افغانستان اور عالمی کپ دیوانے کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوا

2012ء میں افغانستان نے شارجہ میں پاکستان کے خلاف پہلا ایک روزہ بین الاقوامی مقابلہ کھیلا اورایک نئے سفر کا آغاز کیا۔


فہد کیہر February 19, 2015
افغانستان صرف پانچ سال کی جدوجہد سے ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی کرنے میں کامیاب ہوا اور یہ اِس لیے ممکن ہوا کیونکہ افغانستان نے کرکٹ کا کھیل پاکستان سے سیکھا۔ فوٹو: اے ایف پی

آسٹریلیا کے دارالحکومت کینبرا کے خوبصورت میدان منوکا اوول میں افغانستان کے کھلاڑیوں کو عالمی کپ کا پہلا مقابلہ کھیلتے دیکھنا ایک یادگار لمحہ اور ایک دیوانے کے خواب کی تعبیر تھا۔ 2008ء میں بین الاقوامی کرکٹ کونسل کے ڈویژن 5 میں موجود افغانستان صرف پانچ سال کی جدوجہد سے ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی کرنے میں کامیاب ہوا۔افغانستان نے بدترین حالات اور معاشی کمزوری کے باوجود جس تیزی کے ساتھ اتنی منازل طے کی ہیں، اس سے یہ سفر حیران کن نظر آتا ہے۔

درحقیقت افغانستان کی قومی کرکٹ ٹیم کی بنیاد اس وقت پڑھی تھی جب جب تاج ملک نے 1980ء کی دہائی کے آخر میں پشاور کے کچہ گڑھی کیمپ میں اپنے بھائیوں کے ساتھ مل کر "افغان کرکٹ کلب" تشکیل دیا تھا۔1990ء کی دہائی میں پاکستان میں کرکٹ اپنے عروج پر تھی اور افغان کرکٹ کلب پشاور کے مقامی کلبوں کے ساتھ کھیل کر اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے کوشاں تھا۔ تاج ملک اور ان کے بھائیوں کو مہاجر کیمپ کے باسی آوارہ مزاج سمجھتے اور اپنے بچوں کو ان کی پہنچ سے دور رکھتے تھے لیکن تاج کو ایک دھن سوار تھی۔ انہوں نے چند ہی سالوں میں افغانستان کو اس مقام تک پہنچا دیا کہ وہ دنیائے کرکٹ کے سب سے بڑے ایونٹ ورلڈ کپ میں شرکت کررہا ہے۔

یہ اس لیے ممکن ہوا کیونکہ افغانستان نے کرکٹ کا کھیل پاکستان سے سیکھا۔ جب کچہ گڑھی اور جلوزئی کے مہاجر کیمپوں کے باسیوں نے پاکستانی میزبانوں کو کرکٹ کھیلتے دیکھا تو وہ بھی اس کھیل کی محبت میں گرفتار ہوگئے۔ طالبان دور میں کرکٹ ہی وہ واحد کھیل تھا جس پر افغانستان میں پابندی نہیں تھی۔ نماز کی بروقت ادائیگی اور دیگر شرعی حدود و قیود کے اندر رہتے ہوئے کرکٹ کھیلنے کی اجازت تھی۔ انہی کے عہد میں افغانستان کرکٹ فیڈریشن کا قیام عمل میں آیا اور بین الاقوامی کرکٹ کونسل نے اس کی منظوری بھی دی لیکن "دلّی" ابھی دور تھی۔ افغانستان ایک اور بدترین جنگ کا نشانہ بنا اور چار پانچ سال کے بعد پاکستان کی مدد سے اپنے پیروں پر اتنا کھڑا ہوسکا کہ کسی قابل ذکر ٹورنامنٹ میں حصہ لے سکے۔

2004ء عالمی کرکٹ میں افغانستان کی آمد کا سال تھا۔ ملائیشیا میں ہونے والے ایشین کرکٹ کونسل کے اولین اے سی سی کپ میں افغانستان کے کھلاڑیوں نے شرکت کی اور عمان اور ہانگ کانگ سے سخت مقابلوں کے بعد شکست کھائی لیکن بحرین کے خلاف جیت کر بین الاقوامی سطح پر اپنی پہلی فتح حاصل کی اور پھر ملائیشیا کو شکست دے کر ٹورنامنٹ میں پانچویں پوزیشن حاصل کی۔ اس کے بعد مڈل ایسٹ کپ میں فائنل تک رسائی اور 2006ء میں دورۂ انگلستان افغان کرکٹ کی ترقی میں اہم موڑ ثابت ہوئے کیونکہ انہوں نے ٹیم کو وہ بنیاد فراہم کی جس پر وہ افغان کرکٹ کی تعمیر کرسکتے تھے۔ اسی سال افغانستان اے سی سی ٹرافی میں تیسرے نمبر پر آیا اور 2007ء میں اے سی سی ٹی20 کپ کی صورت میں اپنا پہلا ٹورنامنٹ جیتا۔

لیکن افغانستان کا حقیقی خواب عالمی کپ تک پہنچنا تھااور اس کے لیے اسے بہت طویل سفر کی ضرورت تھی۔ آئی سی سی کی ورلڈ کرکٹ لیگ کے ڈویژن 5 جیتنے کے بعد اب وہ اگلے ڈویژنز تک پہنچ سکتا تھا اور 2008ء میں جرسی میں ایک یادگار ٹورنامنٹ میں اس نے پہلا سنگ میل عبور کرلیا۔ ڈویژن چار میں افغانستان نے تنزانیہ میں کامیابی حاصل کی اور پھر ڈویژن 3 میں فتوحات کے ذریعے ورلڈ کپ کے کوالیفائنگ راؤنڈ میں جگہ بنا لی۔ ہدف تو حاصل نہیں ہوسکا کیونکہ افغانستان اختتام پر سرفہرست چار ٹیموں میں شامل نہیں تھا لیکن آئی سی سی نے افغانستان کو چار سال تک بین الاقوامی کرکٹ کھیلنے کی اجازت ضرور دی۔ جس کے بعد افغانستان نے 2009-10ء میں ہونے والا آئی سی سی انٹرکانٹی نینٹل کپ جیتا، ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2010ء کے کوالیفائرز میں کامیابی حاصل کی اور پھر 2010ء میں ایشین گیمز میں چاندی کا تمغہ حاصل کرکے روشن مستقبل کی نوید سنائی۔

2012ء میں افغانستان نے شارجہ میں پاکستان کے خلاف اپنا پہلا ایک روزہ بین الاقوامی مقابلہ کھیلا اور یوں ایک نئے سفر کا آغاز ہوا اور 2013ء میں افغانستان نے ورلڈ کرکٹ لیگ میں 14 مقابلوں میں 9 فتوحات کے ذریعے دوسری پوزیشن حاصل کی اور یوں عالمی کپ 2015ء میں جگہ بنا لی، ایک خواب جو شرمندۂ تعبیر ہوا۔

اب تک عالمی کرکٹ میں افغانستان کے اہم کارناموں میں پچھلے سال ایشیا کپ میں ٹیسٹ کھیلنے والے ملک بنگلہ دیش کو شکست دینا اور چند ماہ بعد دورۂ زمبابوے میں ایک روزہ سیریز برابر کرنا شامل ہیں اور ہمیں امید ہے کہ عالمی کپ کے دوران ہی افغانستان اپنی کارکردگی کا ایک شاندار جلوہ ضرور کرائے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے ریویو لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں