6 سال گزرنے کے بعد بھی ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی روکنے کیلیے خود کار نظام بنایا نہ جاسکا

محکمہ پولیس کی اس اہم پوسٹ پر غیر ذمہ داری کا مظاہرہ سندھ حکومت کے بجٹ پر بھی منفی اثرات مرتب کررہا ہے


Sajid Rauf February 19, 2015
2009 میں ضروری سازو سامان بھی خرید لیا گیا تھا، منصوبے پر خرچ ہونے والی بھاری رقم ضایع ہوگئی۔ فوٹو: فائل

محکمہ پولیس کے آئی ٹی ڈپارٹمنٹ کی سربراہ کی مجرمانہ غفلت اور نااہلی کے سبب ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیوں کی روک تھام کے لیے خودکار نظام کا منصوبہ6سال گزر نے کے باوجود مکمل نہ ہوسکا۔

یہ منصوبہ 6 ماہ میں مکمل کیا جانا تھا جس کے تحت کراچی کے55 ٹریفک سکیشنز کو جدید ٹیکنالوجی اور آلات سے لیس کرنے کیلیے ساڑھے5 کروڑ روپے مختص کیے گئے تھے جس میں سے زیادہ تر ادائیگیاں کی جاچکی ہیں،منصوبے کا ٹھیکہ لینے والی آئی ٹی کمپنی 6 سال گزرنے کے باوجود مکمل نہ کرسکی،اس اہم منصوبے کی تکمیل میں تاخیر ،وجوہات جاننے، ذمے داروں کا تعین اوران کیخلاف کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔

تفصیلات کے مطابق2009 میں سندھ حکومت نے کراچی میں ٹریفک خلاف ورزیوں پر قانونی کارروائی اورجرمانوں کے لیے جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی پر مشتمل ''ای وائیلیشن مینجمنٹ سسٹم'' متعارف کرانے کا فیصلہ کیا تھا جس کے تحت کراچی کے55 ٹریفک سیکشنز کو جدید ٹیکنالوجی اور آلات سے لیس کرنے کے لیے ساڑھے 5 کروڑ روپے مختص کیے گئے تھے اس منصوبے کا ٹھیکا آئی ٹی کمپنی کو دیا گیا تھا جسے6 ماہ میں اپنا کام مکمل کرنا تھا، محکمہ انفارمیشن ٹیکنالوجی سندھ پولیس نے2009 میں ہی تمام ضروری سازو سامان بھی خرید لیا تھا۔

ٹریفک پولیس حکام کی جانب سے ابتدائی طور پر5 ٹریفک سیکشنز جن میں کینٹ ٹریفک سیکشن، طارق روڈ ٹریفک سیکشن، شاہراہ فیصل ٹریفک سیکشن، جیکسن ٹریفک سیکشن اور ماڈل کالونی ٹریفک سیکشن کی نشاندھی کی گئی تھی جس پر آئی ٹی کمپنی کے پانچوں ٹریفک سیکشنز کو آزمائشی طور پر میں الیکٹرانک سامان جس میں کمپیوٹرز، پرنٹرز، انٹر نیٹ ڈیوائس، یو پی ایس اور دیگر سامان فراہم کیا جاچکا تھا تاہم منصوبہ مکمل نہ ہونے کی وجہ سے یہ تمام سازو سامان پڑے پڑے خراب اور ناکارہ ہوچکا ہے جس سے اس منصوبے پر خرچ ہونے والے بھاری رقم ضایع ہوگئی ہے۔

منصوبے میں تاخیر کی وجہ سے خریدے گئے سازوسامان اور آلات کی وارنٹی اور معیاد بھی پوری ہوچکی ہے، آئی ٹی ڈپارٹمنٹ کی غیر ذمہ داری کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے محکمہ آئی ٹی کی جانب سے نومبر 2014 میں41 پرسنل ڈیجیٹل اسسٹنٹ ( پی ڈی اے) ڈیوائسز افسران بالا کی منظوری کے بغیر ہی غیر تربیت یافتہ نچلے عملے کو دے دیے گئے تھے جو متعلقہ محکمہ کو واپس کر دیے گئے۔

اس ضمن میں ڈی آئی جی ٹریفک نے آخری خط 13جنوری کو ارسال کیا تھا جس میں اس منصوبے میں کئی سال کی تاخیر کے اسباب اور ذمے داروں کا تعین کرنے کے لیے خصوصی انکوائری کمیٹی تشکیل دینے کی درخواست کی گئی تھی،اس خط کو ارسال ہوئے ایک ماہ سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود کوئی انکوائری شروع نہیں کی گئی،منصوبے کی نگرانی اورکوآرڈینیشن کی تمام ذمے داری پولیس کے محکمہ آئی ٹی کو سونپی گئی تھی۔

پولیس ڈپارٹمنٹ کے افسران کا کہنا ہے کہ ڈائریکٹر آئی ٹی تبسم عباسی اس عہدے کے تقاضوں پر پورا نہیں اترتیں محترمہ گزشتہ 10سال سے زائد سندھ کے شعبہ آئی ٹی سے وابستہ ہیں، ان کی مجرمانہ غفلت، نااہلی اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا فقدان کا خمیازہ پورے محکمے اور کراچی کے شہریوں کو بھگتنا پڑھ رہا ہے محکمہ پولیس کی اس اہم پوسٹ پر غیر ذمہ داری کا مظاہرہ سندھ حکومت کے بجٹ پر بھی منفی اثرات مرتب کررہا ہے اس منصوبے کی 6 سال میں لاگت دگنی ہوچکی ہے اور اب مزید 5 سے 6کروڑ روپے خرچ کرنے ہوں گے جس کی تمام ذمہ داری محکمہ پولیس کے آئی ٹی ڈپارٹمنٹ پر عائد ہوگی۔

منصوبے میں تاخیر کی وجوہات جاننے کے لیے وقتاً فوقتاً انسپکٹر جنرل سندھ پولیس کو متعدد خط ارسال کیے گئے تاہم آئی ٹی ڈپارٹمنٹ اس اہم منصوبے میں کئی سال کی تاخیر کا کوئی سبب بیان نہ کرسکا اور نہ ہی منصوبے کو مکمل کرنے کی کوئی حتمی تاریخ بتائی جاسکی اور منصوبہ جوں کا توں رکا ہوا ہے بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ آئی ٹی کمپنی کے حوالے سے متضاد اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ وہ منظر عام سے غائب ہے تاہم حتمی طور پر کچھ کہا نہیں جا سکتا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں