بوتل کا ڈھکن

آج کل ایک بار پھر دبنگ کے ہیرو کی طرح ذوالفقار مرزا مارکیٹ میں چھائے ہوئے ہیں


انیس منصوری February 18, 2015
[email protected]

MUZAFFARGARH: عام محاورہ یہ ہے کہ بوتل کے اوپر ڈھکن لگایا جاتا ہے لیکن یہاں کے حکمرانوں کو داد دینی پڑے گی جو ڈھکن کے نیچے بوتل لگانے کے ماہر ہیں۔ بوتل کے سائز کو دیکھتے ہوئے ڈھکن بنایا جاتا ہے مگر ان پر صدقے جائیے جو پہلے ڈھکن تیار کرتے ہیں اور اُس کے بعد بوتل۔ اس لیے یہ جو بھی کارنامہ انجام دیتے ہیں وہ سارا کا سارا ڈھکن میں رہ جاتا ہے۔

کبھی بوتل کا منہ ڈھکن سے بڑا ہو جاتا ہے اور کبھی ڈھکن بوتل کو تنگ کرنے لگ جاتا ہے۔ ان کا سب سے بڑا عظیم کارنامہ ہی یہ ہے کہ آج تک ان کو بوتل کا منہ بند کرنے کے لیے کوئی راستہ ہی سمجھ نہیں آیا۔ اس لیے کبھی ہتھوڑے مارتے ہیں اور کبھی بوتل کا منہ ہی بند کر دیتے ہیں۔ اس لیے ہمارے اعلی حکام پر ڈھکن سے متعلق جتنے بھی محاورے اور خطاب ہیں وہ سب کے سب پورے اترتے ہیں۔

ہر دن بنتی ہوئی خبروں اور ہر دن لگائے جانے والے تماشے کو غور سے دیکھیں اور سمجھیں تو ساری کہانیاں بس چند جگہوں پر نام کی تبدیلی کے بعد آپ کو ایسا معلوم ہو گا کہ یہ تو کل بھی ہوا تھا۔ وہی ڈھکن اور وہی بوتل کا جن۔ اگر، مگر لیکن کے بعد ہم سب کل نیندیں اڑا دینے والی کہانیوں کو بھول کر آج کی نئی کہانی کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔

آج کل ایک بار پھر دبنگ کے ہیرو کی طرح ذوالفقار مرزا مارکیٹ میں چھائے ہوئے ہیں اور لگتا ہے سارا مال آج ہی بیچ دینگے۔ معلوم یہ ہوتا ہے کہ آج کے سپر ہیرو کو بس زبان کھولنی تھی، اب سارے مسئلے چھومنتر ہو جائیں گے اور اب ان کے بغیر کوئی ٹاک شو اور خبر نامہ مکمل نہیں ہو گا۔ مگر اس کہانی کو بھی دیکھیں تو آپ کو پورا پلاٹ پرانا ہی لگے گا۔ بس کردار بدل گئے ہیں، سب سے زیادہ باؤنسر ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت پر پھینکے جا رہے ہیں لیکن ہمیشہ میڈیا میں سرگرم رہنے والی دونوں جماعتیں کیوں خاموش ہیں؟ کوئی یہ کہے کہ وہ لا علم ہیں تو یہ آج سب سے بڑا جھوٹ ہو گا۔

دونوں جماعتیں جس بات کو مان رہی ہیں مگر بولنا نہیں چاہتیں وہ یہ کہ دبنگ ہیرو کی انٹری کسی اسکرپٹ رائٹر نے کی ہے؟ یا وہ پرسکون نیند کے مزے لینے کے بعد خود سے اٹھ گئے ہیں۔ بند کمروں میں زور زور سے یہ ہی کہا جا رہا ہے کہ کھیل تو کچھ اور ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ اسکرپٹ رائٹر کون ہے؟ اس نے اس وقت ''سپر ہیرو '' کی انٹری کیوں کرائی ہے؟ اور آگے چل کر وہ کہانی میں کیا کردار ادا کروانا چاہتا ہے۔ یا پھر صاحب خود ہی آ کر مستقبل کی سیاست کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔

اول دلیل دینے والے یہ کہتے ہیں کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کے خلاف جو لوگ اتحاد بنانا چاہتے تھے اور جن کی طرف آصف علی زرداری نے کہا تھا ہمیں بتا دیا جائے کہ ہمارا مقابلہ کس کے ساتھ ہے۔ وہی لوگ ذوالفقار مرزا کو میدان میں اتنی شدت سے لائے ہیں۔ بظاہر ذوالفقار مرزا اس کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ سندھ کی بھلائی اور قوم کے دکھ کی وجہ سے میدان میں اترے ہیں۔

دوسری طرف ایم کیو ایم ہے۔ کیا ایم کیو ایم بھی یہی سوچتی ہے کہ ان کی نوک جھونک چند دن قبل تک جن لوگوں سے تھی انھوں نے ہی مرزا کو انٹر کرایا ہے؟ یا پھر ایسا نہیں ہے؟ ایم کیو ایم کی اس حوالے سے خاموشی بڑی معنیٰ رکھتی ہے۔ یا پھر یہ کچھ دبے ہوئے شعلے تھے جو خود ٹھنڈے ہو جائیں گے۔ ایم کیو ایم نے پچھلی بار کہا تھا کہ پیپلز پارٹی اعلان کرے کہ ان کا مرزا سے تعلق نہیں تو کیا اب اس کو یہ کہنے کی ضرورت نہیں؟ ایم کیو ایم یہ بات جان چکی ہے کہ پی پی پی، مرزا صاحب کو الوداع کہہ چکی ہے؟

آئیے یہ تو ہو گئی دو جماعتوں کی صورت حال جو چند سوالات کے تالے کھول چکی ہے مگر اپنے لبوں کو ''سی'' کر وہ یہ دیکھنا چاہتی ہے کہ کھیل اتنا ہی آسان ہے یا پھر اس کے پیچھے موجود کھلاڑی نے اپنے چہرے کو کئی خول میں چھپا رکھا ہے۔ جیسے میں نے کہا تھا کہ کھیل پرانا ہی ہے بس ہر بار اس میں ناموں کو تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ یا پھر بس چند مہروں کی پوزیشن بدل دی جاتی ہے اور کبھی کبھی ہم اپنے فرمانبردار بیٹے کو اوپننگ کے لیے بھیج دیتے ہیں۔ کسی کو تو قربان ہونا ہوتا ہے۔

یہ گنے کے کاشتکاروں کے ساتھ پہلی بار تو نہیں ہو رہا جب طاقت کے بل پر ان کی کمائی کو نصف کر کے کچھ لوگ اپنی چینی کو میٹھا کرتے ہیں۔ نا ہی کسی کو پہلی بار شوگر ملیں دی گئی ہے سندھ میں یہ ملوں کی کہانی ہر پانچ سال سے دس سال کے بعد اسی طرح دہرائی جاتی ہے کبھی ایک آ کر قبضہ کرتا ہے تو کبھی دوسرا۔ جس نے کل کیا تھا اس کے ساتھ آج کیا ہو رہا ہے، سندھ کے باسیوں کے لیے اس میں نیا کچھ نہیں ہے جن کے لیے نیا ہو رہا ہے انھیں اب ہر طرف سے اپنے کانوں میں العطش العطش کی آوازیں آ رہی ہیں۔ اس وقت شوگر ملوں کا ذکر کیوں چلا ہے یہ بات سارے میٹھے لوگ جانتے ہیں۔

میں نے اپنے پچھلے کالم میں لکھا تھا کہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کو اپنے درمیان ہونے والے مذاکرات سے زیادہ زیر زمین ہونے والے تعلقات کی فکر ہے اور اسی کالم کے بعد مرزا صاحب کی دبنگ ''انٹری'' ہوئی ہے۔ میری ناقص معلومات کے مطابق گزشتہ دنوں ہماری زیر زمین مذاکرات کی کھچڑی پک چکی ہے اور اب چند اور لفافے نہیں کھولے جائیں گے۔ پچھلے ایک مہینے میں کئی پرانی فائلوں کو جھاڑا گیا تھا اب اس کا سلسلہ چند مہینوں کے لیے موخر ہونے والا ہے۔ بندوقوں کا زنگ اتار کر دیوار پر سجایا گیا ہے۔

سندھ سے آیندہ دنوں مصالحہ کم ملے گا اس لیے اگلا کالم پنجاب پر لکھیں گے۔ کیونکہ ایک بار یونس خان نے اوپننگ کر لی اب کسی اور پر تجربہ کرنا ہے، ابھی پورا ٹورنامنٹ باقی ہے اس لیے ہر روز میچ ہو گا۔ ایک لمبا میچ سندھ کا تو اگلہ لمبا میچ پنجاب کا۔ خیر کہنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ ٹینشن مت لیں سیاست میں یہ معمول کی کارروائی ہے۔ جسے ہم دوستانہ فائرنگ کا تبادلہ کہتے ہیں اس کی زد میں ایک دو لوگ تو آتے ہیں۔ یعنی دوستانہ فائرنگ معمول کی کارروائی ہے جس کا حاصل آخر میں صفر ہی ہو گا۔ تو کیا کہانی یہاں آ کر رُک جائے گی؟

نا تو اس کے کردار کہانی روکنا چاہتے ہیں اور نہ ہی اس کے پروڈیوسر کو کہانی ختم ہونے میں دلچسپی ہے۔ الیکشن کے بعد آپ حالات کو ترتیب دیں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ یہاں پر صوبوں، جماعتوں، گروپس پر مرحلہ وار مشکل وقت آیا یا نازل کیا گیا، زرداری صاحب نے کئی معاملات کی اٹھان کو نازک ہونے سے پہلے روک لیا یا روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

جو تیر کئی مہینوں سے کمان میں لگے تھے انکو کھینچا جا چکا تھا وہ بس ترکش سے نکلنے والے تھے کہ ایک دم شور مچا دیا گیا، حملہ آور محتاط ہو گئے۔ مگر تعاقب جاری ہے۔ ان حالات میں ایک مضبوط سیاسی رابطے نے کئی طوفانوں کو آنے سے پہلے روک دیا۔ اب جب تھوڑی دیر سانس لینے کو ملی ہے تو مہربانی فرما کر لوگوں پر رحم کیجیے۔ کب تک خالی دلاسے، ہمارے بچوں کو سلاتے رہیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں