واپڈا اور الحمرا آرٹس کونسل
اگر واپڈا ادب اورتعلیمی سرگرمیوں کی طرف توجہ دیتی ہے تو یہ ایک بہت بڑا کام ہوگا
سبزہ وگل کے شہر لاہور میں پچھلے دنوں واپڈا اورالحمرا آرٹس کونسل کے اشتراک سے ایک دو روزہ کانفرنس منعقد کی گئی۔ جس کا مقصد عوام میں''واپڈا'' کے کردارکو موثر بنانے کے اقدامات تھے۔ عطاء الحق قاسمی اس کانفرنس کے روح رواں تھے۔پاکستان کے مختلف شہروں سے آئے ہوئے مہمانوں سے چیئرمین واپڈا ظفر محمود نے ان کی آرا اور سفارشات نہایت توجہ اور انہماک سے سنیں اوران پر خلوص دل سے عمل پیرا ہونے کا عندیہ بھی دیا لیکن ساتھ ہی انھیں عوام سے ایک شکایت بھی تھی کہ بجلی کے زائد بل اور لوڈشیڈنگ کا ذمے دار واپڈا کو ٹھہرانا صحیح نہیں ہے۔
کیونکہ یہ ان کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔ یہ دونوں مسئلے صوبائی اور مقامی ہیں۔ دونوں دن واپڈا کے مختلف پروجیکٹ اورآبی ذخائر پرکھل کر بات کی گئی۔آنے والے دنوں میں جن پراجیکٹ کا پرائیویٹ سیکٹر کے اشتراک سے ذکرکیا گیا۔ وہ بہت خوش آیند ہیں۔ اگر واقعی اس منصوبے پر عمل ہوگیا تو بجلی کی کمی پہ نہ صرف قابو پالیا جائے گا بلکہ وہ مہنگی بھی نہیں ہوگی۔
لیکن سب سے اہم نکات وہ تھے جن کی جانب قاسمی صاحب نے توجہ دلائی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ جس طرح واپڈا ہاکی اور فٹ بال کی سرپرستی کرکے کھیلوں کو فروغ دے رہی ہے۔ اسی طرح اسے اپنا مثبت کردار، تعلیم اور ادب میں بھی ادا کرنا چاہیے۔ اس طرح نہ صرف واپڈا علم و ادب کی سرپرستی کرکے جہالت کے اندھیروں کو دورکرسکتا ہے بلکہ عوام میں شعور اور آگہی بھی پیدا کرسکتا ہے۔ تمام شرکا نے اس تجویزکا خیر مقدم کیا بلکہ اپنی اپنی تجاویز بھی چیئرمین واپڈا کے سامنے رکھیں۔ قاسمی صاحب نے بطورخاص اس امرکا خیال رکھا کہ شرکا میں سے کوئی ایسا نہ رہ جائے جو بات کرنے اور تجاویز دینے سے محروم رہے۔
بعض شرکا نے شکایات کے دفتر بھی کھول دیے اور بہت وقت لیا لیکن انھیں نہ تو بیچ میں روکا گیا نہ ٹوکا گیا۔ کھلے دل اورکشادہ ذہن سے شکایات اور تجاویز کو سنا گیا۔ قاسمی صاحب اکثر قوت برداشت کی بات کرتے ہیں کہ لوگ دوسروں کا نکتہ نظر سننے سے احترازکرتے ہیں۔ صرف اپنی سنانا چاہتے ہیں،کسی اورکی سننا نہیں گوارا کرتے، لیکن یہاں معاملہ برعکس تھا۔ چیئرمین ظفر محمود صاحب اور عطا صاحب نے تمام شرکا کی تجاویزصبر وتحمل سے سنیں اورانھیں نوٹ بھی کیا اور عمل کا وعدہ بھی کیا۔
میں سمجھتی ہوں اگر واپڈا ادب اورتعلیمی سرگرمیوں کی طرف توجہ دیتی ہے تو یہ ایک بہت بڑا کام ہوگا، لیکن زیادہ بہتر یہ ہے کہ ہمیں فنون لطیفہ کو بھی نہیں بھولنا چاہیے۔ جہاں تک واپڈا کی سرگرمیاں اجاگرکرنے کا سوال ہے تو سب سے پہلے مندرجہ ذیل نکات کو زیرغور رکھنا ہوگا۔
(1)۔ سب سے پہلے پانی اوربجلی کی بچت اوراس کی اہمیت اجاگرکرنے کے لیے اسکولوں میں پوسٹرسازی کا مقابلہ کروایا جائے۔یہ مقابلے مقامی انتظامیہ اورآرٹس کونسلوں کے ذریعے کروائے جائیں۔ لیکن ان میں ججز اورمنتظمین کے طور پر اچھی شہرت کے حامل اساتذہ، ادیب اور صحافیوں کو نامزدکیا جائے جو تمام فیصلے میرٹ پرکرسکیں نہ کہ سفارش اور ذاتی منفعت کے حوالوں سے۔ لیکن اسکولوں کو دوگروپس میں رکھنا ہوگا۔ (الف)۔سرکاری اسکول۔(ب)۔پرائیویٹ اسکول۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ایک تیسرا گروپ بھی تشکیل دینا ہوگا جو ان غریب بچوں کے لیے ہوگا جو غربت کی وجہ سے اسکول نہیں جا پاتے یا ان کا بچپن مختلف ورکشاپ میں ہتھوڑی اور پانے اٹھانے میں گزر جاتا ہے۔
ڈانٹ پھٹکاران کا مقدر ہوتی ہے۔ وہ صرف ''چھوٹے'' کہلاتے ہیں اور اسکول جاتے بچوں کو حسرت بھری نظروں سے دیکھتے ہیں۔ان پسماندہ طبقے کے بچوں کے لیے جولکھنے پڑھنے،پوسٹرسازی یا ڈرائنگ سے دلچسپ رکھتے ہوں ان کی تخلیقات، پوسٹرز وغیرہ کسی سرکاری اسکول کے سربراہ کے ذریعے مقابلے میں شریک کی جائیں۔ ان پوسٹرز میں دکھایا جائے کہ بجلی کس طرح بچائی جاسکتی ہے اور بند بنانے کے کیا فائدے ہیں۔ تینوں کیٹگریز میں الگ الگ انعامات ہونے چاہئیں۔ انعام پانے والے بچوں کو نقد انعام اور تعریفی سند سے نوازا جائے۔
(2)۔ بچوں میں مطالعے کے ذوق پیدا کرنے کے لیے واپڈا الگ الگ شہروں میں ایسے مقابلے کرواسکتا ہے جن میں وہ بچے حصہ لے سکیں جنھیں کتابیں پڑھنے اورلکھنے کا شوق ہو۔ تینوں کیٹگریز کے بچے اپنی اپنی تخلیقات اور ان رسالوں اورکتابوں کی فہرست واپڈا کو بھیجیں جو انھوں نے پڑھی ہیں۔ یہ مقابلے بچوں میں مطالعے کی اہمیت کو اجاگر کریں گے۔ یہاں بھی مقامی ججز انتظامیہ کو ان بچوں کے نام ارسال کریں گے جنھیں انھوں نے مقابلے کے لیے باقاعدہ انٹرویو کے ذریعے منتخب کیا ہوگا تاکہ ثابت ہوسکے کہ جن کتابوں کی یا رسائل کی فہرست دی گئی ہے اس کا حقیقت سے کتنا تعلق ہے۔(3)۔واپڈا کو ایک بھرپور تجویز تقریباً تمام شرکا کی جانب سے یہ بھی دی گئی کہ ادبی رسائل کو سرکاری اشتہارات بلاتفریق فراہم کیے جائیں کیونکہ ادبی جرائد اشتہارات کی عدم فراہمی، کاغذ، پرنٹنگ اور دیگر امور کی مہنگائی کی وجہ سے جس جانکنی کے عالم میں اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہیں وہ سب پر عیاں ہے۔
بیشتر رسائل بند ہوچکے ہیں۔ اب جو سہ ماہی پرچے نکل رہے ہیں وہ بھی بالآخر ششماہی اور بعض اوقات سالانہ ہوجاتے ہیں۔ پورے ملک سے نکلنے والے ادبی جرائد و رسائل کو بلاتفریق واپڈا اشتہارات دے۔ لیکن یہ خیال رہے کہ یہ اشتہارات ''ریوڑیوں'' کی طرح نہیں بٹنے چاہئیں۔(4)۔ایک تجویز یہ بھی آئی تھی کہ ادیبوں اور شاعروں کو ''ایوارڈ'' بھی دیے جائیں۔ لیکن میں سمجھتی ہوں کہ واپڈا ان ''متنازعہ'' ایوارڈز سے دور رہے تو بہتر ہے۔ کیونکہ پاکستان میں جو ایوارڈ ادبی تخلیقات پر دیے جاتے ہیں۔ان کی حقیقت سب پہ عیاں ہے۔ خواہ کسی بینک کا ایوارڈ ہو یا کسی سرکاری ادارے کا۔ عموماً آنکھوں والے ججز اورجیوری کے ارکان ''ریوڑیاں'' ہی بانٹتے ہیں۔ کوئی کسی کاروباری ادارے کی پارٹنر شپ کے تحت پیچھے رہ کر اپنے ہی ادارے کی دو دو کتابوں کو ایوارڈ دلوا دیتا ہے۔ اور ۔۔۔۔خیر جانے دیجیے۔ تفصیل میں جائیں تو جو حقائق سامنے آئیں گے وہ بہت منفی ہوں گے ۔اس ملک میں میرٹ پر انعامات پانا محض دیوانے کا خواب ہے۔
خواہ رائٹرزگلڈ ہو،آدم جی ہو یا کوئی اور۔ من پسند کو نوازا جاتا ہے۔ ہر معاملے میں ''کچھ لو اورکچھ دو'' کا فارمولا ہی سکہ رائج الوقت ہے۔ ایسے حالات میں انعامات صرف بچوں تک محدود رکھے جائیں۔(5)۔ایک تجویز یہ بھی تھی کہ سرکاری اسکولوں کے ہونہار بچوں کو اسکالر شپ سے نوازا جائے۔ تاکہ ان کا احساس محرومی کم ہو اور وہ جو نامساعد حالات میں اپنی تعلیم جاری رکھے ہوئے ہیں وہ اسکالرشپ کے ذریعے مزید تعلیم حاصل کرسکیں۔(6)۔سرکاری اسکولوں کے بہترین اساتذہ کو بھی ان کی محنت کا ثمر ملنا چاہیے۔ محنتی اور قابل اساتذہ کو ایوارڈ دینا ایک اچھی روایت ہوگی۔ ساتھ ہی جو سرکاری اسکول بہترین نتائج دے گا اس اسکول کو بھی ایوارڈ سے نوازا جائے۔ تاکہ بچوں اور اساتذہ میں محنت کرنے کی لگن پیدا ہو۔
واپڈا چیئرمین ظفر محمود اور عطا الحق قاسمی اگر چاہیں تو ادبی رسائل کو اشتہارات کی فراہمی فوری طور پرشروع کرسکتے ہیں۔ ایک سرکلر کے ذریعے جو صبح کے اخبارات میں شایع ہو۔ ملک میں شایع ہونے والے ادبی جرائد ورسائل کی تفصیلات جمع کرلی جائیں اور پھر انھیں ان کی اشاعت اور مرتبے کے لحاظ سے اشتہارات فراہم کیے جائیں۔اشتہارات کے ساتھ یہ شرط لازمی ہوکہ وہ اشتہار حاصل کرنے کے بعد پابندی سے شایع ہوگا۔ یہ ایک بڑا کام ہوگا جو یقینا واپڈا کا نام روشن کرے گا۔
کیونکہ یہ ان کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔ یہ دونوں مسئلے صوبائی اور مقامی ہیں۔ دونوں دن واپڈا کے مختلف پروجیکٹ اورآبی ذخائر پرکھل کر بات کی گئی۔آنے والے دنوں میں جن پراجیکٹ کا پرائیویٹ سیکٹر کے اشتراک سے ذکرکیا گیا۔ وہ بہت خوش آیند ہیں۔ اگر واقعی اس منصوبے پر عمل ہوگیا تو بجلی کی کمی پہ نہ صرف قابو پالیا جائے گا بلکہ وہ مہنگی بھی نہیں ہوگی۔
لیکن سب سے اہم نکات وہ تھے جن کی جانب قاسمی صاحب نے توجہ دلائی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ جس طرح واپڈا ہاکی اور فٹ بال کی سرپرستی کرکے کھیلوں کو فروغ دے رہی ہے۔ اسی طرح اسے اپنا مثبت کردار، تعلیم اور ادب میں بھی ادا کرنا چاہیے۔ اس طرح نہ صرف واپڈا علم و ادب کی سرپرستی کرکے جہالت کے اندھیروں کو دورکرسکتا ہے بلکہ عوام میں شعور اور آگہی بھی پیدا کرسکتا ہے۔ تمام شرکا نے اس تجویزکا خیر مقدم کیا بلکہ اپنی اپنی تجاویز بھی چیئرمین واپڈا کے سامنے رکھیں۔ قاسمی صاحب نے بطورخاص اس امرکا خیال رکھا کہ شرکا میں سے کوئی ایسا نہ رہ جائے جو بات کرنے اور تجاویز دینے سے محروم رہے۔
بعض شرکا نے شکایات کے دفتر بھی کھول دیے اور بہت وقت لیا لیکن انھیں نہ تو بیچ میں روکا گیا نہ ٹوکا گیا۔ کھلے دل اورکشادہ ذہن سے شکایات اور تجاویز کو سنا گیا۔ قاسمی صاحب اکثر قوت برداشت کی بات کرتے ہیں کہ لوگ دوسروں کا نکتہ نظر سننے سے احترازکرتے ہیں۔ صرف اپنی سنانا چاہتے ہیں،کسی اورکی سننا نہیں گوارا کرتے، لیکن یہاں معاملہ برعکس تھا۔ چیئرمین ظفر محمود صاحب اور عطا صاحب نے تمام شرکا کی تجاویزصبر وتحمل سے سنیں اورانھیں نوٹ بھی کیا اور عمل کا وعدہ بھی کیا۔
میں سمجھتی ہوں اگر واپڈا ادب اورتعلیمی سرگرمیوں کی طرف توجہ دیتی ہے تو یہ ایک بہت بڑا کام ہوگا، لیکن زیادہ بہتر یہ ہے کہ ہمیں فنون لطیفہ کو بھی نہیں بھولنا چاہیے۔ جہاں تک واپڈا کی سرگرمیاں اجاگرکرنے کا سوال ہے تو سب سے پہلے مندرجہ ذیل نکات کو زیرغور رکھنا ہوگا۔
(1)۔ سب سے پہلے پانی اوربجلی کی بچت اوراس کی اہمیت اجاگرکرنے کے لیے اسکولوں میں پوسٹرسازی کا مقابلہ کروایا جائے۔یہ مقابلے مقامی انتظامیہ اورآرٹس کونسلوں کے ذریعے کروائے جائیں۔ لیکن ان میں ججز اورمنتظمین کے طور پر اچھی شہرت کے حامل اساتذہ، ادیب اور صحافیوں کو نامزدکیا جائے جو تمام فیصلے میرٹ پرکرسکیں نہ کہ سفارش اور ذاتی منفعت کے حوالوں سے۔ لیکن اسکولوں کو دوگروپس میں رکھنا ہوگا۔ (الف)۔سرکاری اسکول۔(ب)۔پرائیویٹ اسکول۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ایک تیسرا گروپ بھی تشکیل دینا ہوگا جو ان غریب بچوں کے لیے ہوگا جو غربت کی وجہ سے اسکول نہیں جا پاتے یا ان کا بچپن مختلف ورکشاپ میں ہتھوڑی اور پانے اٹھانے میں گزر جاتا ہے۔
ڈانٹ پھٹکاران کا مقدر ہوتی ہے۔ وہ صرف ''چھوٹے'' کہلاتے ہیں اور اسکول جاتے بچوں کو حسرت بھری نظروں سے دیکھتے ہیں۔ان پسماندہ طبقے کے بچوں کے لیے جولکھنے پڑھنے،پوسٹرسازی یا ڈرائنگ سے دلچسپ رکھتے ہوں ان کی تخلیقات، پوسٹرز وغیرہ کسی سرکاری اسکول کے سربراہ کے ذریعے مقابلے میں شریک کی جائیں۔ ان پوسٹرز میں دکھایا جائے کہ بجلی کس طرح بچائی جاسکتی ہے اور بند بنانے کے کیا فائدے ہیں۔ تینوں کیٹگریز میں الگ الگ انعامات ہونے چاہئیں۔ انعام پانے والے بچوں کو نقد انعام اور تعریفی سند سے نوازا جائے۔
(2)۔ بچوں میں مطالعے کے ذوق پیدا کرنے کے لیے واپڈا الگ الگ شہروں میں ایسے مقابلے کرواسکتا ہے جن میں وہ بچے حصہ لے سکیں جنھیں کتابیں پڑھنے اورلکھنے کا شوق ہو۔ تینوں کیٹگریز کے بچے اپنی اپنی تخلیقات اور ان رسالوں اورکتابوں کی فہرست واپڈا کو بھیجیں جو انھوں نے پڑھی ہیں۔ یہ مقابلے بچوں میں مطالعے کی اہمیت کو اجاگر کریں گے۔ یہاں بھی مقامی ججز انتظامیہ کو ان بچوں کے نام ارسال کریں گے جنھیں انھوں نے مقابلے کے لیے باقاعدہ انٹرویو کے ذریعے منتخب کیا ہوگا تاکہ ثابت ہوسکے کہ جن کتابوں کی یا رسائل کی فہرست دی گئی ہے اس کا حقیقت سے کتنا تعلق ہے۔(3)۔واپڈا کو ایک بھرپور تجویز تقریباً تمام شرکا کی جانب سے یہ بھی دی گئی کہ ادبی رسائل کو سرکاری اشتہارات بلاتفریق فراہم کیے جائیں کیونکہ ادبی جرائد اشتہارات کی عدم فراہمی، کاغذ، پرنٹنگ اور دیگر امور کی مہنگائی کی وجہ سے جس جانکنی کے عالم میں اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہیں وہ سب پر عیاں ہے۔
بیشتر رسائل بند ہوچکے ہیں۔ اب جو سہ ماہی پرچے نکل رہے ہیں وہ بھی بالآخر ششماہی اور بعض اوقات سالانہ ہوجاتے ہیں۔ پورے ملک سے نکلنے والے ادبی جرائد و رسائل کو بلاتفریق واپڈا اشتہارات دے۔ لیکن یہ خیال رہے کہ یہ اشتہارات ''ریوڑیوں'' کی طرح نہیں بٹنے چاہئیں۔(4)۔ایک تجویز یہ بھی آئی تھی کہ ادیبوں اور شاعروں کو ''ایوارڈ'' بھی دیے جائیں۔ لیکن میں سمجھتی ہوں کہ واپڈا ان ''متنازعہ'' ایوارڈز سے دور رہے تو بہتر ہے۔ کیونکہ پاکستان میں جو ایوارڈ ادبی تخلیقات پر دیے جاتے ہیں۔ان کی حقیقت سب پہ عیاں ہے۔ خواہ کسی بینک کا ایوارڈ ہو یا کسی سرکاری ادارے کا۔ عموماً آنکھوں والے ججز اورجیوری کے ارکان ''ریوڑیاں'' ہی بانٹتے ہیں۔ کوئی کسی کاروباری ادارے کی پارٹنر شپ کے تحت پیچھے رہ کر اپنے ہی ادارے کی دو دو کتابوں کو ایوارڈ دلوا دیتا ہے۔ اور ۔۔۔۔خیر جانے دیجیے۔ تفصیل میں جائیں تو جو حقائق سامنے آئیں گے وہ بہت منفی ہوں گے ۔اس ملک میں میرٹ پر انعامات پانا محض دیوانے کا خواب ہے۔
خواہ رائٹرزگلڈ ہو،آدم جی ہو یا کوئی اور۔ من پسند کو نوازا جاتا ہے۔ ہر معاملے میں ''کچھ لو اورکچھ دو'' کا فارمولا ہی سکہ رائج الوقت ہے۔ ایسے حالات میں انعامات صرف بچوں تک محدود رکھے جائیں۔(5)۔ایک تجویز یہ بھی تھی کہ سرکاری اسکولوں کے ہونہار بچوں کو اسکالر شپ سے نوازا جائے۔ تاکہ ان کا احساس محرومی کم ہو اور وہ جو نامساعد حالات میں اپنی تعلیم جاری رکھے ہوئے ہیں وہ اسکالرشپ کے ذریعے مزید تعلیم حاصل کرسکیں۔(6)۔سرکاری اسکولوں کے بہترین اساتذہ کو بھی ان کی محنت کا ثمر ملنا چاہیے۔ محنتی اور قابل اساتذہ کو ایوارڈ دینا ایک اچھی روایت ہوگی۔ ساتھ ہی جو سرکاری اسکول بہترین نتائج دے گا اس اسکول کو بھی ایوارڈ سے نوازا جائے۔ تاکہ بچوں اور اساتذہ میں محنت کرنے کی لگن پیدا ہو۔
واپڈا چیئرمین ظفر محمود اور عطا الحق قاسمی اگر چاہیں تو ادبی رسائل کو اشتہارات کی فراہمی فوری طور پرشروع کرسکتے ہیں۔ ایک سرکلر کے ذریعے جو صبح کے اخبارات میں شایع ہو۔ ملک میں شایع ہونے والے ادبی جرائد ورسائل کی تفصیلات جمع کرلی جائیں اور پھر انھیں ان کی اشاعت اور مرتبے کے لحاظ سے اشتہارات فراہم کیے جائیں۔اشتہارات کے ساتھ یہ شرط لازمی ہوکہ وہ اشتہار حاصل کرنے کے بعد پابندی سے شایع ہوگا۔ یہ ایک بڑا کام ہوگا جو یقینا واپڈا کا نام روشن کرے گا۔