اچھی حکمرانی کا تقاضا

یہ ہماری اپنی نا اہلی ہے کہ ہم ان خزانوں سے خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھا سکے۔


Shakeel Farooqi February 17, 2015
[email protected]

2015 کے آغاز کو ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا ہے کہ قوم کو یہ خوش خبری سننے کو ملی کہ پاکستان کے صوبے پنجاب میں چنیوٹ کے قریب لوہے، تانبے، چاندی اور سونے کے بہت بڑے ذخائر دریافت ہوئے ہیں۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے اس مبارک موقع پر پاکستانی قوم کو بجا طور پر دلی مبارک باد پیش کی ہے۔ ابتدائی تخمینے کے مطابق لوہے کے ذخائر کی مقدار 500 ملین ٹن کے لگ بھگ ہے۔

معدنیات کے یہ وافر ذخائر ایک چینی کمپنی کے تعاون و اشتراک سے دریافت کیے گئے ہیں۔ ان ذخائر کی دریافت پر دلی اظہار مسرت کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا ہے کہ اب ہمیں کشکول گدائی توڑنے میں بڑی مدد ملے گی۔ ایک اچھی خبر یہ بھی ہے کہ لوہے کے جو ذخائر دریافت ہوئے ہیں انھیں کینیڈا اور سوئٹزرلینڈ کی بین الاقوامی معیار کی لیبارٹریز میں ٹیسٹ کروانے کے بعد اس بات کی تصدیق ہوگئی ہے کہ کوالٹی کے اعتبار سے ان ذخائر کا لوہا 60 تا 65 فیصد اعلیٰ معیار کا ہے، چاندی، سونے اور تانبے کے ذخائر کو بھی عنقریب جانچ کے لیے بین الاقوامی معیار کی لیبارٹریز کو بھیجا جائے گا۔

ایسے مشکل وقت میں جب کہ ملک مختلف بحرانوں سے دوچار ہے اور وسائل کی کمی ایک سنگین قومی مسئلہ ہے، ان ذخائر کی دریافت ملک و قوم پر اﷲ تعالیٰ کی بہت بڑی عنایت اور مہربانی ہے جس کے لیے ہم خداوند کریم کا جتنا بھی شکریہ ادا کریں وہ بہت کم ہے۔ بلاشبہ اﷲ تعالیٰ نے ہمارے پیارے وطن پاکستان کو اپنی بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے اور ہماری سرزمین کا چپہ چپہ قدرت کے بے پایاں خزانوں سے مالا مال ہے، وطن عزیز کے چاروں صوبوں میں قدرتی دولت کے خزانے دفن ہیں۔

یہ ہماری اپنی نا اہلی ہے کہ ہم ان خزانوں سے خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھا سکے۔ چینی کمپنی ایم سی سی کے صدر نے چنیوٹ کے معدنی خزانوں کے بارے میں انکشاف کیا ہے کہ ان کا شمار دنیا کے عظیم ترین خزانوں میں ہوتا ہے، انھوں نے ان خزانوں سے حاصل ہونے والے خام لوہے کو بروئے کار لا کر تین ملین ٹن کی پیداواری صلاحیت کے ایک اسٹیل مل کے قیام کی پرکشش پیشکش بھی کی ہے۔ بلوچستان میں ریکوڈک اور سندھ میں تھر کے کوئلے کے خزانوں کے بعد اﷲ تعالیٰ نے ہمارے ملک و قوم کو ان نئے بیش بہا خزانوں سے نوازا ہے۔

بے شک وطن عزیز پر اﷲ کریم کی مہربانیوں اور عنایتوں کی کوئی حد اور انتہا نہیں ہے، اس لحاظ سے ہم واقعی دنیا کی بڑی خوش قسمت قوم ہیں لیکن ہماری سب سے بڑی بد نصیبی یہ ہے کہ ہمیں ابھی تک وہ مطلوبہ اہل اور مخلص قیادت میسر نہیں آسکی جو ہماری ڈوبتی ہوئی نیا کو پار لگاسکے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا ملک یکے بعد دیگرے مختلف قسم کے بحرانوں سے گزر رہا ہے، ایک بحران ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا بحران پیدا ہوجاتا ہے اور ہماری مشکلات اور مسلسل کشمکش کا سلسلہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ہمارا بنیادی مسئلہ نااہلی اور بدانتظامی کا ہے جو ہمیں دیمک کی طرح سے مسلسل چاٹ رہا ہے اور جس کے نتیجے میں ہمارا پورا ڈھانچہ اندر سے بالکل کھوکھلا ہوگیا ہے۔

حکومتیں آتی اور جاتی رہتی ہیں لیکن بہتری کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ ہم نے فوجی حکومتوں کو بھی دیکھ لیا اور جمہوری نظام کے مزے بھی خوب چکھ لیے۔ بلکہ بڑے دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ قوم کو سب سے زیادہ مایوسی جمہوری حکمرانوں کے غیر جمہوری رویوں اور طور طریقوں کے باعث ہوئی ہے، جنھوں نے عام انتخابات کے موقع پر عوام سے وعدے تو بہت بڑے بڑے اور پرکشش کیے لیکن مسند اقتدار پر براجمان ہونے کے بعد رات گئی بات گئی کے مصداق سب کچھ فراموش کردیا۔

پیپلزپارٹی کی سابقہ حکومت کے دور حکمرانی کو ہی لے لیجیے، جسے اپنی 5 سالہ مدت پوری کرنے کا سنہری موقع میسر آیا لیکن جس نے عوام کے کسی ایک بھی دکھ کا مداوا کرنے کے بجائے انھیں مزید نئے اور پیچیدہ مسائل سے دوچار کردیا۔ خدا خدا کرکے عوام کو اس دور سے نجات حاصل ہوئی تو انھوں نے مسلم لیگ (ن) کے نئے حکمرانوں سے بہتری اور فلاح کی امیدیں وابستہ کیں مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات کی صورت میں نکلا۔

بجلی کے بحران کے مسئلے کو ہی لے لیجیے جس کے حل کے بارے میں مسلم لیگ ن کی قیادت نے عام انتخابات کے انعقاد کے موقع پر بڑے بلند بانگ دعوے کیے تھے، بعض قائدین نے تو اس مسئلے کو صرف تین ماہ کی مدت میں حل کردینے کا دعویٰ کیا تھا مگر نہایت افسوس کا مقام ہے کہ یہ مسئلہ ابھی تک جوں کا توں قائم ہے اور اب قوم کو یہ کہہ کر بہلایا جارہاہے کہ آیندہ تین سال میں اس مسئلے کو حل کردیا جائے گا۔ عوام کو جھوٹی تسلیاں دینا اور مستقبل کے وعدوں پر ٹرخادینا ہماری ہر سیاسی جماعت کی قیادت کا روایتی اور پسندیدہ حربہ بن چکا ہے، جس کی بنا پر ہمیں ان تمام جماعتوں کے بارے میں مجبور ہوکر یہی کہنا پڑ رہا ہے کہ ''نتھا سنگھ اینڈ پریم سنگھ ون اینڈ دی سیم تھنگ'' یعنی وہ خواہ کسی بھی سیاسی جماعت کے قائدین ہوں، سب کے سب اصل میں ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔

واردات سب کی ایک ہی ہے، فرق صرف طریقہ واردات کا ہے۔عوام کے لیے نئے نئے مسائل پیدا کرنا ہر جمہوری حکومت کا وطیرہ بن گیا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال پٹرول کا حالیہ بحران ہے جس کی وجہ سے پوری قوم کو اچانک خواہ مخواہ کی پریشانی اٹھانا پڑی۔ اول تو محکمے کے وزیر صاحب نے اس بحران کا سنجیدگی سے نوٹس ہی نہیں لیا۔ پھر جب بات حد سے زیادہ بڑھ گئی اور میڈیا نے بخیے ادھیڑنے شروع کردیے اور وزیر موصوف کو کوئی راہ فرار نظر آئی تو انھوں نے سارا ملبہ بیورو کریسی پر ڈال دیا، اس کے بعد Blame Game کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا اور ہر شخص نے اپنی چمڑی بچانے کی کوشش شروع کردی۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وزیر موصوف اپنی ذمے داری قبول کرتے ہوئے رضاکارانہ طور پر مستعفی ہوجاتے تاکہ وطن عزیز میں جمہوریت کے حوالے سے ایک قابل تقلید روشن مثال قائم ہوجاتی اور اس سے مسلم لیگ (ن) کی قیادت کی نیک نامی بھی ہوتی لیکن افسوس کہ ایسا نہ ہوا اور موجودہ حکمران بھی سابقہ حکمرانوں ہی کی روش پر گامزن رہے۔اس کے بعد بجلی کے زبردست بریک ڈائون کا واقعہ پیش آیا جس کے نتیجے میں ملک کا بیشتر حصہ ایک شب یکایک تاریکی میں ڈوب گیا۔ ہر چند کہ میڈیا نے اس واقعے پر حکومت کی خوب گرفت کی اور ذمے داروں کو آڑے ہاتھوں بھی لیا مگر کسی نے بھی کوئی اثر قبول نہیں کیا۔

افسوس کہ ہماری سیاسی قیادت کو بروقت موقع محل پر پہنچنے کی توفیق بھی نصیب نہیں ہوئی۔ موجودہ حکومت کے پاس ابھی تین سال سے زائد کی مہلت باقی ہے، اپنا قبلہ درست کرنے کے لیے یہ مدت کم نہیں ہے۔ صاحبان اقتدار کو چاہیے کہ وہ اپنی روایتی بے اعتنائی کو ترک کرکے عوام کے ساتھ اپنا رابطہ استوار کریں اور ان کے دکھ درد کا احساس کریں۔ ابھی چند روز قبل وزیراعظم نے بذات خود اور براہ راست عوام سے رابطہ کرکے اشیائے خورونوش کی جو قیمتیں معلوم کی تھیں وہ ان کی جانب سے عوام دوستی کا ایک اچھا مظاہرہ تھا جسے آیندہ بھی جاری رہنا چاہیے۔ اچھی حکمرانی کا تقاضا یہی ہے کہ حکمران عوام کے دکھ درد کو اپنا دکھ درد سمجھیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔