منی بجٹ اور ہماری اپوزیشن

یہ ہمارا واحد ملک ہی ہے جہاں یہ ظلم وستم روا رکھا جا رہا ہے


Dr Mansoor Norani February 17, 2015
[email protected]

KARACHI: ابھی جون 2014ء کے پیش کیے گئے بجٹ کے مضر اثرات زائل ہونا شروع ہی ہوئے تھے کہ موجودہ حکومت نے ایک نیا بجٹ فروری 2015ء میں پیش کردیا۔314 اشیاء پر اچانک 5فیصد ریگولیٹری ٹیکس لگا دیا گیا۔اِن اشیاء میں سامانِ تعیش کے علاوہ عام استعمال کی کئی اشیاء بھی شامل ہیں۔کہنے کو حکومت نے لگژری چیزوں پر یہ غیرمناسب اضافی ٹیکس عائد کیا ہے لیکن اِن میں ڈیری مصنوعات دہی، پنیر،مکھن،شہد سمیت سبزیوں اورپھلوں کو ہم کس طرح پُر آسائش چیزوں میں شمارکر سکتے ہیں۔

یہ تو عام آدمی کے استعمال کی چیزیں ہیں۔لگتا ہے عمران خان کے دھرنے کا خوف ہمارے حکمرانوں کے سر سے اب اُتر چکا ہے۔اِسی لیے وہ نت نئے طریقوں سے قوم پر ٹیکسوں کی بھر مارکیے جا رہے ہیں۔ پہلے اُنہوں نے پیٹرول کی مصنوعات پر سیل ٹیکس میں زبردست اضافہ کر کے انٹرنیشنل مارکیٹ میں تیل کی قیمت کم ہونے کے فائدے کو پوری طرح عوام کومنتقل کرنے میں رکاوٹ پید ا کی اور اب یہ نیا ریگولیٹری ٹیکس لگا کر عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ابھی تیل کی قیمت کم ہونے سے دیگر اشیا کی قیمتیں اُسی تناسب سے کم ہونے بھی نہیں پائی تھیں کہ یہ نامناسب ٹیکس لگا کر عوام پر ایک اضافی بوجھ لاد دیا گیا ہے۔

اِسی لیے اگر عمران خان یہ کہتا ہے کہ حکومت اُن کے دھرنے کے خوف سے پیٹرول کی قیمت کم کرنے پر مجبور ہوئی تو یہ کوئی اتنا غلط بھی نہیں ہے۔حکومتی اقدامات سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ جب تک اسلام آباد میں دھرنا جاری تھا حکومت عوام دشمن اقدامات کرنے سے مجبوراً گریزاں تھی مگر اب جیسے ہی دھرنے کے خاتمے کا اعلان ہوا حکمرانوں کے ہاتھ پاؤں کُھل چکے ہیں اور وہ اُس بچی کچی کسر کو پورا کرنے لگے ہیں جو گزشتہ برس دھرنے کی وجہ سے سالانہ قومی بجٹ میں پوری نہ کرپائے تھے۔

فروری کے مہینے میں 314اشیا پر ریگولیٹری ٹیکس لگانے کی جسارت کو ہم کس طرح عوامی بھلائی کے زمرے میں گردان سکتے ہیں۔جو حکومت روزانہ عوامی دکھ درد کا رونا روتی رہتی ہے اور آئے دن عوامی بھلائی کے منصوبے شروع کرنے کا دعویٰ بھی کرتی رہتی ہے اُس سے ایسی توقع ہرگز نہ تھی کہ جب اُسے اپوزیشن کی جانب سے کسی مزاحمت کا خوف اور ڈر باقی نہ رہے گا وہ جھٹ پٹ اپنے تمام خسارے قوم کی جیبوں سے پورے کرنے لگے گی۔ پیٹرول کی مصنوعات پر سیلز ٹیکس کی شرح پہلے 17سے 22کی گئی اور پھر اُس میں مزید اضافہ کرکے 27 فیصد کردیا گیا۔دنیا میں کسی ملک میں سیلز ٹیکس کی یہ شرح نافذ نہیں ہے۔

یہ ہمارا واحد ملک ہی ہے جہاں یہ ظلم وستم روا رکھا جا رہا ہے۔ قومی اسمبلی میں گرچہ اپوزیشن نے اِس کی مخالفت میں کچھ آواز بلند تو کی ہے لیکن چونکہ تحریکِ انصاف اِس عمل کا حصہ نہیں ہے تو اِس لیے اُس کی آواز میں وہ شدت اور سختی نہ تھی کہ حکومت یہ ٹیکس واپس لینے پر مجبور ہوجائے۔مفاہمت اور مصلحت کوشی کی سیاست عوام کے حقوق کا تحفظ یقینا پوری ایمانداری سے نہیں کر سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت نے اُس پرکان دھرنے اور اُسے واپس لینے کی بجائے ایک نیا ریگولیٹری ٹیکس لگا کر عوام سے اپنی والہانہ محبت کا ایک زبردست ثبوت دے دیا ہے ۔اِس لیے کہا جاتا ہے کہ پارلیمانی طرز حکومت میں ایک مضبوط اور طاقتور اپوزیشن کا کردار بہت اہم ہوا کرتا ہے۔

جب تک ایک اسٹرونگ اپوزیشن موجود نہ ہوگی ایسے عوام دشمن فیصلے ہوتے رہیں گے۔فرینڈلی اپوزیشن کوئی اپوزیشن نہیں ہوا کرتی ۔ یہ سب اپنے اپنے مفادات کا گورکھ دھندا ہے۔پاکستان پیپلزپارٹی کو اپنے دور میں بھی مسلم لیگ (ن) کی جانب سے ایک فرینڈلی اپوزیشن کی سپورٹ حاصل تھی لہذا وہ بلا خوف وخطر پورے پانچ سال کرپشن اور مالی بدعنوانیوں سمیت عوام دشمنی کے سارے کام کرتی رہی۔مسلم لیگ ن کے رہنما اُن کے خلاف تقریریں تو بہت کرتے رہے لیکن عملاً کوئی اقدام اُن کے خلاف نہیں اُٹھایا۔ اِسی طرح اب موجودہ حکومت کو بھی پیپلز پارٹی کی جانب سے ایک مفاہمتی اپوزیشن کا سامنا ہے جو عوام کو دِکھانے کے لیے قومی اسمبلی اور اپنے اخباری بیانات میں ہلکی پھلکی مخالفت کاکردار تو ادا کرتی ہے لیکن درحقیقت ایسا کوئی قدم نہیں اُٹھاتی جس کے خوف سے حکمراں اپنے آپ کو کسی سخت احتساب اورگرفت میں پھنسا ہوا پائیں۔

یہ کام گرچہ تحریک ِانصاف گزشتہ سال بڑے انہماک سے کر رہی تھی مگر افسوس کہ وہ بھی اپنے پارلیمانی کردار سے تجاوزکر کے اشتعال انگیزاورجارحانہ طرز عمل اپنانے پر مصر اور بضد ہوگئی تھی۔ جس کا نتیجہ سوائے تباہی کے کچھ حاصل نہ ہوا۔حکومت کو عوامی مفاد اور ترقی وخوشحالی کے کاموں سے روکنا بھی کوئی دانشمندانہ اور مدبرانہ فعل نہیں ہے۔ بدقسمتی سے تحریک ِ انصاف اُس راستے پر چل پڑی تھی جہاں ملک وقوم کو انارکی اور تباہی کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہو سکتا تھا۔یہ سول نافرمانی کا اعلان، ٹیکس ادا نہ کرنے کی ترغیبیں اور ہنڈی کے ذریعے زرِ مبادلے کی ترسیل کا حکم دینا کسی بھی قومی لیڈرکے شایانِ شان نہیں تھا۔مگر عمران خان نے نجانے کس طاقت و زعم میں یہ کرکے بھی دیکھ لیا ۔ لیکن نتیجہ وہی ہوا جو ایسی ہرتحریک کا ہوا کرتا ہے۔

جس امپائرکے اشاروں پر یہ سب کچھ کیا گیا جب وہی آنکھیں پھیر لے تو انجام اِسی طرح کا ہوا کرتا ہے۔ وہ ہیجان اور تلاطم جس کے خاتمے کے آثار بھی نہ تھے کس طرح اچانک تھم سا گیا۔ بہتر ہوتا عمران خان پارلیمنٹ میں اپنا فعال اوربااثر کردار نبھاتے رہتے اور حکمرانوں کے ہر ایکشن اور ہرعمل پرگہری نگاہ رکھتے ہوئے اُنہیں عوام دشمن فیصلوں سے روکے رکھتے ۔مگر اُنہوں نے ایسا نہیں کیا اور ایک جارحانہ انداز اپنا کر پارلیمنٹ میں جانے سے انکارکردیا ۔بلکہ استعفیٰ دیکر اپنے لیے ایک جمہوری پارلیمانی اپوزیشن کا کردار اداکرنے کے تمام راستے بھی مسدود کر دیے۔

اُنہیں چاہیے کہ اپنے استعفیٰ واپس لے کر ایک بار پھر پارلیمنٹ کا فعال حصہ بن جائیں اور ایک حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کرتے ہوئے حکومت کو اُس کے آئینی دائرہ اختیار تک محدود رکھیں۔ آئین سے متجاوز اُس کے ہر فیصلے کی سخت مخالفت کریں اور بلا ضروری اضافی ٹیکس لگانے سے اُسے باز رکھیں۔عوامی مفاد کے ہر منصوبے کی بلاوجہ مخالفت نہ کریں اور اپنی تمام تر توجہ صوبہ پختون خواہ میں ترقی و خوشحالی پر مرکوز کر رکھیں تاکہ اگلے الیکشن میں لوگ اُن کی اعلیٰ کارکردگی پر اُنہیں وفاق میں بھی ایک بھر پور مینڈیٹ کے ذریعے حق ِ حکمرانی عطاکریں۔ یہ طویل ترین دھرنوں اورجلاؤگھیراؤ سے کچھ حاصل نہیں ہوگا ۔

بلکہ ہو سکتا ہے اِس طرز عمل سے خود اُن کا امیج بھی خراب ہوجائے اور عوام اُن سے بہتر کسی اورشخص کو اقتدارواختیار کا مالک بنالیں۔اُن کی 20سالہ سیاسی جدوجہد اپنے منطقی ثمرات سے محروم ہوکر تاریخ کی بھولی ہوئی داستانوں میں کھوجائے۔ حالات و واقعات کی بے رحمی اور سنگینیاں انسان کو بہت کچھ سکھا دیتی ہیں۔سیاست انتھک محنت ،جہد مسلسل اور سخت تجربوں کا نام ہے۔اِنہی سے گزرکر ایک انسان کندن بن کر نکلتا ہے۔

بہت کم لوگ ایسے خوش قسمت ہوتے ہیں جنھیں بیٹھے بٹھائے باآسانی سب کچھ نصیب ہو جاتا ہے۔ ہوسکتا ہے عمران خان اُن خوش نصیبوں میں شامل نہ ہوں لیکن اگر نیتیں صاف ہوں، ارادے مضبوط ہوں، عزائم فولادی اورغیرمتزلزل ہوںتوکامیابی وکامرانی ضرورقدم چومتی ہے۔ بس ذرا صبر،خلوص،بالغ نظری،سنجیدگی اور تدبرکی ضرورت ہوتی ہے، جس دن عمران خان نے یہ جوہر پا لیا اقتدارکا ہما خود اُس کے سر پر آ بیٹھے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں