دہشت گردی اور قیمتی ذخائر
ملک کے دیگر صوبوں کی طرح بلوچستان کے لوگوں کو بھی ان کے حقوق ملنے چاہئیں۔
SARGODHA:
پشاور ایک بار پھر لہو لہان ہوگیا۔ آرمی پبلک اسکول پر حملے کے زخم ابھی مندمل نہ ہوئے تھے کہ حیات آباد پشاور کی امامیہ مسجد میں جمعے کی نماز کی ادائیگی کے دوران ایف سی اہلکاروں کی وردیوں میں ملبوس دہشت گردوں نے مسجد کے اندر داخل ہوکر کلاشنکوف سے نمازیوں پر اندھا دھند فائرنگ کردی۔ بعد ازاں تین دہشت گردوں نے جو خودکش جیکٹ پہنے ہوئے تھے خود کو دھماکے سے اڑا دیا جس کے نتیجے میں 20 نمازی شہید اور 50 سے زائد زخمی ہوگئے۔
دو ہفتے قبل شکارپور سندھ کی امام بارگاہ کربلا معلی میں عین خطبے کے اختتام پر دہشت گردوں نے خودکش حملے کرکے نمازیوں کو شہید کردیا تھا۔ امام بارگاہوں پر دہشت گردوں کے مسلسل حملے میں درحقیقت ملک میں فرقہ وارانہ تصادم کرانے کی سازش ہے،آپریشن ضرب عضب میں دہشت گردوں کے خلاف پاک فوج کی برق رفتار کامیابیاں اور آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد قومی سطح پر تبدیلی و یکجہتی کے نتیجے میں تیار کیے گئے ایکشن پلان پر عمل در آمد اور دہشت گردوں کو دی جانے والی پھانسیوں کے بعد ملک کے طول و ارض میں دہشت گردوں نے بھی اپنی کارروائیاں تیز کردی ہیں۔ شکارپور اور حیات آباد حملے جیسے بڑے سانحات اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں ایسے اندوہناک واقعات میں اضافے کے امکانات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، ملک کی خفیہ ایجنسیوں اورسیکیورٹی اداروں کے لیے یہ لمحات بڑی آزمائش کے ہیں ۔
پولیس،رینجرز، ایف سی اور دیگر سیکیورٹی ادارے اور ایجنسیوں کے درمیان باہمی روابط کوموثر بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ بعینہ صوبائی ووفاقی حکومت کو بھی باہم رابطے کرنے اورسیکیورٹی پلان کو فول پروف بنیادوں پر بنانے کی کوشش کرنا ہوگی۔ ضرب عضب کے نتیجے میں دہشت گرد عناصر اپنے مخصوص ٹھکانوں سے نکل کر ملک کے بڑے شہروں کراچی، پشاور، لاہور اورکوئٹہ سمیت دیگر محفوظ مقامات کی طرف منتقل ہو رہے ہیں اور حیرت انگیز طور پر ایک دوسرے کے ساتھ مکمل رابطے بھی رکھتے ہیں ان کے نیٹ ورک کو توڑے بغیر خونی واقعات کا رکنا ممکن نہیں، صوبائی و وفاقی حکومت، رینجرز، پولیس، ایف سی اورخفیہ ایجنسیوں کے اکابرین کو سرجوڑکر بیٹھنا ہوگا، ایکشن پلان پر پوری سنجیدگی،ذمے داری اور تیزرفتاری کے ساتھ عمل در آمد کرنا ازحد ضروری ہے۔
ایک طرف ملک کو دہشت گردی وفرقہ واریت کے عفریت نے اپنی گرفت میں لے رکھا ہے ملک کے چاروں صوبوں میں امن وامان تہہ و بالا ہوکر رہ گیا ہے، خودکش حملے، بم دھماکے، ٹارگٹڈ کلنگ کے واقعات اوردیگر جرائم کے باعث لوگوں کی جان ومال غیرمحفوظ ہوکر رہ گئی ہے، گھر، بازار، اسکول، عبادت گاہوں غرض کسی جگہ بھی تحفظ میسر نہیں خوف وہراس اور موت کا فرشتہ بروقت تعاقب میں نظر آتا ہے۔
لگتا ہے اس ملک پر کسی آسیب کا سایہ ہے لیکن دوسری جانب اسی ملک میں لہو رنگ زمین کے اندر ایسے ایسے قیمتی خزانے بھی دفن ہیں جن کو اگر دریافت کرلیا جائے تو اس ملک کی تقدیر بھی بدل سکتی ہے، ترقی پذیر ممالک کی جماعت سے نکل کر ہمارا پیارا وطن بھی ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہوسکتا ہے۔
بری خبروں سے بھرے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا نے قوم کو یہ خوش خبری دی ہے کہ چنیوٹ میں سونے، چاندی، لوہے اور تانبے کے قیمتی معدنی ذخائر دریافت ہوئے ہیں اور وزیراعظم میاں نواز شریف نے قوم کو یہ مژدہ جاں فزا سنایا ہے کہ وہ نہ صرف کشکول توڑ دیں گے بلکہ اس سے مکمل نجات قوم کو دلائیں گے۔ بلا شبہ پاکستان قدرت کا ایسا انمول عطیہ ہے جس کی زمین کے اندر قیمتی معدنی ذخائرکا ایک طویل سلسلہ ہے، سندھ میں تھر کے مقام پر کوئلے کے وسیع ذخائر دریافت ہوئے جن سے کئی سو سال تک بجلی حاصل کی جاسکتی ہے۔
بلوچستان میں سوئی کے مقام پر دریافت ہونے والی گیس سے قوم آج تک استفادہ کررہی ہے یہ ملک کا وہ واحد صوبہ ہے جہاں سب سے زیادہ معنی ذخائر کی موجودگی کی نشاندہی کی جاچکی ہے لیکن بد قسمتی یہ کہ صوبہ بلوچستان ہی ملک کا سب سے زیادہ پسماندہ صوبہ ہے اور بد امنی کے حوالے سے بھی یہ صوبہ اپنی علیحدہ شناخت رکھتا ہے۔ یہاں کے لوگوں کو وفاقی حکومتوں سے ہمیشہ یہ گلہ رہا ہے کہ ان کے حقوق و مفادات کا خیال نہیں رکھا جاتا اور مسلسل نظر انداز کرنے کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔ نتیجتاً یہاں علیحدگی کی ہوائیں بھی چلتی رہتی ہیں اور ہمارا پڑوسی ملک بلوچستان کی اس کمزوری سے پورا پورا فائدہ اٹھانا چاہتا ہے یہاں بھارتی مداخلت کاری کے باعث صورت حال ہمیشہ مخدوش رہی ہے۔
ملک کے دیگر صوبوں کی طرح بلوچستان کے لوگوں کو بھی ان کے حقوق ملنے چاہئیں۔ احساس محرومی وپسماندگی ختم کرنے اور ترقی کے لیے پالیسی وضع کی جانی چاہیے۔ اس حوالے سے حکومت بلوچستان کے چیف منسٹر پالیسی ریفارم یونٹ کے تحت UNDP کے تکنیکی اشتراک سے دو روزہ بلوچستان ڈویلپمنٹ فورم کا گزشتہ دنوں اسلام آباد میں انعقاد کیا گیا۔
جس کا وزیراعظم نواز شریف نے افتتاح کیا فورم کے دوران مختلف موضوعات پر ورکنگ سیشنز منعقد کیے گئے جس میں اٹھارویں ترمیم، قدرتی وسائل، انفرا اسٹرکچر اور سوشل ڈویلپمنٹ کے معاملات اور ان کے حل کے حوالے سے تجاویز پر مبنی جائزاتی رپورٹس پیش کی گئی جس کے مطابق بلوچستان میں وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک کی نگرانی میں صحت، تعلیم، فشریز،لائیو اسٹاک، معدنیات کی تلاش، کان کنی اور ایگریکلچر کے شعبوں پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے، سڑکوں کے انفرا اسٹرکچر کو یقینی بنایا جارہاہے تاکہ اقتصادی سرگرمیوں کو فروغ ملے، پالیسی ریفارمز یونٹ کی معاونت سے متبادل توانائی کی ترقی اور تجارتی شاہراہوں، گوادر،چمن اور تفتان اور ان کے اطراف موجود دیہی بستیوں کی نقشہ سازی اور ان کے ترقی کے لیے کام تیزی سے مکمل کیا جا رہا ہے۔
بلوچستان کی صوبائی اسمبلی 19 نئے قوانین پر مشتمل بل پاس کرچکی ہے جن میں سے 11 نئے بلوں پر اقدامات کیے جاچکے ہیں۔ ایک متحرک اور فعال ہیلتھ پالیسی کے لیے نجی شعبے کے تعاون سے اقدامات اٹھائے جانے چاہئیں تاکہ بیماریوں کو کنٹرول اور مالی انتظام کو بہتر بنایا جاسکے صوبے میں جامع تعلیمی پالیسی کے نفاذ اور غربت و عدم مساوات کے خاتمے، معیشت کے فروغ، گوادر میں فری زون ایکسپورٹ پروسیسنگ زون اور آئل سٹی کے قیام، قدرتی وسائل میں بین الاقوامی سرمایہ کاری کے تعاون، ریونیو اتھارٹی، صوبائی ہائر ایجوکیشن اور قانون ساز سیکٹورل پالیسی کے قیام اور اٹھارویں ترمیم کے پس منظر میں صوبے کے حقوق کا دفاع کرنے کے لیے جامع اقدامات کیے جانے چاہئیں تب ہی بلوچستان کی پسماندگی کا خاتمہ اور وہاں کے لوگوں کے حقوق کا تحفظ ممکن ہوسکتا ہے، توقع کی جانی چاہیے کہ بلوچستان کی ترقی کے لیے بھی ایک ایکشن پلان تیار کرے گی جس طرح ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں وہیں چاروں صوبوں میں موجود قیمتی معدنی ذخائر سے استفادے کے لیے بھی سنجیدگی کے ساتھ اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔
پشاور ایک بار پھر لہو لہان ہوگیا۔ آرمی پبلک اسکول پر حملے کے زخم ابھی مندمل نہ ہوئے تھے کہ حیات آباد پشاور کی امامیہ مسجد میں جمعے کی نماز کی ادائیگی کے دوران ایف سی اہلکاروں کی وردیوں میں ملبوس دہشت گردوں نے مسجد کے اندر داخل ہوکر کلاشنکوف سے نمازیوں پر اندھا دھند فائرنگ کردی۔ بعد ازاں تین دہشت گردوں نے جو خودکش جیکٹ پہنے ہوئے تھے خود کو دھماکے سے اڑا دیا جس کے نتیجے میں 20 نمازی شہید اور 50 سے زائد زخمی ہوگئے۔
دو ہفتے قبل شکارپور سندھ کی امام بارگاہ کربلا معلی میں عین خطبے کے اختتام پر دہشت گردوں نے خودکش حملے کرکے نمازیوں کو شہید کردیا تھا۔ امام بارگاہوں پر دہشت گردوں کے مسلسل حملے میں درحقیقت ملک میں فرقہ وارانہ تصادم کرانے کی سازش ہے،آپریشن ضرب عضب میں دہشت گردوں کے خلاف پاک فوج کی برق رفتار کامیابیاں اور آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد قومی سطح پر تبدیلی و یکجہتی کے نتیجے میں تیار کیے گئے ایکشن پلان پر عمل در آمد اور دہشت گردوں کو دی جانے والی پھانسیوں کے بعد ملک کے طول و ارض میں دہشت گردوں نے بھی اپنی کارروائیاں تیز کردی ہیں۔ شکارپور اور حیات آباد حملے جیسے بڑے سانحات اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں ایسے اندوہناک واقعات میں اضافے کے امکانات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، ملک کی خفیہ ایجنسیوں اورسیکیورٹی اداروں کے لیے یہ لمحات بڑی آزمائش کے ہیں ۔
پولیس،رینجرز، ایف سی اور دیگر سیکیورٹی ادارے اور ایجنسیوں کے درمیان باہمی روابط کوموثر بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ بعینہ صوبائی ووفاقی حکومت کو بھی باہم رابطے کرنے اورسیکیورٹی پلان کو فول پروف بنیادوں پر بنانے کی کوشش کرنا ہوگی۔ ضرب عضب کے نتیجے میں دہشت گرد عناصر اپنے مخصوص ٹھکانوں سے نکل کر ملک کے بڑے شہروں کراچی، پشاور، لاہور اورکوئٹہ سمیت دیگر محفوظ مقامات کی طرف منتقل ہو رہے ہیں اور حیرت انگیز طور پر ایک دوسرے کے ساتھ مکمل رابطے بھی رکھتے ہیں ان کے نیٹ ورک کو توڑے بغیر خونی واقعات کا رکنا ممکن نہیں، صوبائی و وفاقی حکومت، رینجرز، پولیس، ایف سی اورخفیہ ایجنسیوں کے اکابرین کو سرجوڑکر بیٹھنا ہوگا، ایکشن پلان پر پوری سنجیدگی،ذمے داری اور تیزرفتاری کے ساتھ عمل در آمد کرنا ازحد ضروری ہے۔
ایک طرف ملک کو دہشت گردی وفرقہ واریت کے عفریت نے اپنی گرفت میں لے رکھا ہے ملک کے چاروں صوبوں میں امن وامان تہہ و بالا ہوکر رہ گیا ہے، خودکش حملے، بم دھماکے، ٹارگٹڈ کلنگ کے واقعات اوردیگر جرائم کے باعث لوگوں کی جان ومال غیرمحفوظ ہوکر رہ گئی ہے، گھر، بازار، اسکول، عبادت گاہوں غرض کسی جگہ بھی تحفظ میسر نہیں خوف وہراس اور موت کا فرشتہ بروقت تعاقب میں نظر آتا ہے۔
لگتا ہے اس ملک پر کسی آسیب کا سایہ ہے لیکن دوسری جانب اسی ملک میں لہو رنگ زمین کے اندر ایسے ایسے قیمتی خزانے بھی دفن ہیں جن کو اگر دریافت کرلیا جائے تو اس ملک کی تقدیر بھی بدل سکتی ہے، ترقی پذیر ممالک کی جماعت سے نکل کر ہمارا پیارا وطن بھی ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہوسکتا ہے۔
بری خبروں سے بھرے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا نے قوم کو یہ خوش خبری دی ہے کہ چنیوٹ میں سونے، چاندی، لوہے اور تانبے کے قیمتی معدنی ذخائر دریافت ہوئے ہیں اور وزیراعظم میاں نواز شریف نے قوم کو یہ مژدہ جاں فزا سنایا ہے کہ وہ نہ صرف کشکول توڑ دیں گے بلکہ اس سے مکمل نجات قوم کو دلائیں گے۔ بلا شبہ پاکستان قدرت کا ایسا انمول عطیہ ہے جس کی زمین کے اندر قیمتی معدنی ذخائرکا ایک طویل سلسلہ ہے، سندھ میں تھر کے مقام پر کوئلے کے وسیع ذخائر دریافت ہوئے جن سے کئی سو سال تک بجلی حاصل کی جاسکتی ہے۔
بلوچستان میں سوئی کے مقام پر دریافت ہونے والی گیس سے قوم آج تک استفادہ کررہی ہے یہ ملک کا وہ واحد صوبہ ہے جہاں سب سے زیادہ معنی ذخائر کی موجودگی کی نشاندہی کی جاچکی ہے لیکن بد قسمتی یہ کہ صوبہ بلوچستان ہی ملک کا سب سے زیادہ پسماندہ صوبہ ہے اور بد امنی کے حوالے سے بھی یہ صوبہ اپنی علیحدہ شناخت رکھتا ہے۔ یہاں کے لوگوں کو وفاقی حکومتوں سے ہمیشہ یہ گلہ رہا ہے کہ ان کے حقوق و مفادات کا خیال نہیں رکھا جاتا اور مسلسل نظر انداز کرنے کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔ نتیجتاً یہاں علیحدگی کی ہوائیں بھی چلتی رہتی ہیں اور ہمارا پڑوسی ملک بلوچستان کی اس کمزوری سے پورا پورا فائدہ اٹھانا چاہتا ہے یہاں بھارتی مداخلت کاری کے باعث صورت حال ہمیشہ مخدوش رہی ہے۔
ملک کے دیگر صوبوں کی طرح بلوچستان کے لوگوں کو بھی ان کے حقوق ملنے چاہئیں۔ احساس محرومی وپسماندگی ختم کرنے اور ترقی کے لیے پالیسی وضع کی جانی چاہیے۔ اس حوالے سے حکومت بلوچستان کے چیف منسٹر پالیسی ریفارم یونٹ کے تحت UNDP کے تکنیکی اشتراک سے دو روزہ بلوچستان ڈویلپمنٹ فورم کا گزشتہ دنوں اسلام آباد میں انعقاد کیا گیا۔
جس کا وزیراعظم نواز شریف نے افتتاح کیا فورم کے دوران مختلف موضوعات پر ورکنگ سیشنز منعقد کیے گئے جس میں اٹھارویں ترمیم، قدرتی وسائل، انفرا اسٹرکچر اور سوشل ڈویلپمنٹ کے معاملات اور ان کے حل کے حوالے سے تجاویز پر مبنی جائزاتی رپورٹس پیش کی گئی جس کے مطابق بلوچستان میں وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک کی نگرانی میں صحت، تعلیم، فشریز،لائیو اسٹاک، معدنیات کی تلاش، کان کنی اور ایگریکلچر کے شعبوں پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے، سڑکوں کے انفرا اسٹرکچر کو یقینی بنایا جارہاہے تاکہ اقتصادی سرگرمیوں کو فروغ ملے، پالیسی ریفارمز یونٹ کی معاونت سے متبادل توانائی کی ترقی اور تجارتی شاہراہوں، گوادر،چمن اور تفتان اور ان کے اطراف موجود دیہی بستیوں کی نقشہ سازی اور ان کے ترقی کے لیے کام تیزی سے مکمل کیا جا رہا ہے۔
بلوچستان کی صوبائی اسمبلی 19 نئے قوانین پر مشتمل بل پاس کرچکی ہے جن میں سے 11 نئے بلوں پر اقدامات کیے جاچکے ہیں۔ ایک متحرک اور فعال ہیلتھ پالیسی کے لیے نجی شعبے کے تعاون سے اقدامات اٹھائے جانے چاہئیں تاکہ بیماریوں کو کنٹرول اور مالی انتظام کو بہتر بنایا جاسکے صوبے میں جامع تعلیمی پالیسی کے نفاذ اور غربت و عدم مساوات کے خاتمے، معیشت کے فروغ، گوادر میں فری زون ایکسپورٹ پروسیسنگ زون اور آئل سٹی کے قیام، قدرتی وسائل میں بین الاقوامی سرمایہ کاری کے تعاون، ریونیو اتھارٹی، صوبائی ہائر ایجوکیشن اور قانون ساز سیکٹورل پالیسی کے قیام اور اٹھارویں ترمیم کے پس منظر میں صوبے کے حقوق کا دفاع کرنے کے لیے جامع اقدامات کیے جانے چاہئیں تب ہی بلوچستان کی پسماندگی کا خاتمہ اور وہاں کے لوگوں کے حقوق کا تحفظ ممکن ہوسکتا ہے، توقع کی جانی چاہیے کہ بلوچستان کی ترقی کے لیے بھی ایک ایکشن پلان تیار کرے گی جس طرح ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں وہیں چاروں صوبوں میں موجود قیمتی معدنی ذخائر سے استفادے کے لیے بھی سنجیدگی کے ساتھ اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔