عورتوں کے حقوق کا تحفظ
محبت کے خمیر سے بنی ہوئی عورت اپنی محبت میں جتنی سچی ہوتی ہے اور جنگ بھی اتنی ہی سچائی سے کرتی ہے
آنچل سے پرچم بنانے والی لڑکی سے لے کر آنچل کو پھندا بنا کر لٹکنے والی عورت تک، ساری ہی خواتین جدوجہدکرتی ہیں عمل کی راہیں آسان نہیں اور نہ ہی عورت کو منزل تھالی میں سجا کر پیش کی جاتی ہے۔ کھلی فضا میں سانس لینے کی خواہش سے لے کر، دل کھول کر ایک قہقہہ لگانے کی چھوٹی سی آرزو سینے میں چھپائے، بند دروازوں اونچی دیواروں کے پیچھے کتنی معصوم لڑکیاں جان دے دیتی ہیں۔ ایک چھوٹی سی زندگی اورکئی چھوٹی چھوٹی خواہشیں جو کہ شاید کسی اور کے لیے کوئی معنی نہ رکھتی ہوں، لیکن جن کی سانسیں رکتی ہیں جن کی زندگی تنگ ہوتی ہے جن کے ہونٹ مسکرانے کوترستے ہیں، معاشرہ جن کے لیے کنوئیں کی مثل ہوتا ہے وہ ضرورمحسوس کرتی ہیں، وہ ضرور اس صورتحال کو بدلنے کی آرزو کرتی ہیں۔ عورت جدوجہدکی یہی کہانی ہے۔
ضیاالحق کی طویل آمریت کا دور، عورتوں کے لیے زیادہ بدترین تھا کیونکہ اس کے بنائے ہوئے سارے قاعدے قانون اوراصول براہ راست خواتین پر اثرانداز ہو رہے تھے۔ چادر اورچاردیواری، تعلیم میں تفریق، نصاب میں تفریق، ہم نصابی سرگرمیوں پر پابندی،کھیلوں میں حصہ لینے پر پابندیاں، کوڑوں کی سزائیں، پسندکی شادی کو غلط قرار دیا ان سب پابندیوں کا شکار براہ راست عورتیں ہو رہی تھیں۔
فہمیدہ اللہ بخش کی پسند کی شادی کوجرم کا روپ دے کر اس کو 100 کوڑوں کی سزا سنائی گئی۔ اس وقت کراچی کی چند باشعور خواتین تڑپ اٹھیں۔ اور وہ تاریخ ساز دن وومن ایکشن فورم کے قیام کا دن تھا۔ انیس ہارون کی قیادت میں احتجاج کیا گیا۔ خالد اسحاق نے کورٹ میں چیلنج کیا اور 1000 دستخط جمع کروائے۔ خواتین نے کوڑوں کی سزا کی مخالفت کی مذمت کی۔ مسلسل آواز بلند کی احتجاج کیا اور ظلم کو جھکا دیا کوڑوں کی سزا کو کالعدم قرار دیا گیا۔
صفیہ بی بی اندھی لڑکی تھی جس کا ریپ ہوا تھا لیکن وہ اپنی صفائی پیش نہیں کر پا رہی تھی اور نہ ہی وہ دیکھ سکتی تھی کہ اس کا مجرم کون تھا۔ صفیہ کو حدودآرڈیننس کے تحت سزا دی جا رہی تھی اورقانون شہادت کی رو سے 4 گواہ پیش کرنے سے قاصر تھی۔ ایسے واقعات سے خواتین بلبلا اٹھیں مظلوموں کو انصاف دلانے کے لیے امن، انصاف، برابری کے نعرے بلند ہوئے۔ معاشرتی امن کو مردوعورت کی برابری سے منسلک کیا گیا۔12 فروری 1983ء وہ تاریخ سازدن تھا جب صرف 200 خواتین ایک طرف تھیں اور ریاستی طاقت دوسری طرف۔ وہ بدترین تشددکا دن تھا جب عورتوں پر لاٹھی چارج کیا گیا، آنسو گیس کی شیلنگ کی گئی، راستوں پہ گھسیٹا گیا اورگرفتارکر کے جیل بھیجا تھا۔
وہ لاہور کے مال روڈ سے ہائی کورٹ تک، قانون شہادت اورحدودآرڈیننس کے خلاف درخواست دائر کرنے جا رہی تھیں۔ اس دن نہتی لڑکیوں نے ریاست کی طاقت کا مقابلہ کیا۔ ان باہمت باشعور خواتین کی جدوجہد آج بھی جاری ہے 12 فروری کا دن پاکستان کی خواتین قومی دن کے طور پر مناتی ہیں۔ 12 فروری 2015ء کو اسی دن کی یاد میں جب جامشورو کے قلب سندھ یونیورسٹی میں یہ دن منایا گیا تو پورے پاکستان سے خواتین شریک ہوئیں۔ اسلام آباد، کوئٹہ، لاہور، کراچی، آزاد کشمیر، سب کی ایک ہی آواز تھی ''عورت جدوجہد کو سلام'' دکھ ہمیشہ طاقت دیتے ہیں اس وقت کی تکالیف یاد کرتے ہوئے، یادیں تازہ کرتے ہوئے آنکھیں بھیگ بھی رہی تھیں اور پرجوش نعرے بھی بلند ہو رہے تھے۔ طاہرہ عبداللہ ہمیشہ کی طرح پرجوش تھیں۔ گھریلو تشدد پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔ کشور ناہیدکی نظم ''یہ ہم گناہ گار عورتیں ہیں جو اہل جبہ کی تمکنت سے نہ ہار مانیں، نہ جاں بیچیں۔''
لڑنا اور ثابت قدم رہنا عورت کی فطرت ہے محبت کے خمیر سے بنی ہوئی عورت اپنی محبت میں جتنی سچی ہوتی ہے اور جنگ بھی اتنی ہی سچائی سے کرتی ہے۔ یہ عورت جدوجہد کا تسلسل ہے کہ اپنے وجود کو منوانے کے لیے جو تحریک شروع کی ہے وہ ڈور، وہ زنجیر جڑتی چلی آ رہی ہے۔ عورت نے ہر میدان میں اپنا لوہا منوایا ہے۔ اپنے دل کی بات کی تو شعر بن گئے، دکھ قصہ لکھے تو کہانیاں اور افسانے بن گئے۔
عرفانہ ملاح نے تفصیل سے سندھی عورت کی جدوجہد پہ روشنی ڈالی عورت نے قلم سے بھی جنگ کی ہے۔ کئی سندھی ادیب اور شاعر خواتین جن کی تحریریں سنگ میل ثابت ہوئی ہیں امر سندھو نے سندھی عورت کی سیاسی جدوجہد کے پہلوکونمایاں کرتے ہوئے پہلی عورت مائی بختاورکوسلام پیش کیا۔ انیس ہارون نے WAFکی جدوجہد پر روشنی ڈالتے ہوئے۔ جدوجہد تیزکرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ مدیحہ گوہر بھی ضیا شاہی کے جبرکا شکار ہوئی تھی۔ مگر آج اسمبلیوں تک اپنی آواز پہنچا کر عورتوں کے حقوق کے حوالے سے بل منظور کروائے گئے ہیں، قوانین پاس کرواتے ہیں۔ چھوٹی عمرکی شادی، تیزاب پھینکنا، لڑکیوں کا جائیداد میں حصہ نہ دینا، تشدد کرنا، ہراس کرنا، یہ تو سارے ریاست کے قانون کی رو سے جرم ہیں۔ وہ جنھوں نے چادر اورچار دیواری کے تصورکو غلط ثابت کر دکھایا۔
عورت ہر رشتے کے روپ میں مرد کو محبت، شفقت دیتی ہے اور مرد ہر رشتے کے روپ میں ایک جابر ایک حکمراں کا کردار ادا کرتا دکھائی دیتا ہے۔ہرعورت جب ماں بنتی ہے تو اپنی اولاد کو ڈرا دیتی ہے خاص طور پر بیٹیوں کو کہ کہیں سماجی رواج اسے نقصان نہ پہنچائیں کہیں دنیا والے برا بھلا نہ کہیں۔بیٹیوں کے کردار پرکوئی آنچ نہ آجائے لیکن ہماری شاعر عطیہ داؤد اپنی بیٹی کو ڈراتی نہیں ہے۔ عطیہ داؤد نے اسٹیج پر آکر اپنی مشہور نظم ''بیٹی کے نام'' سنائی۔ ''تم جیون پل حاصل کرنا،پیارضرورکرنا،مرجانا پیارضرورکرنا۔''
کون اپنی بیٹی کو مرنے کا مشورہ دے سکتا ہے یہ ہمت صرف ایک جدوجہد کرنے والی ماں ہی کر سکتی ہے۔ جو جانتی ہے کہ حقوق کس طرح حاصل کی جاتے ہیں۔
عظمیٰ نورانی جو ہیومن رائٹس کمیشن کی ممبر بھی ہیں WAFسے بھی تعلق رکھتی ہیں انھوں نے بھی اپنے طویل مکالمے کو پیش کیا۔ طلبا اور طالبات بھی بہت پرجوش تھے۔ سندھ یونیورسٹی کی قائم مقام وی سی ڈاکٹر پروین شاہ کی نمایندگی وومن اسٹڈیز ڈپارٹمنٹ کی ڈائریکٹر ڈاکٹر مصباح نے کی انھوں نے صنفی مطالعات (جینڈر اسٹڈیز)کے حوالے سے بات کی۔ امر سندھو نے اپنی کمپیئرنگ کے دوران عورتوں کی سیاسی جدوجہد کی مثال دیتے ہوئے ''سندھیانی'' تحریک کی خواتین کی مثالیں پیش کیں۔ امر سندھو کے مطابق آمریت کے طویل دور کے خاتمے میں عورتوں کا بہت بڑا حصہ ہے۔کچھ خواتین نے نغمے گائے۔
ملکہ خان اور آمنہ ابڑو نے خواتین کے حوالے سے لکھے ہوئے گیت گائے۔ WAF کا ترانہ سب نے مل کرگایا۔ ''توڑ توڑ کے بندھنوں کو دیکھ بہنیں آتی ہیں'' سب نے ساتھ دیا۔ یہ صرف ترانہ نہیں ایک حقیقت بھی ہے کہ عورتیں سماجی رسوم اور قیود کو توڑکر آگے آ رہی ہیں۔ انھیں آس ہے ایک ایسے سماج کی جس میں امن ہو انصاف ہو اور برابری ہو جس میں مرد عورت شانہ بشانہ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے مل کے کام کر سکیں یہ جدوجہد چراغ سے چراغ جلتا ہے کے مصداق آگے بڑھتی رہے گی۔ وہ دن بھی آئے گا جب یہ 12 فروری کا دن پوری قوم منائے گی۔ تب تک جب تک کسی بھی عورت کوآنچل سے پھندا بنا کر لٹکنا نہ پڑے۔