
کراچی میں جاری بدامنی اور لاقانونیت کے علاج کے لیے آپریشن کا نسخہ تجویز کیا گیا، ابتدا میں چہار سو سے اس فیصلے کا خیر مقدم بھی کیا گیا، جب اس فیصلے پر عملدرآمد کا آغاز ہوا تو کئی سمتوں سے اس پر تنقید کے تیر برسائے جانے لگے۔ حکومت امن کے بحالی کے لیے جاری آپریشن پر شاداں و فرحاں رویے پر بڑی ثابت قدمی سے قائم و دائم ہے، لیکن کراچی میں بسنے والے کچھ طبقہ فکر برابر اس آپریشن کو اپنے لیے پسنے کا آلہ قرار دے کر اس کے خلاف کبھی دبے تو بھی کھلے لفظوں مخالفت کر رہے ہیں۔
کراچی میں جرائم پیشہ عناصر کے خلاف حکومتی ایما پر جاری آپریشن پر جہاں کراچی میں بسنے والے گروہ اور کچھ سیاسی جماعتیں تنقید کر رہی ہیں، وہیں کچھ غیر جانبدار حلقے بھی یہ کہتے سنائی دے رہے ہیں کہ آپریشن کی ''طوالت'' کے باوجود وہ نتائج حاصل نہیں ہو سکے جن نتائج اور توقعات کو سامنے رکھتے ہوئے یہ آپریشن شروع کیا گیا تھا۔ آخر کیا وجہ ہے کہ کراچی کے حالات کے سدھار کے لیے حکومتی ایما پر کراچی کو جرائم پیشہ عناصر سے پاک کرنے کے لیے جو آپریشن شروع کیا گیا تھا اس کے حسب منشا نتائج نہیں نکل رہے؟
غیر جانبدار حلقوں کے خیال زریں کے مطابق اس کی سب سے بڑی وجہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھ عملی طور پر باندھے رکھنا ہے۔ اس آپریشن میں کہیں ''دباؤ'' اپنا کام دکھا رہا ہے، کہیں ''اپنوں کا پاس، دوسروں کے ساتھ انصاف'' کے فارمولے کو سامنے رکھ کر کام چلایا جارہا ہے۔ سادہ ترین الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ کراچی میں جاری امن کی بحالی کے لیے آپریشن ''بلاتفریق'' کی خصوصیت سے پاک ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اس آپریشن پر کبھی کراچی میں آباد سیاسی جماعتیں واویلا شروع کر دیتی ہیں، کبھی مذہبی گروہ اس آپریشن کو اپنے لیے پھانسنے کا پھندہ قرار دے کر کراچی میں جاری آپریشن کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے نظر آتے ہیں۔ اگر مقتدر حلقے واقعی کراچی کو امن کا تحفہ دینے میں مخلص ہیں، پھر صوبائی اور مرکزی حکومت کو بلاتفریق جرائم پیشہ عناصر کے خلاف بغیر کسی دباؤ کے کریک ڈاؤن کا راستہ اختیار کرنا پڑے گا۔
جب تک کراچی کے حالات کو بہتر بنانے کے لیے حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے آزادانہ اور منصفانہ حکمت عملی اختیار کرکے کارروائی کا راستہ اختیار نہیں کریں گے، حکومت کی جانب سے جاری آپریشن کے حوصلہ افزا نتائج کا آنا عبث ہے۔ دوسری جانب خود کو کراچی کے ''وارث'' سمجھنے والوں کو بھی تعصب اور مفادات کی عینک اپنی آنکھوں سے اتارنی ہوگی۔ اصل معاملہ کیا ہے؟
کراچی کے حالات میں سدھارپن کی خواہش کراچی کے ہر اسٹیک ہولڈر کی ہے لیکن کراچی پر ہولڈ اور کنٹرول کی خواہش مند تمام قوتوں کی اندرون خانہ خواہش اور کوشش یہ ہے کہ دوسروں کی تو اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے لیکن انھیں ''پوتر'' سمجھ کر کچھ بھی نہ کہا جائے، نہ ہی ان کی آستینوں میں موجود جرائم پیشہ عناصر کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے۔ اپنوں کا پاس اور دوسروں کے ساتھ انصاف کی اس سوچ کی بنا پر تمام تر کوششوں کے باوجود آج تک کراچی کے حالات وہیں کے وہیں ہیں۔
کراچی کے مسئلے کا صائب حل یہ کہ ہے ایک تو حکومت اور حکومتی ادارے خالصتاً میرٹ کو اپنا ''امام'' مان کر سماج دشمن عناصر کے خلاف کارروائی کریں، دوم کراچی کے تمام اسٹیک ہولڈرز اپنی آستینوں میں موجود تمام ''گندے انڈوں'' کے خلاف ایکشن پر ناک بھوں چڑھانے کی روش ترک کردیں۔ کیا صرف کراچی کی کسی ایک جماعت یا گروہ میں ایسے لوگ شامل ہیں جو کراچی میں جاری بدامنی کے ذمے دار ہیں؟
ایسا نہیں۔ کراچی میں جتنی بھی سیاسی جماعتیں، گروہ اور تنظیمیں ہیں ان میں کالی بھیڑیں موجود ہیں۔ اخلاقیات کا تقاضا تو یہ ہے کہ کراچی کے اسٹیک ہولڈرز خود ملک اور شہر کے وسیع تر مفاد میں اپنی صفوں میں موجود کالی بھیڑوں کو فارغ کردیں، اگر یہ اسٹیک ہولڈرز ایسا نہیں کرتے دوسری صورت میں پھر حکومتی ادارے جب ان ناپسندیدہ عناصر کو قانون کے گرفت میں لانے کی کوشش کریں تو ان کے ''اماموں'' کو نوحہ خوانی سے پرہیز کرنا چاہیے۔
دیکھا یہ گیا ہے کہ کراچی میں حالات کی بہتری کے لیے جب قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ''سرگرم'' کردیا جاتا ہے، مختلف اطراف سے اس پر نکتہ چینی شروع ہوجاتی ہے، اگر اس طرز عمل کو ترک کیا جائے، پھر کراچی میں امن کی خواہش حقیقت کا روپ دھار سکتی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ کراچی کے حالات کو خراب کرنے میں مٹھی بھر عناصر ریاستی اور حکومتی اداروں کا مقابلہ نہیں کرسکتے مگر شرط یہ ہے اگر ان جرائم پیشہ عناصر کے ''گاڈ فادرز'' ان کی پشت پناہی نہ کریں۔ موزوں حل کے لیے اگر ارباب اختیار واقعی سنجیدہ ہیں پھر ''بلاتفریق'' قانون کی لاٹھی سے تمام امور ہانکنے کی راہ اپنا کر کراچی کو پرامن شہر بنایا جاسکتا ہے۔ سوال مگر یہ ہے کہ میرٹ کی گھنٹی کو کون اپنے گلے میں باندھے؟ اس کے لیے کوئی بھی تیار نہیں۔