نیشنل ایکشن پلان کے تحت گرفتار دہشتگردوں کے خلاف مقدمات فوجی عدالتوں کو بھیجے جائیں گے
نیشنل ایکشن پلان کی منظوری کے بعد سے اب تک 631 دہشت گردوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔
اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے کالعدم مذہبی گروپوں کیخلاف کارروائی کیلیے بڑھتے دباؤ کے پیش نظر حکومتی اہلکاروں نے اتوار کو انکشاف کیاہے کہ انسداد دہشت گردی کیلیے نیشنل ایکشن پلان کی منظوری کے بعد سے اب تک 631 دہشت گردوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔
نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کی نگرانی کرنیوالے حکام کاکہنا تھاکہ ان دہشتگردوں کو گزشتہ سات ہفتوں میں ملک گیر کریک ڈاؤن کے دوران گرفتار کیا گیا۔ یہ لوگ انتہائی تربیت یافتہ اورسکہ بند دہشتگرد ہیں اوران کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلانے کیلیے سفارشات وزارت داخلہ کو بھجوائی جائینگی۔
حکام کاکہنا تھاکہ اس ماہ کے آغاز میں سیکیورٹی ایجنسیوں نے دہشت گردوں کے حامیوں اور مددگاروں کیخلاف ٹارگٹڈآپریشن شروع کیا تھا، جنوبی پنجاب اور اندرون سندھ کے کچھ علاقوں میں دہشت گردوں کے حامیوں اور کالعدم جماعتوں کے ذمے داروں کی نگرانی جاری ہے کیونکہ یہ علاقے شدت پسند گروپوں کے مضبوط گڑھ شمار ہوتے ہیں۔
گرفتار دہشتگردوں میں 320 کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے ہے جبکہ311کے تعلقات لشکرطیبہ، جیش محمد اورحزب التحریر سے ہیں۔ نیشنل کاؤنٹر ٹیرر ازم اتھارٹی کے سینئر اہلکار نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایاکہ ان دہشتگردوں کے کیسز،جن پر مجموعی طور پر271ملین انعام مقرر ہے،فوجی عدالتوںکو بھجوائے جائیں گے۔ تاہم انھوں نے کہاکہ اس بارے میں حتمی فیصلہ وزیرداخلہ چوہدری نثار اگلے ہفتے کرینگے کہ ان دہشت گردوں کے مقدمات فوجی عدالتوں میں جائینگے یا تحفظ پاکستان ایکٹ کے تحت قائم عدالتوں میں چلیں گے۔
نیکٹا اہلکارکاکہنا تھاکہ نیشنل ایکشن پلان پرعملدرآمدکیلیے قائم کمیٹیاں اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہی ہیں،حتی کہ فرقہ ورانہ دہشتگردی کیخلاف سفارشات کی تیاری کیلیے قائم کمیٹی کا پہلا اجلاس بھی نہ ہوسکا۔کمیٹیوںکی خراب کارکردگی سے پارلیمانی جماعتوں کو پریشان کردیا ہے۔ پیپلزپارٹی کی ڈاکٹر نفیسہ شاہ کہتی ہیںکہ حکومت اہم مسائل پر پارلیمنٹ کو اندھیرے میں رکھ کراسکی اتھارٹی کونظر اندازکررہی ہے، انکا کہنا تھا کہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد بارے ہمیں کوئی علم نہیں۔
پارلیمانی جماعتوں کا مطالبہ ہے کہ حکومت نام بدل کرکام کرنیوالی جماعتوں سمیت تمام کالعدم گروپوں کیخلاف کارروائی کرے۔اے این پی کے سینیٹر افراسیاب خٹک کا کہنا تھاکہ تمام کالعدم گروپوںکے ہیڈکوارٹرز پنجاب میں ہیں جہاں وہ مختلف ناموں سے سرگرم ہیں۔پی پی سینیٹر فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ پالیسیاں واضح ہونا ضروری ہیں اور تمام گروپوں کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے۔
وزارت داخلہ کے ذرائع نے بتایا کہ کچھ جماعتیں نیشنل ایکشن پلان کے کچھ نکات پر تشویش کا اظہارکیا ہے جن میں فوجی عدالتوں کے کام، شدت پسند گروپوں کیخلاف کارروائی،کالعدم جماعتوں اور نفرت آمیزمواد شامل ہیں۔ وزارت داخلہ کے سینئر اہلکار کاکہنا تھا کہ اگلے ہفتے وزیراعظم نواز شریف کونیشنل ایکشن پلان پرآگے بڑھنے کیلیے سفارشات بھیجی جائینگی۔وزارت نئی قانون سازی کے دو نئے مسودے پیش کریگی جس میں نیشنل ایکشن پلان پرعملدرآمد کیلیے مزید فنڈز طلب کیے جائینگے۔
نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کی نگرانی کرنیوالے حکام کاکہنا تھاکہ ان دہشتگردوں کو گزشتہ سات ہفتوں میں ملک گیر کریک ڈاؤن کے دوران گرفتار کیا گیا۔ یہ لوگ انتہائی تربیت یافتہ اورسکہ بند دہشتگرد ہیں اوران کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلانے کیلیے سفارشات وزارت داخلہ کو بھجوائی جائینگی۔
حکام کاکہنا تھاکہ اس ماہ کے آغاز میں سیکیورٹی ایجنسیوں نے دہشت گردوں کے حامیوں اور مددگاروں کیخلاف ٹارگٹڈآپریشن شروع کیا تھا، جنوبی پنجاب اور اندرون سندھ کے کچھ علاقوں میں دہشت گردوں کے حامیوں اور کالعدم جماعتوں کے ذمے داروں کی نگرانی جاری ہے کیونکہ یہ علاقے شدت پسند گروپوں کے مضبوط گڑھ شمار ہوتے ہیں۔
گرفتار دہشتگردوں میں 320 کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے ہے جبکہ311کے تعلقات لشکرطیبہ، جیش محمد اورحزب التحریر سے ہیں۔ نیشنل کاؤنٹر ٹیرر ازم اتھارٹی کے سینئر اہلکار نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایاکہ ان دہشتگردوں کے کیسز،جن پر مجموعی طور پر271ملین انعام مقرر ہے،فوجی عدالتوںکو بھجوائے جائیں گے۔ تاہم انھوں نے کہاکہ اس بارے میں حتمی فیصلہ وزیرداخلہ چوہدری نثار اگلے ہفتے کرینگے کہ ان دہشت گردوں کے مقدمات فوجی عدالتوں میں جائینگے یا تحفظ پاکستان ایکٹ کے تحت قائم عدالتوں میں چلیں گے۔
نیکٹا اہلکارکاکہنا تھاکہ نیشنل ایکشن پلان پرعملدرآمدکیلیے قائم کمیٹیاں اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہی ہیں،حتی کہ فرقہ ورانہ دہشتگردی کیخلاف سفارشات کی تیاری کیلیے قائم کمیٹی کا پہلا اجلاس بھی نہ ہوسکا۔کمیٹیوںکی خراب کارکردگی سے پارلیمانی جماعتوں کو پریشان کردیا ہے۔ پیپلزپارٹی کی ڈاکٹر نفیسہ شاہ کہتی ہیںکہ حکومت اہم مسائل پر پارلیمنٹ کو اندھیرے میں رکھ کراسکی اتھارٹی کونظر اندازکررہی ہے، انکا کہنا تھا کہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد بارے ہمیں کوئی علم نہیں۔
پارلیمانی جماعتوں کا مطالبہ ہے کہ حکومت نام بدل کرکام کرنیوالی جماعتوں سمیت تمام کالعدم گروپوں کیخلاف کارروائی کرے۔اے این پی کے سینیٹر افراسیاب خٹک کا کہنا تھاکہ تمام کالعدم گروپوںکے ہیڈکوارٹرز پنجاب میں ہیں جہاں وہ مختلف ناموں سے سرگرم ہیں۔پی پی سینیٹر فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ پالیسیاں واضح ہونا ضروری ہیں اور تمام گروپوں کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے۔
وزارت داخلہ کے ذرائع نے بتایا کہ کچھ جماعتیں نیشنل ایکشن پلان کے کچھ نکات پر تشویش کا اظہارکیا ہے جن میں فوجی عدالتوں کے کام، شدت پسند گروپوں کیخلاف کارروائی،کالعدم جماعتوں اور نفرت آمیزمواد شامل ہیں۔ وزارت داخلہ کے سینئر اہلکار کاکہنا تھا کہ اگلے ہفتے وزیراعظم نواز شریف کونیشنل ایکشن پلان پرآگے بڑھنے کیلیے سفارشات بھیجی جائینگی۔وزارت نئی قانون سازی کے دو نئے مسودے پیش کریگی جس میں نیشنل ایکشن پلان پرعملدرآمد کیلیے مزید فنڈز طلب کیے جائینگے۔