اسکینڈل پر اسکینڈل

جو لوگ کراچی کو بچانے کا عزم صمیم رکھتے ہیں انھیں چاہیے کہ اولین اہلیت کے حامل اقدامات فوری طور پر اٹھائیں

جو کراچی میں ہوتا ہے اور جو کراچی کے ساتھ ہوتا ہے اس کا زیادہ تر انحصار اس بات پر ہے کہ اس شہر پر حکومت کون کرتا ہے' سرکاری اعتبار سے اور غیر سرکاری اعتبار سے جو اس وقت شہر کی حکومت چلا رہے ہیں' ان کے پاس حکمرانی کا مینڈیٹ بہت تھوڑا ہے جب کہ زیادہ تر رائے دہندگان جن کی بنیاد لسانی ہے وہ لندن سے احکامات لیتے ہیں۔ صوبہ سندھ کا دارالحکومت کراچی پاکستان کا اولین پورٹ سٹی بھی ہے جس کی بہت سی حکمرانی وفاقی حکومت کی ذمے داری بھی ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنی ذمے داری کو کس انداز سے پورا کرتی ہے۔

کراچی میں کوئی جمہوریت نہیں' آصف علی زرداری نے ایم کیو ایم پر زور ڈال کر لوکل باڈیز اس وعدے کے ساتھ ختم کر دیں کہ تین سے چار مہینے کے اندر اندر انتخابات کرا دیے جائیں گے' اب چھ سال گزر چکے ہیں اور کراچی ابھی تک مقامی حکومتوں کا انتظار کر رہا ہے' جب ایم کیو ایم احتجاج کرتی ہے تو رحمان ملک انھیں رام کرنے کی اپنی طلسماتی طاقت کے ذریعے منا لیتے ہیں اور شہر کی ہولناک صورت حال پرافسوس کرتے ہوئے میاں نواز شریف کی سیاسی مجبوریاں زرداری کی سیاسی حمایت کی طلب گار ہوتی ہیں' زرداری شہر کی آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی خفیہ طور پر کوشش کر رہے ہیں خواہ اس میں پولیس کو سیاسی بنانا شامل ہو اس کے باوجود انھوں نے پچھلے دو سال بڑی کامیابی سے گزار لیے ہیں۔

عزیر بلوچ کی یو اے ای سے بے دخلی کا انتظار کیا جا رہا ہے جب کہ ذوالفقار مرزا اس قتل عام کو طاق نسیاں پر رکھے جانے کی کوششیں کر رہے ہیں جو سب جمہوریت کے نام پر اور آئین کے تحفظ کے تحت ہوا' جس سے داخلی سلامتی کی پہلے سے پیچیدہ صورت حال اور زیادہ خراب ہو گئی۔بلدیہ ٹاؤن آگ کا واقعہ اس بات کی وضاحت کے لیے کافی ہے کہ کس طرح آئین کو نام نہاد جمہوریت اور خراب حکمرانی کا پردہ بنایا جا سکتا ہے' ایک گارمنٹس فیکٹری جو حب روڈ کراچی پر واقع تھی 11ستمبر 2012ء کو اس میں آگ لگ گئی جس سے 257 افراد ہلاک جب کہ 600 سے زائد شدید زخمی ہو گئے۔فیکٹری ملازمین کی تعداد 1200سے 1500تک تھی۔ یہ کارکن دھاگہ بناتے تھے اور ان سے کپڑے بنے جاتے تھے' 2007ء میں اس فیکٹری کا ایک سیکیورٹی چیک کیا گیا تھا جس سے ظاہر ہوا کہ کسی حادثے کی صورت میں اس فیکٹری کے پاس حفاظتی انتظامات مناسب نہیں ہیں۔

جب آگ بھڑکی تو فیکٹری میں تقریباً 400 ورکر کام کر رہے تھے' تحقیقاتی رپورٹ میں تصدیق کی گئی ہے کہ باہر نکلنے والے دروازے مقفل تھے جب کہ کھڑکیوں پر لوہے کی سلاخیں لگا کر انھیں بند کر دیا گیا تھا' زیادہ تر اموات دم گھٹنے کے باعث ہوئیں' سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) نے اس الزام کی تردید کی ہے کہ اس نے فیکٹری کے تعمیراتی منصوبے کی اجازت دی تھی' جسٹس زاہد قربان علوی کی تحقیقات سے آگ لگنے کا باعث شارٹ سرکٹ بھی بتایا گیا جب کہ اس حادثے کو وجود میں لانے کے لیے اور بھی بے شمار وجوہات تھیں۔ جن میں آگ بجھانے والوں کا تاخیر سے موقع پر پہنچنا، فائربریگیڈ کے لیے پانی کا انتظام نہ ہونا وغیرہ کے ساتھ ٹریفک کے پھنسنے کے باعث صورت حال اور زیادہ خراب ہو گئی' جس کے نتیجے میں فیکٹری کے مالکان پر قتل عمد کا مقدمہ قائم کرایا گیا۔ ٹربیونل نے حکومت پر الزام لگایا کہ اس نے قانون کا نفاذ نہیں کیا تھا جب کہ پولیس کا فورنسک ڈیپارٹمنٹ وقوعہ کی سائنسی تحقیقات کر رہا ہے۔


اس بھیانک آتشزدگی کا معاملہ جمعہ 7 فروری 2015ء کو ایک ڈرامائی صورت اختیار کر گیا جب مشترکہ تحقیقات کرنے والی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ سندھ ہائی کورٹ میں پیش کی گئی جس میں ایم کیو ایم کے محمد رضوان قریشی نے جو کہ فیکٹری کو ایک ہزار سے زیادہ ملازمین فراہم کر چکا تھا' ایک اور مقدمے کی تحقیقات کے دوران یہ انکشاف کیا کہ ایک معروف پارٹی کے اعلیٰ افسر نے اگست 2012ء میں فیکٹری مالکان سے0 20 ملین روپے کا بھتہ طلب کیا تھا' جب مالکوں نے ادائیگی سے انکار کر دیا تو مذکورہ پارٹی افسر نے رضوان اور اس کے ساتھیوں کو حکم دیا کہ وہ فیکٹری کو آگ لگا دیں۔ آتشزنی کے شبہ میں گرفتار ملزموں کی ضمانت ہو گئی لیکن ایک صوبائی وزیر نے ان کی رہائی کے احکامات کو منسوخ کروا دیا۔ تاہم بعد ازاں لاہور ہائی کورٹ نے انھیں ضمانت پر رہا کر دیا جس کے لیے ایک سابقہ وزیراعظم نے ان کی مدد کی۔میڈیا رپورٹس کے برعکس جے آئی ٹی رپورٹ بیک وقت جون 2013ء میں وزیراعلیٰ اور پولیس کو بھجوائی گئی۔ یہ رپورٹ رینجرز کے کہنے پر داخل نہیں کی گئی بلکہ سندھ ہائی کورٹ نے تمام وفاقی حکام اور ایجنسیوں کو ہدایت کی تھی کہ وہ ہائی کورٹ کو تمام رپورٹوں تک رسائی دیں۔

ڈویژن بنچ جو جسٹس مقبول باقر اور جسٹس ظفر راجپوت پر مشتمل تھا اس نے کئی مرتبہ حکم جاری کرنے کے بعد بالآخر جے آئی ٹی رپورٹ کو گزشتہ جمعہ کے دن عدالتی ریکارڈ میں شامل کرا دیا' رینجرز نے بڑی شدت سے اس کی تردید کی ہے کہ انھوں نے بلدیہ ٹاؤن آتشزدگی کے بارے میں کوئی رپورٹ پولیس اسٹیشن کو بھجوائی۔ البتہ محمد رضوان قریشی کے بارے میں جے آئی ٹی کی رپورٹ میں جو ایف آئی آر نمبر 61/2013 (پولیس اسٹیشن آرٹلری میدان) بھجوانے کی تصدیق کی ہے کیونکہ اس نے ایک گزشتہ پٹیشن کے بارے میں بعض چیزوں کا ذکر کیا تھا۔ رینجرز کے افسر قانون نے عدالت کے سامنے اقرار کیا کہ پولیس نے اس رپورٹ میں دیے گئے بعض حقائق کو چھپا لیا تھا۔بلدیہ ٹاؤن کا آگ کا حادثہ اس قدر سنگین مجرمانہ اقدام ہے کہ اس فیکٹری کے مالکوں کو فرد جرم عاید کی جانی چاہیے۔ نہ صرف اس بات پر کہ انھوں نے صنعتی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کارکنوں کے حفاظتی انتظامات نہیں کیے تھے جب کہ مالکان کا یہ دعویٰ کہ انھوں نے انسپکشن ٹیسٹ پاس کر لیا تھا دروغ گوئی پر مبنی تھا۔

یہ واقعہ ایک ''منی ہولو کاسٹ'' جیسا تھا جس پر نہ صرف رضوان قریشی کو بلکہ ان کو بھی جنہوں نے اسے ایسا کرنے کا حکم دیا انصاف کے کٹہرے تک پہنچایا جانا چاہیے اور جہاں تک سندھ پولیس کا تعلق ہے (اور حقیقت میں اس پولیس میں ہے کون؟) جس نے حقائق کو منسوخ کر کے قتل کے اقبالی مجرم کو ضمانت پر رہا کر دیا چونکہ رضوان قریشی کی ضمانت میں مداخلت کی گئی تھی تو ان کے خلاف بھی قانون کی خلاف ورزی کا مقدمہ قائم ہونا چاہیے اور وزیراعلیٰ قائم علی شاہ سے بھی پوچھا جائے جو کہ ایک سال سے زیادہ عرصہ تک جے آئی ٹی کی رپورٹ کو دبائے بیٹھے رہے۔

آصف علی زرداری نے مکمل تحقیقات کا وعدہ کیا تھا جنہوں نے سندھ کے ایک لاکھ روپے تنخواہ پانے والے ایلیٹ فورس کے تین ہزار افسران کو اپنی حفاظت کے لیے وہاں سے نکال لیا تو انھوں نے جے آئی ٹی رپورٹ اپنے علم میں آنے کے بعد اس پر کوئی اقدام کیوں نہیں کیا۔چونکہ یہ ایک بہت بڑا معاملہ ہے تو ہمارا یقین ہے کہ جنرل راحیل شریف جو کہتے ہیں وہ کرتے ہیں اور جیسا انھوں نے کہا ہے کہ کراچی میں قیام امن کے لیے آرمی آخری انتہا تک کوشش کرے گی تو انھیں چاہیے کہ ابتدا میں جو بدعنوانی کے اسکینڈل نظر آ رہے ہیں ان کو کسی صورت نظر انداز نہ کیا جائے۔

جو لوگ کراچی کو بچانے کا عزم صمیم رکھتے ہیں انھیں چاہیے کہ اولین اہلیت کے حامل اقدامات فوری طور پر اٹھائیں۔ سندھ کی سول ایڈمنسٹریشن پر زرداری کا اثر و رسوخ ختم کیا جائے' پولیس سے سیاست نکال دی جائے اور شہر کو ہتھیاروں سے پاک کیا جائے۔
Load Next Story