آسٹریلیا میں’’ بلے بازوں کی جنت ‘‘

’’بگ تھری کے مابین کھیلی گئی حالیہ سہ فریقی سیریز میں بھی صرف ایک ہی مقابلےمیں ایسا ہوا کہ300 رنز کا سنگ میل عبور کیا۔


فہد کیہر February 17, 2015

KARACHI: آسٹریلیا کے کرکٹ میدانوں کا خیال آتے ہی شائقین کے ذہن میں ایک ہی چیز ابھرتی ہے، تیز باؤلرز کے لیے مددگار وکٹیں، کہ جہاں گیند وکٹ کیپر کو اپنے سینے کے قریب یا ہاتھ اوپر کرکے چہرے کے سامنے پکڑنی پڑے اور ذرا سی چوک بیٹسمینوں کو اپنی وکٹ سے محروم کردے۔ لیکن اب تک ایسا کچھ دیکھنے کو نہیں مل رہا۔ عالمی کپ کے ابتدائی تین دن مکمل ہو چکے ہیں کہ جس میں پانچ اہم مقابلے اختتام کو پہنچے ہیں۔

نیوزی لینڈ اور سری لنکا کا 7 ون ڈے میچز کی سیریز کھیل کر'' پیٹ'' نہیں بھرا تھا کہ عالمی کپ کے افتتاحی مقابلے میں ان کا ایک مرتبہ پھر آمنا سامنا ہوا اور گزشتہ سیریز کے بیشتر مقابلوں کی طرح نتیجہ نیوزی لینڈ کے حق میں ہی رہا۔ پھر ملبورن میں 84 ہزار سے زیادہ تماشائیوں نے روایتی حریف آسٹریلیا اور انگلستان کو مقابل دیکھا اور ایک مرتبہ پھر آسٹریلیا نے کامیابی حاصل کی۔ دوسرے دن افریقہ اور ایشیا کے دو پڑوسی مدمقابل آئے۔ پہلے جنوبی افریقہ زمبابوے کے خلاف ابتدائی دھچکے سے سنبھلا اور پھر بآسانی کامیابی حاصل کی اور پھر ایشیائی ہمسایوں پاکستان اور بھارت کا مقابلہ ایڈیلیڈ میں ہوا کہ جہاں پاکستان '' قدیم'' روایات پر عمل پیرا ہوتے ہوئے شکست کھا گیا۔ عالمی کپ کے تیسرے دن کے واحد مقابلے میں پہلا اپ سیٹ ہوا، جب آئرلینڈ نے ویسٹ انڈیز کو شکست دی۔

ان پانچوں مقابلوں میں ایک بات مشترک تھی۔ پہلے بیٹنگ کرنے والی تمام ہی ٹیموں نے 300 سے زیادہ رنز بنائے اور سب ہی کو فتوحات بھی حاصل ہوئیں۔ نیوزی لینڈ نے سری لنکا کے باؤلرز کو آڑے ہاتھوں لیا اور 331 رنز کا مجموعہ اکٹھا کیا، جس کے جواب میں سری لنکا کی کہانی 233 رنز پر تمام ہوئی۔ کچھ اسی طرح آسٹریلیا نے 342 رنز بنائے اور انگلستان کو 231 رنز تک محدود کیا۔ جنوبی افریقہ 83 رنز پر 4 وکٹوں سے محروم ہوجانے کے بعد ڈیوڈ ملر اور جے پی دومنی کے درمیان ریکارڈ شراکت داری کی بدولت 339 رنز تک پہنچا اور زمبابوے کی دلیرانہ اننگز 277 رنز تک پہنچ کر تمام ہوگئی۔

بھارت پاکستان کے خلاف ایک بہت بڑا مجموعہ حاصل کرنے کو تیار تھا کہ پاکستان کے باؤلرز نے مقابلے میں واپسی کی لیکن وہ انھیں 300 رنز تک پہنچنے سے نہ روک سکے۔ جواب میں مصباح الحق کی 76 رنز کی باری بھی پاکستان کو 224 رنز سے آگے نہ لے جا سکی۔ نیلسن میں آئرلینڈ اور ویسٹ انڈیز کا مقابلہ بھی کچھ ایسا ہی تھا کہ جہاں ویسٹ انڈیز کو 304 رنز بھی نہ بچا سکے اور آئرلینڈ نے 6 وکٹوں کے نقصان پر بڑا ہدف حاصل کرلیا۔ یوں اب تک کا بہترین نسخہ یہی ہے کہ پہلے بیٹنگ کی جائے اور 300 رنز بنائے جائیں، جو سوائے آئرلینڈ کے مقابلے کے ہر جگہ جیت کا نسخہ دکھائی دیتا ہے۔

اگر ماضی میں جھانکیں تو آخری بار آسٹریلیا میں عالمی کپ 1992ء میں کھیلا گیا تھا۔ تب پورے ٹورنامنٹ میں صرف دو بار ایسا ہوا تھا کہ کسی ٹیم نے 300 کا ہندسہ عبور کیا ہو۔ وہ بھی ایک ہی مقابلے میں کہ جہاں زمبابوے 312 رنز کے بعد بھی سری لنکا کو جیتنے سے نہ روک سکا۔ اس کے علاوہ پورے ٹورنامنٹ میں کوئی ٹیم 300 رنز نہ بنا سکی۔ چلیں یہ تو 23 سال پرانی بات ہوئی کہ جب کرکٹ کا مزاج بھی الگ تھا لیکن ہم ورلڈ کپ سے پہلے چند ماہ کے دوران آسٹریلیا کے میدانوں پر کھیلے گئے مقابلوں کا بھی جائزہ لیں تو اس تواتر کے ساتھ بڑے مجموعے بنتے نہیں دکھائی دیتے۔

''بگ تھری کے مابین کھیلی گئی حالیہ سہ فریقی سیریز میں بھی صرف ایک ہی مقابلے میں ایسا ہوا کہ 300 رنز کا سنگ میل عبور کیا۔ ہوبارٹ میں کھیلے گئے مقابلے میں انگلینڈ نے 303رنز بنائے، جس کا آسٹریلیا نے کامیابی کے ساتھ تعاقب کیا۔ باقی کسی مقابلے میں ایسا نہیں ہوا کہ کوئی ٹیم اتنا بڑا مجموعہ جمع کر پائی ہو۔ یہاں تک کہ بھارت جیسی مضبوط بیٹنگ لائن ایک مقابلے میں 153 اورایک میں 200 رنز پر ڈھیر ہوئی۔

تو ہمیں عالمی کپ میں اب تک ایسی وکٹیں دیکھنے کو کیوں نہیں مل رہیں، جو باؤلرز کو مدد دیں؟نہ آسٹریلیا میں اور نہ ہی نیوزی لینڈ میں۔ تو کیا انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے گزشتہ ایونٹ چیمپئنز ٹرافی 2013ء کی طرح اب ورلڈ کپ 2015ء میں بھی '' بلے بازوں کی جنت'' ہوگا؟ ابھی تک تو اسی شک کو تقویت مل رہی ہے پھر بھی آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔