ایں چہ بو العجبیت……فضل بازئی

ایبٹ آباد واقعے کے بعد اداروں میں تصادم بڑھنے لگا ہے


Fazal Bazai July 14, 2012
[email protected]

ایبٹ آباد واقعے کے بعد اداروں میں تصادم بڑھنے لگا ہے۔N.R.Oتو پہلے ہی دن سے متنازع تھا لیکن پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر مقررہ وقت گزرنے کے بعد یہ آرڈنینس غیرموثرہوگیا،جس سے وہ سارے مقدمات جو اس آرڈیننس کے دائرے میں آتے تھے ری اوپن ہو گئے۔عدالتِ عظمیٰ نے سوئس حکاّم کو صدر زرداری کے کیس کو ری اوپن کرنے کے لیے حکومت کو خط لکھنے کو کہاجبکہ حکومت کا موقف تھا اور ہے کہ صدرکو آئینی استثنیٰ حاصل ہے۔ کیس کے ٹرائل ہی کے دوران اسامہ کا واقعہ اور پھر اس کے بطن سے اعجاز کے میمو نے جنم لیا۔

ان دونوں واقعات کی تہہ تک پہنچنے کے لیے عدالت نے دو کمیشن تشکیل دیے۔کمیشن نے حسین حقّانی کو موردالزام ٹھہرایا۔عدلیہ ، فوج اور حکومت کے درمیان پہلے ہی بد اعتمادی عروج پر تھی لیکن ان دونوں کیسز کی وجہ سے ان کے درمیان فاصلے مزید بڑھ گئے۔سوئس حکا م کو خط نہ لکھنے کی پاداش میں وزیراعظم کو تو ہین ِعدالت کا مرتکب قرار دے کر اسے سینتس سیکنڈ کی سزا دی لیکن ا سپیکر کی رولنگ سے وہ بدستور وزیراعظم رہے ، بعد میں سپریم کورٹ نے ایک واضح حکم جاری کر کے انھیں نا اہل قرار دیا۔ منتخب وزیراعظم کی نااہلی کو عالمی میڈیا نے جوڈیشل کو کا نام دیا۔ عوام ، وکلا اور سیاسی پارٹیاں بھی اس فیصلے کے حوالے سے تقسیم ہیں۔ اس حکومت نے کرپشن ، دہشت گردی ، بیڈ گورنینس ، لوڈشیڈنگ، فراہمی روزگار اور امن و امان کے خراب صورتحال کے حوالے سے پچھلی ساری حکومتوں کے ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔

اِ ن سب خرابیوں میں پیپلز پارٹی کے اتحادی اور پنجاب کی حکومت بھی برابر کی شریک ہیں۔نئے وزیراعظم کے انتخاب سے چند گھنٹے پہلے ایفریِڈین کیس میں اینٹی نارکوٹیکس فورس نے وزیراعظم کے عہدے کیلیے اہم امیدوار شہاب الدین کے نا قابلِ ضمانت وارنٹ جاری کر دیئے،یہاں پر وارنٹ کی نہیں بلکہ ٹائمنگ کی اہمیت ہے۔پھر راجہ پرویز اشرف کو وزیر اعظم منتخب کیا گیا ۔جو کہ اخلاقی ساکھ کے نہ ہونے کی وجہ سے ملک کے پیچیدہ مسائل حل کرنے کی قطعی صلاحیت نہیں رکھتے ۔نئے وزیراعظم کو بھی بارہ جولائی کو سپریم کورٹ کو خط کے حوالے سے آگاہ کرنے کو کہا گیا۔اب سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ 25 جولائی تک خط لکھ دیں ورنہ کارروائی ہوگی۔ لاہور ہائی کورٹ کے ایک پرانے مبہم فیصلے کے ذریعے سے صدر زرداری کو پریزیڈنٹ ہائوس میں سیاسی سر گرمیاں بند کرنے کی اُمید ظاہر کی گئی تھی۔

اب پانچ ستمبر تک اس کا جواب دینے کا حکم دیا گیا ہے۔اسی دوران ملک ریاض ا سٹیج پر نمودار ہوکر دعویٰ کرتے ہیں کہ چیف جسٹس کے بیٹے ارسلان کو شاپنگ اور فارن ٹورز کروانے کے علاوہ کروڑوں روپے نقد رقم کی صورت میں دیے۔تاکہ ارسلان بحریہ ٹائون کے باسٹھ سے زیادہ مقدمات جوکہ سپریم کورٹ میں چل رہے ہیں اس پر اثر اندازہو سکے۔ جب یہ باتیں میڈیا میں اشاروں کنائیوں میں ہونے لگیں تو چیف جسٹس نے اس کا از خود نوٹس لے کر فریقین کو نوٹسز جاری کر دیے۔بینچ نے اس معاملے کو اٹارنی جنرل کے سپرد کر کے یہ کہا کہ یہ دو بند وں کے درمیان آپس کا لین دین ہے اگر حکومت مناسب سمجھے تو اس کی تحقیقات کرے۔انہی دنوں اعتزاز حسن نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے یہ بات کہی کہ میں نے کئی ما ہ پہلے چیف جسٹس سے اس معاملے پر بات کی تھی تو انھوں برا ہ راست ارسلان سے بات کرنے کو کہا۔

ملک ریاض نے عدالت سے باہر آ کر قرآن شریف ہاتھ میں لے کر عزت مآب چیف جسٹس پر ان سے اور ان کے بزنس پارٹنر سے کئی ملاقاتیں کرنے کا الزام لگایا اور کہا کہ ایک ملاقات میں سابق وزیر اعظم اور ایک سِٹنگ جج بھی شامل تھے۔سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے دو تین ملاقاتوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ یہ چیف جسٹس کے گھر پر ان کے غیر فعال ہونے کے دنوں میں ہوئی تھیں ۔جبکہ ملک ریاض کا یہ بھی کہنا ہے کہ 60%باتیں ،انکشافات مزید ہیں جنہیں میں وقت آنے پر ظاہر کروں گا۔علاوہ ازیں دو اینکرز کے ویڈیو فوٹیج منظرِ عام پر آئے جس میں وہ واضح طور پر ملک ریا ض سے پلاٹ اور رقم مانگتے ہیںتاکہ اس کی مرضی کے سوالات پر مشتمل ٹاک شو کروایا جائے ۔فیس بک پر ایک لسٹ ،صحافیوں کی مبینہ طور پر بحریہ ٹائون کی طرف سے جاری کی جاتی ہے۔جس میں صحافیوں کو پلاٹ ، نقد رقم اور دوسری مراعات دینے کی بات کی گئی تھی۔

ملک ریاض نے اس لسٹ کو Ownکرنے سے انکار کر دیا ۔اب پبلک اکائونٹ کمیٹی نے کچھ ججوں کے بارے میں دو ، دو پلاٹ اسلام آباد میں لینے کی بات کی ہے۔ جس میں تین سِٹنگ ججز بھی شامل ہیں۔اِدھر حکومت توہینِ عدالت اور دہری شہریت کے افراد کو الیکشن لڑنے کی اجازت دینے اور وزیراعظم ، وزراء اعلیٰ اور ٹاپ بیورو کریٹس کو بلینکٹ استثنیٰ دینے کی آئینی ترامیم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔توہین عدالت کا بل قانون بھی بن چکا۔جبکہ چیف جسٹس نے یوتھ اسمبلی کے ایک فنکشن میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی ایسی ترمیم کو جو بنیادی حقوق، آئین کی بنیادوں اور روح کے خلاف ہو عدلیہ اس پر نظر ثانی کا حق رکھتی ہے۔
اس سارے پسِ منظر و پیشِ منظر سے مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ اداروں میں تصادم تیز تر ہوتا جارہا ہے۔ نیٹو سپلائی لائن کی بحالی پر رائٹسٹ قوتوں کی طر ف سے تحریک چلانے کی تاریخیں دی جا رہی ہیں ۔ آنے والے دنوں میں سیاسی درجہ حرارت اور بڑھ جائے گا ۔تمام سیاسی و غیر سیاسی قوتوں نے صف بندیوں کی تیاریاں شروع کر دی ہیں ۔بیرونی چیلنجز اس کے علاوہ ہیں۔ مشرف حکومت کاایک اقتصادی ماہر جو بوجوہ اس حکومت میں ایڈجسٹ نہ ہو سکے،ہر دوسرے روز اخبارات میں مشر ف اور موجودہ دور کی اقتصادی صورتحال کا موازنہ کر کے اس دور کو سنہرا دور ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔نام نہا د ٹیکنوکریٹس متحرک ہوچکے ہیں،دائیں بازو کے الائنسزبن رہے ہیں۔سیاسی پارٹیاں جو بھی کہیں ، لینن کہتے ہیںـکہ'' مظاہر حقیقتوں سے زیادہ اثر رکھتے ہیں۔''عوام ملک کی ظاہری حالت دیکھ رہے ہیں اور اس کا اثر بھی قبول کر رہے ہیں۔

اس لیے حکومت ، سیاسی پارٹیاں اور عدلیہ سب کو احتیاط سے کام لینا ہو گا۔ورنہ بنگلہ دیشی ماڈل یا ڈائریکٹ میرے عزیز ہم وطنو! والی بات ہو سکتی ہے۔جس کے مقابلے میں یہ لولی لنگڑی جمہوریت اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود بدرجہا بہتر ہے یا چرچل کے الفاظ میں جمہوریت کی ان خرابیوں کا حل مزید جمہوریت ہے۔ فوج جب بھی آتی ہے تو وہ پولیٹیکل سسٹم ، اس سے وابستہ پارٹیاں،پارلیمنٹ اور عدلیہ سمیت سب کو گھر بھیج دیتی ہے۔اورپھر ایسی صورت میں جب کسی نے کچھ بھی ڈلیور نہ کیا ہو۔ لہٰذا سب کو دانش مندی سے کام لیتے ہوئے ایک دوسرے کو رعایتیں دینی چاہئیں۔ شاید اس طرح ہم فوجی حکومت جس کی جو بھی شکل ہو سے بچ سکیں ورنہ اس کمزور سول سوسائٹی ، جمہوری اقدار سے ناواقف سیاسی پارٹیوںاور نوخیز عدلیہ سے یہ توقع رکھنا کہ وہ فوج کی راہ روک سکے گی احمقوں کی جنت میں رہنے کے برابر ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں