عوام نے کیا پریشان عوام کو

اگر کوئی اس غلط فہی میں ہے کہ عوام کو پریشان کرکے حکمران طبقے کو مجبور کرلے گا تو یہ خام خیالی کے علاوہ کچھ نہیں۔

بدقسمتی سے احتجاج کے سبب نہ کوئی حکومتی فرد پریشان ہوا نہ ٹریفک میں پھنسا، لیکن اگر کوئی پریشان ہورہا ہے تو وہی پسی ہوئی عوام جو خود دہشت گردی کا شکار ہے۔ فوٹو: فائل

گزشہ چند برسوں کے دوران پاکستان میں خودکش حملوں کا سلسلہ ہے کہ روکنے اور تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔ جن کا اب تک ہزاروں بے گناہ انسان نشانہ بن چکے ہیں۔ میرے علم کے مطابق ابھی تک تخریب کاری پر مبنی ایسے حملوں کی پاداشت میں صرف پرویز مشرف حملہ کیس کے مجروموں کو پھانسی دی گئی ہے جبکہ پاکستان کے باقی لاکھوں متاثرین تاحال انصاف کے منتظر ہیں۔

بعض سانحات کے متاثرین کے ساتھ حکومتی ہمدردی کے تحت کچھ مالی معاونت کی گئی جبکہ کچھ ایسے ہیں کہ جن کا کوئی پرسان حال نہیں۔ ایسے لوگوں کی کہیں کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔ پھر وہ انصاف کے لیے دربدر ٹھوکریں کھاتے ہیں یا حکومتی ایوانوں تک اپنی بات پہنچانے کے لیے ہڑتالوں اور احتجاج کا سہارا لیتے ہیں۔

اسی طرح کا ایک احتجاج گزشتہ روز صوبہ سندھ میں بھی رکارڈ کروایا گیا جہاں سانحہ شکارپور کے متاثرین نے اپنے مطالبات منوانے کے لیے شکارپور سے کراچی تک مارچ کیا۔ مارچ کے شرکاء منگل کو کراچی پہنچے۔ اس موقع پر حکومت نے چابک دستی سے سڑکیں کنٹینر لگاکر بند کردیں۔ یعنی حکومت مطالبات پر غور کرنے کے بجائے مظاہرین کو یہ اشارے دے رہی ہے جناب آئیے آئیے ہم قاتلوں کو گرفتار نہیں کرسکتے تو کیا ہوا آپ کے احتجاج کے لیے انتظامات تو کرہی سکتے ہیں نا۔ احتجاج کے باعث کراچی کو اندورنِ سندھ سے ملانے والی مرکزی قومی شاہراہ کے علاوہ شہر بھر میں کئی گھنٹوں تک ٹریفک جام رہا۔ جس کے باعث دو کروڑ آبادی پر محیط شہر کی تقریباً 30 فیصد سے زیادہ آبادی متاثر ہوئی۔ ٹریفک جام کا فائدہ اُٹھا کر کئی علاقوں میں گاڑیوں میں لوٹ مار کی گئی اور لوگوں کو ان کے موبائل قیمتی اور نقدی سے بھی محروم کردیا گیا۔ رہی بات اس پریشانی اور اذیت کی تو اِس کو صرف وہی محسوس کرسکے گا جس پر یہ گزری ہے اور اس بات کا کسی کو کوئی غم نہیں۔

یہ تحریر درحقیقت اُس بے بس عوام کی جانب سے ایک اظہارِ خیال ہے جو مسلسل احتجاج اور مظاہرے کرنے والے اور حکومت کے درمیان چکی کے دوپاٹوں کی مانند پس رہی ہے۔ حکومت اور ارباب اختیار لوگوں کے لیے یہ عرض ہے کہ خدارا پاکستان میں بسنے والوں کو کیڑے مکوڑوں کی نظروں سے دیکھنا چھوڑدیں۔ انصاف، امن اورحقوق ہر پاکستانی کا حق ہے۔ ان سے زندگی کی بنیادی ضروریات کو نہ چھینا جائے۔ اگر کسی کے ساتھ ناانصافی ہورہی ہے تو اس کے لیے زبانی بیانات سے ہٹ کر عملی اقدامات کی جانب آئیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ دھرنے، احتجاج اور ہڑتالیں حکومتی بے حسی کا ردعمل ہیں۔ دوسرے لفظوں میں کہا جائے تو ہر گز بے جا نہ ہوگا کہ حکومت خود لوگوں کو سڑکوں پر نکلنے پر مجبور کرتی ہے کہ ہم نے کچھ نہیں کرنا، تم جس حد تک جاسکتے ہو جائو۔


لیکن دوسری جانب سوچنے کی بات دھرنوں اور مظاہروں والوں کے لیے بھی ہے۔ سب اہل پاکستان کی ہمدردیاں ان لوگوں کے ساتھ ہیں جو وطن عزیز میں ہونے والے کسی بھی سانحہ سے متاثر ہوئے ہیں۔ لیکن کیا اُن کے دھرنے اور مظاہروں کے نتیجے میں ہسپتال پہنچنے کے لیے ایڑیاں رگڑنے والے، ٹریفک میں کئی گھنٹوں تک پھنسے رہنے والے یا اس دوران ڈاکووں کی لوٹ مار کا شکار ہونے والوں میں سے کوئی بھی ان سانحات میں ملوث ہیں؟ کیا عوام کے لیے مسائل اور پریشانیاں کھڑی کرنے سے شکارپور اور پشاور حملوں جیسے واقعات رک جائیں گے؟ اِس طرح کہیں ایسا نہ ہو کہ لوگوں کی ہمدردیاں جو متاثرین کے ساتھ ہیں ان میں بھی کمی آجائے۔

میرے خیال میں کل یا آج صدر، گرومندر، ایم اے جناح روڈ، شارع پاکستان، آئی آئی چندریگر روڈ اور دیگر کسی بھی جگہ پر ٹریفک جام میں کوئی وزیر نہیں پھنسا ہوگا۔ کسی ایم این اے، ایم پی اے کے گھر پر اِن دھرنوں کے باعث کوئی پریشانی پیدا نہیں ہوئی ہوگی۔ پھر کوئی حکومت ایسے احتجاج سے کیوں دباو میں آئے گی۔ وہ تو خواب خرگوش کے مزے اڑاتے رہیں گے کہ چلو چند دن کے لیے اب ایک نئی سرگرمی شروع ہوگئی ہے۔ اگر اس احتجاج سے پریشانی ہورہی ہے تو اُسی پسے ہوئے طبقے کو جو خود دہشت گردی کا شکار ہے۔ جو خود غیر محفوظ ہے۔ جس کے لیے ایک دن کاروبار بند ہونا گھر میں فاقے کا سبب بن سکتا ہے۔ اگر کوئی اس غلط فہی میں ہے کہ عوام کے لیے مسائل پیدا کرکے وہ حکمران طبقے کو کسی عمل کے لیے مجبور کرلے گا تو یہ خام خیالی کے علاوہ اور کچھ نہیں۔

اگر من حیث القوم اسلامی تعلیمات کو سامنے رکھیں تو اس تناظر میں صرف دو باتوں کا ذکر کروں گا۔ وہ بات میری نہیں بلکہ محسن انسانیت اور ہم سب کے رہبر و رہنماء محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین ہیں۔ پہلا فرمان نبوی یہ ہے کہ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے محفوظ رہیں اور دوسرا فرمان ذی شان یہ ہے کہ ایمان کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ راستے سے کسی دوسرے کو تکلیف دینے والی چیز ہٹادی جائے۔

کراچی اور ملک کی موجودہ صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے آپ کو مسلمان و مومن کہنے والے صرف اس بات کو سوچ لیں کہ ان کے ہاتھ و زبان سے کتنے لوگ محفوظ ہیں اور عوام کی سہولت کے لیے ہم ان کے راستوں کی مشکلات دور کررہے ہیں یا مزید کھڑی کررہے ہیں۔ اگر ان دو باتوں پر عمل کرلیا جائے تو ملک میں کافی حد تک ایک دوسرے کو ایذارسانی کا عمل ختم ہوجائے گا۔ آخر میں صرف اتنا کہوں گا
کرو مہربانی تم اہل زمین پر
خدا مہرباں ہوگا عرشِ بریں پر

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے ریویو لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story