کرپشن سرمایہ داری کا لازمی نتیجہ
2014ء میں شام میں پرتشدد واقعات کے نتیجہ میں 76 ہزار افراد مارے گئے اور عراق میں 15 ہزار افراد ہلاک ہوئے
KASUR:
1890میں امریکا نے ہیروئن کو دوا کے طور پر متعارف کروایا اور کہا گیا کہ یہ امراض قلب کے لیے انتہائی مفید ہے، اور آج ہر سال تیس ہزار لوگ منشیات کے استعمال کے باعث ہلاک ہو رہے ہیں۔ افغانستان میں 850 ملین ڈالر کی افیون 2014ء میں پیدا ہوئی جو کہ 224000 ہیکٹر زمین پر کاشت ہوئی۔ دنیا بھر میں افیون کی پیداوار 80 فیصد افغانستان میں ہوتی ہے، اس کی روک تھام کے لیے سات ارب ساٹھ کروڑ روپے صرف 2014 میں خرچ کیے گئے ہیں۔
افیون سے بننے والی ہیروئن افیون سے 80 گنا زیادہ نشیلی ہوتی ہے، اس کی کاشت میں افغان انتظامیہ اور طالبان برابر کے شریک ہیں۔ امریکا کے حکم کو مانتے ہوئے ہمارے حکمرانوں نے افغانستان میں بلاواسطہ اور بالواسطہ عسکری مداخلت کی، جس کے نتیجے میں 50 ہزار پاکستانی مارے گئے اور 80 ارب روپے کا نقصان ہوا۔ یہ کام صرف امریکا کے کہنے پر افغانستان میں کامریڈ نور محمد ترکئی کی حکومت کے خلاف پاکستان کی مداخلت سے ہوا۔
اگر افغانستان میں پاکستان، امریکی سی آئی اے کی سازش کا شکار نہ ہوتا تو یہ نقصان نہ اٹھانا پڑتا۔ دنیا میں سالانہ 870 بلین ڈالر اسلحے کی پیداوار ہوتی ہے جب کہ 120 بلین ڈالر کتوں اور بلیوں پر خرچ کیے جاتے ہیں۔ صرف امریکا میں روزانہ 30 کروڑ 40 لاکھ ٹن پھل کوڑے دانوں میں پھینک دیا جاتا ہے جب کہ اسی امریکا میں (سرکاری اعداد و شمار کے مطابق) 3 کروڑ لوگ بے روزگار اور 10 فیصد خیراتی کھانوں پر پلتے ہیں۔
پاکستان، فیصل آباد سے اربوں ڈالر کی ٹیکسٹائل مصنوعات برآمد کرتا ہے جب کہ فیصل آباد میں 2013ء کے دوران سرکاری اسپتال میں 22000 شدید بیماری میں مبتلا بچے لائے گئے، جن کا مناسب اور بروقت علاج کا بندوبست نہ تھا، ان کا علاج زیر تربیت ڈاکٹرز سے کروایا جاتا تھا۔ پاکستانی حکمرانی بری طرح حکومت چلانے اور اناڑیوں کے ہاتھ حکومت لگنے سے گزشتہ 8 سال سے 56 کروڑ ڈالر کا غیر ملکی قرضہ بغیر استعمال کیے ضایع ہو گیا۔ بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان اور لوٹ مار کی مد میں 2014ء میں صرف کراچی میں 1929 شہری قتل ہوئے، ان میں 110 افراد کو اغوا کیا گیا اور 143 رینجرز اہلکار بھی مارے گئے۔
2014ء میں شام میں پرتشدد واقعات کے نتیجہ میں 76 ہزار افراد مارے گئے اور عراق میں 15 ہزار افراد ہلاک ہوئے جب کہ سعودی عرب سے گزشتہ دو ماہ میں 50 ہزار غیر ملکی نکال باہر کیے گئے۔ دنیا کی سب سے بڑی انویسمنٹ کمپنی نصداق نے میڈوف فراڈ میں 20 بلین ڈالر کا گھپلا کیا، جب اس کمپنی کا دیوالیہ ہوا تو حقائق منظرعام پر آئے۔ اسی کمپنی نے امریکا کی ڈیموکریٹک اور ری پبلکن پارٹی کو ڈھائی لاکھ ڈالر کا چندہ دیا۔
بڑی حیرت انگیز اور مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ امریکی حکو مت نے میڈوف فراڈ کیس میں نصداق کے مالکان کو سزا دینے کے بجائے کہا کہ لوگوں نے میڈوف میں رقم کیوں جمع کروائی۔ یہی فراڈ اور منافقت امریکی وزیر دفاع دنیا بھر کے محکوم و مظلوم عوام پر مظالم ڈھاتے ہوئے کہتا ہے کہ 'ہم دنیا کو پرامن اور پرسکون بنانے کے لیے نیٹو قائم اور کارروائی کرتے ہیں۔' یہ تو ایسا ہی ہوا کہ ہر گٹکا بنانے والی فیکٹری کینسر کا اسپتال کھول لے۔
نیپ نے کرپٹ عناصر سے صرف 261 ارب روپے کی ریکوری کی، جو کہ کل ریکوری کی تقریباً ایک فیصد ہے۔ نیپ کو 31 دسمبر 2014ء تک 2 لاکھ 70 ہزار 675 شکایات موصول ہوئیں، جن میں صرف 5 ہزار 872 انکوائریاں کی گئیں۔ پاکستان سے 85 کروڑ 10 لاکھ ڈالر سوئس بینک میں رکھے گئے۔ سب سے زیادہ رقم نامعلوم کھاتے دار 13 کروڑ 30 لاکھ ڈالر کی ہے۔ جب کہ پاکستان میں 1132 بچے روزانہ بھوک سے مر جاتے ہیں۔ ایک جانب بھارت میں 34 کروڑ لوگ بے روزگار ہیں تو دوسری طرف بھارت نے امریکا کو پانچ جنگی بحری بیڑے بنانے کا ٹھیکہ دے دیا۔
پاکستان میں ساڑھے چار کروڑ انسانوں کو رہنے کے لیے گھر نہیں تو دوسری جانب شہروں میں قبضہ مافیا نے اور دیہاتوں میں جاگیرداروں نے لاکھوں ہیکٹر زمینوں پر قبضہ کر رکھا ہے۔ حال ہی میں خیرپور میں سندھ حکومت نے 108 سالہ تاریخی اسکول 10 کروڑ میں بیچ دیا۔ اسی طرح چند گورنمنٹ بوائز اینڈ گرلز اسکولوں کو منہدم کر کے فروخت کر دیا گیا جس کا کوئی پرسان حال نہیں۔ ادھر گوادر میں چین کو 2281 ایکڑ زمین بیچی گئی۔ پاکستان میں 1984ء میں طلبہ یونینوں پر پابندی لگائی گئی تھی، جو اب تک برقرار ہے۔ جمہوری حکومتیں ان پابندیوں کا خاتمہ نہیں کروا پائیں۔ وہ اس مسئلے کو اسمبلی میں اٹھانے سے بھی گریز کر رہی ہیں۔
یہاں تک کہ کچھ وائس چانسلرز بھی اس پابندی کے خاتمے کے خلاف ہیں۔ بلدیہ عظمیٰ کراچی کے 22 ہزار ریٹائرڈ ملازمین 4 ماہ کی پنشن سے محروم ہیں۔ ریٹائرڈ پنشنرز کے مسائل ملک بھر کے مسائل ہیں، انھیں اکثر بہت دیر میں پنشن موصول ہوتی ہے، اضافی پنشن نہیں ملی ، لمبی قطار میں گھنٹوں کھڑے رہنے کے بعد رقم وصول کر پاتے ہیں، بعض ضعیف حضرات گر کر بے ہوش بھی ہو جاتے ہیں اور زیادہ تر پنشنرز کو مہینوں گزرنے کے باوجود پنشن نہیں ملتی۔
کراچی یونیورسٹی اور کے ایم سی میں تو کرپشن کی انتہا ہو چکی ہے۔ پاکستان سپریم کورٹ کے ریمارکس، فیصلے اور کرپٹ افسران کو ملازمت سے نکالنے کے حکم کے باوجود انھیں بحال کیا گیا اور بہت سے فیصلوں پر عملدرآمد نہیں ہوا اور اس وقت بھی یہ اعلیٰ افسران نہ صرف اپنے عہدے پر براجمان ہیں بلکہ اربوں روپے کی کرپشن کر رہے ہیں۔ 12 مئی کے قاتلوں کو ابھی تک کوئی سزا نہیں دی گئی اور اب تک یہ نہیں پتہ چلا کہ وکیلوں کو کس نے جلایا، کراچی بار کے سابق نائب صدر کامریڈ راجہ ریاض ایڈووکیٹ کے قاتل بھی ابھی تک گرفتار نہیں ہو پائے۔
1890میں امریکا نے ہیروئن کو دوا کے طور پر متعارف کروایا اور کہا گیا کہ یہ امراض قلب کے لیے انتہائی مفید ہے، اور آج ہر سال تیس ہزار لوگ منشیات کے استعمال کے باعث ہلاک ہو رہے ہیں۔ افغانستان میں 850 ملین ڈالر کی افیون 2014ء میں پیدا ہوئی جو کہ 224000 ہیکٹر زمین پر کاشت ہوئی۔ دنیا بھر میں افیون کی پیداوار 80 فیصد افغانستان میں ہوتی ہے، اس کی روک تھام کے لیے سات ارب ساٹھ کروڑ روپے صرف 2014 میں خرچ کیے گئے ہیں۔
افیون سے بننے والی ہیروئن افیون سے 80 گنا زیادہ نشیلی ہوتی ہے، اس کی کاشت میں افغان انتظامیہ اور طالبان برابر کے شریک ہیں۔ امریکا کے حکم کو مانتے ہوئے ہمارے حکمرانوں نے افغانستان میں بلاواسطہ اور بالواسطہ عسکری مداخلت کی، جس کے نتیجے میں 50 ہزار پاکستانی مارے گئے اور 80 ارب روپے کا نقصان ہوا۔ یہ کام صرف امریکا کے کہنے پر افغانستان میں کامریڈ نور محمد ترکئی کی حکومت کے خلاف پاکستان کی مداخلت سے ہوا۔
اگر افغانستان میں پاکستان، امریکی سی آئی اے کی سازش کا شکار نہ ہوتا تو یہ نقصان نہ اٹھانا پڑتا۔ دنیا میں سالانہ 870 بلین ڈالر اسلحے کی پیداوار ہوتی ہے جب کہ 120 بلین ڈالر کتوں اور بلیوں پر خرچ کیے جاتے ہیں۔ صرف امریکا میں روزانہ 30 کروڑ 40 لاکھ ٹن پھل کوڑے دانوں میں پھینک دیا جاتا ہے جب کہ اسی امریکا میں (سرکاری اعداد و شمار کے مطابق) 3 کروڑ لوگ بے روزگار اور 10 فیصد خیراتی کھانوں پر پلتے ہیں۔
پاکستان، فیصل آباد سے اربوں ڈالر کی ٹیکسٹائل مصنوعات برآمد کرتا ہے جب کہ فیصل آباد میں 2013ء کے دوران سرکاری اسپتال میں 22000 شدید بیماری میں مبتلا بچے لائے گئے، جن کا مناسب اور بروقت علاج کا بندوبست نہ تھا، ان کا علاج زیر تربیت ڈاکٹرز سے کروایا جاتا تھا۔ پاکستانی حکمرانی بری طرح حکومت چلانے اور اناڑیوں کے ہاتھ حکومت لگنے سے گزشتہ 8 سال سے 56 کروڑ ڈالر کا غیر ملکی قرضہ بغیر استعمال کیے ضایع ہو گیا۔ بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان اور لوٹ مار کی مد میں 2014ء میں صرف کراچی میں 1929 شہری قتل ہوئے، ان میں 110 افراد کو اغوا کیا گیا اور 143 رینجرز اہلکار بھی مارے گئے۔
2014ء میں شام میں پرتشدد واقعات کے نتیجہ میں 76 ہزار افراد مارے گئے اور عراق میں 15 ہزار افراد ہلاک ہوئے جب کہ سعودی عرب سے گزشتہ دو ماہ میں 50 ہزار غیر ملکی نکال باہر کیے گئے۔ دنیا کی سب سے بڑی انویسمنٹ کمپنی نصداق نے میڈوف فراڈ میں 20 بلین ڈالر کا گھپلا کیا، جب اس کمپنی کا دیوالیہ ہوا تو حقائق منظرعام پر آئے۔ اسی کمپنی نے امریکا کی ڈیموکریٹک اور ری پبلکن پارٹی کو ڈھائی لاکھ ڈالر کا چندہ دیا۔
بڑی حیرت انگیز اور مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ امریکی حکو مت نے میڈوف فراڈ کیس میں نصداق کے مالکان کو سزا دینے کے بجائے کہا کہ لوگوں نے میڈوف میں رقم کیوں جمع کروائی۔ یہی فراڈ اور منافقت امریکی وزیر دفاع دنیا بھر کے محکوم و مظلوم عوام پر مظالم ڈھاتے ہوئے کہتا ہے کہ 'ہم دنیا کو پرامن اور پرسکون بنانے کے لیے نیٹو قائم اور کارروائی کرتے ہیں۔' یہ تو ایسا ہی ہوا کہ ہر گٹکا بنانے والی فیکٹری کینسر کا اسپتال کھول لے۔
نیپ نے کرپٹ عناصر سے صرف 261 ارب روپے کی ریکوری کی، جو کہ کل ریکوری کی تقریباً ایک فیصد ہے۔ نیپ کو 31 دسمبر 2014ء تک 2 لاکھ 70 ہزار 675 شکایات موصول ہوئیں، جن میں صرف 5 ہزار 872 انکوائریاں کی گئیں۔ پاکستان سے 85 کروڑ 10 لاکھ ڈالر سوئس بینک میں رکھے گئے۔ سب سے زیادہ رقم نامعلوم کھاتے دار 13 کروڑ 30 لاکھ ڈالر کی ہے۔ جب کہ پاکستان میں 1132 بچے روزانہ بھوک سے مر جاتے ہیں۔ ایک جانب بھارت میں 34 کروڑ لوگ بے روزگار ہیں تو دوسری طرف بھارت نے امریکا کو پانچ جنگی بحری بیڑے بنانے کا ٹھیکہ دے دیا۔
پاکستان میں ساڑھے چار کروڑ انسانوں کو رہنے کے لیے گھر نہیں تو دوسری جانب شہروں میں قبضہ مافیا نے اور دیہاتوں میں جاگیرداروں نے لاکھوں ہیکٹر زمینوں پر قبضہ کر رکھا ہے۔ حال ہی میں خیرپور میں سندھ حکومت نے 108 سالہ تاریخی اسکول 10 کروڑ میں بیچ دیا۔ اسی طرح چند گورنمنٹ بوائز اینڈ گرلز اسکولوں کو منہدم کر کے فروخت کر دیا گیا جس کا کوئی پرسان حال نہیں۔ ادھر گوادر میں چین کو 2281 ایکڑ زمین بیچی گئی۔ پاکستان میں 1984ء میں طلبہ یونینوں پر پابندی لگائی گئی تھی، جو اب تک برقرار ہے۔ جمہوری حکومتیں ان پابندیوں کا خاتمہ نہیں کروا پائیں۔ وہ اس مسئلے کو اسمبلی میں اٹھانے سے بھی گریز کر رہی ہیں۔
یہاں تک کہ کچھ وائس چانسلرز بھی اس پابندی کے خاتمے کے خلاف ہیں۔ بلدیہ عظمیٰ کراچی کے 22 ہزار ریٹائرڈ ملازمین 4 ماہ کی پنشن سے محروم ہیں۔ ریٹائرڈ پنشنرز کے مسائل ملک بھر کے مسائل ہیں، انھیں اکثر بہت دیر میں پنشن موصول ہوتی ہے، اضافی پنشن نہیں ملی ، لمبی قطار میں گھنٹوں کھڑے رہنے کے بعد رقم وصول کر پاتے ہیں، بعض ضعیف حضرات گر کر بے ہوش بھی ہو جاتے ہیں اور زیادہ تر پنشنرز کو مہینوں گزرنے کے باوجود پنشن نہیں ملتی۔
کراچی یونیورسٹی اور کے ایم سی میں تو کرپشن کی انتہا ہو چکی ہے۔ پاکستان سپریم کورٹ کے ریمارکس، فیصلے اور کرپٹ افسران کو ملازمت سے نکالنے کے حکم کے باوجود انھیں بحال کیا گیا اور بہت سے فیصلوں پر عملدرآمد نہیں ہوا اور اس وقت بھی یہ اعلیٰ افسران نہ صرف اپنے عہدے پر براجمان ہیں بلکہ اربوں روپے کی کرپشن کر رہے ہیں۔ 12 مئی کے قاتلوں کو ابھی تک کوئی سزا نہیں دی گئی اور اب تک یہ نہیں پتہ چلا کہ وکیلوں کو کس نے جلایا، کراچی بار کے سابق نائب صدر کامریڈ راجہ ریاض ایڈووکیٹ کے قاتل بھی ابھی تک گرفتار نہیں ہو پائے۔