ہم انہیں بریانی نہیں کھلانے والے
اگر کسی جھوٹی خبر کے بعد برصغیر کے دو جوہری طاقت رکھنے والے ممالک کے درمیان جنگ چھڑ گئی تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟
بھارتی میڈیا کو عموماً جیسے ہی پاکستان مخالف کوئی خبر ملے، بغیر کسی تحقیق کے نشر کردیتے ہیں۔ بلکہ صرف نشر ہی نہیں کرتے، چلا چلا کر خود کو اور دوسروں کو بھی تھکا دیتے ہیں ۔
کچھ ایسا ہی 31 دسمبر کی رات کو ہوا، جب بارود سے بھری کشتی میں سوار افراد کا خود کو اڑانے کی خبر نے ہندوستانی میڈیا میں بھونچال برپا کردیا۔ عسکری ذرائع کے حوالے سے میڈیا نے کہا کہ تباہ ہونے والی کشتی پاکستان سے آئی تھی۔ اس میں سوار افراد دہشت گرد تھے اور بھارتی کوسٹ گارڈ کے حکام نے انہیں اپنے سمندری حدود میں داخل ہونے سے روکا تھا لیکن جب وہ نہیں رُکے تو اُن کا پیچھا کیا گیا اور پھر کشتی میں سوار افراد نے خود کو کشتی سمیت اڑادیا۔ میڈیا نے یہ بھی کہا تھا کہ کشتی میں سوار افراد بھارت میں تخریب کاری کی نیت سے داخل ہورہے تھے۔
خبر بہت سنسنی خیز تھی۔ پاکستانی میڈیا میں بھی اس کی تشہیر ہوئی۔ عالمی میڈیا نے بھی خبرکو بہت توجہ دی۔ ہر طرف سے پاکستان پر انگلیاں اٹھنے لگیں۔ لعن طعن کا وہ سلسلہ شروع ہوا کہ الامان الحفیظ ۔ جیسے کہ عموماً ہوتا ہے، پاکستانی حکام نے خبر کی تردید کی اور اسے گمراہ کن پروپیگنڈا قرار دیا ۔
بھارتی میڈیا میں پکنے والی کہانی کا پلاٹ شروع سے ہی مبہم تھا۔ مثلاً اگر کشتی بارود سے بھری ہوئی تھی اور اسے آگ لگا کر تباہ کردیا گیا تھا تو پھر کشتی مکمل طور پر کیوں تباہ نہیں ہوئی تھی؟ یا پھر، جدید سازو سامان اور اسلحے سے لیس بھارتی کوسٹ گارڈز بھلا کیوں اس سست رفتار کشتی کو قبضے میں لینے کے بجائے اس کا پیچھا کرتی رہی؟ کیا اس سنگل انجن کشتی کی رفتار بھارتی ہیلی کاپٹرز، لانچوں اور بحری جہازوں سے زیادہ تھی؟ غرض، کہانی کے پلاٹ پر ہزاروں سوال اُٹھائے گئے۔ شکوک و شبہات کا اظہار کیا گیا۔ اُدھر بھارتی حکومت نے ان سوالات کو سازشی نظریات کہہ کر ''دہشت گرد کشتی'' کی رٹ لگائے رکھی اور انگلیوں کا رخ پاکستان کی طرف رکھا۔
اور اب واقعے کے پچاس دن بعد بھارتی اخبار انڈین ایکسپریس نے خود اس کہانی کے مرکزی کردار کو بے نقاب کر کے بے باک اور معروضی صحافت کا بخوبی حق ادا کردیا۔
ہوا کچھ یوں کہ بھارتی کوسٹ گارڈز کے ایک سینئر افسر ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) بی کے لوشالی نے گزشتہ رات ایک تقریب میں بھڑکیں مارتے ہوے تسلیم کرلیا کہ 31 دسمبر کی رات کو مبینہ طور پر پاکستان سے آنے والی کشتی میں سوار افراد نے خود کو نہیں اُڑایا تھا، جیسے کہ اس وقت کوسٹ گارڈ حکام اور میڈیا نے دعوی کیا تھا بلکہ لوشالی نے رعونت کے ساتھ کہا کہ ان کے حکم پر بھارتی کوسٹ گارڈز نے کشتی کو تباہ کردیا تھا۔ انڈین ایکسپریس نے یہ خبر نشر کردی تو لوشالی صاحب مچل گئے اورایک تحریری بیان میں اس کی تردید کی، لاتعلقی کا اظہار کیا اور زور دے کر کہا کہ انہوں نے ایسا کوئی بیان دیا ہے، نہ ہی کوئی ایسی بات کی ہے۔
ویڈیو منظرعام پر آنے کے بعد تردیدی بیان کی اہمیت ختم ہوگئی ہے اور میڈیا کے زور پر پھیلائے گئے کم از کم اس جھوٹ سے میڈیا ہی نے پردہ اُٹھا دیا ہے۔ لیکن بہت سارے سوال اب بھی جواب طلب ہیں۔ مثلاً کشتی میں سوار افراد کون تھے؟ وہ کس نیت سے بھارت جارہے تھے؟ اِن سوالات کا جواب بھی جلد یا بدیر مل ہی جائے گا۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر جھوٹ بولنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ کونسی حقیقت تھی جس کو چھپانا مقصود تھا؟ کیا اس کی تحقیق ہوگی اور کیا اس جھوٹی کہانی کے مرکزی کرداروں کو سزا دی جائے گی اور جھوٹی کہانی گھڑنے کی وجوہات کو عوام کے سامنے لایا جائے گا؟
گزشتہ دنوں پاکستانی میڈیا میں خبریں گردش کررہی تھیں کہ بھارتی وزیراعظم اپنے ملک میں تخریب کاری کے کسی بڑے واقعے کے بعد پاکستان پرمسلح چڑھائی کی نیت رکھتے ہیں۔ ایسی بدگمانی پر بنیاد رکھنے والی سیکیورٹی صورتحال، جس میں ہر منفی خبر کو مستند تصور کیا جارہا ہے اور اس کی تشہیر کی جارہی ہے، اگر کسی جھوٹی خبر کے بعد برصغیر کے دو جوہری طاقت رکھنے والے ممالک کے درمیان جنگ چھڑ گئی تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟
اس سوال پر دونوں ممالک کے سنجیدہ حلقوں کو سوچنا چاہیے۔ دونوں ممالک کے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں اور ارباب اختیار کو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ خطہ ڈیڑھ ارب کے لگ بھگ انسانوں کا مسکن ہے اور اسی لئے ہمیں آگ سے کھیلنے سے گریز کرکے امن و آشتی اور بھائی چارگی پرمبنی فضا پیدا کرنے میں اپنی توانائیاں خرچ کرنی چاہیے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
کچھ ایسا ہی 31 دسمبر کی رات کو ہوا، جب بارود سے بھری کشتی میں سوار افراد کا خود کو اڑانے کی خبر نے ہندوستانی میڈیا میں بھونچال برپا کردیا۔ عسکری ذرائع کے حوالے سے میڈیا نے کہا کہ تباہ ہونے والی کشتی پاکستان سے آئی تھی۔ اس میں سوار افراد دہشت گرد تھے اور بھارتی کوسٹ گارڈ کے حکام نے انہیں اپنے سمندری حدود میں داخل ہونے سے روکا تھا لیکن جب وہ نہیں رُکے تو اُن کا پیچھا کیا گیا اور پھر کشتی میں سوار افراد نے خود کو کشتی سمیت اڑادیا۔ میڈیا نے یہ بھی کہا تھا کہ کشتی میں سوار افراد بھارت میں تخریب کاری کی نیت سے داخل ہورہے تھے۔
خبر بہت سنسنی خیز تھی۔ پاکستانی میڈیا میں بھی اس کی تشہیر ہوئی۔ عالمی میڈیا نے بھی خبرکو بہت توجہ دی۔ ہر طرف سے پاکستان پر انگلیاں اٹھنے لگیں۔ لعن طعن کا وہ سلسلہ شروع ہوا کہ الامان الحفیظ ۔ جیسے کہ عموماً ہوتا ہے، پاکستانی حکام نے خبر کی تردید کی اور اسے گمراہ کن پروپیگنڈا قرار دیا ۔
بھارتی میڈیا میں پکنے والی کہانی کا پلاٹ شروع سے ہی مبہم تھا۔ مثلاً اگر کشتی بارود سے بھری ہوئی تھی اور اسے آگ لگا کر تباہ کردیا گیا تھا تو پھر کشتی مکمل طور پر کیوں تباہ نہیں ہوئی تھی؟ یا پھر، جدید سازو سامان اور اسلحے سے لیس بھارتی کوسٹ گارڈز بھلا کیوں اس سست رفتار کشتی کو قبضے میں لینے کے بجائے اس کا پیچھا کرتی رہی؟ کیا اس سنگل انجن کشتی کی رفتار بھارتی ہیلی کاپٹرز، لانچوں اور بحری جہازوں سے زیادہ تھی؟ غرض، کہانی کے پلاٹ پر ہزاروں سوال اُٹھائے گئے۔ شکوک و شبہات کا اظہار کیا گیا۔ اُدھر بھارتی حکومت نے ان سوالات کو سازشی نظریات کہہ کر ''دہشت گرد کشتی'' کی رٹ لگائے رکھی اور انگلیوں کا رخ پاکستان کی طرف رکھا۔
اور اب واقعے کے پچاس دن بعد بھارتی اخبار انڈین ایکسپریس نے خود اس کہانی کے مرکزی کردار کو بے نقاب کر کے بے باک اور معروضی صحافت کا بخوبی حق ادا کردیا۔
ہوا کچھ یوں کہ بھارتی کوسٹ گارڈز کے ایک سینئر افسر ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) بی کے لوشالی نے گزشتہ رات ایک تقریب میں بھڑکیں مارتے ہوے تسلیم کرلیا کہ 31 دسمبر کی رات کو مبینہ طور پر پاکستان سے آنے والی کشتی میں سوار افراد نے خود کو نہیں اُڑایا تھا، جیسے کہ اس وقت کوسٹ گارڈ حکام اور میڈیا نے دعوی کیا تھا بلکہ لوشالی نے رعونت کے ساتھ کہا کہ ان کے حکم پر بھارتی کوسٹ گارڈز نے کشتی کو تباہ کردیا تھا۔ انڈین ایکسپریس نے یہ خبر نشر کردی تو لوشالی صاحب مچل گئے اورایک تحریری بیان میں اس کی تردید کی، لاتعلقی کا اظہار کیا اور زور دے کر کہا کہ انہوں نے ایسا کوئی بیان دیا ہے، نہ ہی کوئی ایسی بات کی ہے۔
''میں خود وہاں موجود تھا اورمیں نے حکم دیا کہ اُڑا دو ا'س کشتی کو۔ میں نے انہیں بتا دیا کہ ہم انہیں بریانی نہیں کھلانے والے''
ویڈیو منظرعام پر آنے کے بعد تردیدی بیان کی اہمیت ختم ہوگئی ہے اور میڈیا کے زور پر پھیلائے گئے کم از کم اس جھوٹ سے میڈیا ہی نے پردہ اُٹھا دیا ہے۔ لیکن بہت سارے سوال اب بھی جواب طلب ہیں۔ مثلاً کشتی میں سوار افراد کون تھے؟ وہ کس نیت سے بھارت جارہے تھے؟ اِن سوالات کا جواب بھی جلد یا بدیر مل ہی جائے گا۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر جھوٹ بولنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ کونسی حقیقت تھی جس کو چھپانا مقصود تھا؟ کیا اس کی تحقیق ہوگی اور کیا اس جھوٹی کہانی کے مرکزی کرداروں کو سزا دی جائے گی اور جھوٹی کہانی گھڑنے کی وجوہات کو عوام کے سامنے لایا جائے گا؟
گزشتہ دنوں پاکستانی میڈیا میں خبریں گردش کررہی تھیں کہ بھارتی وزیراعظم اپنے ملک میں تخریب کاری کے کسی بڑے واقعے کے بعد پاکستان پرمسلح چڑھائی کی نیت رکھتے ہیں۔ ایسی بدگمانی پر بنیاد رکھنے والی سیکیورٹی صورتحال، جس میں ہر منفی خبر کو مستند تصور کیا جارہا ہے اور اس کی تشہیر کی جارہی ہے، اگر کسی جھوٹی خبر کے بعد برصغیر کے دو جوہری طاقت رکھنے والے ممالک کے درمیان جنگ چھڑ گئی تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟
اس سوال پر دونوں ممالک کے سنجیدہ حلقوں کو سوچنا چاہیے۔ دونوں ممالک کے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں اور ارباب اختیار کو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ خطہ ڈیڑھ ارب کے لگ بھگ انسانوں کا مسکن ہے اور اسی لئے ہمیں آگ سے کھیلنے سے گریز کرکے امن و آشتی اور بھائی چارگی پرمبنی فضا پیدا کرنے میں اپنی توانائیاں خرچ کرنی چاہیے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔