سیلفیز کا نشہ سر چڑھ کر بولا

اگر پتا ہوتا کہ شاہین ایسی پرواز کے ساتھ اڑیں گے تو ہم گزشتہ روز ویلنٹائن ہی منا لیتے.

مجھے میچ دیکھنے کا کوئی خاص شوق تو نہیں رہا، مگر جب بھی بھارت اور پاکستان آمنے سامنے ہوتے ہیں تو دل میں ایک کسک سی پیدا ہوتی ہے اور پوری قوم کی توجہ اس میچ کی جانب مبذول ہوجاتی ہے جبکہ حب الواطنی کا تقاضا بھی ہے کہ اپنے ملک کو سپورٹ کیا جائے۔

خیر یہ تمام باتیں تو اپنی جگہ لیکن اس بار ورلڈ کپ کے موقع پر پڑوسی ملک کی جانب سے ایک اشتہار بنایا گیا جس میں یہ دکھایا گیا تھا کے ایک لڑکا اپنی جوانی سے لے کر بوڑھاپے تک پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والے ہر ورلڈکپ میں اس اُمید کے ساتھ میچ دیکھتا رہا کہ اب پاکستان یہ میچ جیتے اور وہ خوشی میں پٹاخے پھاڑے اور آتش بازی کرے لیکن وہ لڑکا جوان سے بوڑھا ہوگیا لیکن یہ موقع نہ آیا اور اللہ بھلا کرے ہمارے شاہینوں کا کہ اس بار بھی پٹاخے پھاڑنے کے لیے راہیں ہموار نہ کرسکے۔

اس اشتہار کا سوشل میڈیا پرآنا تھا کہ انڈیا کے خلاف ہماری قوم میں وہ غصہ بھر آیا جس کی مثال شاید کم ہی ملے۔ ہم نے بھی دل و جان سے یہی سوچا تھا اس بار تو کرکٹ کا یہ معرکہ شاہین ہی جیتیں گے، ارے ارے رکیں رکیں! دیکھیں بڑے بوڑھے کہتے ہیں جو محنت کرتا ہے اس کو ثمر ملتا ہے۔ محنت تو ہماری ٹیم نے بھی بہت کی لیکن ہاں سیلفیز لینے میں۔ ارے بھیا کیا بتائیں کبھی احمد شہزاد ہری بھری گھاسوں میں شاہد آفریدی کے ساتھ لیٹے ہوئے سیلفی لیتے نظر آئے تو کہیں پوری ٹیم ایک ساتھ کھڑی یہ نیک کام انجام دے رہی تھی اور تو اور جب سب ہی سیلفیز کے نشے میں چور تھے تو کپتان صاحب کیوں کر پیچھے رہ جاتے لہذا انتہائی سنجیدہ صاحب جو بہت ہی کم مسکراتے ہیں یعنی مصباح الحق صاحب نے بھی ہنستے ہوئے اپنی سیلفی لے ہی ڈالی۔



فوٹو؛ ٹوئیٹر



فوٹو؛ ٹوئیٹر

یہ تمام باتیں اپنی جگہ، لیکن اس بار تو پاکستان کی وہ قوم جو سوشل میڈیا پر ہی ایکٹو رہتی ہے اُس کو امید تھی کہ بھارت کی جانب سے بنائے جانے والے اشتہار کا بدلہ ضرور بھارت کو ہرا کر لیا جائے گا۔ لہذا جونہی میچ کا دن قریب آنے لگا ہر کوئی ایک ہی بات کہتے ہوئے نظر آیا کہ شاہین وہ کام کریں گے کہ دنیا دیکھے گی، ویسے آپس کی بات ہے ہوا بھی کچھ ایسا ہی!

ہمارے ایک دوست طالب صاحب جو چند ماہ قبل آسٹریلیا سے کراچی آئے تھے انہوں نے تو حد ہی کر دی تمام دوستوں احبابوں کو اپنے خرچے پر پاکستانی ٹیم کی ٹی شرٹس دلائی اور وعدہ کیا کہ میچ والے دن ناشتے میں سب دوستوں کو 25 انڈوں کا آملیٹ کھاؤں گا اور دن میں بیف کا یخنی پلاو اور پھر جب پاکستان میچ جیت جائے گا تو رات کو سب کو کہیں اچھی جگہ کا کھانا بھی کہلاوں گا۔ آخر کار وہ دن بھی گیا جب یہ معرکہ ہونا تھا میچ شروع ہونے سے پہلے ہی آسٹریلیا کا وہ گراونڈ جہاں یہ معرکہ ہونا تھا 45ہزار شائقین کرکٹ سے بھر گیا۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ایک ارب کے قریب لوگوں نے یہ مقابلہ ٹی وی اسکرینوں پر دیکھا۔

یہاں ہمارے شہروں میں بڑی بڑی اسکرینیں لگیں، عوام اتوار کا دن ہونے کے باوجود صبح اس طرح اٹھی ہوئی تھی جیسے ابھی عید کی نماز پڑھنے جانا ہے۔ چونکہ میرا پسندیدہ کھیل بچپن ہی سے ہاکی اور فٹبال رہا ہے لیکن اس بار نہ جانے کیوں قوم کے اندر یہ جذبہ دیکھ کر دل میں جوش و ولولہ پیدا ہوگیا کہ ہم بھی صبح اٹھ کے میچ دیکھنے کے لئے اپنے عزیز دوست طالب کے گھر پہنچے، جس وقت میں نے اپنے دوست کے گھر کا رخ کیا تو تقریباً ہر گھر سے ہی ٹاس ہونے اور ٹاس ہارنے کے بعد نظامت کرنے والوں کا تجزیہ و تبصرہ صبح صبح یوں سنائی دے رہا تھا جیسے کوئی قیامت خیز جنگ ہونے والی ہے۔ ہم بھی تیز تیز قدم بڑھاتے ہوئے جناب کے گھر پہنچے تو دیکھا کہ طالب صاحب 25 انڈوں کا بہترین قسم کا آملیٹ لے کر آئے ہوئے ہیں جسے ہمارے سب دوست احباب نوش فرما رہے تھے ۔

ہم بھی ٹک ٹکی باندھ کر ایڈیلیڈ میں ہونے والے میچ کو دیکھنے لگے بھارت نے کیونکہ ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کرنے کا فیصلہ کیا تھا لہذا بالنگ پاکستان کو کرنی تھی میچ دیکھنا شروع کیا ہی تھا کہ بھئی بھارت کے پہلے آوٹ ہونے پر تو خوشی میں ایسا شور مچایا گیا جیسے کسی کے بی کام کے پیپر میں ایک ہی بار میں سارے کلئیر ہوگئے ہوں۔ بس پھر تو یقین اپنی معراج پر پہنچ گیا کہ پاکستان میچ جیتے گا لیکن ہم کیا کریں ان اکمل برادرز کا جنہیں کیچ پکڑنے کی پریکٹس کرنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ ارے بھائی سیلفیز جو لینی تھیں، انہوں نے ویرات کوہلی کا ایک عدد کیچ جو چھوڑا تو ہائے ئے ئے دل پر ایسی ضرب لگی کے کیا بتائیں۔


کوہلی صاحب نے تو پھر 126 گیندوں پر 107 بنا ڈالے۔ پھر تو وہ 25 انڈوں کا آملیٹ بار بار معدے سے نکل کر جیسے منہ کو آنے لگا۔ بھئی ٹینشن جو تھی، ٹینشن کم کرنے کے لئے ہم نے سوچا کیوں نہ کسی کا تجزیہ سنا جائے تو ہم نے چینل بدلا تو سابق کھلاڑی شعیب اختر کا دیدار ہوا، لیکن کیا کہنے ان کی حب الوطنی کے، موصوف فرما رہے تھے کہ پاکستان کی مینجمنٹ کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ اس نے سہیل خان کو ٹیم میں لیا، جناب کا یہ تجزیہ دینا ہی تھا کہ سہیل خان نے 5 وکٹیں لے ڈالیں۔ اس کے بعد اس بات کا تو اندازہ بادرجہ اتم ہوگیا کہ شعیب اخترکو واقعی آرام کی ضرورت ہے، یہ تجزیہ و تبصرہ ان کے بس کی بات نہیں ہے۔

خیر میچ جاری رہا اور بھارت نے 7 وکٹوں کے نقصان پر 50 اوورز میں 300 بنا ڈالے۔ اس وقت تک تقریباً ظہر کی نماز کا وقت ہوگیا تھا، ہم نے کہا اب تو دعا ہی بچا سکتی ہے، لہذا ہم نے مسجد کا رخ کیا، وہاں یہ دیکھ کربڑی خوشی ہوئی کے نوجوانوں کی کثیر تعداد اس طرح مسجد کی طرف بھاگتے ہوئے ایسے آرہی تھی جیسے سخت گرمی کا روزہ رکھا ہو اور مسجد میں افطاری کا بہترین انتظام ہو۔ عوام نے نماز ظہر ادا کی اور خوب دعائیں کر کے واپس ان مقامات پر پہنچ گئی جہاں میچ دیکھا جارہا تھا۔

ہم بھی نماز پڑھ کر طالب صاحب کے گھر پہنچے جہاں پر پورا گھر یخنی پلاو کی خوشبو سے مہک رہا تھا، طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے ان چیزوں سے پرہیز ہے تو ہم نے بس خوشبو سے ہی کام چلایا۔ پاکستان نے بیٹنگ شروع کی اور یونس بھائی 6 رنز بنا کر آوٹ ہوئے، آفریدی صاحب سے کچھ اُمید تھی انہوں نے بھی 22 رنز بنا کر عوام کو مایوس کیا، بس پھر کیا تھا یہ میچ ایڈیلیڈ کے گراونڈ میں تو جاری تھا مگر یہاں لوگوں کی دلجسپی بتدریج کم سے کم تر ہوتی چلی گئی۔ اکمل صاحب جو کالے رنگ کے گلاسس لگا کر اپنی سیلفی کھینچنے کے ماہر سمجھے جاتے ہیں وہ بغیر کوئی رن بنائے واپس لوٹ گئے، شاید ان کو کوئی سیلفی لینا یاد آگئی ہو!



فوٹو؛ اے ایف پی

سب احباب کے چہرے اس پودے کی مانند مرجھانے لگے جسے دس دن تک پانی نہ دیا گیا ہو۔ کراچی میں ڈیفنس، کلفٹن، گلشن، پی سی ایچ ایس سوسائٹی، لاہور میں ٹھوکر نیاز بیگ، ڈیفنس، فیصل آباد میں گھنٹہ گھر اور اسی طرح ملک کے مختلف حصوں جہاں جہاں عوام میچ کو بڑی بڑی اسکرینوں پر دیکھ رہی تھی وہاں رونا پیٹنا اور کہرام مچ گیا۔ ہم بھی مایوس ہوگئے۔

اور پھر جوں ہی پاکستانی ٹیم 224 رنز بنا کر ڈھیر ہوئی تو عوام سوگ کے عالم میں ڈوب گئی۔ پریشانی، ڈیپریشن اس طرح دماغ پر ہاوی ہوگیا جیسے دنیا ہی ویران ہوگئی ہو۔ ہم نے تومیڈیا پر یہاں تک دیکھا کے لوگوں نے اپنی ٹی وی سیٹ تک توڑدیئے، تو کوئی اس قدر ذہنی اذیت کے عالم میں آیا کے بے ہوش ہی ہوگیا۔ ایک صاحب کا کہنا تھا اگر پتا ہوتا کہ شاہین ایسی پرواز کے ساتھ اڑیں گے تو ہم گزشتہ روز ویلنٹائن ہی منا لیتے، یعنی یہ بھی ظاہر ہوا کہ صرف میچ کی خاطرعوام نے ویلنٹائن جیسا دن بھی نہیں منایا۔



فوٹو؛ رائٹرز

خیر درد دل کہاں تک بیان کروں برادشت کرتے ہوئے اٹھے اور آنسوؤں کے سمندر کو پلکوں میں دبائے گھر کی جانب روانہ ہوگئے، کیونکہ اب کوئی تبصرہ اور تجزیہ کرنے کی ہمت نہ تھی۔ اس بار تو عوام نے یہ بھی نہیں کہا کہ''تم جیتو یا ہارو ہمیں تم سے پیار ہے'' ورنہ یہی سن کر تھوڑا حوصلہ اور بے چین دل کو قرار آجاتا۔ اب بات یہ ہے کہ میچ دیکھنے کی امنگ ہمیشہ کے لئے ختم ہوگئی۔ لیکن سلامت رہیں وہ کھلاڑی جن کا سوچنا ہے کہ؛
چاہے میچ گڑھے میں جائے
بس میری سیلفی بہترین آئے

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔
Load Next Story