سیاست دانوں اور بااثر شخصیات کے 15 ارب لوٹ کر فرار ہونے والا گرفتار
رقوم سے محروم ہونے والوں میں سندھ کے اہم ترین سیاستدانوں کے علاوہ بیوروکریٹس ،پولیس افسران اور صنعت کار بھی شامل ہیں
ایف آئی اے نے اہم ترین شخصیات کے اربوں روپے لے کرفرار ہوجانے والی منی ایکسچینج کمپنی کے سیکریٹری کو گرفتار کرلیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق کلفٹن پرواقع شہرکے انتہائی معروف سپر اسٹور میں قائم مارس منی ایکسچینج کے مالکان تقریباً 2سال قبل اچانک منی ایکسچینج کی تمام برانچز کو بند کرکے بیرون ملک فرار ہوگئے تھے ان کے فرار کے بعدیہ انکشاف ہوا کہ منی ایکسچینج کے مالکان جاوید نوراﷲ، نوشاد نور اﷲ اوران کے والد نور اﷲ بااثر شخصیات کے 15 ارب روپے سے زائد لے کر فرار ہوئے ہیں،یہ وہ رقم تھی جو منی ایکسچینج کمپنی کے مالکان نے حوالہ اورہنڈی کے ذریعے بیرون ملک بھجوانے کے لئے وصول کی تھی۔
خطیر رقوم سے محروم ہونے والوں میں سندھ کے اہم ترین سیاستدانوں کی بڑی تعداد شامل تھی جبکہ اس کے علاوہ بیوروکریٹس، اعلی پولیس افسران اورشہر کے معروف صنعت کاربھی متاثرین میں شامل تھے تاہم کسی بھی بااثر متاثرہ شخص کی جانب سے اس سلسلے میں منی ایکسچینج کمپنی کے مالکان کے خلاف قانونی کارروائی کرنے سے گریزکیاگیا جس نے معاملے کو مزید مشکوک بنادیا، مزید تفصیلات سامنے آئیں تو انکشاف ہوا کہ متاثرہ افرادقانونی کارروائی سے اس لیے گریز کررہے ہیں کہ بیرون ملک منتقل کرنے کیلیے دی جانے والی رقوم غیرقانونی ہتھکنڈوں سے کمائی گئی تھیں جن میں بڑا حصہ سندھ کے غریب عوام کے ترقیاتی منصوبوں سے خوردبرد کی جانے والی کرپشن کی کمائی کا تھا۔
اہم سیاستدان،بیورو کریٹس اور اعلی پولیس افسران اس میں برابرکے شریک تھا تاہم معاملہ کچھ دنوں تک ذرائع ابلاغ کے پر رہنے کے بعد ٹھنڈا ہوگیا اور متاثرہ بااثر افراد اپنے اثرورسوخ کے ذریعے دبئی میں موجودمنی ایکس چینج کمپنی کے مالکان پر اپنا کالادھن واپس کرنے کیلیے دباؤڈالتے رہے،معاملہ شایددباؤہی رہتامگرغیرمعمولی اور مشکوک بینک ٹرانزیکشنزکی مانیٹرنگ کیلیے بنائے گئے ادارے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ نے مارس منی ایکسچینج کے نچلے درجے کے ملازمین کے بینک اکاؤنٹس میں ہونے والی اربوں روپے کی سرگرمیوں کانوٹس لیتے ہوئے معاملہ تحقیقات کیلیے ایف آئی اے کے اسٹیٹ بینک سرکل کو بھجوادیا جہاں تحقیقات کے دوران یہ ثابت ہوگیاکہ بینک اکاؤنٹس مارس منی ایکس چینج کے مالکان کی جانب سے حوالہ اورہنڈی کے غیرقانونی کاروبار کیلیے استعمال کیے جارہے تھے۔
ایف آئی اے نے کچھ دن قبل معاملہ ثابت ہونے پرمنی ایکسچینج کمپنی کے مالکان اور متعلقہ بینک افسران کیخلاف حوالہ اورہنڈی کے ذریعے غیرقانونی طور پر خطیر رقوم کی منتقلی کا مقدمہ درج کرلیا اور ابتدائی طور پر ایک بینک افسر کو گرفتار کرلیا تحقیقات کا دائرہ بڑھا تو نجی بینک کی برانچ منیجرثروت عظیم اور منی ایکسچینج کمپنی کے سیکریٹری ثاقت راجا کے گرد گھیرا تنگ ہوگیا اور ایف آئی اے نے ثاقب راجاکو گرفتار کرکے تفتیش شروع کردی۔
ذرائع نے بتایاکہ ثاقب راجاکی گرفتاری نے بااثر متاثرہ سیاستدانوں اور اہم سرکاری افسران میں کھلبلی مچادی،متاثرہ افراد کے قریبی ذرائع کے مطابق ثاقب راجاحوالہ اور ہنڈی کے ذریعے کالے دھن کی بیرون ملک منتقلی کے مرکزی کردارہیں اورمتاثرہ افراد کو یہ خوف ہے کہ اگرایف آئی اے کے تفتیش کاراس سلسلے میں درست سمت میں تحقیقات کریں گے تو ان کے کالے دھن کی تمام تفصیلات سے آگاہ ہوجائیں گے اوراتنی خطیر رقم ان کے پاس کہاں سے آئی اس کاکوئی جواب ان کے پاس نہیں ہے۔
یہی وہ وجہ ہے کہ ثاقب راجاکی گرفتاری کے بعد بااثر سیاستدانوں اوراعلی سرکاری افسران نے وفاقی حکومت کے ذریعے ایف آئی اے کی تحقیقات پر اثر اندازہونے کی کوششیں شروع کردی ہیں۔ذرائع نے بتایا کہ قومی احتساب بیوروسندھ بھی اس سلسلے میں منی لانڈرنگ کے الزامات کے تحت تحقیقات کررہاہے تاہم تاحال نیب کی جانب سے اس سلسلے میں ذمے داراورمتاثرہ افرادکیخلاف کارروائی کاآغاز نہیں کیا گیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق کلفٹن پرواقع شہرکے انتہائی معروف سپر اسٹور میں قائم مارس منی ایکسچینج کے مالکان تقریباً 2سال قبل اچانک منی ایکسچینج کی تمام برانچز کو بند کرکے بیرون ملک فرار ہوگئے تھے ان کے فرار کے بعدیہ انکشاف ہوا کہ منی ایکسچینج کے مالکان جاوید نوراﷲ، نوشاد نور اﷲ اوران کے والد نور اﷲ بااثر شخصیات کے 15 ارب روپے سے زائد لے کر فرار ہوئے ہیں،یہ وہ رقم تھی جو منی ایکسچینج کمپنی کے مالکان نے حوالہ اورہنڈی کے ذریعے بیرون ملک بھجوانے کے لئے وصول کی تھی۔
خطیر رقوم سے محروم ہونے والوں میں سندھ کے اہم ترین سیاستدانوں کی بڑی تعداد شامل تھی جبکہ اس کے علاوہ بیوروکریٹس، اعلی پولیس افسران اورشہر کے معروف صنعت کاربھی متاثرین میں شامل تھے تاہم کسی بھی بااثر متاثرہ شخص کی جانب سے اس سلسلے میں منی ایکسچینج کمپنی کے مالکان کے خلاف قانونی کارروائی کرنے سے گریزکیاگیا جس نے معاملے کو مزید مشکوک بنادیا، مزید تفصیلات سامنے آئیں تو انکشاف ہوا کہ متاثرہ افرادقانونی کارروائی سے اس لیے گریز کررہے ہیں کہ بیرون ملک منتقل کرنے کیلیے دی جانے والی رقوم غیرقانونی ہتھکنڈوں سے کمائی گئی تھیں جن میں بڑا حصہ سندھ کے غریب عوام کے ترقیاتی منصوبوں سے خوردبرد کی جانے والی کرپشن کی کمائی کا تھا۔
اہم سیاستدان،بیورو کریٹس اور اعلی پولیس افسران اس میں برابرکے شریک تھا تاہم معاملہ کچھ دنوں تک ذرائع ابلاغ کے پر رہنے کے بعد ٹھنڈا ہوگیا اور متاثرہ بااثر افراد اپنے اثرورسوخ کے ذریعے دبئی میں موجودمنی ایکس چینج کمپنی کے مالکان پر اپنا کالادھن واپس کرنے کیلیے دباؤڈالتے رہے،معاملہ شایددباؤہی رہتامگرغیرمعمولی اور مشکوک بینک ٹرانزیکشنزکی مانیٹرنگ کیلیے بنائے گئے ادارے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ نے مارس منی ایکسچینج کے نچلے درجے کے ملازمین کے بینک اکاؤنٹس میں ہونے والی اربوں روپے کی سرگرمیوں کانوٹس لیتے ہوئے معاملہ تحقیقات کیلیے ایف آئی اے کے اسٹیٹ بینک سرکل کو بھجوادیا جہاں تحقیقات کے دوران یہ ثابت ہوگیاکہ بینک اکاؤنٹس مارس منی ایکس چینج کے مالکان کی جانب سے حوالہ اورہنڈی کے غیرقانونی کاروبار کیلیے استعمال کیے جارہے تھے۔
ایف آئی اے نے کچھ دن قبل معاملہ ثابت ہونے پرمنی ایکسچینج کمپنی کے مالکان اور متعلقہ بینک افسران کیخلاف حوالہ اورہنڈی کے ذریعے غیرقانونی طور پر خطیر رقوم کی منتقلی کا مقدمہ درج کرلیا اور ابتدائی طور پر ایک بینک افسر کو گرفتار کرلیا تحقیقات کا دائرہ بڑھا تو نجی بینک کی برانچ منیجرثروت عظیم اور منی ایکسچینج کمپنی کے سیکریٹری ثاقت راجا کے گرد گھیرا تنگ ہوگیا اور ایف آئی اے نے ثاقب راجاکو گرفتار کرکے تفتیش شروع کردی۔
ذرائع نے بتایاکہ ثاقب راجاکی گرفتاری نے بااثر متاثرہ سیاستدانوں اور اہم سرکاری افسران میں کھلبلی مچادی،متاثرہ افراد کے قریبی ذرائع کے مطابق ثاقب راجاحوالہ اور ہنڈی کے ذریعے کالے دھن کی بیرون ملک منتقلی کے مرکزی کردارہیں اورمتاثرہ افراد کو یہ خوف ہے کہ اگرایف آئی اے کے تفتیش کاراس سلسلے میں درست سمت میں تحقیقات کریں گے تو ان کے کالے دھن کی تمام تفصیلات سے آگاہ ہوجائیں گے اوراتنی خطیر رقم ان کے پاس کہاں سے آئی اس کاکوئی جواب ان کے پاس نہیں ہے۔
یہی وہ وجہ ہے کہ ثاقب راجاکی گرفتاری کے بعد بااثر سیاستدانوں اوراعلی سرکاری افسران نے وفاقی حکومت کے ذریعے ایف آئی اے کی تحقیقات پر اثر اندازہونے کی کوششیں شروع کردی ہیں۔ذرائع نے بتایا کہ قومی احتساب بیوروسندھ بھی اس سلسلے میں منی لانڈرنگ کے الزامات کے تحت تحقیقات کررہاہے تاہم تاحال نیب کی جانب سے اس سلسلے میں ذمے داراورمتاثرہ افرادکیخلاف کارروائی کاآغاز نہیں کیا گیا ہے۔