کیا سینٹ الیکشن میں آئین کو نظرانداز کیا جارہا ہے
2003ء کے بعد سینٹ کے 5 مارچ کو ہونے والے پانچویں انتخابات ہیں۔ عموماً کہا جاتا ہے کہ اگر جمہوریت کی گاڑی کو ڈی ریل نہ کیا جائے تو جہموریت اور جمہوری فیصلوں میں پختگی آجاتی ہے لیکن سینٹ کے آنے والے انتخابات میں مختلف سیاسی جماعتوں کے نامزد کردہ امیدواروں کو دیکھ کر اس بات کی تصدیق نہیں ہوتی۔
صوبہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں تو پہلے ہی سینٹ انتخابات میں صوبہ سندھ اور پنجاب سے امیدوار بزور زر نشستیں لے اڑتے تھے لیکن پہلا موقع ہے کہ پنجاب کے کوٹہ سے سندھ یا دیگر صوبوں کے رہائشی امیدواروں کا چناؤ کروایا جا رہا ہے۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل59 کے تحت سینٹ یعنی ایوان بالا میں چاروں صوبوں کو برابری کی نمائندگی حاصل ہے لیکن الیکشن سے چند دن پہلے صوبہ سندھ سے مسلم لیگ (ن) کے عہدیداروں کے ووٹ کا صوبہ پنجاب کے ضلع راولپنڈی میں اندراج کروایا گیا جس سے سندھ کے سیاستدان پنجاب کے رہائشی بن گئے ہیں۔ اس طرح اگر انہیں پنجاب کے کوٹہ سے سینٹ میں بھیجا جائے تو یہ آئین کے آرٹیکل 59 کی سنگین خلاف ورزی ہے۔
اگر ایک صوبے کی 3 یا 4 نشستوں پر کسی دوسرے صوبے کے لوگ قابض ہو جائیں یا کروادیئے جائیں خواہ وہ پیسے کے زور پر ہوں یا اسمبلیوں میں عددی اکثریت کی بنیاد پر ہوں تو ایوان بالا میں اس صوبے کو برابری کا حق حاصل نہیں ہوسکتا۔ مسلم لیگ ن کے سینٹ کیلئے پنجاب سے امیدواروں کی فہرست میں مشاہد اللہ خاں ، نہال ہاشمی اور سلیم ضیاء شامل ہیں، وہ بڑے عرصے سے سندھ میں سیاست کر رہے ہیں مگر اب اچانک ان کے ڈومیسائل پنجاب سے بن گئے ہیں۔ وہ پنجاب میں رجسٹرڈ ووٹر نہیں تھے بلکہ صوبہ سندھ میں پارٹی کے مختلف عہدوں پر براجمان تھے۔
مشاہد اللہ خاں تو پہلے ہی پنجاب سے سینیٹر منتخب ہو چکے ہیں ۔ سلیم ضیا مسلم لیگ(ن) آزاد کشمیر کے صدر راجہ فاروق حیدر کے بہنوئی ہیں ۔ سینٹ الیکشن کے شیڈول کے اعلان کے بعد ان کے ووٹوں کا پنجاب میں اندراج کروایا گیا اور پنجاب کے سکونتی رجسٹرڈ ووٹر بنا کر کاغذات نامزدگی جمع کرادیئے گئے ۔ ن لیگ کے بارے میں پہلے یہ مشہور تھا کہ وہ گورنر امپورٹ کرتی ہے اب اس میں مختلف صوبوں سے سینیٹرز کے علاوہ قومی اسمبلی کی خواتین نشستوں پر موجودہ ایم این اے کو سینٹ میں لانا اور اور اس کی جگہ پھر کہیں اور سے کسی خاتون کو امپورٹ کرکے ایم این اے بنانا بھی شامل ہو چکا ہے ۔کچھ روز تک اس اہم خاتون کا نام بھی منظر عام پر آجائے گا جس کیلئے ایک منتخب ایم این اے عائشہ رضا کو سینٹ میں بھجوایا جا رہا ہے۔
جنرل (ر) عبدالقیوم سابق وزیراعظم بینظیر کے ملٹری سیکرٹری رہے ہیں وہ کچھ عرصہ وزیراعظم نوازشریف کے بھی ملٹری سیکرٹری رہے۔ وہ پرویز مشرف کے بیچ میٹ تھے اور ان کے دور میں واہ آرڈی ننس فیکٹریز اور پاکستان سٹیل ملز کراچی کے چیئرمین رہے۔ انہوں نے سٹیل ملز کراچی کی نجکاری کے خلاف احتجاجاً استعفیٰ دیا تھا اور سپریم کورٹ نے ان کے خط پر پاکستان سٹیل کی نجکاری روک دی تھی جس پر پرویز مشرف ان سے سخت ناراض تھے۔ وہ 2012ء میں باقاعدہ مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوگئے۔ جنرل (ر) عبدالقیوم بڑی اچھی ساکھ کے جرنیل تھے۔ غلام دستگیر، سعید مہدی، اشتر اوصاف علی اور محمد مہدی بھی امیدوار تھے مگر انہیں سینٹ کا ٹکٹ نہیں مل سکا۔
مسلم لیگ(ن) کی طرف سے سندھ کے تین پارٹی رہنماؤں کو پنجاب سے ٹکٹ دینے پر تحفظات سامنے آئے ہیں جس کے باعث پنجاب میں برسوں پارٹی کیلئے خدمات انجام دینے والے ٹائم ٹیسٹد لوگ پھر رہ گئے ہیں۔ جنوبی پنجاب کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ یہی صورتحال سندھ میں پیپلزپارٹی کی ہے۔ سابق وزیر داخلہ رحمٰن ملک کا تعلق سیالکوٹ سے ہے لیکن وہ سندھ کی نشست پر سینیٹر منتخب ہوتے رہے ہیں۔ تحریک انصاف جو صرف ایک صوبہ خیبر پختونخوا میں ہے اور زیادہ سے زیادہ 6 نشستیں جیت سکتی ہے وہاں سب سے زیادہ 64 امیدوار میدان میں اترے ہیں۔ یہ ایسے سینٹ الیکشن ہیں جن کے انعقاد سے پہلے ہی ممبران صوبائی اسمبلی کی خرید و فروخت کی آوازیں سنائی دینے لگی ہیں اور تحریک انصاف نے کھل کر اس کا اظہار بھی کیا ہے۔
وفاقی دارالحکومت سے ایک خاتون اور جنرل نشست پر بھی اسلام آبا دکے رہائشیوں کی بجائے سندھ سے ن لیگ کی سابق امیدوار ڈاکٹر راحیلہ مگسی اور خیبر پختونخوا سے سابق سینیٹر اقبال ظفر جھگڑا کو امپورٹ کیا گیا ہے ۔ راحیلہ مگسی حیدرآباد سے قومی اسمبلی کا الیکشن ہارگئی تھیں ۔ وہ پرویزمشرف دور میں ضلع ناظم رہ چکی ہیں اور ان کے بھائی ڈاکٹر ارباب غلام رحیم کی کابینہ میں وزیر تھے اور جنرل پرویزمشرف حیدرآباد ان کے گھر بھی گئے تھے۔
تحریک انصاف نے پنجاب میں الیکشن نہ لڑنے کا فیصلہ کرکے میدان خالی چھوڑ دیا ہے تاہم پیپلزپارٹی کے رہنما ندیم افضل چن پنجاب سے سینٹ کا الیکشن لڑ رہے ہیں ۔ ندیم افضل بڑے پر عزم ہیں اور انہوں نے سینٹ الیکشن میں کامیابی کیلئے اراکین پنجاب اسمبلی سے رابطے تیز کردئیے ہیں اور آزاد امیدوارں سمیت دوسری پارٹیوں کے اراکین سے ملاقاتیں شروع کر دی ہیں۔ ندیم افضل چن نے سینیٹر محسن لغاری سے بھی ملاقات کی اور سینٹ کا الیکشن لڑنے کیلے رہنمائی حاصل کی۔
سینیٹر محسن لغاری نے گزشتہ سینٹ الیکشن میں اپنے ایک ووٹ کے ساتھ پنجاب سے سیٹ حاصل کی تھی اور انہیں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے ممبران نے بھی ووٹ ڈالے تھے۔ اس وقت پیپلزپارٹی کو ق لیگ کی حمایت حاصل ہے ۔ ندیم افضل چن آزاد ممبران ، چھوٹی جماعتوں اور ن لیگ کے ناراض اراکین کی حمایت کیلئے لابنگ کر رہے ہیں ۔ ندیم افضل چن نے اس حوالہ سے بتایاکہ انہیں پارٹی شریک چئیرمین آصف علی زراری نے کہا ہے کہ وہ اپنی انتخابی مہم کو تیز کریں اس لئے وہ پوری تندہی سے کام کر رہے ہیں۔
سندھ میں پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم پہلے ہی نشستیں طے کر چکی ہیں تاہم فنکشنل لیگ اپنا حصہ چھوڑنے کو تیار نظر نہیں آتی ۔ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف اور جماعت اسلامی مل کر 6 سے 7 نشستیں نکال سکتی ہیں اگر طاقت زر کا مقابلہ کر سکیں بصورت دیگر سیٹیں کم بھی ہو سکتی ہیں۔ اس تمام صورتحال کا اگر اجمالی جائرہ لیا جائے تو مختلف سیاسی جماعتوں کی طرف سے نامزد کردہ امیدواروں کو دیکھ کر یہ کہنا بجا ہوگا کہ ایوان بالا کے انتخابات میں آئین پاکستان کی دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں اور ہمارے سیاسی قائدین جو یہ کہتے ہیں کہ اگر انتخابی عمل کو روکا نہ جائے تو سیاستدان درست اور پر مغز فیصلے کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں غلط دکھائی دیتا ہے اور یوں لگتا ہے کہ آئین پاکستان کی حیثیت چند کاغذوں کی ہے اور آئین کے آرٹیکل کا تذکرہ صرف عدالتوں میں دلائل کے استعمال کیلئے رہ گیا ہے۔
اگرچہ عدالتیں اور الیکشن کمیشن مل کر اس کی کوشش کر رہے ہیں کہ آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کی شرائط پر پورا اترنے والے امیدواروں کا بطور سینیٹر انتخاب ہو لیکن کیا یہ دونوں مقتدر ادارے سندھ کے امیدواروں کو پنجاب سے وفاقی دارالحکومت کی سیٹوں سے سندھ اور خیبر پختونخوا ، بلوچستان کی سیٹوں سے صاحب زر افراد کے انتخاب اور خیبرپختونخوا میں ہونے والی خریدو فروخت کو روک کر آئین کے آرٹیکل59 کی روح کے مطابق ایوان بالا کی تشکیل میں کامیاب ہو پائیں گے؟