ہے کوئی جواب
آج دنیا کے سامنے ارسلان افتخار کا ماضی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے
کسی بھی مہذب معاشرے میں فرد کا باہمی تعلق اس معاشرے کے اتفاق رائے سے تیار کیے گئے آئین سے ہوتا ہے۔ ورنہ آئین سے ماورا معاشرے جنگل کے قانون کے تحت زندگی گزارتے ہیں جس میں ''طاقت ہی سچائی ہوتی ہے'' والی ضرب المثل صادق آتی ہے۔ آئین کا احترام ہی معاشرے کو تہذیب کی سمت گامزن کرتا ہے اور آئین شکنی کسی بھی معاشرے میں اچھی نظروں سے نہیں دیکھی جاسکتی ہے جہاں ''کرامویل'' جیسے آئین شکن کو اپنی طبعی موت مرنے کے بعد کئی برسوں کے بعد آئین شکنی کے جرم میں علامتی پھانسی دی گئی۔ بات صرف علامتی پھانسی یا چند ہڈیوں کو علامتی پھانسی لگانا نہیں تھی بلکہ آئین کا تحفظ ادا کرنے کے بنیادی فریضے کے تحت کرامویل جیسے شخص کو جس نے بادشاہت کا تختہ الٹا اسے علامتی پھانسی دینا مستقبل کے لیے آئین کا احترام اور تقدس برقرار رکھنے کا ایک کار ہائے نمایاں تھا۔
ہمارے ملک میں جس طرح آئین سے کھلواڑ کیا جاتا رہا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ گیارہ سالہ آمریت کی بدترین نشانی جنرل ضیا نے تو کھلے عام کہا کہ آئین کیا ہے؟ چند صفحات کا ایک چیتھڑا جسے میں کسی بھی وقت پھاڑ سکتا ہوں۔ پاکستان کے ذرائع ابلاغ نے دبائو کے باوجود ڈکٹیٹر کے اس بیان کو قابل برداشت سچائی کی حد تک عوام تک پہنچایا کیوں کہ اس بیان سے آئین کی بے حرمتی عیاں ہوتی ہے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ آئین توڑنے والے کی کیا سزا ہونی چاہیے؟ اس کی ایک بڑی روشن مثال جنرل مشرف کا اقتدارپر براجمان ہونا تھا۔
جب مشرف نے نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹا تو اُسی آمر سے معاہدہ کرکے نواز شریف ملک سے باہر چلے گئے۔ مانا کہ صدر پاکستان کو آئین اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ کسی کی سزا معاف کردیں اور صدر نے قانونی طور پر نواز شریف کی سزا معاف کی لیکن نواز شریف نے اپنی رہائش کے لیے کس طرح غیر آئینی مطالبات تسلیم کیے کہ وہ دس سال تک میڈیا کا سامنا نہیں کریں گے۔ ملک سے باہر رہیں گے اور سیاست میں فعال کردار ادا نہیں کریں گے لیکن انھوں نے اس غیرآئینی معاہدے کی پاسداری نہیں کی۔ اول تو انھیں یہ مطالبات تسلیم نہیں کرنے چاہیے تھے اگر جاں بخشی کے طور پر معاہدے کر لیے تو انھیں توڑنا نہیں چاہیے تھا کیوں کہ موصوف کی نگاہ میں آئین کی کوئی اہمیت اور عزت نہیں۔
دوسری جانب نظر دوڑائیں تو ''سوموٹو ایکشن'' کی تلوار صرف ایک اداکارہ کی تحویل سے شراب کی بوتل برآمد ہونے پر چلتی ہے۔ کیا وہ تلوار اس وقت زنگ آلود ہوجاتی ہے جب صدر کے عہدے کے لیے پرویز مشرف کو وردی سمیت اس عہدے کے انتخاب کی اجازت دی گئی۔ مسٹر ''سوموٹو'' نے ہی ایل ایف او کے تحت ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے تمام غیر آئینی اقدامات کو تحفظ دیا۔ کیا کوئی بندۂ خدا پوچھ سکتا ہے کہ اس کی آئین میں کیا سزا ہے۔ این آر او کے آٹھ ہزار مقدمات میں صرف ایک مقدمے کو جواز بنایا جاتا ہے۔ دنیا کا ماضی بھلا کر پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف بنائے گئے جھوٹے مقدمات جو ثابت بھی نہ ہوسکے اور اس میں پارٹی رہنما نے سزا بھی کاٹی۔ کیا آئین میں اس سزا کا مداوا کرنے کے لیے ''سوموٹو'' ایکشن کیوں نہیں لیا جاتا۔
آج دنیا کے سامنے ارسلان افتخار کا ماضی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ جس شخص نے ایم بی بی ایس کی تعلیم کے بعد ایک ڈاکٹر کے فرائض انجام دینے تھے وہ بلوچستان کے محکمہ داخلہ میں اپنی تعیناتی کرا لیتا ہے پھر کون سی آشیرباد اسے حاصل ہوتی ہے کہ وہ ایف آئی اے جیسے ادارے میں اپنی تبدیلی کراتا ہے پھر محکمہ پولیس میں اے ایس پی کی ٹریننگ کرنے لگتا ہے کیا ارسلان افتخار اتنی صلاحیتوں کا مالک ہے یا کوئی اثر و رسوخ استعمال کرتا ہے؟ آئین میں اس حرکت کے متعلق کوئی شق موجود ہے ان حالات میں ''سوموٹو'' کی تلوار میان میں ہی خاموش پڑی رہتی ہے۔
آج بلوچستان کے حالات کی سنگینی پر تو موصوف ''سوموٹو'' کافی پریشانی نظر آتے ہیں مگر جب چیف جسٹس کے عہدے پر براجمان تھے تو اس وقت اکبر بگٹی کی شہادت ہوئی تو سوموٹو ایکشن کی تلوار کا دستہ ٹوٹ تو نہیں گیا تھا۔
دنیا کی خبر رکھنے والے جناب کو اپنے ہی گھر کا حال پتہ نہیں تھا کہ ان کا ''ولی عہد'' راتوں رات ارب پتی کیسے بنا؟ پاکستانی قوم ان باتوں پر بھی اپنی آنکھوں میں سوالیہ نشان رکھتی ہے۔
اور تو اور پی سی او پر جسٹس حامد خان اور جسٹس سعید الزماں صدیقی نے تو اصولی مؤقف اختیار کرتے ہوئے حلف نہیں اٹھایا لیکن موصوف نے اپنی نوکری پکی کرنے کے لیے سکوں کی جھنکار پر تھرک اٹھے۔ عوام کے معصوم ذہن میں ایک سوال اٹھتا ہے کہ دو فریقوں میں صرف ایک حق پر ہوتا ہے دوسرا باطل پر اگرجسٹس حامد خان اور جسٹس سعیدالزماں صدیقی حق پر تھے پی سی او حلف اٹھانے والے دوسرے باطل کے حلیف ہوں گے۔ پھر پی سی او کے بقیہ جج صاحبان کو فارغ کیوں کیا گیا؟ ہے کوئی جواب؟...
(مصنف بحیثیت وزیر اطلاعات حکومت سندھ اپنی ذمے داریاں نبھا رہے ہیں)