جن کے سائبان ٹوٹ جائیں۔۔۔
علیحدہ ہونے والے والدین بچوں کو تلخیوں سے بچائیں
PESHAWAR:
خدانخواستہ والدین میں علیحدگی یا طلاق ہو جائے، تو سب سے زیادہ بچے متاثر ہوتے ہیں۔ بچوں کے لیے والدین ایک سائبان کی مانند ہوتے ہیں۔
اگر ان کا رشتہ ٹوٹ جائے، تو بچے خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگتے ہیں۔۔۔ عدم تحفظ کا احساس بڑھ جاتا ہے اور مستقبل میں عموماً ایسے افراد اپنے رشتوں کو نبھانے میں اور عمل زندگی میں ناکام رہتے ہیں۔ ایسے والدین پر خاصی ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بچوں کی شخصیت کو ٹوٹ پھوٹ سے بچائیں۔ ان کے اعتماد کو مجروح نہ ہونے دیں، جب کہ عموماً علیحدگی، طلاق یا خلع کی صورت میں والد، والدہ دونوں اپنا غصہ بچوں پر نکالتے ہیں۔
ماہرین نفسیات اس ضمن میں ایسے جوڑوں کو خاص تاکید کرتے ہیں کہ طلاق، خلع یا علیحدگی کی صورت میں اپنا غصہ، نفرت، انتقام جیسے منفی جذبات کا بچوں کے سامنے اظہار نہ کریں اور نہ ہی اپنے منفی جذبات کی آگ کو بچوں پر تشدد سے ٹھنڈا کریں۔ زوجین کے مابین ہونے والے اختلافات میں بچے بے قصور ہوتے ہیں۔ معصوم بچوں کے لیے والدین کے اختلافات میں ان کو بہت زیادہ اذیت سہنی پڑتی ہے، بالخصوص جب انہیں ماں یا باپ، کسی ایک سے جدا ہونا پڑتا ہے۔
یہ صورت حال ان معصوم ذہنوں کے لیے ناقابل فہم ہوتی ہے۔ وہ اپنے ذہن میں جنم لینے والے چھوٹے چھوٹے سوالات کو لبوں پر لانے کی جسارت نہیں کر پاتے اور خود ہی ان کے جواب ڈھونڈنے لگتے ہیں۔ ان کا بچپن دل و دماغ میں پیدا ہونے والی الجھی گتھیوں کو سلجھانے کی ناکام کوششوں میں گزر جاتا ہے۔ سہمے سہمے یہ بچے احساس کمتری و محرومی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اپنی ذات سے جنگ میں یہ بچے عملی زندگی میں خاطر خواہ مقام حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔
در حقیقت بچے اس تلخ حقیقت کو سمجھنے اور تسلیم کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ اسی لیے وہ والدین میں سے دونوں یا کسی ایک یا پھر خود کو اس تمام صورت حال کا ذمے دار سمجھنے لگتے ہیں۔ اس کا سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ایسے بچے عموماً اپنی کیفیات احساسات یا جذبات کا اظہار نہیں کر پاتے اور اندر ہی اندر سلگتے رہتے ہیں۔ عمر کے بڑھنے کے ساتھ یہ درد ان کے رشتوں اور زندگی کے دیگر اہم فیصلوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ عموماً والدین کی طلاق کے بچوں پر درج ذیل اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
٭خود کو قصور وار سمجھنا
اکثر بچے کی سوچ یہ ہوتی ہے کہ امی اور ابو کے درمیان میری وجہ سے علیحدگی ہوئی۔ وہ والدین کے مابین ہونے والے جھگڑے، گفتگو اور اختلاف کو اپنی ذات سے منسوب کرنے لگتا ہے۔ بالخصوص اس وقت، جب اس کی ذات سے جڑے کسی مسئلے پر ماں باپ کے درمیان تلخی بڑھی ہو۔ بعض اوقات میاں بیوی میں ہم آہنگی نہیں ہو پاتی، تو پھر ظاہر ہے کہ وہ بچوں پر اپنے اپنے حکم چلانے کے لیے بھی آمنے سامنے آجاتے ہیں۔ بچہ طویل عرصے تک اسی احساس کے ساتھ جیتا ہے عموماً ایسی صورت حال میں خاندان کے بزرگ، بچوں سے پیار محبت کے ذریعے اس کو احساس ندامت یا احساس جرم کے خول سے باہر نکلنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ بصورت دیگر ماہرین نفسیات بھی بچے کے اندر چھپے درد سے چھٹکارا دلاسکتے ہیں۔
٭والدین کے اچھے یا برے ہونے کا انتخاب
طلاق دونوں فریقین کے مابین نفرت اور بعض کا خاتمہ نہیں بلکہ آغاز ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہوتی ہے کہ بچے سے اپنے سابقہ شریک حیات کے متعلق بچے کے سامنے برائیاں، نفرت کا برملا اظہار کرتے ہیں، جو بچے کے اندر ایک کشمکش کا آغاز کر دیتی ہے۔ وہ اندرونی خلفشار کا شکار ہو جاتا ہے کیوں کہ بچہ اپنے ماں اور باپ دونوں سے محبت کرتا ہے، لہٰذا وہ کس کو اچھا سمجھے اور کس کو برا۔ بعض صورتوں میں بچے کو والدین میں سے کسی ایک کے ساتھ رہنے کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ بچہ اس وقت ایک نفسیاتی کشمکش سے گزر رہا ہوتا ہے، جو اس کی شخصیت کو ٹوٹ پھوٹ کا شکار کر رہی ہوتی ہے۔ والدین اس احساس سے بے خبر رہتے ہیں۔
مثال کے طور پر ایک ماں اپنے سابقہ شوہر یعنی بچے کے والد کے متعلق اتنی تلخ باتیں بچے کو بتاتی ہے، کیوں کہ زوجین کے مابین اختلافات کی بنا پر طلاق ہوتی ہے۔ لہٰذا وہ اپنی نفرت کا زہر اپنی اولاد کے سامنے بیان کرتی ہیں۔ اس صورت حال میں بچہ اس کشمکش کا شکار ہو جاتا ہے کہ وہ والد جو مجھ سے پیار کرتا تھا۔ کیا واقعی ایسا ہے؟ اگر بچہ والد سے اپنی ہم دردی کا اظہار کرنا چاہتا ہے، تو اس کو یہ خوف دامن گیر رہتا ہے کہ اس سے والدہ کے جذبات کو ٹھیس پہنچے گی، وہ دکھی ہوں گی یا وہ مجھ پر اعتماد نہیں کریں گی۔ اس لیے طلاق یافتہ والدین کو اس ضمن میں بہت محتاط رہنا چاہیے۔
ایسے بچے عمر بڑھنے کے باوجود بھی ایک اَن دیکھے اور اَن جانے خوف کے حصار میں رہتے ہیں۔ زندگی کے اہم فیصلوں سے لے کر رشتوں کے نبھانے تک یہ رشتے جوڑنے سے گھبراتے ہیں۔ خصوصاً شادی سے خوف زدہ رہتے ہیں۔ ان کے اندر یہ خوف ہوتا ہے کہ اگر انہوں نے شادی کی تو وہ ضرور ناکام ہو گی اور اس کا انجام طلاق پر ہو گا۔ اگر شادی ہو جاتی ہے، تو وہ خاندان میں اضافے کے قائل نہیں ہوتے۔ ان کے بچپن کے تلخ تجربات ان کو زندگی میں خوشیوں سے لطف اندوز ہونے کے بہ جائے ہر لمحہ خوف کا شکار رکھتے ہیں۔
عموماً ان کے اہل خانہ بھی ان کے اس خوف کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں، کیوں کہ وہ اپنی کیفیات اور احساسات کسی سے بیان نہیں کرتے۔ وہ اسی خوف کے حصار میں زندگی گزارتے ہیں اور عموماً ایسے افراد کی اکثریت غیر شادی شدہ رہنا پسند کرتی ہے۔ اس صورت میں والدین کا اولین فرض ہے کہ وہ بچوں کو اس کیفیت سے باہر نکالیں اور ان کو یقین دلائیں کہ ہر شادی کا انجام طلاق نہیں ہوتا، ان کو خوش گوار شادی شدہ جوڑوں کی مثال دیں۔
در حقیقت طلاق سے صرف زوجین ہی متاثر نہیں ہوتے، بلکہ سب سے زیادہ بچے متاثر ہوتے ہیں۔ لہٰذا طلاق کے عمل کی پیچیدگیاں اور بچوں کی تحویل جیسے تمام معاملات میں بچے کے احساسات، جذبات کا ضرور خیال رکھا جائے۔ بچے کی عمر کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کو پیار سے سمجھایا جائے، اور سابقہ شریک حیات کے متعلق منفی گفتگو سے گریز کیا جائے۔ والدین کی علیحدگی سے پیدا ہونے والی تکلیف کو اپنے مثبت رویے سے کم کرنے کی کوشش کریں اور اس کو اس درد کی کیفیت سے نکلنے میں معاون ثابت ہوں۔
خدانخواستہ والدین میں علیحدگی یا طلاق ہو جائے، تو سب سے زیادہ بچے متاثر ہوتے ہیں۔ بچوں کے لیے والدین ایک سائبان کی مانند ہوتے ہیں۔
اگر ان کا رشتہ ٹوٹ جائے، تو بچے خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگتے ہیں۔۔۔ عدم تحفظ کا احساس بڑھ جاتا ہے اور مستقبل میں عموماً ایسے افراد اپنے رشتوں کو نبھانے میں اور عمل زندگی میں ناکام رہتے ہیں۔ ایسے والدین پر خاصی ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بچوں کی شخصیت کو ٹوٹ پھوٹ سے بچائیں۔ ان کے اعتماد کو مجروح نہ ہونے دیں، جب کہ عموماً علیحدگی، طلاق یا خلع کی صورت میں والد، والدہ دونوں اپنا غصہ بچوں پر نکالتے ہیں۔
ماہرین نفسیات اس ضمن میں ایسے جوڑوں کو خاص تاکید کرتے ہیں کہ طلاق، خلع یا علیحدگی کی صورت میں اپنا غصہ، نفرت، انتقام جیسے منفی جذبات کا بچوں کے سامنے اظہار نہ کریں اور نہ ہی اپنے منفی جذبات کی آگ کو بچوں پر تشدد سے ٹھنڈا کریں۔ زوجین کے مابین ہونے والے اختلافات میں بچے بے قصور ہوتے ہیں۔ معصوم بچوں کے لیے والدین کے اختلافات میں ان کو بہت زیادہ اذیت سہنی پڑتی ہے، بالخصوص جب انہیں ماں یا باپ، کسی ایک سے جدا ہونا پڑتا ہے۔
یہ صورت حال ان معصوم ذہنوں کے لیے ناقابل فہم ہوتی ہے۔ وہ اپنے ذہن میں جنم لینے والے چھوٹے چھوٹے سوالات کو لبوں پر لانے کی جسارت نہیں کر پاتے اور خود ہی ان کے جواب ڈھونڈنے لگتے ہیں۔ ان کا بچپن دل و دماغ میں پیدا ہونے والی الجھی گتھیوں کو سلجھانے کی ناکام کوششوں میں گزر جاتا ہے۔ سہمے سہمے یہ بچے احساس کمتری و محرومی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اپنی ذات سے جنگ میں یہ بچے عملی زندگی میں خاطر خواہ مقام حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔
در حقیقت بچے اس تلخ حقیقت کو سمجھنے اور تسلیم کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ اسی لیے وہ والدین میں سے دونوں یا کسی ایک یا پھر خود کو اس تمام صورت حال کا ذمے دار سمجھنے لگتے ہیں۔ اس کا سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ایسے بچے عموماً اپنی کیفیات احساسات یا جذبات کا اظہار نہیں کر پاتے اور اندر ہی اندر سلگتے رہتے ہیں۔ عمر کے بڑھنے کے ساتھ یہ درد ان کے رشتوں اور زندگی کے دیگر اہم فیصلوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ عموماً والدین کی طلاق کے بچوں پر درج ذیل اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
٭خود کو قصور وار سمجھنا
اکثر بچے کی سوچ یہ ہوتی ہے کہ امی اور ابو کے درمیان میری وجہ سے علیحدگی ہوئی۔ وہ والدین کے مابین ہونے والے جھگڑے، گفتگو اور اختلاف کو اپنی ذات سے منسوب کرنے لگتا ہے۔ بالخصوص اس وقت، جب اس کی ذات سے جڑے کسی مسئلے پر ماں باپ کے درمیان تلخی بڑھی ہو۔ بعض اوقات میاں بیوی میں ہم آہنگی نہیں ہو پاتی، تو پھر ظاہر ہے کہ وہ بچوں پر اپنے اپنے حکم چلانے کے لیے بھی آمنے سامنے آجاتے ہیں۔ بچہ طویل عرصے تک اسی احساس کے ساتھ جیتا ہے عموماً ایسی صورت حال میں خاندان کے بزرگ، بچوں سے پیار محبت کے ذریعے اس کو احساس ندامت یا احساس جرم کے خول سے باہر نکلنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ بصورت دیگر ماہرین نفسیات بھی بچے کے اندر چھپے درد سے چھٹکارا دلاسکتے ہیں۔
٭والدین کے اچھے یا برے ہونے کا انتخاب
طلاق دونوں فریقین کے مابین نفرت اور بعض کا خاتمہ نہیں بلکہ آغاز ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہوتی ہے کہ بچے سے اپنے سابقہ شریک حیات کے متعلق بچے کے سامنے برائیاں، نفرت کا برملا اظہار کرتے ہیں، جو بچے کے اندر ایک کشمکش کا آغاز کر دیتی ہے۔ وہ اندرونی خلفشار کا شکار ہو جاتا ہے کیوں کہ بچہ اپنے ماں اور باپ دونوں سے محبت کرتا ہے، لہٰذا وہ کس کو اچھا سمجھے اور کس کو برا۔ بعض صورتوں میں بچے کو والدین میں سے کسی ایک کے ساتھ رہنے کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ بچہ اس وقت ایک نفسیاتی کشمکش سے گزر رہا ہوتا ہے، جو اس کی شخصیت کو ٹوٹ پھوٹ کا شکار کر رہی ہوتی ہے۔ والدین اس احساس سے بے خبر رہتے ہیں۔
مثال کے طور پر ایک ماں اپنے سابقہ شوہر یعنی بچے کے والد کے متعلق اتنی تلخ باتیں بچے کو بتاتی ہے، کیوں کہ زوجین کے مابین اختلافات کی بنا پر طلاق ہوتی ہے۔ لہٰذا وہ اپنی نفرت کا زہر اپنی اولاد کے سامنے بیان کرتی ہیں۔ اس صورت حال میں بچہ اس کشمکش کا شکار ہو جاتا ہے کہ وہ والد جو مجھ سے پیار کرتا تھا۔ کیا واقعی ایسا ہے؟ اگر بچہ والد سے اپنی ہم دردی کا اظہار کرنا چاہتا ہے، تو اس کو یہ خوف دامن گیر رہتا ہے کہ اس سے والدہ کے جذبات کو ٹھیس پہنچے گی، وہ دکھی ہوں گی یا وہ مجھ پر اعتماد نہیں کریں گی۔ اس لیے طلاق یافتہ والدین کو اس ضمن میں بہت محتاط رہنا چاہیے۔
ایسے بچے عمر بڑھنے کے باوجود بھی ایک اَن دیکھے اور اَن جانے خوف کے حصار میں رہتے ہیں۔ زندگی کے اہم فیصلوں سے لے کر رشتوں کے نبھانے تک یہ رشتے جوڑنے سے گھبراتے ہیں۔ خصوصاً شادی سے خوف زدہ رہتے ہیں۔ ان کے اندر یہ خوف ہوتا ہے کہ اگر انہوں نے شادی کی تو وہ ضرور ناکام ہو گی اور اس کا انجام طلاق پر ہو گا۔ اگر شادی ہو جاتی ہے، تو وہ خاندان میں اضافے کے قائل نہیں ہوتے۔ ان کے بچپن کے تلخ تجربات ان کو زندگی میں خوشیوں سے لطف اندوز ہونے کے بہ جائے ہر لمحہ خوف کا شکار رکھتے ہیں۔
عموماً ان کے اہل خانہ بھی ان کے اس خوف کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں، کیوں کہ وہ اپنی کیفیات اور احساسات کسی سے بیان نہیں کرتے۔ وہ اسی خوف کے حصار میں زندگی گزارتے ہیں اور عموماً ایسے افراد کی اکثریت غیر شادی شدہ رہنا پسند کرتی ہے۔ اس صورت میں والدین کا اولین فرض ہے کہ وہ بچوں کو اس کیفیت سے باہر نکالیں اور ان کو یقین دلائیں کہ ہر شادی کا انجام طلاق نہیں ہوتا، ان کو خوش گوار شادی شدہ جوڑوں کی مثال دیں۔
در حقیقت طلاق سے صرف زوجین ہی متاثر نہیں ہوتے، بلکہ سب سے زیادہ بچے متاثر ہوتے ہیں۔ لہٰذا طلاق کے عمل کی پیچیدگیاں اور بچوں کی تحویل جیسے تمام معاملات میں بچے کے احساسات، جذبات کا ضرور خیال رکھا جائے۔ بچے کی عمر کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کو پیار سے سمجھایا جائے، اور سابقہ شریک حیات کے متعلق منفی گفتگو سے گریز کیا جائے۔ والدین کی علیحدگی سے پیدا ہونے والی تکلیف کو اپنے مثبت رویے سے کم کرنے کی کوشش کریں اور اس کو اس درد کی کیفیت سے نکلنے میں معاون ثابت ہوں۔