کرکٹ نے نوآبادیاتی دور میں برطانیہ اور اس کے تمام مقبوضات میں خوب جڑیں پکڑیں۔ خاص طور پر آسٹریلیا، ہندوستان، جنوبی افریقہ اور جزائر غرب الہند میں کرکٹ اس حد تک مقامی تہذیب و ثقافت کا حصہ بن گیا کہ یہ ممالک مختلف عہد میں کرکٹ کی سب سے بڑی قوتب بنے۔ جب 1975ء میں ایک روزہ کرکٹ کا پہلا عالمی کپ کھیلا گیا تو کرکٹ کے دامن کو روایتی 8 ممالک سے آگے تک پھیلانے کے بارے میں سوچا گیا۔
1975ء میں پہلے عالمی کپ سے لے کر آج آسٹریلیا و نیوزی لینڈ میں جاری گیارہویں عالمی کپ تک، ہر بار ایسے ممالک نے ضرور شرکت کی ہے جو بین الاقوامی کرکٹ کونسل کے مکمل رکن نہیں تھے اور ٹیسٹ درجہ نہیں رکھتے تھے۔ جیسا کہ پہلے عالمی کپ میں مشرقی افریقہ نے شرکت کی اور سری لنکا اور زمبابوے کے علاوہ برمودا، کینیڈا، آئرلینڈ، کینیا، نمیبیا، نیدرلینڈز، اسکاٹ لینڈ اور متحدہ عرب امارات مختلف عالمی کپ ٹورنامنٹس میں شرکت کرچکے ہیں، جن کی موجودگی شہادت دیتی ہے کہ کرکٹ اب ایک عالمی کھیل ہے۔
لیکن ایسے ممالک کی شرکت سے عالمی کپ میں کئی مقابلے یکطرفہ ہوجاتے ہیں، جس سے شائقین کرکٹ کو بہت کوفت ہوتی ہے۔ ورلڈ کپ کی تاریخ کے بدترین ریکاڈز میں سے بیشتر انہی نوآموز ٹیموں کے نام ہیں۔ 1979ء میں کینیڈا صرف 45 اور 2003ء میں محض 36 رنز پر ڈھیر ہوا، 2003ء ہی میں نمیبیا کی اننگز صرف 14 اوورز میں مکمل ہوئی اور آسٹریلیا نے 256 رنز سے فتح حاصل کی۔ 2003ء ہی میں نیدرلینڈز نے جنوبی افریقہ کے بلے باز ہرشل گبز کے ہاتھوں ایک اوور کی تمام 6 گیندوں پر چھکے کھائے۔ گو کہ ان ممالک نے چند یادگار فتوحات بھی حاصل کی ہیں لیکن کارکردگی میں تسلسل نہ ہونے کی وجہ سے کہ آئی سی سی نے عالمی کپ 2019ء کو صرف 10 ٹیموں تک محدود کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جو ان ملکوں کے لیے خاصا مایوس کن ہے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ دنیائے کرکٹ کی اس ''تیسری دنیا'' نے ٹھانی ہے کہ اس بار وہ خود کو ثابت کریں گے۔ کرکٹ پر گہری نظر رکھنے والوں نے تو وارم-اپ مقابلوں میں ہی اندازہ لگا لیا تھا کہ جہاں زمبابوے اور آئرلینڈ نے دو زبردست فتوحات حاصل کیں اور اسکاٹ لینڈ ویسٹ انڈیزکے خلاف جیت تو نہیں سکا، لیکن 'کالی آندھی' کی ساکھ کو زبردست نقصان ضرور پہنچایا۔
اب عالمی کپ کے ابتدائی مرحلے میں ہی یہ ''چھوٹے ممالک'' بڑے کارنامے کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ زمبابوے نے جنوبی افریقہ کو ناکوں چنے چبوائے، مقابلہ ضرور ہارے لیکن ہمت نہیں ہاری۔ دوسری طرف آئرلینڈ نے ویسٹ انڈیز کے خلاف 305 رنز کا ہدف حاصل کامیابی سے حاصل کرکے گروپ کی تمام ٹیموں کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ ویسٹ انڈیز چاہے جتنا بھی کمزور ہو، کاغذ پر بہت مضبوط ٹیم ہے، اس کے تمام کھلاڑی بین الاقوامی کرکٹ کا کہیں زیادہ تجربہ رکھتے ہیں بلکہ حال ہی میں دورۂ جنوبی افریقہ میں ایک مقابلہ شاندار انداز میں جیت بھی چکے ہیں۔ اس لیے آئرلینڈ کے خلاف شکست ان کے لیے بہت بڑا نقصان ہے اور آئرلینڈ کے لیے بہت حوصلہ افزاء جیت۔
ابھی آئرلینڈ کی فتح کا غلغلہ کم ہی نہ ہوا تھا کہ اسکاٹ لینڈ نے 'ہاٹ فیورٹ' نیوزی لینڈ کو دن میں تارے دکھا دیے۔ گوکہ اسکاٹ لینڈ کے بلے باز صرف 142 رنز پر آؤٹ ہوئے لیکن نیوزی لینڈ کو باآسانی ہدف تک نہیں پہنچنے دیا۔ مارٹن گپٹل، کین ولیم سن، برینڈن میک کولم، روس ٹیلر، گرانٹ ایلیٹ اور کوری اینڈرسن جیسے بلے باز، جو حالیہ مقابلوں میں دنیا بھر کے باؤلرز کا تیاپانچہ کرچکے ہیں، اسکاٹ لینڈ کے خلاف اپنی 7 وکٹوں سے محروم ہوئے اور آج اسکاٹ لینڈ کے خلاف نہ چل سکے اور 143 رنز کا معمولی ہدف حاصل کرنے کے لیے بھی نیوزی لینڈ کو 7 وکٹیں گنوانا پڑیں۔ یہ نیوزی لینڈ کی خوش قسمتی تھی کہ ٹاس جیت کر اس نے باؤلنگ کا فیصلہ کیا اور کنڈیشنز کا فائدہ اٹھایا ورنہ اسکاٹ لینڈ کے یہی بیٹسمین ابھی چند روز قبل ویسٹ انڈیز کے خلاف 314 رنز حاصل کرنے کے قریب پہنچ گئے تھے۔ ہمیں اندازہ ہے کہ یہ صرف خوش فہمی بھی ہوسکتی ہے لیکن یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ ٹاس کا فیصلہ اسکاٹ لینڈ کے حق میں ہونے کے نتیجے میں مقابلہ اعصاب شکن ہوسکتا تھا۔
''چھوٹی ٹیموں'' کی یہ کارکردگی خاص طور پر پاکستان کے لیے بہت پریشان کن ہے۔ روایتی حریف بھارت کے ہاتھوں شکست اور گزشتہ 13 ایک روزہ مقابلوں میں صرف دو فتوحات کے ساتھ بدترین فارم، پاکستان کی آئندہ مشکلات کو ظاہر کررہی ہے۔ گروپ میں پاکستان کو جنوبی افریقہ کے علاوہ ویسٹ انڈیز، زمبابوے اور آئرلینڈ کا سامنا بھی کرنا ہے جو مزید اپ سیٹس کے لیے تیار دکھائی دیتی ہیں۔ پاکستان 21 فروری کو ویسٹ انڈیز سے کھیلے گا، جو آئرلینڈ کے ہاتھوں شکست کے بعد زخمی شیر کی طرح کھیلے گا جبکہ زمبابوے کے بلے بازوں نے ابھی چند روز پہلے جنوبی افریقہ کے بہترین باؤلنگ اٹیک کے لیے بھی لوہے کے چنے ثابت ہوئے تھے۔ اس لیے پاکستان کے پاس اب غلطی کی کوئی گنجائش نہیں، اگر ایک قدم بھی غلط اٹھایا تو 2003ء اور 2007ء کی طرح پہلے مرحلے میں ہی عالمی کپ سے باہر ہوجائے گا، خاکم بدہن!
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔