کچھ دنوں پہلے ترکی کے بے مثال ادیب اورحان پامک اور بیسویں صدی میں ہندوستان کے نامی گرامی شاعر رابندر ناتھ ٹیگور کے لیے نوبل انعام کا اعلان ہوا تو ہفتوں اور مہینوں جشن منایا گیا۔ دونوں ملکوں کے شہری اس بات پر ناز کرتے ہیں کہ ان کے ادیبوں کے حصے میں یہ باوقار بین الاقوامی اعزاز آیا۔ اس کے بر عکس ہم ہیں کہ جب ہمارے مکرم و محترم ڈاکٹر عبدالسلام فزکس کے شعبے میں اس انعام سے نوازے گئے تو ان کی قدر افزائی کے بجائے ہم نے اپنے لب سی لیے۔
ان کے وطن آنے پر پابندیاں عائد ہوئیں۔ انھیں وطن آنے کی آرزو تھی لیکن ان کا تابوت پاکستان آیا۔ ناقدری کا کچھ یہی عالم ملالہ کا ہے۔ ہماری ریاست اس کی جان کی حفاظت نہ کرسکی۔ وہ مذہبی انتہاپسندوں کی گولیوں کا نشانہ بنی۔ اس نے دنیا کے خزانے نہیں مانگے تھے، صرف علم کی دولت کی جستجو کی تھی لیکن اس کی سزا میں پہلے اس کی جان لینے کی کوشش کی گئی اور جب وہ اس حملے سے بچ گئی تو اس پر کیسے کیسے الزام نہ تراشے گئے۔ اس پر بین الاقوامی اعزازات کی بارش ہوئی۔ اس پر بھی ملک میں سناٹا رہا۔ اور پھر امن کے لیے نوبل انعام کا اعلان ہوا تو بھی پراسرار سی خاموشی طاری رہی۔ کچھ حلقے یا کچھ افراد تھے جنھوں نے خوشی کا اظہار کیا اور اسے اپنا فخر کہا۔
شہری سطح پر چند دن پہلے پائلر، ویمنز ایکشن فورم اور بعض دوسری تنظیموں نے ذوالفقار علی بھٹو انسٹی ٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں ڈاکٹر عبدالسلام کو یاد کیا اور ملالہ کی ہمت اور مزاحمت کا جشن منایا۔ تقریب کا آغاز ویف کی صدر انیس ہارون کی تقریر سے ہوا۔ ڈاکٹر عبدالسلام کی زندگی پر ذاکر تھاور کی بنائی ہوئی فلم کے کچھ ٹکڑے دکھائے گئے اور ہماری معروف صحافی مہ ناز رحمن نے ڈاکٹر صاحب کے اس انٹرویو کا ذکر کیا جو 1987میں انھوں نے بیجنگ میں کیا تھا ۔
جس سے ڈاکٹر عبدالسلام کی اس بے قراری کا اندازہ ہو تا تھا جو انھیں پاکستان جانے کے لیے تھی۔ ملالہ کا پہلے سے ریکارڈ کیا ہوا بیان بھی ہم سب نے سنا جس میں وہ کہہ رہی تھی کہ دہشت گردوں نے سوات میں 400 اور خیبر پختونخوا میں 2000 سے زیادہ اسکول تباہ کر دیے۔ دہشت گردی نے سارے ملک میں بچوں کی تعلیم پر بہت برا اثر ڈالا ہے۔ ہم اگر ترقی کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں متحد ہو کر تعلیم کے محاذ پرکام کرنا ہوگا۔ اس کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنے دفاعی اخراجات کے بجائے اپنے تعلیمی بجٹ میں بہت معقول اضافہ کرنا چاہیے تب ہی ہم دنیا کے دوسرے ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں جگہ بنا سکیں گے۔
کائنات سومرو جس جنسی جبر سے گزری، اس سے ہم سب واقف ہیں، ملالہ نے اسے نوبل انعام کی تقریب میں شرکت کی دعوت دی تھی۔ وہ وہاں پہنچی تو پہلی مرتبہ ملالہ سے ملی۔ وہ چند دن جو اس نے ملالہ کے ساتھ اوسلو میں گزارے اور نوبل انعام کی تقریب میں شمولیت اسے خواب کا عالم محسوس ہوتا ہے۔ ملالہ کی طرح وہ بھی ظالموں سے لڑنے کے لیے پرعزم ہے۔ عطیہ داؤد کے علاوہ اس روز رابندر ناتھ ٹیگور اور مشہور سیاہ فام امریکی شاعرہ مایا اینجلو کی نظمیں سنائی گئیں اور شیماکرمانی اور 'تحریک نسواں' کی بچیوں نے ایک رقص پیش کیا۔
انتہاپسندی کے ہماری بچیوں اور عورتوں پر جو اثرات مرتب ہورہے ہیں، اس بارے میں بات کرتے ہوئے میرا کہنا تھا کہ پاکستانی عورت کو یہ جاننا چاہیے کہ اس کے حقوق کی لڑائی جمہوری جدوجہد سے جڑی ہوئی ہے۔ انتہاپسند اور بنیاد پرست عناصر اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھتے ہیں، اسی لیے وہ اپنے علاقوں میں عورتوں کو ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں دیتے۔ اس موقع پر ہماری قومی سیاسی پارٹیوں کے معیار بدل جاتے ہیں اور وہ اس سیاسی ظلم پر زبان کھولنے کے بجائے ان بنیاد پرست عناصر کے ساتھ معاہدے کرلیتی ہیں جو عورتوں کا حق سلب کرتے ہیں۔
ملالہ یوسف زئی کی اس کے سوا کوئی خطا نہیں تھی کہ وہ پڑھنا چاہتی تھی اور اپنے ساتھ کی لڑکیوں کو ساتھ لے کر آگے بڑھنا چاہتی تھی۔ یہ ایسا گناہ نہیں تھا جسے انتہاپسند معاف کردیتے، جن کے علاقوں میں بطور خاص اور ملک میں عمومی طور سے عورتوں کی اکثریت بندھوا غلام اور کوکھ مزدور ہے۔ تعلیم اور ووٹ کا ان کا حق انھیں جبر اور ظلم کے بندھن سے آزاد کرتا ہے اور یہ ان عناصر کے لیے ناقابل برداشت ہے۔ اس وقت انتہاپسند وںکے لشکر ملک میں دندناتے پھر رہے ہیں۔ بہت سے شہری مرد جو تعلیم یافتہ ہیں، اچھے عہدوں پر کام کررہے ہیں، وہ بھی جانتے ہیں کہ عورت کی سیاسی آزادی کا مطلب کیا ہے۔
اسی لیے دین کے اور ریت رواج کے نام پر وہ اپنے گھرکی عورتوں کو ہر لمحہ 'خدا کا خوف' یاد دلاتے ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ایسا کہنے والوں کے دل خوف خدا سے خالی ہیں۔ انتہاپسندوں نے بہت سی عورتوں کو اپنے ساتھ شامل کرلیا ہے۔ دین کے نام پر یہ عورتیں شہروں، قصبوں اور گھروں میں پھیل چکی ہیں۔ کوئی عورت یا لڑکی پردہ نہ کرتی ہو تو وہ اسے ان آتشی کوڑوں اور دوسری ہیبت ناک سزاؤں کی یاد دلاتی ہیں جو موت کے بعد ان کا مقدر ہوں گی۔ ان کے نزدیک خدا صرف قہار و جبار ہے، رحمن و رحیم نہیں۔ یہ حقوق العباد کی بات نہیں کرتیں ۔ یہ تعلیم کے فوائد نہیں بیان کرتیں۔ یہ مسلکی بنیادوں پر دلوں کو تقسیم کرتی اور نفرت کی بارود بچھاتی ہیں۔ یہ عورتوں اور بچیوںسے سوچنے سمجھنے کا حوصلہ اور آگے بڑھنے کی صلاحیتیں چھین لیتی ہیں۔یہ عورتیں گھروں کے اندر اس نقطہ نظرکو پروان چڑھا رہی ہیں جس کے باعث بعض مقدس مقامات کا تقدس پامال کیا جا رہے ہیں۔
ہمارے یہاں تیزی سے پھلتی پھولتی ہوئی انتہاپسندی نے اگر ایک طرف بہت سی عورتوں کو ذہنی طور پر مفلوج کر کے ان کے حقوق چھینے ہیں۔ وہیں بے شمار لڑکیوں اور عورتوں کو اس بات کا شعور بخشا ہے کہ سماجی اور ثقافتی سطح پر جو تبدیلیاں ان کے حقوق غضب کرنے کے لیے آرہی ہیں ، ان کا مقابلہ صرف مزاحمت سے ہی کیا جا سکتا ہے ۔ یہ وہ مزاحمت ہے جوذہن اور قلم سے کی جاتی ہے اور انھیں شعور سے ہم کنار کرتی ہے ۔
آج کے دن سوال یہ اٹھتا ہے کہ عورت ہونے کے ناتے ہم کیا چاہتے ہیں؟ہم امن اور انصاف چاہتے ہیں۔اور یہ صرف ہم اپنے لیے نہیں ، مردوں کے لیے بھی چاہتے ہیں۔ امن جو گھر سے شروع ہو اور انصاف جو گھر میں ملے۔ایک پُر امن گھر جہاں سب کے ساتھ انصاف ہو تا ہو۔ وہ خواہ جھونپڑی ہو، 60گز کا یا 600گز کا گھر ہو۔ بس تھوڑا سا امن ، تھوڑا سا انصاف ۔جہاں بیوی ، بیٹی اور بہن پر شوہر، باپ اور بھائی کا ہاتھ نہ اٹھتا ہو ۔
جہاں وہ زندہ نہ جلائی جاتی ہو ۔ جہاں تیزاب پھینک کر انتقاماً اس کا چہرہ نہ بگاڑا جا تا ہو۔ جہاں غیرت کا الزام لگا کر اِسے قتل نہ کیا جا تا ہو۔ جہاںروٹی کے ٹکڑے اور سالن کے پیالے پر گھر کی عورتوں اور لڑکیوں کا بھی برابر کاحق ہو۔ یہ نہ ہو کہ ان کے حصے میں روٹی کے چھوڑے ہوئے ٹکڑے اور دیگچی کے پیندے میں لگا ہوا سالن آئے جو 80 فی صد پاکستانی عورتوں کا مقدر ہے۔
ہندوستان کے جب دو ٹکڑے کیے جا رہے تھے تو عورتوں اور اقلیتوں سے وعدہ کیا گیا تھا کہ پاکستان میں سب کو مساوی حقوق ملیں گے 'سب برابر کے شہری ہوں گے لیکن کچھ ہی دنوں میں ہمیں معلوم ہو گیا کہ 1947سے پہلے کی تقریریں اور تحریریں آرائشی تھیں۔ قرار دادِ مقاصد کے سائے میں جو آئین پروان چڑھا اس میں عورتوں کے لیے گنجائشیں کم سے کم ہوتی گئیں۔ موجودہ آئین کے تحت وہ صدارت کے عہدے پر فائز نہیں ہو سکتیں ،'مادر ملت'کے لقب سے پکاری جانے والی بزرگ خاتون انتخابات میں کس بے حیائی سے ہرائی جاتی ہے۔ عوام کے ووٹوں سے دو مرتبہ وزیر اعظم بننے والی عورت جب تیسری مرتبہ اسی راستے پر آگے بڑھتی نظر آئے تو دن کی روشنی میں سفاکی سے قتل کر دی جاتی ہے ۔ بے نظیر بھٹو خاک نشین تو نہیں تھی لیکن خاک نشینوں کی طرح اس کا خون' رزق ِ خاک ہو جاتا ہے۔
ملالہ کو اگر تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو وہ ایک ایسی نوعمر لڑکی ہے جسے علم نے کیسا شاندار شعور بخشا ہے۔ اپنی تقریروں میں وہ حقوق انسانی کے لیے کام کرنے والے ان تمام گم نام مردوں اور عورتوں کو یاد کرتی ہے جو اس راہ میں قربان ہوگئے اور وہ بھی جو اس وقت ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں اور امن کے قیام اور تعلیم کے حق کے ساتھ ہی مردوں اور عورتوں کے درمیان مساوات کی لڑائی لڑرہے ہیں۔ گہری تاریکی ہو، گھنا جنگل ہو، جس میں خونخوار درندے دھاڑتے ہوں، روشنی کی رمق نظر نہ آتی ہو، ایسے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں کوئی جگنو اڑتاہوا گزرجائے تو محسوس ہوتا ہے جیسے روشنی کا کوندا لپک گیا ہے۔مجاز کی آرزو تھی کہ ہماری عورت آنچل کو پرچم بنالے' وہ ہوتے تو شاد ہوتے کہ آنچل پرچم بن گیا ہے۔
(ڈاکٹر عبدالسلام کی یاد اور جشنِ ملالہ میں ہونے والی باتیں)