نبیل گبول ہی بتادیں
کراچی شہر رگوں میں خون بن کر دوڑنے پھرنے کا قائل ہی نہیں بلکہ قابل بھی نہیں تھا،
FAISALABAD:
سال ہا سال سے گھلتا ہے فضا میں زہر آب
دور و نزدیک سے آوازیں چلی آتی ہیں
تلخیٔ زیست کا پٹتا ہے ڈھنڈورا جن میں
راستہ روکے سر شام انوکھے تاجر
کیا کوئی مال نیا کورا دکھاؤں صاحب
مزدِ غیور میں آمیزش دریوزہ گری
ایک اور آنہ دو سرکار گراں ہے گندم
سرِ راہ پھیلے ہوئے دامنِ تذلیل و طلب
بھوکے محتاج کی حالت پہ ترس کھا بابا
دیو افگار غلامانہ تفاخر کی نمود
ڈیوڑھا درجہ ہے کہاں بھاگے چلے آتے ہو
مفلسی فاقہ کشی قابل ِتعدیب و سزا
چور نوکر ہو نکل جاؤ نہ آنا کل سے
یہ تقسیم ہند سے قبل کے مشہور شاعر گور بخش سنگھ المعروف مخمور جالندھری کی ایک نظم ہے جو نظر سے 60 کی پہلی دہائی میں گزری تھی، اسلامیہ کالج میں طالب علمی کا زمانہ تھا۔ لائبریری میں اس وقت کے دو جید نقاد و ادیب ممتاز حسین اور محمد حسن عسکری صاحب تشریف فرما تھے، میں تلاش میں تھا کہ کوئی کتاب ایسی ملے جو میرے علم میں اضافہ کرے، اسی کوشش میں ان دو حضرات کے قریب موجود شیلف تک پہنچا تو ممتاز صاحب کی آواز آئی ''بیٹے کوئی سی ایک کتاب پسند کرلو اور ادھر بیٹھ کر پڑھو۔''
حکم کیا تھا ایک ناصح مشفق کا ایسا زریں قول ثابت ہوا کہ بعد میں ہر طالب علم سے یہی کہتا رہا کہ لائبریری کی کتابوں کے سمندر کی گہرائی میں مت اترو، لائبریری کے ساحل مراد پر بیٹھ کر کوئی سی ایک کتاب اٹھا کر پڑھ لو۔ کتاب جو مجھے ہاتھ لگی وہ ''ہسٹری آف آرٹس'' تھی، جس کے مضامین اور نایاب و نادر پینٹنگز کے ذریعے ایک روزنامہ کے سنڈے میگزین اور فن اور فنکار کے صفحہ کے لیے مضامین نو کے انبار لگا دیے۔ ایک دن دیکھا تو کالج لائبریری کے شیلف میں کتابیں سجی ہوئی ہیں، 1952 سے لے کر 1960 کے بہترین ادب سے مزین سلسلہ ہائے کتب کا ذخیرہ موجود تھا، بس اسی دن ایک کتاب میں مخمور جالندھری کی یہ درد انگیز نظم پڑھی تھی جو آج مجھے یاد آگئی ہے۔ وہ بھی ایسے کہ ایک خبر پڑھ کر مجھے بے اختیار کئی خبریں یاد آگئیں۔
اس میں غم اور خوشی والی خبروں کا کوئی ملاپ نہ تھا بلکہ معروضی حالات کی سفاکی اور معاشرے میں عام آدمی کی موت یا زندگی کے گہرے کرب سے لاتعلقی کا ذلت آمیز رویہ ذہن میں شعلہ کی طرح لپکا، جس نے ضمیر کی خلش دوچند کی۔ خبر کیا تھی بظاہر معین اختر کا شگفتہ بار اور قہقہہ آور مزاحیہ چٹکلہ تھا، خبر یہ تھی ۔ ''چڑیا گھر کا عمر رسیدہ شیر 'راجو' مرگیا، 23 سالہ راجو خوراک کھانے سے قاصر تھا، ڈاکٹر طاقت کی دوائیں فراہم کرتے تھے، ایڈمنسٹریٹر نے چڑیا گھر کی انتظامیہ سے شیر کی پوسٹ مارٹم رپورٹ طلب کرلی۔'' اسی شہر قائد میں کتنی ماؤں کے راجو ٹارگٹ کلنگ میں مرگئے ، کسی حکمراں کے دل میں درد کی کوئی ٹیس نہیں اٹھی۔ بلدیہ گارمنٹس فیکٹری کے 259 محنت کش جلا دیے گئے یا جل گئے۔
سارے زمینی جبرئیلوں کے پر جل رہے ہیں کہ کیا کریں۔ ایسی رپورٹیں ہمارے رپورٹنگ کے زمانہ میں بھی طلب کی جاتی تھیں۔ ایک بار شیر کے کئی بچے غائب ہوئے، بعض پراسرار طریقے سے ہلاک ہوگئے، بھاری بھرکم اژدھا شرارتاً کہیں کھسک گیا تھا۔ ایک مرتبہ کراچی کے چڑیا گھر کے کئی سانپ جو شیشہ گھر کے باکسز میں بند تھے فرار ہوگئے، ایک دن چڑیا گھر کے سروے رپورٹ پر نکلا تو مجاز افسر تک کسی نے اطلاع پہنچائی کہ کوئی اخباری شرلاک ہومز گھس بیٹھئے کے طور پر بغیر ٹکٹ داخل ہوا ہے، نگراں ایک ڈاکٹر صاحب تھے، بڑے تپاک سے ملے۔
کوشش ان کی یہی تھی کہ چڑیا گھر کے سارے انتظامات کو ''سب اچھا ہے'' کی رپورٹ میں سمو دیا جائے۔ بہرحال جب شیر کی حالت زار پر ان سے تبادلہ خیال ہوا تو کہنے لگے طبعی عمر تو بیت چکی ہے اب بونس پر زندہ ہے، جب کہ میرا کہنا یہ تھا کہ شیر بلی بن گیا ہے۔ اس سے زیادہ رش پانی کی بلیوں کے پنجرے بلکہ تالاب میں تھا۔ اس وقت جس جھیل میں کشتی چلتی تھی، لاغر بگلے اور مردار بطخیں تیرتی رہتی تھیں، اس میں موجود تعفن کو 50 سال بعد بھی کوئی میرے نتھنوں سے جدا نہ کرسکا، حتیٰ کہ ایسا تعفن مجھے لیاری میں بھی محسوس نہیں ہوا۔ پانی اتنا گندا کہ مرزا غالب کا شعر یاد آگیا تھا؎
سبزے کو جب کہیں جگہ نہ ملی
بن گیا روئے آب پر کائی
اس وقت سندھ کے وزیراعلیٰ جام صادق علی تھے اور سینئر صحافی اقبال جعفری ان کے بلدیہ میں افسر تعلقات تعینات تھے، رپورٹ چھپی تو جعفری صاحب سخت برہمی کی حالت میں شوکت صدیقی سے شکایت کرنے مساوات کے دفتر آئے، برادر احفاظ الرحمان ان دنوں اسسٹنٹ ایڈیٹر تھے، اس لیے مجھے کوئی خاص سرزنش نہیں کی گئی، چھوٹی سی وضاحت کے بعد معاملہ ٹھنڈا ہوگیا۔ بات جام صادق کی آئی ہے تو عرض کردوں کہ وہ کراچی اور سندھ کی دھرتی کا عجیب سپوت تھا، ان معنوں میں کہ اس کے ''میڈاز ٹچ'' سے بلڈر مافیا نے جنم لیا۔ غالباً مرحوم خود اپنی ذات میں سیاست کی بہت بڑی مافیا تھے، وہ بھٹو کا خوش طبع اور بے تیغ جولیس سیزر تھا۔
اس نے پورا کراچی بلڈروں کے سپرد کردیا، کنگلے بیروزگار سیاسی ورکر، شہر کے کونے کونے سے آنے والی بوڑھی عورتوں کو پلاٹ دینے کی فیاضی جام صادق کی ڈالی ہوئی روایت تھی۔ مگر سچ کہوں، اس شخص نے رنگ ونسل، زبان و مذہب کے امتیاز کے بغیر اپنے سبز پین سے عوامی درخواستوں پر بے تکان دستخط کیے۔ بعد میں سنا ہے بھٹو نے جام صادق سے کہا ''خدا کے لیے مزار قائد کو تو بخش دو۔'' جھوٹ نہیں حقیقت ہے کہ لیاری کے بعض ورکرز راتوں رات رہائشی پلاٹ اور تجارتی سائٹ پلان فروخت کرتے ہوئے لکھ پتی بن گئے۔ ورنہ ان گناہگار آنکھوں نے کولمبس ہوٹل سے آگے پتھریلی، جھاڑیوں بھری دلدلی زمین اور رات کا سناٹا دیکھا ہے، رات دس بجے کے بعد جب بس نہ ملی تو کلفٹن سے پیدل چل کر ہم لوگ ملتان کے چند مہمانوں کے ہمراہ صدر پہنچے تھے۔
یہاں بھی صورت اسی تعفن اور بدبو کی تھی، لسی کی دکان میں ہم یوں داخل ہوئے جیسے کاؤ بوائے ہیرو فرانکو نیرو اپنی آسکر ایوارڈ یافتہ فلم ''DJhango'' کے میخانے میں داخل ہوتا ہے۔ پیاس سے لب خشک، غٹاغٹ لسی پی مگر محسوس ہوا کہ دکان میں رکنا مزید محال ہے۔ باہر نکلے تو مہمان نے مذاقاً یہ دلچسپ بات کہی کہ دکاندار کو چھوٹا سا بورڈ لگانا چاہیے جس پر لکھا ہو ''خواتین و حضرات ازراہ کرم لسی پی کر قے باہر کریں''۔ قصہ برسوں پرانا ہے، مگر اس کراچی کی کہانی ہے جب درندگی کا کلچر عام نہیں ہوا تھا، مروت رواداری گھر گھر تھی، سب ایک تھے۔ یہ بدنصیبی بعد کی سیاسی و لسانی پیداوار ہے جب رفیع کا گانا گونجتا تھا ''سکھ کے سب ساتھی، دکھ میں نہ کوئی''۔ ماضی میں روشنیوں کے اس شہر پر منی پاکستان بننے کی سرمستی چھا رہی تھی۔
کراچی شہر رگوں میں خون بن کر دوڑنے پھرنے کا قائل ہی نہیں بلکہ قابل بھی نہیں تھا، اس بندہ نواز شہر میں جمشید نسروانجی کے زمانے سے بھی بہت پہلے گھوڑے، گدھے، اونٹ اور بھیڑ بکریوں کی پیاس بجھانے کے لیے جگہ جگہ پانے کے خوبصورت تالاب بنائے گئے تھے۔ شہر کی سڑکیں روز دھلا کرتی تھیں۔ اسی بندر روڈ پر دو رویہ ٹرامیں چلتی تھیں۔ سائیکل سوار بھی رات کو بغیر لائٹ کے سڑک پر مٹرگشت نہیں کرسکتے تھے، گدھے گاڑی کے نچلے حصے کے ٹول بکس پر بتی کا جلنا لازمی تھا، گھوڑا گاڑی یا بگھی کے دونوں بالائی حصوں پر روشنی کے لیے قندیل نما لالٹین ہوتی تھی۔ بابا امر جلیل ساری کہانیاں لکھ چکے ہیں، آنکھ والوں کے لیے اس میں کافی روشی ہے۔
آخری بات، ہمارے آج کے بیشتر خطرناک دہشت گردوں اور ٹارگٹ کلرز میں ایک یہی بات مشترک نظر آئی کہ وہ قانون کے آہنی شکنجہ سے بالاتر ہیں، ہاتھ نہیں آتے، جن میں قانون کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی طاقت ہوتی ہے وہ ایف آئی اے، اور سرحدی محافظین کو چکمہ دے کر بیرون ملک فرار ہوجاتے ہیں، بندہ پرور معاف فرمائیں، فراری کا مضحکہ خیز الزام صرف بلوچستان کی مزاحمتی جنگ پر صادق نہیں آتا، گینگ وار کے سارے بڑے کردار بیرون ملک ہیں، کراچی کے نامی گرامی ٹارگٹ کلرز سیف ہیونز میں ہیں، دہشت گردی جاری ہے۔
جیل میں بند قیدی اس چاردیواری میں بھی اپنی حکمرانی چلاتے ہیں، کئی کرمنلز ہمارے قیمتی تزویراتی اثاثے ہیں، کوئی ان کا بال بھی بیکا نہیں کرسکتا، آج کل عذیر بلوچ کی دبئی سے واپسی کا شور میڈیا میں برپا ہے مگر کوئی سوال نہیں کرتا کہ باقی سردار عذیروں کا کیا ہوگا؟ کوئی کچھ نہیں کہتا تو نبیل گبول صاحب ہی بتادیں۔ سچ کو آنچ نہیں۔ ایک بزرگ دانشور کا قول ہے کہ ''قوانین فطرت کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم ان کے آپریشنز سے مستثنیٰ ہیں۔'' سو ہوشیار، خبردار!
سال ہا سال سے گھلتا ہے فضا میں زہر آب
دور و نزدیک سے آوازیں چلی آتی ہیں
تلخیٔ زیست کا پٹتا ہے ڈھنڈورا جن میں
راستہ روکے سر شام انوکھے تاجر
کیا کوئی مال نیا کورا دکھاؤں صاحب
مزدِ غیور میں آمیزش دریوزہ گری
ایک اور آنہ دو سرکار گراں ہے گندم
سرِ راہ پھیلے ہوئے دامنِ تذلیل و طلب
بھوکے محتاج کی حالت پہ ترس کھا بابا
دیو افگار غلامانہ تفاخر کی نمود
ڈیوڑھا درجہ ہے کہاں بھاگے چلے آتے ہو
مفلسی فاقہ کشی قابل ِتعدیب و سزا
چور نوکر ہو نکل جاؤ نہ آنا کل سے
یہ تقسیم ہند سے قبل کے مشہور شاعر گور بخش سنگھ المعروف مخمور جالندھری کی ایک نظم ہے جو نظر سے 60 کی پہلی دہائی میں گزری تھی، اسلامیہ کالج میں طالب علمی کا زمانہ تھا۔ لائبریری میں اس وقت کے دو جید نقاد و ادیب ممتاز حسین اور محمد حسن عسکری صاحب تشریف فرما تھے، میں تلاش میں تھا کہ کوئی کتاب ایسی ملے جو میرے علم میں اضافہ کرے، اسی کوشش میں ان دو حضرات کے قریب موجود شیلف تک پہنچا تو ممتاز صاحب کی آواز آئی ''بیٹے کوئی سی ایک کتاب پسند کرلو اور ادھر بیٹھ کر پڑھو۔''
حکم کیا تھا ایک ناصح مشفق کا ایسا زریں قول ثابت ہوا کہ بعد میں ہر طالب علم سے یہی کہتا رہا کہ لائبریری کی کتابوں کے سمندر کی گہرائی میں مت اترو، لائبریری کے ساحل مراد پر بیٹھ کر کوئی سی ایک کتاب اٹھا کر پڑھ لو۔ کتاب جو مجھے ہاتھ لگی وہ ''ہسٹری آف آرٹس'' تھی، جس کے مضامین اور نایاب و نادر پینٹنگز کے ذریعے ایک روزنامہ کے سنڈے میگزین اور فن اور فنکار کے صفحہ کے لیے مضامین نو کے انبار لگا دیے۔ ایک دن دیکھا تو کالج لائبریری کے شیلف میں کتابیں سجی ہوئی ہیں، 1952 سے لے کر 1960 کے بہترین ادب سے مزین سلسلہ ہائے کتب کا ذخیرہ موجود تھا، بس اسی دن ایک کتاب میں مخمور جالندھری کی یہ درد انگیز نظم پڑھی تھی جو آج مجھے یاد آگئی ہے۔ وہ بھی ایسے کہ ایک خبر پڑھ کر مجھے بے اختیار کئی خبریں یاد آگئیں۔
اس میں غم اور خوشی والی خبروں کا کوئی ملاپ نہ تھا بلکہ معروضی حالات کی سفاکی اور معاشرے میں عام آدمی کی موت یا زندگی کے گہرے کرب سے لاتعلقی کا ذلت آمیز رویہ ذہن میں شعلہ کی طرح لپکا، جس نے ضمیر کی خلش دوچند کی۔ خبر کیا تھی بظاہر معین اختر کا شگفتہ بار اور قہقہہ آور مزاحیہ چٹکلہ تھا، خبر یہ تھی ۔ ''چڑیا گھر کا عمر رسیدہ شیر 'راجو' مرگیا، 23 سالہ راجو خوراک کھانے سے قاصر تھا، ڈاکٹر طاقت کی دوائیں فراہم کرتے تھے، ایڈمنسٹریٹر نے چڑیا گھر کی انتظامیہ سے شیر کی پوسٹ مارٹم رپورٹ طلب کرلی۔'' اسی شہر قائد میں کتنی ماؤں کے راجو ٹارگٹ کلنگ میں مرگئے ، کسی حکمراں کے دل میں درد کی کوئی ٹیس نہیں اٹھی۔ بلدیہ گارمنٹس فیکٹری کے 259 محنت کش جلا دیے گئے یا جل گئے۔
سارے زمینی جبرئیلوں کے پر جل رہے ہیں کہ کیا کریں۔ ایسی رپورٹیں ہمارے رپورٹنگ کے زمانہ میں بھی طلب کی جاتی تھیں۔ ایک بار شیر کے کئی بچے غائب ہوئے، بعض پراسرار طریقے سے ہلاک ہوگئے، بھاری بھرکم اژدھا شرارتاً کہیں کھسک گیا تھا۔ ایک مرتبہ کراچی کے چڑیا گھر کے کئی سانپ جو شیشہ گھر کے باکسز میں بند تھے فرار ہوگئے، ایک دن چڑیا گھر کے سروے رپورٹ پر نکلا تو مجاز افسر تک کسی نے اطلاع پہنچائی کہ کوئی اخباری شرلاک ہومز گھس بیٹھئے کے طور پر بغیر ٹکٹ داخل ہوا ہے، نگراں ایک ڈاکٹر صاحب تھے، بڑے تپاک سے ملے۔
کوشش ان کی یہی تھی کہ چڑیا گھر کے سارے انتظامات کو ''سب اچھا ہے'' کی رپورٹ میں سمو دیا جائے۔ بہرحال جب شیر کی حالت زار پر ان سے تبادلہ خیال ہوا تو کہنے لگے طبعی عمر تو بیت چکی ہے اب بونس پر زندہ ہے، جب کہ میرا کہنا یہ تھا کہ شیر بلی بن گیا ہے۔ اس سے زیادہ رش پانی کی بلیوں کے پنجرے بلکہ تالاب میں تھا۔ اس وقت جس جھیل میں کشتی چلتی تھی، لاغر بگلے اور مردار بطخیں تیرتی رہتی تھیں، اس میں موجود تعفن کو 50 سال بعد بھی کوئی میرے نتھنوں سے جدا نہ کرسکا، حتیٰ کہ ایسا تعفن مجھے لیاری میں بھی محسوس نہیں ہوا۔ پانی اتنا گندا کہ مرزا غالب کا شعر یاد آگیا تھا؎
سبزے کو جب کہیں جگہ نہ ملی
بن گیا روئے آب پر کائی
اس وقت سندھ کے وزیراعلیٰ جام صادق علی تھے اور سینئر صحافی اقبال جعفری ان کے بلدیہ میں افسر تعلقات تعینات تھے، رپورٹ چھپی تو جعفری صاحب سخت برہمی کی حالت میں شوکت صدیقی سے شکایت کرنے مساوات کے دفتر آئے، برادر احفاظ الرحمان ان دنوں اسسٹنٹ ایڈیٹر تھے، اس لیے مجھے کوئی خاص سرزنش نہیں کی گئی، چھوٹی سی وضاحت کے بعد معاملہ ٹھنڈا ہوگیا۔ بات جام صادق کی آئی ہے تو عرض کردوں کہ وہ کراچی اور سندھ کی دھرتی کا عجیب سپوت تھا، ان معنوں میں کہ اس کے ''میڈاز ٹچ'' سے بلڈر مافیا نے جنم لیا۔ غالباً مرحوم خود اپنی ذات میں سیاست کی بہت بڑی مافیا تھے، وہ بھٹو کا خوش طبع اور بے تیغ جولیس سیزر تھا۔
اس نے پورا کراچی بلڈروں کے سپرد کردیا، کنگلے بیروزگار سیاسی ورکر، شہر کے کونے کونے سے آنے والی بوڑھی عورتوں کو پلاٹ دینے کی فیاضی جام صادق کی ڈالی ہوئی روایت تھی۔ مگر سچ کہوں، اس شخص نے رنگ ونسل، زبان و مذہب کے امتیاز کے بغیر اپنے سبز پین سے عوامی درخواستوں پر بے تکان دستخط کیے۔ بعد میں سنا ہے بھٹو نے جام صادق سے کہا ''خدا کے لیے مزار قائد کو تو بخش دو۔'' جھوٹ نہیں حقیقت ہے کہ لیاری کے بعض ورکرز راتوں رات رہائشی پلاٹ اور تجارتی سائٹ پلان فروخت کرتے ہوئے لکھ پتی بن گئے۔ ورنہ ان گناہگار آنکھوں نے کولمبس ہوٹل سے آگے پتھریلی، جھاڑیوں بھری دلدلی زمین اور رات کا سناٹا دیکھا ہے، رات دس بجے کے بعد جب بس نہ ملی تو کلفٹن سے پیدل چل کر ہم لوگ ملتان کے چند مہمانوں کے ہمراہ صدر پہنچے تھے۔
یہاں بھی صورت اسی تعفن اور بدبو کی تھی، لسی کی دکان میں ہم یوں داخل ہوئے جیسے کاؤ بوائے ہیرو فرانکو نیرو اپنی آسکر ایوارڈ یافتہ فلم ''DJhango'' کے میخانے میں داخل ہوتا ہے۔ پیاس سے لب خشک، غٹاغٹ لسی پی مگر محسوس ہوا کہ دکان میں رکنا مزید محال ہے۔ باہر نکلے تو مہمان نے مذاقاً یہ دلچسپ بات کہی کہ دکاندار کو چھوٹا سا بورڈ لگانا چاہیے جس پر لکھا ہو ''خواتین و حضرات ازراہ کرم لسی پی کر قے باہر کریں''۔ قصہ برسوں پرانا ہے، مگر اس کراچی کی کہانی ہے جب درندگی کا کلچر عام نہیں ہوا تھا، مروت رواداری گھر گھر تھی، سب ایک تھے۔ یہ بدنصیبی بعد کی سیاسی و لسانی پیداوار ہے جب رفیع کا گانا گونجتا تھا ''سکھ کے سب ساتھی، دکھ میں نہ کوئی''۔ ماضی میں روشنیوں کے اس شہر پر منی پاکستان بننے کی سرمستی چھا رہی تھی۔
کراچی شہر رگوں میں خون بن کر دوڑنے پھرنے کا قائل ہی نہیں بلکہ قابل بھی نہیں تھا، اس بندہ نواز شہر میں جمشید نسروانجی کے زمانے سے بھی بہت پہلے گھوڑے، گدھے، اونٹ اور بھیڑ بکریوں کی پیاس بجھانے کے لیے جگہ جگہ پانے کے خوبصورت تالاب بنائے گئے تھے۔ شہر کی سڑکیں روز دھلا کرتی تھیں۔ اسی بندر روڈ پر دو رویہ ٹرامیں چلتی تھیں۔ سائیکل سوار بھی رات کو بغیر لائٹ کے سڑک پر مٹرگشت نہیں کرسکتے تھے، گدھے گاڑی کے نچلے حصے کے ٹول بکس پر بتی کا جلنا لازمی تھا، گھوڑا گاڑی یا بگھی کے دونوں بالائی حصوں پر روشنی کے لیے قندیل نما لالٹین ہوتی تھی۔ بابا امر جلیل ساری کہانیاں لکھ چکے ہیں، آنکھ والوں کے لیے اس میں کافی روشی ہے۔
آخری بات، ہمارے آج کے بیشتر خطرناک دہشت گردوں اور ٹارگٹ کلرز میں ایک یہی بات مشترک نظر آئی کہ وہ قانون کے آہنی شکنجہ سے بالاتر ہیں، ہاتھ نہیں آتے، جن میں قانون کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی طاقت ہوتی ہے وہ ایف آئی اے، اور سرحدی محافظین کو چکمہ دے کر بیرون ملک فرار ہوجاتے ہیں، بندہ پرور معاف فرمائیں، فراری کا مضحکہ خیز الزام صرف بلوچستان کی مزاحمتی جنگ پر صادق نہیں آتا، گینگ وار کے سارے بڑے کردار بیرون ملک ہیں، کراچی کے نامی گرامی ٹارگٹ کلرز سیف ہیونز میں ہیں، دہشت گردی جاری ہے۔
جیل میں بند قیدی اس چاردیواری میں بھی اپنی حکمرانی چلاتے ہیں، کئی کرمنلز ہمارے قیمتی تزویراتی اثاثے ہیں، کوئی ان کا بال بھی بیکا نہیں کرسکتا، آج کل عذیر بلوچ کی دبئی سے واپسی کا شور میڈیا میں برپا ہے مگر کوئی سوال نہیں کرتا کہ باقی سردار عذیروں کا کیا ہوگا؟ کوئی کچھ نہیں کہتا تو نبیل گبول صاحب ہی بتادیں۔ سچ کو آنچ نہیں۔ ایک بزرگ دانشور کا قول ہے کہ ''قوانین فطرت کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم ان کے آپریشنز سے مستثنیٰ ہیں۔'' سو ہوشیار، خبردار!