غلطی کسی اور کی اور بھگتے کوئی اور

اگران معماروں کی داد رسی نہ کی گئی تو نوجوانوں میں مایوسی پھیلے گی اور یہی مایوسی جرائم سے آشنا کرتی ہے۔


فرید رزاق February 17, 2015
اُن طلباء کو کیا پتا تھا کہ اُن کی محنت یوں رائیگاں جائے گی کہ اُنہیں کمرۂ امتحان میں بیٹھنا تو درکنار اُس کی زیارت بھی نصیب نہ ہو پائے گی۔

پاکستان میں آئے روز طویل ٹریفک جام کوئی نئی بات نہیں۔ کبھی قوم کو یہ درد اپنے ہی منتخب کردہ ارکانِ اسمبلی کے سبب اٹھانا پڑتا ہے تو کبھی اپنے ہی کسی بھائی کی غلطی کے سبب بلبلانا پڑتا ہے۔

گزشتہ دن کی بات ہے جب اک سحر کئی امیدیں لے کر طلوع ہوئی تھی کہ مستقبل تاریک کرتی گئی۔ لاہور شہر کی سب سے مصروف شاہراہ ''کینال روڈ'' پر زندگی کی دوڑ لگی ہوئی تھی کہ ایک دیوہیکل 16 ویلرکنٹینر نے اس دوڑ میں طویل بریک لگا دی۔

سوات سے آئے ہوئے اس کنٹینر کے ڈرائیور قدرت اللہ نے جامعہ پنجاب کے قریب ''کیمپس انڈر پاس'' کے نیچے سے اپنا کنٹینر گھسا دیا۔ پھر کیا تھا کنٹینر پل کے نیچے پھنس کر رہ گیا اور ٹریفک جام ہوگیا۔

مصروف شاہراہ کی وجہ سے گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ گئیں۔ ہر پاکستانی اس کیفیت سے دو چار ضرور ہوا ہوگا اوراس پر پیش آنے والی مشکلات کو بھی بخوبی جانتا ہوگا۔ جب آپ اپنی منزل کے قریب ہوں اور یوں اچانک ''جبری'' بریک لگانی پڑ جائے تو اپنا چہرہ نوچ لینے کو جی کرتا ہے۔ کچھ ایسا ہی حال اُن طلباء کا تھا جو کئی سالوں سے افسری کے خواب سجائے دن رات محنت کرتے ہوئے اپنے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے جا رہے تھے۔ کیونکہ سی ایس ایس کا آج امتحان ہونے جارہا تھا۔ لیکن انہیں کیا پتا تھا کہ اُن کی محنت یوں رائیگاں جائے گی کہ اُنہیں کمرۂ امتحان میں بیٹھنا تو درکنار اُس کی زیارت بھی نصیب نہ ہو پائے گی۔

جہاں ہزاروں افراد اس بدترین ٹریفک جام میں پھنس کر رہ گئے تو مستقبل کے یہ معمار بھی اس ٹریفک جام کی نظر ہوگئے۔ لوڈشیڈنگ کے خوف سے ان طلباء نے رات کو ہی اپنے کپڑے استری کرلیے ہونگے کہ خدانخواستہ بجلی نہ ہونے کی وجہ سے کہیں منزل سے دور نہ ہو جائیں۔ تیز آواز الارم نے نیند کی آغوش کو توڑا ہوگا، ہلکا پھلکا ناشتہ اور والدین کے پیار اور دُعا کے ساتھ منزل کی جانب قدم بڑھائے ہونگے۔ لیکن ان معماروں کے مستقبل کے ساتھ کھیلا گیا۔ لوگوں نے اپنا غصہ کنٹینر ڈرائیور پر نکالا اور انتظامیہ نے بھی حسب عادت بری الزمہ ہوتے ہوئے ڈرائیور پر چار دفعات جڑدیں۔

میں یہاں ڈرائیور کی وکالت نہیں کروں گا لیکن اگر طلباء انتخابات میں نہیں بیٹھ سکتے تو کیا صرف ڈرائیور ہی کی غلطی کے سبب ہوا تھا؟ کیا انتظامیہ کا اِس میں کوئی قصور نہیں تھا؟ ان سوالات کے جوابات کے لیے آئے کچھ حقائق جانتے ہیں۔ کسی بھی انڈر پاس سے کم از کم ایک ہزار میٹر کے فاصلے پر حد اونچائی کا بورڈ لگانا چاہیے کیا یہ بورڈ وہاں پر موجود تھا؟ یقیناً نہیں تھا۔ کیا انڈر پاس سے گزرنے والی گاڑیوں کو پل کے پیچھے ہی ایک آزمائشی بیرئیر سے گزارنے کا سامان موجود تھا؟ یقیناً نہیں تھا۔ HTVل ائسنس کے حامل قدرت اللہ نے کبھی لائسنس حاصل کرنے سے پہلے کوئی کلاس لی جس میں اسے ٹریفک کے اصول سمجھائے گئے ہوں؟ یقیناً نہیں۔۔۔ تو کیا اس سارے واقعے کا ذمہ دار فقط ایک ڈرائیور کو قرار دیا جائے؟ انتظامیہ کا اس میں کوئی قصور نہیں؟ اتنی مصروف شاہراہ کی حالت زار کا یہ عالم ہے کہ جابجا ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے کے سبب حادثات اور ٹریفک جام اس کا معمول بن چکا ہے۔ سگنل فری ہونے کے سبب گاڑیوں کی تیز رفتاری کے باعث اچانک لین کی تبدیلی بھی کئی حادثات کا پیش خیمہ ثابت ہوچکی ہے۔

مجھے آج بھی وہ دن یاد ہے جب انہیں انڈر پاس سے گزرتی ہوئی اک بس سے ایک طالب علم جاں بحق اور کئی زخمی ہوگئے تھے۔ اس وقت بھی انتظامیہ نے ذمہ داری قبول نہیں کی تھی اور آج بھی تماشائی بنی ہوئی ہے۔ مقابلہ کے امتحان کے ذریعے افسری کا خواب دیکھنے والے طلباء کا کیا قصور تھا جو ان کو کمرہء امتحان تک نہ پہنچنے دیا گیا۔ زیادہ سے زیادہ تین بار امتحان میں شمولیت کی شرط بھی ان کے آڑے آئی ہوگی۔ کئی طلباء دوبار کی ناکامی کے بعد شب و روز کی محنت کے بعد پر اُمید ہوں گے کہ اب کی بار وہ ضرور کامیاب ہوں گے لیکن انہیں کیا معلوم تھا کہ وہ اس کے خواب سجائے دوڑ سے پہلے ہی ناکامی کا تمغہ لے کر لوٹیں گے۔

جعلی ڈگریوں اور سرمایہ داروں کو کیا خبر کہ محنت کسے کہتے ہیں۔ بدترین ٹریفک جام میں پھنسنے والے یہ طلباء حکام کی توجہ کے منتظر ہیں اگر مستقبل کہ ان معماروں کی داد رسی نہ کی گئی تو نوجوانوں میں مایوسی پھیلے گی اور یہی مایوسی پڑھے لکھے نوجوانوں کو جرائم سے آشنا کرتی ہے۔ میری خادمِ اعلیٰ پنجاب سے گزارش ہے کہ چونکہ ان طلباء کو آپ کی انتظامیہ کی غفلت کے سبب نہ کردہ گناہوں کی بھینٹ چڑھایا جارہا ہے تو اب آپ کا فرض بنتا ہے کہ انکی داد رسی کی جائے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ قوم کے یہ معمار مایوسی کے گھٹاٹوپ اندھیرے کی نظر ہوجائیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے ریویو لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں