کامیاب شٹل ڈپلومیسی
دہشت گردی نے پچھلے ایک عشرے کے دوران ملک کو بدترین جانی اور مالی نقصان سے دوچار کیا ہے
پاکستان کی تاریخ میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار شروع ہی سے بہت حاوی رہا ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں جو شاید جمہوریت پسندوں کے لیے کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ہیں۔ ان تمام وجوہات میں سب سے اہم ہماری سیاسی پارٹیوں اور اقتدار پر براجمان سیاسی حکومتوں کی نااہلی اور بدترین طرز حکمرانی ہے۔ اگرچہ کچھ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ ہماری فوج کے جنرلز کی غیر معمولی دلچسپی اور فیصلہ سازی میں کردار ادا کرنے کی خواہش نے ہمیشہ سیاسی حکومتوں کو کمزور کیا ہے جب کہ بعض دیگر کی رائے میں مارشل لا حکومتیں ملک میں استحکام لانے میں زیادہ موثر، زیادہ کامیاب رہی ہیں۔ جو کہ ہماری ڈگمگاتی معیشت کے لیے از حد ضروری ہے۔
ملک اپنی تاریخ کی بدترین دہشت گردی کے دور سے گزر رہا ہے جس نے پچھلے ایک عشرے کے دوران ملک کو بدترین جانی اور مالی نقصان سے دوچار کیا ہے۔ جس میں کئی ہزار جانیں اور اربوں ڈالر کا نقصان شامل ہے۔ پوری قوم دہشت گردی کے اس عفریت سے نمٹنے کے معاملے پر ایک طویل عرصے تک منقسم نظر آئی۔ کچھ حلقے ان دہشت گردوں کے ساتھ مکمل جنگ کرنے کے حق میں تھے جب کہ دیگر کی رائے تھی کہ مذاکرات ہی اس جنگ کو ختم کرنے کا واحد حل ہیں۔ ہماری سیاسی جماعتیں بھی کچھ اس صورتحال سے دوچار ہیں جس سے یہ بحران مزید گہرا ہوتا گیا۔ جب کہ ہماری افواج کو ضرور اس بات کا یقین پہلے دن سے تھا کہ ان انتہا پسند گروپوں کے خلاف فوجی ایکشن ہی دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے ضروری ہے کیونکہ ان گروپوں کا ایجنڈا تباہی کے سوا کچھ نہیں۔
کراچی ایئرپورٹ پر دہشت گرد حملہ ڈائیلاگ کے Process میں وہ سوراخ کر گیا جس کو پر کرنا شاید کسی کے ہاتھ میں نہ تھا۔ اور اس طرح بات چیت کے عمل کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا۔ یہ وہ وقت تھا جب ہماری فوجی قیادت نے ان دہشت گردوں کے خلاف ایک بڑا آپریشن شروع کیا۔ جس کو آپریشن ضرب عضب کے نام سے جانا گیا۔ فوجی قیادت کے اس فیصلے کو بڑے پیمانے پر عوامی پذیرائی نصیب ہوئی۔ یہ آپریشن شروع کرنے کا فیصلہ آسان نہ تھا کیونکہ وزیرستان اور دیگر قبائلی علاقے ان انتہا پسند گروپوں کا بہت مضبوط گڑھ تھے۔ ان گروپوں کو سرحد پار سے مدد بھی وافر مقدار میں میسر تھی۔ اس مرحلے پر ہماری سیاسی جماعتوں نے ہوا کا رخ دیکھتے ہوئے اس آپریشن کی حمایت تو کی مگر اس کی Ownership لینے سے گریز کیا کیونکہ وہ اس کے ردعمل سے یقینا خوفزدہ تھیں، فوج کے اس اقدام نے عوامی حلقوں میں اس کی مقبولیت کو بام عروج پر پہنچا دیا۔
اس وقت سے لے کر اب تک ہماری فوجی قیادت بالخصوص آرمی چیف کی فیصلہ سازی اور اس جنگ میں سامنے آ کر قیادت کرنے کے طرز عمل نے فوج کی مقبولیت کو باقی تمام اداروں سے اوپر پہنچا دیا۔ فوج کی طرف سے سیاست میں مداخلت نہ کرنے کے عزم اور قومی مفاد میں فیصلہ سازی فوجیوں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے جنگی محاذ کے دورے، آرمی پبلک اسکول میں بچوں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے وہاں موجود ہونا، سیاسی قیادت کو ملکی امور پر اکٹھا کرنے کے لیے کامیاب مذاکرات اور دہشت گردی کے خلاف قوم کا مورال بلند کرنے کے لیے متعدد کوششیں وہ مستحسن اقدامات ہیں جن کی جتنی تعریف کی جائے وہ کم ہے۔ دوسری طرف ہماری سیاسی جماعتوں کی آپس کی چپقلش اور سیاسی نابالغ نظری اور سب سے بڑھ کر حکمرانوں کی طرف سے کوئی قابل ذکر حکمرانی کا نہ ہونا ان کی مقبولیت میں کمی کا باعث بنا۔
ان تمام وجوہات کی بنا پر اب یہ بات ملک اور بیرون ملک عام ہے کہ ملکی سالمیت اور خارجہ امور کے انتہائی اہم پہلو میں فوجی قیادت کا کردار انتہائی فیصلہ کن ہے اور شاید ان تمام امور میں حکومتی کردار اب ثانوی ہی رہ گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت ملک میں اس وقت کوئی کل وقتی وزیر خارجہ موجود نہیں۔ سرتاج عزیز کے پاس مشیر خارجہ کا عہدہ ہے۔ اگرچہ وزارت خارجہ کا قلم دان وزیر اعظم کے پاس موجود ہے لیکن خطے کے ممالک اور بیرونی دنیا سے تعلقات کے امور اور فیصلہ سازی میں فوج کا کردار انتہائی واضح نظر آتا ہے۔ ملک کو چلانے کے لیے جس مضبوط فیصلہ سازی کی ضرورت درکار ہے اور خاص کر ایسے وقت میں جب ملک انتہائی نازک دور سے گزر رہا ہے۔ ہمارے موجودہ حکمران شاید وہ طاقت نہیں رکھتے۔ بھارت اور افغانستان سے تعلقات ہوں یا انرجی بحران یا پھر دہشت گردی کے خلاف موثر حکمت عملی بنانا ہو۔ موجودہ حکومت کی فیصلہ سازی کی قوت انتہائی کمزور نظر آتی ہے۔
جنرل راحیل شریف نے پچھلے کچھ عرصے میں قومی مفاد میں جس مستعدی اور چابکدستی کا مظاہرہ کیا وہ یقینا قابل ستائش ہے۔ آرمی چیف کے کامیاب دورے میں امریکا، برطانیہ، سعودی عرب اور چین کے دورے قابل ذکر ہیں۔ امریکا میں پاکستانی عسکری اداروں کے بارے میں جو روایتی بدگمانی پائی جاتی ہے وہ اب کافی حد تک دور ہوچکی ہے۔ اور امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان اور حالیہ جان کیری کے دورے سے یہ بات عیاں ہوتی ہے جس میں پاکستان کے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کردار کی تعریف و توصیف اور وزیرستان آپریشن کی حمایت کی گئی ہے۔ پھر برطانیہ کے دورے میں برطانوی حکومت اور فیصلہ ساز اداروں کے سربراہوں سے ملاقات، ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس بریفنگ اور آرمی چیف کو ملنے والا پروٹوکول ان تمام کوششوں کی کامیابی پر دلالت کرتا ہے۔
مغربی میڈیا کو یہ باور کرانا کہ بھارتی کردار اور جارحیت کو روکا جائے تا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں یکسوئی سے کارروائی کرے۔ یقینا ایک کامیاب حکمت عملی تھی۔ امریکی صدر بارک اوباما کے حالیہ بھارتی دورے کے وقت چین کا دورہ اور اس کی فوجی قیادت سے معاملات یقینا اپنے اندر ایک اہم معنی رکھتا ہے۔ افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت کی طرف سے پاکستان کے لیے نیک خواہشات کا اظہار اور تعاون کا عملی مظاہرہ بھی موجودہ آرمی چیف کی کامیاب شٹل ڈپلومیسی پر دلالت کرتا ہے۔ فوجی عدالتوں کے قیام کے لیے اضافی محنت کرنا اور تمام سیاسی اسٹیک ہولڈرز کو ایک میز پر لانا اور ان کو متحد کرنے کا سہرا بھی موجودہ فوجی قیادت کو ہی جاتا ہے۔ شاید فوجی قیادت کے متحرک کردار کے بغیر یہ ناممکن ہی تھا۔ کچھ تجزیہ نگار اس سارے ماحول میں حکومت کے کمزور ہوتے ہوئے کردار اور فوجی قیادت کی مستعدی کو منی مارشل لا سے تعبیر کرتے ہیں۔ جب کہ دیگر کا خیال ہے کہ ملکی مفادات کو موثر نگہبانی کے لیے فوج کا یہ کردار لازم و ملزوم ہے۔
امید کی جانی چاہیے کہ آنے والے دنوں میں ملکی مسائل کا حل فوجی اور سیاسی قیادت باہمی اتفاق سے ہی نکالے گی اور ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھنے کی بجائے آپس میں تعاون کی فضا سے پوری دنیا کو یک جہتی کا پیغام دے گی ملک کو اس وقت سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ اس صورتحال میں آرمی چیف کا موثر کردار اور کامیاب شٹل ڈپلومیسی پوری قوم کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔ ملک کو بحران سے نکالنے کے لیے تمام فریقوں کا موثر کردار انتہائی ناگزیر ہے۔
ملک اپنی تاریخ کی بدترین دہشت گردی کے دور سے گزر رہا ہے جس نے پچھلے ایک عشرے کے دوران ملک کو بدترین جانی اور مالی نقصان سے دوچار کیا ہے۔ جس میں کئی ہزار جانیں اور اربوں ڈالر کا نقصان شامل ہے۔ پوری قوم دہشت گردی کے اس عفریت سے نمٹنے کے معاملے پر ایک طویل عرصے تک منقسم نظر آئی۔ کچھ حلقے ان دہشت گردوں کے ساتھ مکمل جنگ کرنے کے حق میں تھے جب کہ دیگر کی رائے تھی کہ مذاکرات ہی اس جنگ کو ختم کرنے کا واحد حل ہیں۔ ہماری سیاسی جماعتیں بھی کچھ اس صورتحال سے دوچار ہیں جس سے یہ بحران مزید گہرا ہوتا گیا۔ جب کہ ہماری افواج کو ضرور اس بات کا یقین پہلے دن سے تھا کہ ان انتہا پسند گروپوں کے خلاف فوجی ایکشن ہی دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے ضروری ہے کیونکہ ان گروپوں کا ایجنڈا تباہی کے سوا کچھ نہیں۔
کراچی ایئرپورٹ پر دہشت گرد حملہ ڈائیلاگ کے Process میں وہ سوراخ کر گیا جس کو پر کرنا شاید کسی کے ہاتھ میں نہ تھا۔ اور اس طرح بات چیت کے عمل کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا۔ یہ وہ وقت تھا جب ہماری فوجی قیادت نے ان دہشت گردوں کے خلاف ایک بڑا آپریشن شروع کیا۔ جس کو آپریشن ضرب عضب کے نام سے جانا گیا۔ فوجی قیادت کے اس فیصلے کو بڑے پیمانے پر عوامی پذیرائی نصیب ہوئی۔ یہ آپریشن شروع کرنے کا فیصلہ آسان نہ تھا کیونکہ وزیرستان اور دیگر قبائلی علاقے ان انتہا پسند گروپوں کا بہت مضبوط گڑھ تھے۔ ان گروپوں کو سرحد پار سے مدد بھی وافر مقدار میں میسر تھی۔ اس مرحلے پر ہماری سیاسی جماعتوں نے ہوا کا رخ دیکھتے ہوئے اس آپریشن کی حمایت تو کی مگر اس کی Ownership لینے سے گریز کیا کیونکہ وہ اس کے ردعمل سے یقینا خوفزدہ تھیں، فوج کے اس اقدام نے عوامی حلقوں میں اس کی مقبولیت کو بام عروج پر پہنچا دیا۔
اس وقت سے لے کر اب تک ہماری فوجی قیادت بالخصوص آرمی چیف کی فیصلہ سازی اور اس جنگ میں سامنے آ کر قیادت کرنے کے طرز عمل نے فوج کی مقبولیت کو باقی تمام اداروں سے اوپر پہنچا دیا۔ فوج کی طرف سے سیاست میں مداخلت نہ کرنے کے عزم اور قومی مفاد میں فیصلہ سازی فوجیوں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے جنگی محاذ کے دورے، آرمی پبلک اسکول میں بچوں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے وہاں موجود ہونا، سیاسی قیادت کو ملکی امور پر اکٹھا کرنے کے لیے کامیاب مذاکرات اور دہشت گردی کے خلاف قوم کا مورال بلند کرنے کے لیے متعدد کوششیں وہ مستحسن اقدامات ہیں جن کی جتنی تعریف کی جائے وہ کم ہے۔ دوسری طرف ہماری سیاسی جماعتوں کی آپس کی چپقلش اور سیاسی نابالغ نظری اور سب سے بڑھ کر حکمرانوں کی طرف سے کوئی قابل ذکر حکمرانی کا نہ ہونا ان کی مقبولیت میں کمی کا باعث بنا۔
ان تمام وجوہات کی بنا پر اب یہ بات ملک اور بیرون ملک عام ہے کہ ملکی سالمیت اور خارجہ امور کے انتہائی اہم پہلو میں فوجی قیادت کا کردار انتہائی فیصلہ کن ہے اور شاید ان تمام امور میں حکومتی کردار اب ثانوی ہی رہ گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت ملک میں اس وقت کوئی کل وقتی وزیر خارجہ موجود نہیں۔ سرتاج عزیز کے پاس مشیر خارجہ کا عہدہ ہے۔ اگرچہ وزارت خارجہ کا قلم دان وزیر اعظم کے پاس موجود ہے لیکن خطے کے ممالک اور بیرونی دنیا سے تعلقات کے امور اور فیصلہ سازی میں فوج کا کردار انتہائی واضح نظر آتا ہے۔ ملک کو چلانے کے لیے جس مضبوط فیصلہ سازی کی ضرورت درکار ہے اور خاص کر ایسے وقت میں جب ملک انتہائی نازک دور سے گزر رہا ہے۔ ہمارے موجودہ حکمران شاید وہ طاقت نہیں رکھتے۔ بھارت اور افغانستان سے تعلقات ہوں یا انرجی بحران یا پھر دہشت گردی کے خلاف موثر حکمت عملی بنانا ہو۔ موجودہ حکومت کی فیصلہ سازی کی قوت انتہائی کمزور نظر آتی ہے۔
جنرل راحیل شریف نے پچھلے کچھ عرصے میں قومی مفاد میں جس مستعدی اور چابکدستی کا مظاہرہ کیا وہ یقینا قابل ستائش ہے۔ آرمی چیف کے کامیاب دورے میں امریکا، برطانیہ، سعودی عرب اور چین کے دورے قابل ذکر ہیں۔ امریکا میں پاکستانی عسکری اداروں کے بارے میں جو روایتی بدگمانی پائی جاتی ہے وہ اب کافی حد تک دور ہوچکی ہے۔ اور امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان اور حالیہ جان کیری کے دورے سے یہ بات عیاں ہوتی ہے جس میں پاکستان کے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کردار کی تعریف و توصیف اور وزیرستان آپریشن کی حمایت کی گئی ہے۔ پھر برطانیہ کے دورے میں برطانوی حکومت اور فیصلہ ساز اداروں کے سربراہوں سے ملاقات، ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس بریفنگ اور آرمی چیف کو ملنے والا پروٹوکول ان تمام کوششوں کی کامیابی پر دلالت کرتا ہے۔
مغربی میڈیا کو یہ باور کرانا کہ بھارتی کردار اور جارحیت کو روکا جائے تا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں یکسوئی سے کارروائی کرے۔ یقینا ایک کامیاب حکمت عملی تھی۔ امریکی صدر بارک اوباما کے حالیہ بھارتی دورے کے وقت چین کا دورہ اور اس کی فوجی قیادت سے معاملات یقینا اپنے اندر ایک اہم معنی رکھتا ہے۔ افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت کی طرف سے پاکستان کے لیے نیک خواہشات کا اظہار اور تعاون کا عملی مظاہرہ بھی موجودہ آرمی چیف کی کامیاب شٹل ڈپلومیسی پر دلالت کرتا ہے۔ فوجی عدالتوں کے قیام کے لیے اضافی محنت کرنا اور تمام سیاسی اسٹیک ہولڈرز کو ایک میز پر لانا اور ان کو متحد کرنے کا سہرا بھی موجودہ فوجی قیادت کو ہی جاتا ہے۔ شاید فوجی قیادت کے متحرک کردار کے بغیر یہ ناممکن ہی تھا۔ کچھ تجزیہ نگار اس سارے ماحول میں حکومت کے کمزور ہوتے ہوئے کردار اور فوجی قیادت کی مستعدی کو منی مارشل لا سے تعبیر کرتے ہیں۔ جب کہ دیگر کا خیال ہے کہ ملکی مفادات کو موثر نگہبانی کے لیے فوج کا یہ کردار لازم و ملزوم ہے۔
امید کی جانی چاہیے کہ آنے والے دنوں میں ملکی مسائل کا حل فوجی اور سیاسی قیادت باہمی اتفاق سے ہی نکالے گی اور ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھنے کی بجائے آپس میں تعاون کی فضا سے پوری دنیا کو یک جہتی کا پیغام دے گی ملک کو اس وقت سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ اس صورتحال میں آرمی چیف کا موثر کردار اور کامیاب شٹل ڈپلومیسی پوری قوم کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔ ملک کو بحران سے نکالنے کے لیے تمام فریقوں کا موثر کردار انتہائی ناگزیر ہے۔